The dream of the welfare state!

فلاحی ریاست کاخواب!

:Share

ایک بزرگ نے نصیحت کی،تمہارے سامنے کوئی ہاتھ پھیلائے تویہ ہاتھ خالی نہ جانے دو۔حضوراکرمﷺنے تویہ بھی فرمایاکہ پاس کچھ نہ ہوتو مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے اورپھربات ان مانگنے والوں کی شروع ہوئی جوپیشہ ورگداگرہیں یاصحت مند اورتندرست وتواناہیں مگرگلیوں بازاروں میں مانگتے پھرتے ہیں۔پیشہ ورگداگروں کے بارے میں کون نہیں جانتاکہ کچھ لوگ ان کاکاروباربھی کرتے ہیں اورکچھ مانگنے والے جعلی معذوربن جاتے ہیں لیکن اس کے باوجودان بزرگ نے یہی کہاکہ کوئی کیابھی ہو،اس کاصرف پھیلاہواہاتھ دیکھواوراسے خالی واپس نہ جانے دو۔ ایسی بحث مت کروکہ ہٹے کٹے ہو،نوکری مزدوری کیوں نہیں کرتے۔تم نہیں جانتے کہ اس صحت مندی کے باوجوداس کی کیامجبوری ہے۔اس کواللہ تعالی پرچھوڑدو اورتم اپنافرض اداکردو۔

میں نے جب اس بات پرغورکیاتومیرے دل نے ان بزرگ کی بھرپورتائیدمیں یہ گواہی دی کہ کیاواقعی ہم اپنے سینے پرہاتھ رکھ کریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں جوخدانے دے رکھاہے ہم اس کے حق دارہیں؟ہماری حالت تویہ ہے کہ دن رات خداکے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، زبانی کلامی ایمان لاتے ہیں مگرعمل اس کے مطابق نہیں کرتے۔ہماری حالت تو اس ملازم جیسی ہے جومالک کے ہرحکم پرحاضرجناب توکہے مگراس کے حکم کوبجانہ لائے!زبان سے خداکورازق تسلیم کرتے ہیں مگردرحقیقت اپنی کوششوں کواپنارازق سمجھتے ہیں،نوکری کو، کاروبارکویاکسی دوسرے قسم کے معاشی حربے کو۔ربِّ کریم نے جوصفات اپنی ذاتِ برترکیلئے مخصوص کررکھی ہیں،وہ ہم اپنے رویّے میں پیداکرکے اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں جو ناقابلِ معافی ہے۔

افسوس کہ اللہ کے مجبوربندوں سے بحث کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کوبھول جاتے ہیں کہ ہماراکریم رب ہماری کتنی ہی کوتاہیوں سے درگزرکرکے ہمیں روزی دیتاہے اوراس دنیاکے عیش کراتاہے۔کیاہم اللہ کے ان بندوں میں شامل ہیں جوایک وقت کی روٹی جتنی بھی اطاعت کرتے ہیں؟کیا ہم کسی عمل کے معاوضے میں اپناکچھ حق جتاسکتے ہیں؟کیاہم اپنے رب کی اتنی مزدوری کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جوکچھ موجودہے اس کوجائز قراردے سکیں؟سچی بات تویہ ہے کہ صبح جب ناشتہ کرنے لگتاہوں توکبھی یہ سوچتاہوں کہ مجھے یہ کیوں مل رہاہے؟میری ضرورت کے مطابق سب کچھ موجود ہے مگرکس عمل اورکس محنت کے عوض میں؟مجھے اپنے لیل ونہارمیں کوئی ایساعمل دکھا ئی نہیں دیتاکہ میں ایک لقمے کاحقداربھی کہلاسکوں۔ہم توایک بے دین اورعملاًاللہ کے منکروں کی زندگی بسرکررہے ہیں۔

میراایک دوست کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں کپڑے کے دوکانداروں کےگزچھوٹے ہیں،ناپ تول کے دوسرے پیمانے بھی معیار کے مطابق نہیں۔ شائدہی کوئی ایسا پٹرول پمپ ہوجس کے میٹردرست ہوں اورتیل خالص ہو۔عام خیال تھاکہ موٹروے کے پٹرول پمپ درست ہوتے ہیں،میں اکثردوران سفرپاکستان انہی پٹرول پمپوں سے تیل لیتاتھالیکن ایک دن یہ خبر چھپی کہ یہاں کے کئی پٹرول پمپوں کی جانچ پڑتال کی گئی توان میں سے آدھے سے زیادہ غلط نکلے۔ایک مستند حدیث ہے جوقوم ناپ تول میں بد دیانتی کرتی ہے اس کارزق روک لیا جاتا ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ ایک قوم پرعذاب اسی لئے نازل ہوا،اوروہ ناپ تول میں بدعنوانی کی سزامیں تباہ وبربادکردی گئی مگرعبرت کون پکڑے؟ہمارے ہاں جن کواس ملک کے خزانے کاامین ہونا چاہئے تھاوہ کروڑوں اربوں ملک وقوم کالوٹ کراپنے بیرونی بینک اکاؤنٹس میں محفوظ کرلیتے ہیں اورایک این آراوکےطفیل پھرسے اس ملک کے خزانے پر خوب ہاتھ صاف کئے بلکہ ہرآنے والی حکومت سابقہ حکمرانوں کےملکی خزانے لوٹنے کے تاریخی ریکارڈجب قوم کے سامنے رکھتی ہے توسانس بندہوناشروع ہوجاتاہے۔

میں جب کبھی ملک کی موجودہ صورتحال پرنظردوڑاتاہوں جہاں حاجیوں کی تعدادکے لحاظ سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبر پراورعمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبرپرہے جبکہ دنیابھرمیں ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا 160نمبر ہے،ورلڈجسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کوقانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر139ممالک میں سے130 ویں نمبرپررکھاگیاہے۔1500یونٹ کو500یونٹ لکهنے والارشوت خور میٹر ریڈر،خالص گوشت کے پیسے وصول کرکہ ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والا قصائی دھڑلے سے کام کررہے ہیں۔

خالص دودھ کانعرہ لگاکرملاوٹ کرنے والادودھ فروش،بے گناہ کی ایف آئی آرمیں دومزید ہیروئین کی پڑیاں لکھنے والا انصاف پسندایس ایچ او، گھربیٹھ کر حاضری لگواکرحکومت سےتنخواہ لینے والامستقبل کی نسل کامعمار استاد،کم ناپ تول کرپورے دام لینے والادوکاندار،100 روپے کی رشوت لینے والاعام معمولی ساسپاہی،معمولی سی رقم کیلئےسچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنےوالا وکیل، سوروپے کے سودے میں دس روپے غائب کردینے والابچہ،آفیسرکیلئے رشوت میں سے اپناحصہ لے جانے والامعمولی سا چپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کرکےملک کا نام بدنام کرنےوالا کھلاڑی بھی ہمارے ہاں ملے گا۔

ساری رات فلمیں دیکھ کرسوشل میڈیاپرواہیات اورجھوٹ پرمبنی پروپیگنڈے کوآگے بڑھانے والااورفجرکوالله اکبرسنتے ہی سونے والانوجوان، کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والاایم پی اے اورایم این اے،لاکھوں غبن کرکے دس ہزار کے ہینڈ پمپ لگانے والا جابرٹھیکدار،ہزاروں کاغبن کرکے چندسومیں ایک نالی پکی کرنے والاضمیرفروش کونسلر، غلہ اگانے کیلئےبھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودھری،زمین کے حساب کتاب وپیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنے بیٹے کوحرام مال کامالک بنانے والا پٹواری اورریوینیوآفیسرسینہ پھلائے اپنے دھندے میں مصروف ہیں۔

ادویات اورلیبارٹری ٹیسٹ پرکمیشن کے طورپرعمرہ کرنے والے ڈاکٹر،اپنے قلم کوبیچ کرپیسہ کمانے والا صحافی،منبررسول پربیٹھ کردین کے نام پرچندے اورنذرانے والےمولوی اورپیرصاحبان ۔۔۔۔۔جب ہرکوئی کشتی میں اپنے حصے کاسوراخ کررہاہوتوپھریہ نہیں کہناچاہئے کہ”فلاں کاسواراخ میرے سے بڑاتھا،اس لئے کشتی دوب گئی!”سبھی قصوروارہیں اورہر کوئی سوشل میڈیاکو بغیرتحقیق کےبے تحاشہ استعمال کرکے خود کوبری الذمہ سمجھتا ہےاس دورمیں اگرہم پرنئے اورپرانے پاکستان کی گردان کرنے والے سیاستدان مسلط ہیں،ہمارے اعمال کی سزانہیں تواور کیاہے؟سوال یہ ہے کہ اب ان حالات میں ملک کی بہتری کیلئے کیاکرناچاہئے؟بالآخروہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہماراملک ایسے بے شمار ماہرین سے محروم ہوتاجارہاہے جو ایمانداری سے ملک کی خدمت کاجذبہ دل میں رکھتے ہیں۔

سودی نظام کوفی الفورختم کئے بغیرہم کبھی بھی فلاحی ریاست بنانے کے خواب کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ہمارے ملکی آئین میں اسلام کے بارے میں شقیں موجودہیں مگرہمارے حکمران آج تک سیکولررہے ہیں اورسیکولرازم میں ملک کی نجات سمجھتے ہیں۔دنیا کے سیکولرلیڈرہمارے آئیڈیل ہیں اورسودجوخدااوررسولﷺکے خلاف جنگ ہے،اسے ہم نے جائزقراردے رکھاہے اوراس پراصرارکرتے ہیں۔یعنی ہم اپنے آپ کواللہ اور اس کے رسول سے زیادہ طاقتورسمجھتے ہیں(العیاذ باللہ)۔انہوں نے اس کی بھرپورتائیدکرتے ہوئے فرمایاکہ واقعی اس کے علاوہ اورکوئی علاج ممکن نہیں۔ حدتویہ ہے کہ بظاہرہمارے جوسیاسی لیڈراسلام کانام دن رات لیتے ہوئے نہیں تھکتے،ان کے اپنے سارے دھندے بینکوں کے ساتھ سودی کاروبارمیں ملوث ہیں اورقومی ٹیکس بچانے کیلئے اوراپنی سخاوت کے اظہارکیلئے انہی کاروبارسے کچھ خیراتی ادارے بھی رواں دواں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ شائداس طرح جہاں خلقِ خداکے دل جیتے جاسکتے ہیں اسی طرح خالق کوبھی راضی کرکے اس کی جنت کے حق دارٹھہریں گے۔

بات گداگرکی ہورہی تھی اورآپ کومعلوم نہیں کہ کوئی کیوں گداگرہے؟ایک عورت کیوں طوائف ہے؟ہم عورت کوطوائف بناتے ہیں،لطف اندوزہوتے ہیں اورپھراسے گرفتارکرلیتے ہیں کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے اوراس کی سزا سنگساری ہے۔میں جب بھی پاکستان جاتاہوں تومختلف ٹریفک لائٹس پرجولڑکااخباربیچ رہاہے،اس کی محنت سے خوش ہوکر اخبارلے لیتا ہوں۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے ہاتھ کوخالی نہ جانے دیں۔کیایہی کچھ کم ہے کہ وہ ہاتھ آپ کانہیں،کسی دوسرے کاہے اورآپ دینے والے ہیں لینے والے نہیں!

نیااسلامی سال شروع ہوگیاہے،آیئے اپنے رب کے حضور سجدہ ریزہوکرملک سے سودی نظام کے خاتمے کی نہ صرف دعامانگیں بلکہ اس قبیح فعل پر گڑگڑاکرتوبہ واستغفاربھی کریں نجانے کون سے پل کسی ایک کی دعاپاکستان کی تقدیربدل کررکھ دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں