عمران خان نے پچھلے دنوں انکشاف کیاتھاکہ کچھ ممالک ہم پردباؤڈال رہے تھے کہ ہم بھی خلیجی ممالک کے نقش قدم پرچلتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کریں تاہم عمران خان نے فلسطینیوں کے مطالبات کے مطابق اس مسئلے کے سیاسی تصفیے تک اسرائیل کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کامعمول پرآنافی الحال تو ممکن نہیں لیکن شنیدہے کہ چین ان دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کرداراداکرسکتاہے۔ یادرہے کہ ان دونوں کے درمیان کبھی بھی سفارتی تعلقات نہیں رہے۔
دونوں ممالک کے مابین روابط کی تاریخ پرنظرڈالی جائے تومحسوس یہ ہوتاہے کہ پاکستان اوراسرائیل باآسانی تعلقات معمول پرلا سکتے تھے۔عرب ممالک سے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی پاکستان اوراسرائیل کی سیاسی دشمنی رہی ہے تاہم90ءکی دہائی اور2000ءکی دہائی میں دونوں ممالک براہ راست سیاسی رابطوں میں رہے،کیوںکہ ان دوادوارمیں اوسلو معاہدہ اورفلسطینی اتھارٹی کے قیام نے اسرائیل کی بدنامی میں کمی کی۔ غیرسرکاری طورپراعلیٰ سطح تک روابط قائم کیے گئے۔ مثال کے طورپر2005ءمیں اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون اور پاکستانی صدرپرویزمشرف نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پرآپس میں ہاتھ ملائے۔مزیدیہ کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی رپورٹس بھی منظرعام پرآتی رہی ہیں۔
تناؤکی بنیادی وجہ جغرافیائی وسیاسی نہیں بلکہ نظریاتی وثقافتی ہے۔پاکستان اوراسرائیل کے درمیان کبھی لڑائی نہیں ہوئی،دونوں کےدرمیان کوئی جغرافیائی تنازع بھی نہیں اوردونوں ہی شدت پسندی کے خلا ف لڑنے میں سنجیدہ ہیں۔عمران خان کے بیان کے باوجودپاکستان اسرائیلی ریاست کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات استوارکرنے میں سنجیدہ دکھائی دیتاہے لیکن دوطرفہ تعلقات کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ تعلقات مکمل طورپر معمول پرآجائیں گے۔ پاکستان اوراسرائیل کی حرکیات پرنظرڈالی جائے توان کے درمیان جوتناؤاوردوریاں ہیں وہ مستقبل قریب یامستقبل بعیدمیں کھلے عام سفارتی تعلقات کوقائم ہونے سے روکے ہوئے ہیں۔
تعلقات کومعمول پرلانے میں کافی رکاوٹیں ہیں۔ایک وجہ توپاکستان میں موجودبڑی تعدادعلمائے کرام کی ہے اورپھروہ قوتیں جن کاملک میں کافی اثرو رسوخ ہے وہ مذہبی علماکی حمایت کھونانہیں چاہتے۔یہ علما یہودی ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں اسرائیل مخالف جذبات میں نمایاں اضافہ ہواہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت اسرائیل سے اپنے سیاسی تعلقات کوعام کرنے کی ہمت نہیں کرپاتی ہے۔
لیکن اس کے باوجودکچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتربنانے میں پاکستان کے کچھ مفا دات بھی ہیں۔ حالیہ برسوں میں بھارت اور اسرائیل کے مابین غیرمعمولی تعاون دیکھنے میں آیاہے،جس کی بنیادپراسرائیل نے سیکورٹی کے معاملات پربھارت کی غیر معمولی مددکی ہے۔ بھارت کی ایسی کسی بھی مددکوپاکستا ن درحقیقت اپنے خلاف مہم کے طورپر سمجھتاہے۔ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق اپنی سرزمین کی حفاظت کے معاملے پرپاکستان ردعمل ظاہر کرنے میں بالکل بھی ہچکچاہٹ کامظاہرہ نہیں کرے گا۔ تاہم اسرائیلی آقاکی طرف سے یہ تاثربھی دیاگیاہے کہ اگرپاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوبہترکرنے کی طرف کوئی قدم اٹھاتا ہے توقدرتی طورپراسرائیل پاکستان کے خلاف بھارت کی مددمیں ہچکچاہٹ کامظاہرہ کرے گااوراسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کاایک اور فائدہ یہ بھی ہوگاکہ پاکستان کے امریکا سے تعلقات میں بھی بہتری آجائے گی کیوںکہ بائیڈن انتظامیہ میں اہم عہدوں پرایسے لوگوں تعینات ہوئے ہیں جواسرائیل کیلئےہمدردی کاجذبہ رکھتے ہیں،جیساکہ انتھونی بلنکس جن کوسیکرٹری اسٹیٹ نامزد کیاگیاہے۔اگرپاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری لاتاہے تواس کا مطلب یہ ہوگاکہ آپ امریکا کے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات قائم کررہے ہیں۔ابھی تک امریکی خفیہ اداروں کے افسران پاکستان کے بارے میں شکوک شبہات کاشکارہیں،جن میں سے بیشترپاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہیں۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ پاکستان کاایٹمی پروگرام بھی ہے۔
اپنے حریف بھارت کی طرح پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت کاحامل ملک ہے۔پاکستان پہلامسلمان ملک ہے جس کے پاس نہ صرف ایٹم بم بلکہ وہ دنیاکی بہترین ایٹمی میزائل کی صلاحیتوں کامالک ہے۔پاکستان اپنے آپ کواسرائیل کے دشمن ممالک کی صف میں کھڑا پاتاہے،اس تاثرکوتقویت بھارت اوراسرائیل کے مابین اچھے تعلقات سے ملتی ہے۔اسلام آبادمیں کچھ لوگ ان شبہات کااظہار کرتے ہیں کہ اسرائیل آزادانہ طورپریابھارت کے ساتھ مل کرپاکستان کے ایٹمی پلانٹ پرحملہ کرسکتاہے۔اگراسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرآتے ہیں توایسے خدشات کے کم ہونے میں مددملے گی۔مودی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کی وجہ سے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہاہے۔اورجتناپاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوتاہے اتناہی اسرائیل اوربھارت کے مابین تعاون میں اضافہ ہوتاہے۔اس کے علاوہ پاکستانی نیوکلیئرپروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کررہاہے۔ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ پاکستان ایسے ہتھیاربھی بنارہاہے جوبھارتی سرزمین سے پرے بھی اپنے اہداف کونشانہ بناسکتے ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال،بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی کاروائیاں اس بات کی ضرورت پرزوردے رہی ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان رابطے کاذریعہ قائم کیاجائے۔جس کابنیادی مقصدآپس کی غلط فہمیوں کودورکرناہوتاکہ تعلقات میں موجود سرد مہری کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل خلیجی ریاستوں، خاص طور پر سعودی عرب کو رابطے کے ذریعے کے طورپراستعمال کرنے کاارادہ رکھتاتھاتاہم اسلام آباداورریاض کے تعلقات چندوجوہات کی بناپرغیر معمولی حد تک کشیدہ ہو گئے ہیں۔ان میں سے نمایاں وجوہات سعودی عرب کی طرف سے کشمیر کے معاملے پرکھل کرحمایت نہ کرنااورپاکستان کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات بھی ہیں۔ان وجوہات نے یہ شکوک پیداکر دئیے کہ آیاسعودی عرب اوراس کے دیگر خلیجی اتحادی اسرائیل اورپاکستان کے درمیان ثالث کاکرداراداکرسکیں گے۔واشنگٹن اوراسلام آبادکے مابین موجودعدم اعتمادکی فضااورخاص طورپرٹرمپ کے دورِ صدارت میں انڈیاکے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھ جانے کی وجہ سے ہی پاکستان سےجو دوریاں بڑھی ہیں،ایسے میں واشنگٹن بھی ثالثی کاکوئی کردارادا کرنے سے قاصرنظرآتاہے حالانکہ دوحہ میں ہونے والے امریکاافغان امن معاہدے میں پاکستان کاکلیدی کردارکی سب ہی تعریف کرتے نظرآرہے ہیں۔
عالمی تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ چین ثالث کاکرداربہترین طریقے سے اداکر سکتاہے۔چین ایک ایساملک ہے،جوپاکستان اور اسرائیل دونوں سے قریبی تعلقات رکھتاہے۔معاشی نمومیں استحکام کے حصول کے واضح مقاصدکیلئے چین دونوں ممالک کے درمیان ویساہی بہترین ثالث کاکردار ادا کرسکتاہے جس طرح پاکستان نے چین اورامریکاکے درمیان آہنی دیوارگرانے کاکردار ادا کیا تھا۔چین یہ طاقت رکھتاہے کہ وہ فریقین کے درمیان غیر ضروری تناؤمیں اضافے کوروکے رکھے تاکہ نہ صرف ایشیابلکہ دیگر خطوں کے استحکا م کو بھی نقصان پہنچنے سے بچایاجاسکے۔چین کا’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘پروگرام،جس کامقصد پورے یوریشیامیں نقل وحرکت کی آسانی ہے،کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اورپاکستان کوچین کی عالمی حکمت عملی میں مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔مشرق وسطیٰ تاریخی طورپرعالمی تجارت کی مرکزی گزرگاہ تھی۔بی آرآئی اس روایتی سلک روڈ کو دوبارہ بحال کرنے کامنصوبہ ہے۔اگربی آرآئی کے تناظرمیں دیکھاجائے توخطے میں چینی مفادات صرف تیل کی بحفاظت ترسیل محدودنہیں بلکہ چین اس خطے میں استحکام کے ذریعے اپنے منصوبے مکمل کرناچاہتاہے۔
اسرائیل اورپاکستان کے بی آرآئی منصوبے کے اہم جزہیں۔اس منصوبے سے چینی کمپنیوں کواسرائیلی معیشت میں نمایاں جگہ مل سکتی ہے،اس کے ساتھ اسرائیل میں چینی اشیاکی کھپت میں بھی اضافہ ہوگا۔چین لازمی طورپریہ چاہے گاکہ اسرائیل میں اس کی سرمایہ کاری محفوظ رہے اوروہ اسرائیل امریکا تعلقات میں رخنہ ڈال سکے۔ان مفادات کوسامنے رکھاجائے توچین ہرصورت میں یہ چاہے گاکہ اسرائیل کوخطرناک پڑوسیوں سے محفوظ رکھاجائے ۔ اگرپاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلے آتاہے تو تہران کواس بات کااشارہ ملے گا کہ آئندہ تل ابیب کے ساتھ کشیدگی میں اسے کوئی حمایت حاصل نہیں ہوگی جیساکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے تواس طرح کااشارہ ملنے سے تہران اسرائیل کے ساتھ لڑائی سے گریز کرے گا،جس کا فائدہ بالآخرچین کوہوگا۔
پاکستان کے چین کے ساتھ طویل اورنتیجہ خیزتعلقات ہیں،اورپاکستان کی تزویراتی اہمیت اسے بی آرآئی کااہم جزبناتی ہے۔پاکستان کاداخلی عدم استحکام اورامریکاپرانحصارکم کرنے کی خواہش پاکستان کو معاشی اورسیاسی طورپرچین کی طرف جھکنے پر مجبورکرتی ہے۔بھارت کوشمال مغربی سرحدپراپنے ساتھ مصروف رکھ کربھی پاکستان چین کے مفادات کوپوراکرتاہے۔پاکستان اوراسرائیل کے تعلقات کوفروغ دینے میں اہم کردارادا کرنے سے چین کی بین الاقوامی ثالث کی حیثیت سے ساکھ بنے گی۔امریکی پشت پناہی سے اسرائیل کے بحرین،متحدہ عرب امارات اورسوڈان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے معاہدوں کے بعدچین لازمی طورپریہ چاہے گاکہ وہ مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں اپناکرداراداکرے۔
خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کی جولہرچلی ہے اس کے باوجودایسالگتاہے کہ پاکستان اس لہرسے متاثرہو کراسرائیل کوتسلیم نہیں کرے گابلکہ چین اس کام کیلئےزیادہ بہترکرداراداکرسکتاہےاوراگروہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تونہ صرف ایشیا میں اس کے امن کے علم بردارہونے کا تاثربہترہوگابلکہ اس کوبہت سے جغرافیائی،سیاسی اور معاشی مقاصدکے حصول میں بھی کامیابی ملے گی۔
اسرائیل کے بارے میں عام لوگوں کے جذبات ہیں جوکئی دہائیوں سے اسے ایک”غاصب”قوت سمجھتے ہیں۔اسرائیل نے ماضی میں فلسطینیوں اور اس کے عرب پڑوسیوں کے ساتھ دستخط کیے ہوئے تمام معاہدوں کوتوڑاہے،اس لیے یہ توقع کرنابیوقوفی ہوگی کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔اسرائیل نے تاریخی طورپرکبھی بین الاقوامی قوانین یابین الاقوامی معاہدوں کااحترام نہیں کیا۔اسرائیل فلسطین کیلئے دویاایک ریاستی حل میں سے کسی کیلئے بھی سنجیدہ نہیں ہے۔اگرایسا ہوتاتواسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کوتسلیم کرتا اورامریکا،اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے مابین ہونے والے میثاق ابراہیم کے بعدمقبوضہ علاقوں سے دستبردارہوجاتامگرایسانہیں ہوا۔
اسرائیل ناصرف فلسطینیوں کی کسی ریاست کے حق کوسرے سے تسلیم ہی نہیں کرناچاہتابلکہ وہ فلسطینیوں کوفلسطینیوں اور اسرائیلی شہریوں پرمشتمل ایک مشترکہ ریاست کاشہری بننے کاحق دینے کوبھی تیارنہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام میں فلسطینی اسرائیل میں اکثریتی ووٹ بینک ہوں گے جس سے اسرائیل کی نسلی شناخت متاثرہوگی۔اسرائیل کے نسل پرستانہ قومیتی قوانین کی بدولت اسرائیلی ہونے کیلئے یہودی ہونا لازمی ہے۔یہ امرایک مشترکہ ریاستی حل کے امکانات کوبھی ختم کردیتاہے اوراسرائیل کودوریاستی حل کی اجازت بھی نہیں دیتالہذاصرف ایک ہی راستہ بچ جاتاہے کہ تمام فلسطینیوں کوان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کرکے عرب ریاستوں میں پناہ گزین بناکربھیج دیاجائے۔
ان حالات میں پاکستان کیلئےاس وقت اسرائیل کوتسلیم کرنانیتن یاہوکی صیہونی اوردائیں بازوکی حکومت کے سامنے ہتھیارڈال دینے کے مترادف ہے۔ یہ غزہ،مغربی کنارے اورشام میں نیتن یاہوکی قیادت میں صیہونی قوم پرستوں کے ہاتھوں مسلمان عربوں پر تشدداوربے گناہ قتل کونہ صرف جواز مہیا کرے گابلکہ ان کی حوصلہ بھی افزائی کرے گا۔اس لئے یہ معاملہ پاکستان کیلئے اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ اس پرعوامی ریفرنڈم تک کی ضرورت پیش آسکتی ہے اورکوئی بھی حکومت دودھاری تلوارپرچلنے کا خطرہ مول لینے کوتیارنہیں ہوگی کہ شکست کی صورت میں عوامی نفرت کاشکار بن کرہمیشہ کیلئے سیاست سے اس کابوریابستر لپیٹ دیاجائے۔