Distorted History Must Be Corrected

مسخ تاریخ کی اصلاح ضروری

:Share

پورے برّاعظم کی سطح پرقتلِ عام کی بنیادڈالنے والاپہلااطالوی امریکی کرسٹوفرکولمبس پرجوکچھ لکھاجاچکاہے،اس میں ایک اہم نکتہ غائب ہے۔بحرِاوقیانوس پار کرنے کی اُس کی مہمّات کی پشت پربنیادی عامل اسلام سے خوف یانفرت بھی تھی۔اس تصورسے صدیوں تک سفید فام یورپی باشندوں کی’’نئی دنیا‘‘اوراس کے آبائی یااصل باشندوں سے معاملات وتعلقات کی طرزبھی متعین ہوئی اورآج امریکی کس طور دنیاکودیکھتے اورسمجھتے ہیں۔کرسٹوفرکولمبس کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے پائی جانے والی نفرت اور خوف کواکتوبرکے دوسرے پیر(یومِ کولمبس، یومِ باشندگانِ اصل یایومِ ثقافتِ اطالیہ)سے متعلق ہماری طرزِ فکرپر بھی اثراندازہونا ہی چاہیے۔

کرسٹوفرکولمبس1451ءمیں پیداہواجب یورپ میں اسلام مخالف ذہنیت عروج پرتھی۔وہ صلیبی جنگوں کی داستانیں سُنتاہواپلابڑھااور ساتھ ہی ساتھ اُس نے بچپن میں1453ءمیں سلطنتِ عثمانیہ کے ہاتھوں قسطنطنیہ پرقبضے کے نتیجے میں اپنے آبائی قصبے جینواکے بارے میں بہت کچھ سُنا۔عنفوانِ شباب میں کولمبس نے ایک ملاح کے زیرتربیت بحیرۂ روم کارخ کیا۔ابتدائی چندبحری اسفارکے دوران کولمبس کوبحیرۂ ایجین اورشمالی افریقاکی مسلم ریاستوں میں عثمانیوں کی طاقت کے مشاہدے کاموقع ملا۔بعدمیں اُس نے مغربی افریقا کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفرکیاجہاں خطے کی طاقتورمسلم بادشاہتوں نے اُسے یوں متاثرکیا کہ ہرطرف غالب اسلام نے عیسائی دنیاکو اپنے حصارمیں لے رکھا تھا۔یورپ واپسی پرکولمبس نے بحرِاوقیانوس کے پارجانے کے سفرپرروانہ ہونے سے چھ ماہ قبل جزیرہ نما آئبیریا کے جنوب میں مسلمانوں کے خلاف اسپین کی لڑائی میں بھی حصہ لیا۔

حقیقت یہ ہے کہ کولمبس مزاجاًوقلباًصلیبی جنگجوتھا۔اُس نے زندگی بھرمسلمانوں سے معاملت اورپھران کے خلاف لڑائیوں میں اپنی روح کی گہرائی میں مقدس جنگ کابوجھ محسوس کیا۔کولمبس نے مسلم دنیاکاچکرکاٹنے سے بچنے کیلئےجب مشرقِ بعیدکابحری تجارتی راستہ تلاش کرنے کاعمومی مشن شروع کرنے کیلئے مغرب کی سمت تُندخوسمندروں کے سفرکی ابتداکی،تب اُس کاذہن نہ تو محض کسی دریافت کے خالص دنیوی تصورسے سے مزیّن تھااورنہ ہی وہ تاجرانہ بصیرت سے کام لے رہاتھا۔کسی بھی دوسری بات سے کہیں بڑھ کروہ بھرپورعیسائیت نوازرویے اورجذبے کے ساتھ امریکاکی طرف چلاتھا۔

کولمبس کی زندگی میں اسلام کی مرکزیت اس کے بحرِاوقیانوس کے اسفارکے عجیب وغریب اوراب تک سب سے کم معلوم ہونے والے پہلوکی توضیح کرتاہے ۔ جب کولمبس کیریبین کے جزائرپہنچاتووہاں ہرطرف اسلام کوپایا۔مثلاًاس نے مقامی ٹائنوزباشندوں کے ہتھیاروں کوالفنجزکانام دیاجوہسپانوی زبان کالفظ ہے تاہم عربی سے ماخوذہے۔یہ لفظ عربی میں چھوٹی،خمدارتلوارکیلئےاستعمال ہوتا ہے جس پرقرآن کی آیات کندہ ہوتی تھیں۔کولمبس نے خودبتایاکہ ٹائنوزکے پاس لوہانہ تھا اوروہ قرآن کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتے تھے مگروہ پھربھی اُنہیں مسلم سپاہیوں جیساقراردیتاہے جنہوں نے الفنجزتھامی ہوئی ہوتی تھیں اوریوں اُس نے ٹائنوزکواپنے ذہن میں مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے تصّورات سے مطابقت رکھنے والے درجے میں رکھااوراسی حیثیت میں اپنے ممکنہ قارئین کیلئےپیش کیا۔

بعدمیں جب کولمبس نے مقامی خواتین کے ایک گروپ کواسکارف لگائے ہوئے دیکھاتو یہ خیال کیاکہ وہ شاید تجارت یاپھرکسی اور نوعیت کے یوریشیائی رابطے کے ذریعے اُن سے تعلق رکھتی تھیں جواُس کی معلومات کے مطابق مورزکہلاتے تھے۔اسلام اور امریکاکے آبائی باشندوں کے درمیان اس نوعیت کی مماثلتیں جاری رہیں۔کولمبس کے دوعشروں کے بعدہرنن کورٹیزنے بھی لکھاکہ میکسیکوکے ایزٹیک باشندے مسلمانوں والی دستارباندھتے تھے اوران کی خواتین مورش(مسلم)خواتین جیسی دکھائی دیتی تھیں۔ہرنن کورٹیزنے دعویٰ کیاکہ اُس نے جوعلاقہ(آج کل میکسیکو)پانچ سوسال قبل فتح کیاتھا،اُس میں چارسوسے زائدمساجدتھیں اور اُس نے وہاں کے قائدمونتیزوما کو”سلطان”کے نام سے پکارا۔سوال یہ ہے کہ اس پیچیدہ نکتے کی توضیح کیاہوسکتی ہے؟

اس کاجواب کولمبس کی(اوریورپ کی)اسلام کے خلاف صلیبی جنگوں کی طویل تاریخ میں ہے۔صدیوں کے دوران لڑی جانے والی مذہبی جنگوں کے علاوہ عثمانیوں اوردیگرمسلمانوں کی1453ءکے بعدیورپ کے متعددعلاقوں میں پیش رفت نے کولمبس،کورٹیزاور دیگر ہزاروں یورپی عیسائیوں کے ذہنوں میں اسلام کو ایک دشمن کے طورپرپروان چڑھایاجنہوں نے پرانی دنیامیں مسلمانوں اورنئی دنیامیں امریکی انڈینزسے جنگیں لڑیں۔ان تمام لوگوں نے پوری زندگی یہی سیکھاکہ مسلمان اُن کے سخت ترین دشمن ہیں۔ان کے ذہنوں کی آنکھ میں دشمن کاتصورایک غیرسفیدفام مسلم کے طورپرابھرا۔یورپی باشندوں نے امریکاؤں میں اپنے نئے دشمنوں کویعنی مقامی باشندوں کو ِسی تصوراورتاثرکے ساتھ دیکھااوربرتا۔یورپی باشندوں نے مسلمانوں اورمقامی امریکیوں کوایک تسلسل کے طورپردیکھا۔ آج یہ سب کچھ محض خواب وخیال کامعاملہ لگتاہے۔

یہ،بہت حدتک بُھلائی ہوئی تاریخ کسی طورنظراندازنہیں کی جاسکتی۔اسلام مخالف زاویۂ نظرنے وہ سانچاتیارکیا،جس میں یورپی باشندوں نے امریکاکی نسلوں اور ثقافتوں کوسمجھااورمغربی نصف کُرّے میں آلاتِ حرب کاتصوربھی اِنہی تصورات سے جُڑاہواہے۔اب شمالی وجنوبی امریکاکی تاریخ کا(اوراس سے بھی بڑھ کر افسوس کے ساتھ،امریکاکے مقامی باشندوں کی تاریخ کا)حقیقی فہم یقینی بنانے کے عمل میں مسلمانوں سے متعلق کولمبس اوردیگرمتقدمین کی سوچ کونظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

یورپی اورسفیدفام امریکی باشندوں نے صلیبی جنگوں کاساذہنی رجحان امریکاکی مقامی آبادیوں کے حوالے سے بھی مقدم رکھااور جنگ کے اس راستے میں اُن کے تصورات اوراصطلاحات بھی اپنائیں۔یہی سبب ہے کہ امریکیوں نے افغانستان پراپاچی اورکایوواہیلی کاپٹراڑائے،امریکی بحریہ نے شام میں اہداف پرٹوما ہاک میزائل برسائے اورپاکستان میں اسامہ بن لادن کوہلاک کرنے کیلئےجیرونیمو کے خفیہ نام سے کی جانے والی چھاپہ مارکاروائی میں نیوی سیلزکولانے،زندہ پکڑنے کیلئےبلیک ہاک ہیلی کاپٹربروئے کارلائے گئے لیکن نامکمل فتح کے ساتھ واپس لوٹناپڑا۔

ان ناموں اوران جنگوں میں ایک تاریخ چھپی اوربسی ہوئی ہے،جوکولمبس تک جاتی ہے۔بظاہرالگ تھلگ پڑی ہوئی ان ثقافتوں کی تاریخ کافہم،ماضی کی تفہیم اورنئی یکجہتی،اجتماعی فکروعمل کی بنیادڈالنے کے حوالے سے کلیدی کرداراداکرتاہے۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس صلیبی سوچ کے بدلتے تیورکوسمجھنے کیلئے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اوران خفیہ ہاتھوں کواپنے آہنی کردارسے روکنے کیلئے خودکوتیارکریں جس کیلئے ازحدضروری ہے کہ جس خالق نے اپنی مخلوق کودنیاوآخرت میں کامیابی کیلئے ایک مکمل کتاب نازل کی،اس کتاب کوراہِ ہدائت کیلئےمضبوطی سے تھام لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں