تاریخ کافیصلہ

:Share

نائن الیون کے جواب میں امریکی خوفناک حملوں نے چہارسوسراسیمگی اور خوف ودہشت کی ایسی فضاقائم کردی کہ ہرقسم کا میڈیابھی بھرپور طریقے سے امریکی اوراس کے اتحادیوں کی پشت پرکھڑادن رات ان کی فتوحات کے ترانے بجارہاتھااورافغان طالبان کی حکومت کاکوئی نام ونشان یاخبرتک موصول نہیں ہورہی تھی اورقصرسفیدکافرعون بش تورابوراوردیگرافغان بستیوں،شہروں اور پہاڑوں پراس صدی کی سب سے خوفناک بمباری کرنے کے ساتھ ساتھ ”کروسیڈ ”صلیبی جنگ کے اعلان کے ساتھ بپھرے ہوئے سانڈکی طرح منہ میں جھاگ بھرکراول فول بک کرطاقت کے گھمنڈ میں تمام عالم اسلام کوللکاررہاتھااورعالم اسلام کے رہنماء سب ہی کبوترکی طرح آنکھیں بندکرکے لرزاں وترساں اپنی جان بچانے کیلئے مختلف تدابیر اختیارکرنے میں مصروف تھے کہ اس حالت میں اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی اورایک اجنبی آوازنے اپناتعارف کرواتے ہوئے خودکو”وائس آف امریکااردوسروس”کیلئے نائن الیون کی اس جنگ پرمجھ سے بڑے نرم لہجے میں سوالات پوچھنے شروع کردیئے اوردھیرے دھیرے سخت تنقیدی سوالات کے ساتھ اس کاروّیہ بھی جارحانہ ہوگیااورمیرے گزشتہ کالم میں اقبال کے اس شعر”کافرہے توشمشیرپرکرتاہے بھروسہ…..مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی” پر بڑے طنزیہ اندازمیں بے تیغ مومن کا پتہ پوچھنے لگااوردیگرچندسوالوں کے بعدیہ سلسلہ اپنے انجام کوپہنچ گیا۔
وائس آف امریکاپراس کے بعدبھی کئی مرتبہ سوالات وجوابات کاسلسلہ جاری رہالیکن اسے سوئےاتفاق سمجھوں یااپنے رب کی طرف سے ایک خاص تدبیرکہ برسوں بعدانٹرویو میں اسی سے مڈ بھیڑہوگئی اورمیں نے برسوں برس پہلے حضرت اقبال کے شعرپراس کے طنزیہ اندازکاذکرکرتے ہوئے اسے جب یاددلایاکہ امریکاکے سب سے بڑے ضدی اورجارح فرعون ٹرمپ نے پہلے مرحلے میں پینٹاگون کوبالآخرافغانستان سے فوجی انخلاء کی منصوبہ بندی کے احکامات جاری کرناگویامیرے رب کی طرف سے تمہارے اس تکبروطنز کاکیاخوب جواب دیاہے تواس کے پاس کوئی جواب نہیں تھااوراب وہ امریکی عوام کی امن کی خواہشات کاپیامبربنااپنی منافقت کااظہار کرنے پرمجبورنظرآرہاتھا۔
پچھلے ماہ ماسکواورقطرمیں امریکی حکومت اورطالبان میں براہِ راست پہلے امن مذاکرات کے بعدباآخرطالبان کوپہلی فتح یوں نصیب ہوئی ہے کہ قصر سفید کے فرعون ٹرمپ نے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اورپینٹاگون کوافغانستان سے فوجی انخلاء کی منصوبہ بندی کے احکامات جاری کردیئے ہیں جس کیلئے پہلے مرحلے میں سات ہزارفوجیوں کی واپسی ممکن ہوگی ۔شام کے بعدافغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے اعلان سامنے آنے کے بعد امریکی وزیردفاع جیمزمیٹس مستعفی ہوگئے۔امریکی صدرنے ٹویٹ کے ذریعے اپنی حکومت کے انتہائی اہم رکن جیمزمیٹس کے استعفے کی منظوری دے دی ہے تاہم ابھی تک اس کے جانشین کااعلان نہیں کیاگیا۔ امریکی پٹھوکابل میں حکومت چلانے والی اشرف غنی حکومت نے دعویٰ کیاہے کہ اسے ٹرمپ کے فیصلے سے کوئی تشویش نہیں ہے۔
ادھرروسی حکومت نے پہلے مرحلے میں سات ہزارفوجیوں کے بلانے کے اس فیصلہ کاخیرمقدم کیاہے ۔واپس بلائے جانے فوجیوں کی تعداد افغانستان میں موجودامریکی فوج کی کل تعدادکانصف ہے ۔ممکنہ طورپرافغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی فروری 2019ء میں شروع ہوجائے گی ۔ امکان ہے کہ ٹرمپ اپنے سٹیٹ آف یونین خطاب میں باضابطہ اعلان کریں گے۔امریکاکی جانب سے یہ فیصلہ 17برس بعد پہلی بارطالبان سے براہ راست مذاکرات کے بعدکیاگیا۔ نیویارک ٹائمزکے مطابق ٹرمپ نے پینٹاگون کوافغانستان سے انخلاء کاباقاعدہ حکم جاری کردیاہے۔حکام کے مطابق اس ضمن میں مدت اورطریقہ کارپرغورجاری ہے۔ابھی یہ واضح نہیں کہ افغانستان میں باقی رہ جانےوالے امریکی فوجی اہلکاروں کی عسکری تربیت ،زمینی کاروائیوں میں مدد،طالبان اور دیگرگروہوں کے خلاف بمباری کیسے کریں گے۔ نیویارک ٹائمزکے مطابق باقی رہ جانے والے فوجیوں کی واپسی کے شیڈول پربھی غور جاری ہے۔امریکی فوج میں کمی کے فیصلے سے لگتا ہے کہ ٹرمپ کاصبرکاپیمانہ لبریزہوچکا ہے ۔
دوسری جانب شام کے بعدافغانستان سے امریکی فوج بلانے کے اعلان پرامریکی وزیردفاع جیمز میٹس ٹرمپ سے شدید ناراض ہوگئے اورانہیں اپنا استعفیٰ روانہ کردیا۔استعفے میں جیمزمیٹس نے تحریرکیاہے کہ امریکی صدرکویہ اختیارہے کہ وہ اپنی مرضی کاوزیردفاع رکھیں اورمیرے لئے یہی بہترہے کہ میں ٹرمپ کے اس اچانک اعلان پراپنے عہدے سے الگ ہوجاؤں۔انہوں نے استعفے میں ٹرمپ کے اتحادی ممالک کے احترام کے بارے میں خیالات بیان کئے اورعام دفاع کی فراہمی کیلئے تمام وسائل فراہم کرنے کاذکربھی کیا۔
امریکی صدرٹرمپ نے جیمزمیٹس کے عہدہ چھوڑنے کی فوری منظوری کااپنے ٹویٹ میں اعلان کرتے ہوئے کہاکہ جیمزفروری کے آخر میں باعزت ریٹائرہوجائیں گے۔ جیمزمیٹس نے اتحادیوں اوردوسرے ممالک کو فوجی ذمہ داریوں کاحصہ اداکرنے میں میری بڑی مددکی تھی۔ ٹرمپ نے جیمز میٹس کے جانشین کانام نہیں لیاتاہم ان کاکہناتھاکہ نئے وزیردفاع کااعلان جلدکردیا جائے گا۔
جیمزمیٹس شام سے جلدفوجی انخلاء کی مخالف ہیں،وہ اس فیصلے کواسٹرٹیجک غلطی قراردیتے رہیں ہیں۔حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اب بھی 14ہزارداعش شدت پسند ہیں اورعراق میں تواس سے کہیں زیادہ تعدادموجودہے۔خدشہ ہے کہ داعش اپنانیٹ ورک دوبارہ بنانے کیلئے گوریلاجنگ کاسہارالے سکتی ہے۔ٹرمپ نے فوجی واپسی کے اعلان کے بعدایک ٹویٹ میں فیصلے کادفاع کرتے ہوئے کہاکہ اس سے کسی کوحیرت نہیں ہونی چاہئے،اب گھرواپسی کاوقت ہےتاہم ٹرمپ نے ریٹائرمنٹ کرکے بات ٹالنے اوربدلنے کی کوشش کی ہے لیکن جیمز میٹس نے فیصلے سے شدیداختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دیاہے۔شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرزبڑی غلطی کے علاوہ اسے روس اورایران کی فتح قراردے چکے ہیں۔اتحادی ممالک نے بھی اس فیصلے پر تحفظات کااظہارکیاتھا۔
واضح رہے کہ امریکانے 2001ء میں افغانستان میں اپنی فوج اتاری تھی تاکہ القاعدہ اوراسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کرسکے اورمستقبل میں افغانستان کو امریکااور مغربی اہداف کونشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کیلئے استعمال نی کیاجاسکے۔17برس تک جاری رہنے والی لڑائی میں سینکڑوں امریکی فوجیوں کی ہلاکت بھی واشنگٹن کوخاطرخواہ کامیابی نہ دلا سکی ۔امریکی میڈیا کے محتاط اندازے کے مطابق 2400سے زائدامریکی فوجی مارے گئے،دیگرذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداداس سے کہیں زیادہ ہے اوراس تعداد میں امریکاکے مغربی اتحادیوں کے فوجیوں کی تعدادشامل نہیں۔حالیہ برسوں میں افغان طالبان کے زیرقبضہ علاقے میں قابل ذکراضافہ ہواہے ،کئی محاذوں پرافغانستان کی سرکاری فوج کوبدترین جانی ومالی نقصان کے سبب شکست کاسامناکرناپڑا ۔
عالمی میڈیاکے مطابق امریکی اعلان نے کابل میں موجودان غیرملکی سفارتکاروں کوبھی چونکادیا ہے جو17سالہ تنازع ختم کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔افغانستان سے امریکی فوجی واپس بلانے کے فیصلے پرافغان حکومت نے کہاہے کہ اسے ٹرمپ کے ہم سے مشورہ کئے بغیر عجلت میں کئے گئے فیصلے پرکوئی تشویش نہیں۔افغان قومی سلامتی کے ترجمان طارق آریان کاکہناہے کہ افغان فوجی مکمل طورپرمسلح تربیت یافتہ ہیں اور 2014ء سے زمینی کاروائیاں کررہے ہیں۔بین الاقوامی فورسزکاکردارتربیت ومددفراہم کرناہے۔امریکی فوج کے انخلاء سے افغان فوجیوں کے حوصلوں پرکوئی اثرنہیں پڑے گاتاہم طالبان سے مذاکرات کیلئے غنی حکومت کی تشکیل کردہ ٹیم نے طالبان کے ملاقات سے انکارکوسیاسی ناکامی تسلیم کرلیاہے لیکن وہ وقت دورنہیں جب افغان کٹھ پتلی حکومت اپنی مکمل ناکامی کے بوجھ تلے خودہی راہِ فراراختیارکرتے ہوئے غداروں کی فہرست میں ہمیشہ کیلئے باعثِ عبرت کے طورپر تاریخ میں جانی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں