آزادی کی قیمت

:Share

ان دنوں دواکتوبرکوسعودی سفارت خانہ استنبول میں وحشیانہ اندازمیں قتل ہونے والےسعودی صحافی جمال خاشفجی کی خوفناک خبرنے تہلکہ مچادیا ہے۔غورطلب بات یہ ہے کہ امریکااوراس کے ساتھ پوری مغربی دنیاکیوں تڑپ اٹھی ہے اورمشرق ومغرب میں اس کی گمشدگی کی دہائیاں کیوں دی جارہی ہیں۔لگتاہے کہ”عرب اسپرنگ”کے دوسرے حصے کاآغازہوگیاہے جس سے قصرسفیدکافرعون اوراس کے مغربی ہمنوانے فیصلہ کرلیا ہے کہ امریکی ورلڈ آرڈرکوایک نئے اندازسے آگے بڑھانے کاوقت آن پہنچاہے جس کیلئے جمال خاشفجی کے لرزہ خیزقتل کواستعمال کرنے کافیصلہ کرلیا گیاہے۔یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ دو ہفتے قبل آخرٹرمپ کوکوئی لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کڑواسچ بولنے کی کیاضرورت پیش آگئی کہ سعودی بادشاہت امریکی بیساکھیوں کے بغیردوہفتے بھی نہیں چل سکتی،ٹرمپ کی یہ بڑھک کسی مذاق پرنہیں بلکہ اس صداقت پرمبنی تھی جسے ساری دنیا کے علاوہ خودسعودی بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ورلڈآرڈرکے خالق امریکی یہودی ہمیشہ ایسےتارکینِ وطن کی ٹوہ میں رہتے ہیں جن میں اوپر جانے کے جراثیم اورمستقبل میں ان کے آلہ کاربن کران کے مفادات کی تکمیل میں کام آسکتے ہیں توان کوفوری مارک کرلیاجاتاہے اوران پرنوازشات کاایساسلسلہ شروع ہوجاتاہے کہ ان کامحبوب ان کے چنگل سے نکل نہیں سکتا۔خاشفجی جب بزنس ایڈمنسٹریشن کی اعلی تعلیم کیلئے امریکاپہنچے توامریکی صیادکوموٹی موٹی آنکھیں اور فربہ جسم وجاں کے حامل،عام عربی شہزادوں سے الگ تھلگ شخصیت جوخالص عربی نژادبھی نہ تھے،عرب حکمرانوں کے حلقے میں ان کے دادا،والداوردوسرے افرادِ خاندان کی بہت تکریم بھی تھی اورترکی،عربی اورانگریزی فرفربولنے والاشکارکہ’’جس کوپیاچاہے سوسہاگن‘‘ایسا پسند آیاکہ فوراً امریکی یعنی یہودی اشرافیہ کی نگاہوں نے اپنے ہدف کی تکمیل کیلئے منتخب کرلیااور”امریکی پیا”کی مہربانی اورعنایات سے جمال تیزی سےکئی معروف عرب اخباروں کے رپورٹر،پھرایڈیٹراورپھرچیف ایڈیٹرکے اعزازات کے اہل ٹھہرے اورسعودی بادشاہت میں ان کی دوستیوں کے چرچے شروع ہوگئے۔
خاشفجی پرنٹ میڈیاسے الیکٹرانک میڈیا میں آئے تواپنے حلقہ ءاحباب اورآلِ سعودمیں حکمران سطح کے درجنوں شہزادوں میں ان کی رسائی عام ہوگئی۔جمال کے مربّیوں کویہ علم تھاکہ ان کاتراشیدہ ہیرابالآخرایک دن ان کے مفادات کے تاج میں ہی کام آئےگااوروہ دن اس وقت آیاجب شاہ سلمان سعودی فرمانروابن گئے تواگلے فرمانرواکیلئےمجوزہ بادشاہی نظام کے تحت جو چند نام شاہ سعود کے بیٹوں میں زندہ تھے،ان کی عمریں 85 برس سے اوپرتھیں اس لئے شاہ سلمان کے فرزندوں نے فیصلہ کیاکہ اب تختِ شاہی اگلی نسل کومنتقل ہوناچاہیے سو انہوں نے اپنے والدِ محترم کو صورت حال سے آگاہ کیااورشاہ نےمجوزہ شاہی نظام کوپسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنے سب سے چھوٹے بیٹےمحمد بن سلمان کواپنا ولی عہد مقررکردیا۔
ولی عہد محمد نے آتے ہی بھانپ لیا کہ ان کی والد کی کابینہ میں کون کون لوگ ایسے ہیں جو ان کی تاج پوشی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک گرینڈ پلان تیارکیا اوران تمام شخصیات کواچانک ایک شب گرفتارکرکے ان سےپوچھاکہ انہوں نے اتنی بے بہا دولت کہاں سے اکٹھی کی؟ان کے اثاثے ان کی آمدنی سے اتنے زیادہ کیسے ہوگئے؟ان کے فلاں فلاں سرکاری ٹھیکوں میں کرپشن کے جوالزامات ہیں،ان کویاتوغلط ثابت کیاجائے یاپھر قانون خوداپناراستہ بنا لے گا۔یادرہے کہ ان دنوں یہ خبربھی عام ہوئی کہ ولی عہدکے اس پلان کی تیاری میں قصرسفیدکے
فرعون ٹرمپ کایہودی نژادداماد”جیراڈکوشنر”کادماغ کارفرماتھاجوان دنوں ولی عہدکے خصوصی مہمان کے طورپراس کے ذاتی محل میں قیام پذیرتھا ۔ولی عہدکے ان انقلابی اقدام نےسعودی عرب کے نوجوانوں میں پہلی مرتبہ بڑی پذیرائی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ بادشاہت میں مجوزہ نظام سے ہٹ کرہونے والی تبدیلی ولی عہدکی تبدیلی سے سب کی توجہ ہٹ گئی کیونکہ اس عمل سے سعودی خزانے میں بے بہادولت بھی جمع ہوگئی اورولی عہدنے اس کے فوری بعد سعودی عرب میں ایک اورانقلابی ترقی کااعلان کرتے ہوئے ایک اورایسے نئے شہرکی تعمیرکا اعلان کردیاجو مجوزہ سعودی مذہبی پابندیوں سے آزادسیاحتی آلائشوں سے مزین ہوگاجہاں دنیابھر کے سیاحوں کووہ تمام آسائشیں میسرہوں گی جو امریکااورمغرب کے نائٹ کلبوں اورکیسینومیں میسرہیں۔
ولی عہدنے جب سعودی نوجوانوں میں اپنی پذیرائی دیکھی توانہوں نے پھرایک اورانقلابی قدم اٹھانے کافیصلہ کیاکہ تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنادانشمندی نہیں۔سعودی بادشاہت میں یہ پہلاموقع آیاکہ اکتوبر2017میں سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اورروسی صدر ولادی میر پوٹن نے ماسکو میں اپنی سربراہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کومزید مضبوط بنانے کے عزم کانہ صرف اظہارکیابلکہ اربوں ڈالرکے اسلحہ خریداری کے سودوں پربھی دستخط کیے گئے پھرجاپان گئے اورچین کے صدر’شی جن پنگ‘کے مہمان ہوئے۔آل سعود کی ان ملاقاتوں کے پیچھے نوجوان ولی عہد کاہاتھ تھا۔سعودی حکومت نے توازن برقراررکھنے کیلئے ٹرمپ کوبھی سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی اورٹرمپ نے بھی اپناپہلاغیر ملکی دورہ سعودی عرب سے شروع کیا جہاں بشمول پاکستان مسلم دنیاکے اکثرتاجدارآکرجمع ہو ئے اورامریکیوں اور سعودیوں کواپنی طرف داری اور جاں نثاری دکھانے کااہتمام کیا۔امریکاکے ساتھ 250/ارب ڈالر کے اسلحہ خریداری کے سودوں پردستخط ہوئے جس سے امریکی اسلحہ سازی کے کارخانے جودیوالیہ ہونے جارہے تھے،دوبارہ چلنے شروع ہوگئے لیکن اس کے باوجودامریکانے اپنے دیرینہ اور وفادار کھرب پتی دوست کواس نئی راہ کا مسافر بنتے دیکھاتوچونک اٹھااورسعودی فرمانراؤں کو ان کااصل چہرہ دکھانے کافیصلہ کرلیا۔
ہم سب کومعلوم ہے کہ امریکااوربرطانیہ نے آڑے وقتوں میں کام آنے کیلئے اپنے پاس کئی ایسے مہرے رکھے ہوئے ہیں۔ان حالات میں امریکی آقاوں نے خاشفجی نے اپنے قلم کوخوب فعال کرلیا حالانکہ ان کے تعلقات ولی عہد محمد اوردوسرے اراکین سلطنت کے ساتھ بہت دوستانہ اورگہرے تھے لیکن سی آئی اےکی ایماءپرجمال نے سعودی حکومت پرتنقیدشروع کردی اورپھرجب امریکیوں نے اس کوخبردارکیا کہ اس کے خلاف ایکشن لیاجانے والا ہے تواس نے گزشتہ برس چپکے سے امریکاکی راہ لی۔ جمال امریکی شہری بھی ہیں۔ وہاں جاکرانہوں نے واشنگٹن پوسٹ میں ولی عہد محمد کے خلاف مسلسل کالم لکھے اورسعودی عرب کی یمن پالیسی کے خلاف بھی شدیدتنقیدکی۔چونکہ وہ آل سعود کے خفیہ اسرارورموزسے آگاہ تھے اس لئے کہاجاتاہے کہ سعودیوں نے اس کو ٹھکانے لگانے کافیصلہ کرلیا۔
سوال یہ ہے کہ اگراب سعودی حکومت کوبراہِ راست کوئی خطرہ ہواتو کیا پاکستان اپنے اس وعدے کوپوراکرنے کی پوزیشن میں ہوگاکہ جس میں سعودی حکومت کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ وہ اپنے دفاع اورسلامتی کیلئے پاک فوج پرانحصار کرسکتی ہے؟عالم اسلام میں واحد جوہری ملک پاکستان ہے اوراس کے عدم استحکام کیلئے بھی الطاف جیسے اوربھی کئی مہرے ان کے اشارہ ابروپرکام کرنے کیلئے ہمہ وقت موجودہیں۔کیاان حالات میں پاکستان ایک نئےامتحان کیلئے تیار ہے؟اسی طرح اس خطے میں ایک دوسرااسلامی ملک جو روبہ ترقی ہے اور جس کی معیشت قابلِ رشک حد تک پھل پھول رہی ہے اور ساتھ ہی اس کی دفاعی صنعت بھی فروغ پارہی ہے،اس برق رفتارترک گاڑی کوروکنے کیلئےاردگان کوٹھکانے لگانے کا کھیل توہم ملاحظہ کرچکے ہیں کہ کس منظم طریقے سے فوجی بغاوت کے ذریعے اس کوٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی جس کووہاں کی عوام نے بروقت سڑکوں پرآکر ناکام بنایا۔فتح اللہ گولن کوابھی تک امریکیوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے حالانکہ ترکی کی ایک عدالت نے اس امریکی پادری کورہاکرکے واپس امریکاجانے کی اجازت دے دی ہے جس کا مطالبہ ایک عرصے سے ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کررہی تھی۔
یادرہے کہ گزشتہ دوسالوں میں یورپ میں رہنے والے تین سعودی شہزادے لاپتہ ہوچکے ہیں۔یہ تینوں شہزادے ماضی میں سعودی حکومت کوتنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اوران کی گمشدگی کے بارے میں ایسے شواہد ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اغواکر کے سعودی عرب لے جایا گیا اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔12 جون 2003 کوشہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکوان کے رشتے دار سوئٹزرلینڈ کےشہر جینوا سے باہرایک محل لے جایا گیاجوسعودی عرب کے سابق حکمران شاہ فہدکی ملکیت ہے،جہاں سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکو شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن فہد نے ناشتے پر مدعو کیاجہاں عبدالعزیز بن فہد نے سلطان بن ترکی سے درخواست کی کہ وہ سعودی عرب واپس لوٹ جائیں تاکہ سعودی حکمرانوں کے خلاف ان کی جانب سے کی گئی تنقیداورخدشات کودورکیاجاسکے مگرسلطان بن ترکی نے یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اس موقع پر عبدالعزیزبن فہد فون کرنے کے بہانے سے کمرے سے باہرگئے اورکمرے میں موجود دوسرے فرد،سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور شیخ صالح الشیخ بھی باہرچلے گئے۔ان دونوں کے جاتے ہی چند افراد کمرے میں داخل ہو گئے اورسلطان بن ترکی کوزدوکوب کیااوراس کے بعد انھیں ہتھکڑی پہناکران کی گردن میں انجیکشن لگادیا۔اس بے ہوشی کی حالت میں سلطان بن ترکی کوجینوا ایئرپورٹ لے جایاگیاجہاں سے انھیں جہازپرسوارکرادیاگیا۔یہ تمام قصہ سلطان بن ترکی نے اغواہونے کے کئی سال بعدسوئس عدالت میں بیان کیا تھا ۔
اس وقت سلطان بن ترکی کیلئے کام کرنے والوں میں سے ان کے افسربرائے اطلاعات ایڈی فریرا نے بعدمیں بتایا کہ جس روز سلطان ناشتے کیلئے گئے تھے،وہ دن بتدریج مشکل ہوتاچلا گیا۔ ہم سلطان کی سکیورٹی ٹیم سے رابطہ کرنے میں ناکام رہے جس سے ہمیں شک پڑا کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے شہزادے سے رابطہ کرنے کی باربارکوشش کی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔ اسی دن دوپہرمیں دوغیرمتوقع لوگ سلطان بن ترکی کے ہوٹل پہنچےسوئٹزرلینڈ میں متعین سعودی سفیراورہوٹل کے جنرل مینجرہمارے پاس آئے اورکہاکہ کمرے فوراًخالی کردیے جائیں کہ شہزادہ سلطان اب ریاض چلے گئے اورہماری اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔شہزادہ سلطان بن ترکی نے ایسا کیاکردیاتھاجس کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان والوں نے انہیں نشہ آورانجیکشن لگایااوراغواکر لیا؟شائدان کاقصوریہ تھاکہ ایک سال قبل شہزادہ سلطان علاج کرانے کی غرض سے یورپ آئے تو وہاں پہنچ کرانہوں نے سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کاذکرکیااورشاہی خاندان کے افرادپربدعنوانی کے الزامات لگائے اورملک میں مختلف نوعیت کی تبدیلیوں کامطالبہ کیا۔
1932ء میں شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب کی بنیاد ڈالی اوراس وقت سے ملک میں بادشاہت قائم ہے اورملک میں اختلاف رائے کے اظہارکو برداشت نہیں کیاجاتا۔شہزادہ ترکی بن بندرسعودی پولیس میں اہم مقام رکھتے تھے اورسعودی خاندان پرنظررکھناان کی ذمہ داری تھی لیکن وراثت کے معاملے پرجھگڑے کی وجہ سے ان کوجیل جاناپڑاجہاں سے انھیں 2012 میں رہائی ملی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں سے انھوں نے انٹرنیٹ پریوٹیوب کی ویب سائٹ پر سعودی عرب میں تبدیلیوں کی مطالبے کی ویڈیوزشائع کرنا شروع کردیں۔سعودی حکومت نے ان کے خلاف بھی ویساہی کرنے کی کوشش کی جیساشہزادہ سلطان بن ترکی کے ساتھ کیاتھا۔وزارت داخلہ کے نائب وزیراحمدال سالم نے جب شہزادہ ترکی بن بندر کوواپس بلانے کیلئے فون کیاتوشہزادے نے وہ گفتگوریکارڈکرلی اوراسے انٹرنیٹ پرجاری کردیا۔اس گفتگومیں احمد ال سالم کہتے ہیں”ہم سب آپ کی واپسی کاانتظارکررہے ہیں،خداآپ کابھلاکرے”۔جواب میں شہزادہ ترکی بن بندرنے کہا:میری واپسی کاانتظار؟ تو ان سب خطوط کے بارے میں کیا کہو گے جومجھے بھیجے اورجن میں لکھا ہواتھاکہ میں فاحشہ کی اولادہوں اورتم لوگ مجھے بھی ویسے ہی گھسیٹ کر لے جاؤگے جیسے شہزادہ سلطان بن ترکی کولے گئے تھے۔اس پرنائب وزیر نے جواب دیا:”آپ کوکوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔میں آپ کابھائی ہوں”۔شہزادہ ترکی بن بندرنے جواب دیا:نہیں، یہ خط تمہاری طرف سے ہیں۔ وزارت داخلہ نے یہ خط بھیجے ہیں۔شہزادہ ترکی بن بندرجولائی 2015 تک ویڈیوزشائع کرتے رہے لیکن اسی سال وہ غائب ہوگئے۔
ان کے دوست اوربلاگروائیل الخلف نے بتایا”وہ مجھے ہرایک یادوماہ بعدفون کیاکرتے تھےلیکن پھروہ کوئی چارپانچ مہینے کیلئے غائب ہوگئے جس سے مجھے شک پڑا۔پھرمیں نے سعودی عرب میں ایک اعلی افسرسے سناکہ شہزادہ ترکی ان کے پاس ہیں۔جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ انھیں اغوا کرکے وہاں لے جایاگیاہے”۔ شہزادہ ترکی کے بارے میں خبروں کی تلاش میں مجھے مراکش کے ایک اخبارمیں خبرملی جس میں لکھاتھاکہ وہ مراکش کے دورے کے بعد واپس فرانس جانے والے تھے جب انھیں گرفتار کرلیاگیااوروہاں سے سعودی عرب بھیج دیاگیا۔ابھی تک یقین سے نہیں کہاجا سکتا کہ شہزادہ ترکی بن بندرکے ساتھ ہواکیاہے لیکن اپنی گمشدگی سے پہلے انہوں نے اپنے دوست بلاگروائیل الخلف کواپنی کتاب دی تھی اوراس میں ایک نوٹ درج کیاتھا۔”میرے عزیزوائیل،یہ بیان تم صرف اس صورت میں شائع کرنااگرمیں اغواہوجاؤں یاقتل کردیاجاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ یاتو مجھے اغواکرلیاجائے گایاماردیاجائے گااورمجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ لوگ کس طرح میرے اورسعودی عوام کے حقوق غضب کرتے ہیں”
اسی اثناءمیں جب شہزادہ ترکی کواغواکیاگیاتھا،ایک اورسعودی شہزادے سعودبن سیف کوبھی اٹھا لیاگیا۔شہزادہ سعودبن سیف جنہیں یورپ کے کسینواورپرتعیش ہوٹلوں سے رغبت تھی،انہوں نے 2014 میں سعودی شاہی خاندان کے خلاف تنقیدی ٹویٹس کرناشروع کیں۔انہوں نے ان سعودی افسران کے خلاف کاروائی کرنے کامطالبہ کیا جنہوں نے مصرکے صدرمحمد مرسی کاتختہ الٹنے میں مدد کی تھی۔اس کے بعدستمبر2015میں معاملات مزیدگرم ہوگئے جب شہزادہ سعودبن سیف نے ایک نامعلوم سعودی شہزادے کے اس خط کی برملاحمایت کی جس میں سعودی شاہ سلمان کی حکومت گرانے کامطالبہ کیاگیاتھا۔شہزادہ سعودشاہی خاندان کے واحدفردتھے جنہوں نے اس مطالبے کی حمایت کی تھی جسے غّداری تصور کیاجاتا ہے۔میں اپنی قوم مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس خط کے موادکو لےکرحکومت پردباؤڈالیں۔اس ٹویٹ کے بعدان کااکاؤنٹ خاموش ہوگیا۔
2013میں جرمنی بھاگ جانے والے سعودی حکومت کے ایک اور مخالف شہزادے خالد بن فرحان کاخیال ہے کہ شہزادہ سعودبن سیف کودھوکے سے اٹلی کے شہر میلان سے روم بلایاگیا۔میلان میں ان کوایک پرائیوٹ جہازمیں سوارکرایاگیاجس کی منزل روم تھی لیکن وہ روم کے بجائے ریاض میں جاکراترا۔ سعودی خفیہ اداروں نے یہ اس پورے پلان کی منصوبہ بندی کی تھی۔اب شہزادہ سعودکاوہی مقدر ہے جو شہزادہ ترکی بن بندرکاہے یعنی باقی ساری عمرجیل میں قید۔
شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکیونکہ شاہی خاندان میں اونچے درجے پرہیں،اس لیے انہیں جیل سے نکال کرگھرمیں نظربندکیاجاتارہالیکن کیونکہ ان کی طبیعت مسلسل خراب ہوتی جارہی تھی تو2010 میں شاہی خاندان نے انھیں امریکی شہربوسٹن میں علاج کی غرض سے جانے کی اجازت دے دی لیکن وہاں پہنچتے ہی انہوں نے جوکام کیااس سے سعودی حکمرانوں میں سنسنی دوڑگئی ہوگی۔امریکاپہنچتے ہی شہزادہ سلطان نے وہاں کی عدالت میں فوجداری مقدمہ درج کرایا جس میں انہوں نے شہزادہ عبدالعزیزاورشیخ صالح ال شیخ پر2003میں انہیں اغواکیلئے موردالزام ٹھہرایا۔شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکےامریکی وکیل کلائیڈ برگ سٹریسر نے ریاض کے کنگ فہد ہسپتال سے شہزادہ سلطان کے طبی ریکارڈ حاصل کیے جن سے یہ ظاہرہوتاتھاکہ ان کے منہ میں سانس لینے کیلئے ٹیوب ڈالی گئی تھی اوران کے اندرونی اعضا کے معائنے سے یہ ظاہر ہوتاتھاکہ ان پرحملہ کیاگیاجس سے وہ زخمی ہوئے تھے۔یہ پہلاموقع تھا جب سعودی شاہی خاندان کے کسی فردنے شاہی خاندان کے ایک اورفرد پر مغربی ملک میں مقدمہ درج کیاہو لیکن وکیل کلائیڈ برگ سٹریسر کے مطابق سوئس حکام نے اس مقدمے پرکاروائی کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔اس کیس میں اب تک کچھ بھی نہیں ہواہے۔کسی نے یہ معلوم نہیں کیاکہ ایئرپورٹ پرکیاہوا تھا؟جہازکے پائلٹ کون تھے؟جہازکافلائٹ پلان کیاتھا؟یہ کاروائی سوئس سرزمین پرہوئی تھی لیکن ان کی جانب سے کوئی سوالات نہیں کیے گئے ہیں۔اس سے یہ پتہ نہیں چلتاہے کہ یہ سعودی بادشاہ کااثرورسوخ ہے یاپھران قوتوں کاجوان کی حفاظت کےمنہ مانگے دام موصول کرتے ہیں۔
جنوری 2016 میں شہزادہ سلطان پیرس کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے جب انھیں شہزادہ سعود بن سیف کی طرح جھانسے میں لایاگیا۔وہ اپنے والد سے ملنے کیلئے مصرجاناچاہتے تھے اورپیرس میں سعودی سفارت خانے نے انہیں اوران کے ساتھ کام کرنے والے افراد،بشمول ان کے ڈاکٹر اور سکیورٹی اہلکار،کوجہازکی پیشکش کی۔2003میں ہونے والے واقعہ کے باوجود حیران کن طور پر شہزادہ سلطان نے یہ پیشکش قبول کرلی۔ان کے ساتھ جانے والے افرادنے اس واقعہ کی یوں منظر کشی کی ہے کہ ہم جہازکے قریب پہنچے تواس پرسعودی عرب درج تھا۔ہمیں کچھ عجیب سا لگا کیونکہ جہازکا تمام عملہ مردوں پرمشتمل تھا۔جہازجب محو پروازہواتواس کی منزل قاہرہ تھی لیکن دوگھنٹے بعدجہازمیں لگی سکرین بندہوگئیں۔ شہزادہ سلطان کے سٹاف کے مطابق وہ جہازمیں اپنے کیبن میں سورہے تھے لیکن لینڈنگ سے ایک گھنٹہ پہلے وہ جاگ گئے اورجب کھڑکی سے نیچے دیکھاتو پریشان ہوگئے۔جیسے ہی ان کواوران کے سٹاف کواندازہ ہواکہ وہ مصر کے بجائے سعودی عرب لینڈ کرنے والے ہیں انھوں نے شورمچاناشروع کردیا۔ہم نے کھڑ کی سے نیچے دیکھاتوہمیں رائفلیں اٹھائے ہوئے کچھ لوگ نظر آئے جنھوں نے جہازکوگھیرے میں لیاہواتھا۔جہاز کے اترتے ہی ان مسلح افراد نے شہزادہ سلطان کوقبضے میں لے لیااورانہیں لےگئے۔شہزادہ سلطان چلاچلا کراپنے سٹاف کوکہاکہ وہ امریکی سفارت خانے سے رابطہ کریں۔ شہزادے کوان کے ڈاکٹرسمیت ایک بنگلے میں لے جایاگیا جہاں ان کی نگرانی کیلئے مسلح گارڈزکوتعینات کیاگیا۔جہاز میں سوارباقی افرادکوتین دن کے بعد ان کی مرضی کی منزل پربھیج دیاگیا۔
شہزادہ سلطان کے سٹاف میں سے ایک نے بتایا کہ سعودی حکام کے ایک افسرنے کہاکہ ہم غلط وقت میں غلط جگہ پرتھے اوراس کی وجہ سے ہونے والی مشکلات پرمعذرت کی۔ سٹاف کےایک اورفردنے کہا:مجھے صرف مشکل میں نہیں ڈالاگیاتھا بلکہ مجھے اغواکیاگیاتھااورمجھے ایسے ملک میں رکھاگیاجہاں میں اپنی مرضی سے گیابھی نہیں تھا۔یہ ایک انتہائی غیرمعمولی واقعہ تھا۔ شہزادہ سلطان کے علاوہ 18غیرملکی باشندوں کو اغواکرکے ان کی مرضی کے خلاف سعودی عرب لے جایاگیااورسعودی فوج نے انھیں وہاں خلاف مرضی رکھا۔اس واقعے کے بعدسے شہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکی آج تک کوئی خبرنہیں ملی ہے۔جب بھی سعودی حکومت سے ان واقعات اورالزامات کے بارے میں سوالات کئے جائیں تواس کاجواب دینے سے انکارکردیاجاتاہے۔
اسی طرح جرمنی میں پناہ لینے والے شہزادہ خالد کو ڈر ہے کہ ان کو بھی زبردستی سعودی عرب لے جایاجائے گا۔شہزادہ خالد کاکہناہے کہ ہمارے خاندان کے چارلوگ یورپ میں تھے۔ ہم نے خاندان پراوران کی حکومت پرتنقیدکی اوران چارمیں سے تین کواغواکرلیاگیاہے۔صرف میں باقی بچا ہوں۔جب شہزادہ خالد سے پوچھاگیاکہ کیاآپ بھی اغواہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے؟توانہوں نےخوفزدہ آوازمیں جواب دیاکہ مجھے یقین ہے۔مجھے بہت عرصے سے پورایقین ہے کہ ایساہی ہوگا۔اگروہ ایساکرسکتے ہوتے تووہ کرچکے ہوتے لیکن میں بے حد احتیاط برتتا ہوں۔ یہ میری آزادی کی قیمت ہے۔
دیکھنایہ ہے کہ جمال خاشفجی کے لرزہ خیزقتل کواستعمال کرتے ہوئےامریکااپنے کون سے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے؟کیا سعودی اور ایران کےتیل پر قبضہ کرنااس کامقصودہے؟کیا روس اورچین کے ردِّعمل کی آزمائش مقصودہے؟کیاپاکستان کی جوہری قوت ،سی پیک اورکشمیر کونئے چیلنجزسے گزرناہوگا؟کیااب سعودی عرب کوسبق سکھانے کے ساتھ ساتھ ایک ہی وقت میں پاکستان،ایران اورترکی کوبھی ایک نئی سخت اورجاں گسل آزمائش کاسامناکرناہوگا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں