Confirm Open Deceiver

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگرکھلا

:Share

3نومبر2020ءمیں “ابراہیمی مذاہب کی اصطلاح……عالمی سازش”کے عنوان سے میں نے آرٹیکل لکھاتھاجوآج بھی میری ویب سائٹ پردیکھاجاسکتاہے، اب ٹھیک ایک سال کے بعداس مرتبہ کچھ زیادہ محنت اورنوک پلک سنوارکراس موضوع کومشقِ سخن بنایا جارہاہے۔دراصل اس سال فروری میں اسی موضوع پرانٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرز، مسلم سکالرزلیگ اورعرب مغرب لیگ نے ایک کانفرنس منعقد کی جہاں ابراہیمی مذہب پرچندعلمانے اس خیال کا دفاع کیااوراسے امن کاراستہ بتایالیکن اب تک ابراہیمی مذہب کے وجودکاکوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا۔اس مذہب کے قیام کی بنیادنہ توکسی نے رکھی اور نہ ہی اس کے کوئی پیروکارموجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کیلئے کوئی مذہبی متن بھی دستیاب نہیں۔فی الحال اسے”مذہبی”منصوبہ سمجھا جاسکتاہے۔اس منصوبے کے تحت ماضی قریب میں اسلام،عیسائیت اوریہودیت مذاہب میں شامل مشترکہ پیغامات پرمبنی حضرت ابراہیم کے نام پرایک مذہب بنانے کی کوششیں شروع کی گئی جس کامقصد ان تینوں مذاہب میں شامل ایمان اورعقیدے سے متعلق تقریباًایک جیسی باتوں پرانحصارکرناہے۔ اس کے علاوہ باہمی اختلافات کوبڑھانے والی چیزوں کوکوئی وزن نہ دیاجانابھی اس میں شامل ہے۔ باہمی اختلافات سے بالاترہوکر عوام اورریاستوں کے درمیان امن قائم کرنے کے مقصد سے بھی اس خیال کوفروغ دیا جارہاہے۔

دراصل اس مذہب پربحث کااوراس سے منسلک تنازعات تقریباًایک سال پہلے شروع ہوئے۔اگرچہ لوگ اب بھی یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اب اچانک اس موضوع پردوبارہ بحث شروع کرنے کی کیاوجہ ہے اوراس کے پیچھے کیامقاصدپنہاں ہیں۔بظاہرتواسے تین بڑے عالمی مذاہب کے ماننے والوں یعنی اہل کتاب کومشترکہ پیغامات پراتفاق کرنے کی دعوت دی جارہی ہےاوراختلافات سے گریزکرنے کاکہاجارہاہے لیکن ان موجودہ مذاہب میں اللہ سے شرک کو جو کبیرہ گناہ قراردیا جا رہا ہے،اس کو نکالے یاختم کئے بغیراتفاق کی راہ کیسے نکالی جاسکتی ہے۔تمام مذاہب کی بنیادتوحیدپررکھی گئی ہے اوراس وقت دوسرا نبی یارسول مبعوث نہیں ہوتاجب تک پہلے نبی کی لائی ہوئی شریعت یاتومکمل طورپرختم نہیں ہوجاتی یاوہ تعلیم مسخ ہوکراصل تعلیمات کے منافی نہیں ہوجاتی

اس سلسلے میں الاظہرکے شیخ کی طرف سے دی گئی تقریرمیں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان بقائے باہمی کی بات کا ذکر کیاجاتاہے۔مصرکے شہر اسکندریہ جہاں عیسائیوں کی تعدادبہت زیادہ ہے،2011کے بعد پوپ شیناؤ دا تھرڈ اور الاظہر کے ایک وفدکے درمیان بات چیت کے بعدمصرفیملی ہاؤس کے قیام پرغورکیاگیاتھا۔دومذاہب کے درمیان بقائے باہمی اوررواداری کے بارے میں بات کرنا قابل فہم اورتوقع خیربھی ہے۔شیخ الاظہرنے فیملی ہاؤس سے ابراہیمی مذہب کے حامیوں پرتبصرہ کرتے ہوئے یہ کہاتھاکہ”’وہ یقینی طورپردومذاہب،اسلام اورعیسائیت،کے درمیان بھائی چارے کی الجھنوں اوردونوں مذاہب کے انضمام کے بارے میں پیداہونے والے شکوک کے بارے میں بات کرناچاہتے ہیں”،لیکن اب ایک قدم اوربڑھ کرعیسائیت،یہودیت اوراسلام کوایک مذہب میں ضم کرنے کی خواہش کامطالبہ کرنے والے میدان میں اترآئے ہیں(کہ وہ) تمام برائیوں سے نجات دلائیں گے لیکن کیسے؟”

جس نئے مذہب کی بات کی جارہی ہے اس کانہ توکوئی رنگ ہے اورنہ ہی اس کاکوئی ذائقہ اورنہ بوگی۔ابراہیمی مذہب کے حق میں مبلغین یہ کہیں گے کہ وہ لوگوں کے باہمی جھگڑوں اورتنازعات کوختم کردیں گے لیکن درحقیقت یہ اپنی آزادمرضی کے عقیدے اور ایمان کے انتخاب کی آزادی کی دعوت ہے یایوں کہہ لیں کہ اس کی آڑمیں یہ نیامذہب متعارف کروانے کی سازش ہے۔اگرباہمی جھگڑوں اورتنازعات کوختم کرنے کی بات ہےتوکیوں نہیں سب سے پہلے فلسطین کے مسئلے کوحل کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں جہاں یروشلم میں بیت المقدس کاشہران تینوں مذاہب کے ماننے والوں کوہرروزاس خون خرابے کوختم کرنے کی دعوت دے رہاہے۔اس نئے مذہب کے بانیوں کواپنے اس نئے نوبل مقصدکوشروع کرنے کیلئے اس سے بہتراورکون ساموقع مل سکتاہے کہ وہ اپنے نیک ارادوں،خواہشات اوردنیامیں بقائے امن کیلئے اپنے کام کاآغازاس سے شروع کریں۔کیااسرائیل اپنے ان تمام ناپاک عزائم یعنی گریٹراسرائیل اور ہیکل سلیمانی کے ارادے سے بازآنے کااعلان کرے گا؟بیت المقدس توتینوں مذاہب کیلئے ایک انتہائی محترم اورپاکیزہ مقام ہے،کیاویٹیکن والے ان تینوں مذاہب کی نئی شکل”ابراہیمی مذہب”کوتسلیم کرنے کیلئے تیارہیں؟دوسروں کے عقیدے کااحترام کرناایک بات ہے اوراس عقیدے کوماننادوسری بات ہے۔مختلف مذاہب کوایک ساتھ لانے کی دعوت حقیقت اورفطرت کی صحیح سمجھ پیدا کرنے کے بجائے ایک پریشان کن خواب ہے۔تمام مذاہب کے لوگوں کواکٹھاکرناناممکن ہے۔

تاہم لوگوں کے دلوں میں یہ احتمال پیداہونالازمی ہے کہ ابراہیمی مذہب دھوکے اوراستحصال کی آڑمیں ایک سیاسی دعوت ہے جس کامقصداسرائیل کے ساتھ تعلقات کوخاص طورپرعرب ملکوں میں معمول پرلانااوربڑھاناہے۔نئے مذہب کومستردکرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جواسے نظریاتی طورپردرست سمجھتے ہیں لیکن اسے خالصتاًایک سیاسی کیمپ کے طورپردیکھتے ہیں،لفظ”ابراہیمیہ” کااستعمال اوراس سے متعلق تنازعہ گزشتہ سال ستمبرمیں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ رشتوں کومعمول پر لانے کے معاہدے پردستخط کے ساتھ شروع ہواتھا۔امریکااوراس وقت کے صدرڈونلڈ ٹرمپ اوران کے داماد اورمشیرجیرڈکشنرکے زیراہتمام اس معاہدے کو”ابراہیمی معاہدہ”کہاگیا۔معاہدے پرامریکی محکمہ خارجہ کے اعلامیے میں کہاگیاتھاکہ”ہم تین ابراہیمی مذاہب اورتمام انسانیت کے درمیان امن کوآگے بڑھانے کیلئے بین الثقافتی اوربین المذہبی مکالمے کی حمایت کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

یہ پیراگراف”نارملائزیشن آف کنڈیشنزایگریمنٹ”کے ابتدائی حصے میں شامل ہے۔اس معاہدے کے بانیوں نے بڑی محنت کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کومعمول پرلاناخالصتاًسیاسی یااقتصادی معاہدہ نہیں بلکہ اس کاثقافتی مقصدبھی تھا۔ اس کے بعدہی مختلف ممالک کے مختلف فرقوں کے لوگوں کے درمیان مذہبی رواداری اورباہمی مکالمے کے بارے میں بات چیت شروع ہوئی جوبعدمیں”ابراہیمی مذہب”کے نام سے مشہور ہوئی۔

ٹرمپ نے معاہدۂ ابراہیمی کے ذریعے اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کراکے کوئی نیایاانوکھاکام نہیں کیا،1978 ءاور1979ء میں اس وقت کے امریکی صدرجمی کارٹرنےمصرکواسرائیل کاوجود تسلیم کرنے پرراضی کیاتھااوراس سلسلے میں کیمپ ڈیوڈمعاہدے پراس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم مناہم بیگن اورمصرکے صدرانورسادات نے دستخط کیے تھے۔اُس موقع پرجمی کارٹر نے کہاتھا’’اچھاہے کہ اب ہم جنگ کوایک طرف رکھ دیں۔ آئیے،ہم ابراہیم علیہ السلام کے بچوں کونوازیں جومشرقِ وسطیٰ میں جامع امن کیلئےترس رہے ہیں۔اب ہم مکمل انسان،مکمل پڑوسی اورمکمل بہن بھائی بننے کی حقیقت سے لطف اندوزوسرفرازہوں‘‘۔

1993ءمیں امریکی ایوانِ صدرمیں اوسلومعاہدے پرفلسطینی لیڈریاسرعرفات اوراس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم یزاک رابن کی طرف سے دستخط کیے جانے کے موقع پرامریکی صدربل کلنٹن نےکہاتھا’’اس موقع پرہمیں یادکرناچاہیے کہ اب تمہاری سرزمین پرتشددکی چیخ سنائی نہیں دے گی اورنہ ہی تمہاری سرحدوں کے اندرتباہی وبربادی ہوگی۔ابراہیم علیہ السلام کے بچے،اوراسحاق واسماعیل علیہم السلام کی اولادیں،مل کرایک نئے جرأت مندانہ سفرپرنکلے ہیں ۔ آج ہم دل اورروح کی گہرائیوں سے دونوں کومبارک باددیتے ہوئے مکمل سلامتی کی نویدسناتے ہیں‘‘۔

مگرٹھیک ایک سال بعد1994ءمیں امریکاہی کی وساطت سے اسرائیل اوراردن کے درمیان تعلقات معمول پرلائے جانے کےمعاہدے پردستخط کے وقت بل کلنٹن نے ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ نہیں دیاتاہم یہ ضرورکہاکہ’’ایک نسل کے اس امن کے طلوع ہونے کے وقت اس قدیم مقام پرہم تاریخ کی عظمت کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں اوراردنیوں کے مذہب کابھی جشن منارہے ہیں۔‘‘ساتھ ہی ساتھ انہوں نے قرآن کی آیات اوریہودیت کی مقدس کتب کے حوالے بھی دیے تھے۔بل کلنٹن نے ضمنی طورپرابراہیم علیہ السلام کاذکرکیاتھاجس پراردن کے شاہ حسین نے کہاتھا’’جب تک ہم زندہ ہیں تب تک اس دن کویادرکھیں گے اوراردنیوں،اسرائیلیوں،عربوں،فلسطینیوں اور ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاداوراُن کی آنے والی نسلیں اس دن کو یادرکھیں گی‘‘۔ 1997ء میں جب شاہ حسین اورنیتن یاہوکے درمیان اختلافات نے شدت اختیارکی توشاہ حسین نے ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ دیتے ہوئے اُنہیں لکھا’’سب سے تکلیف دہ حقیقت مجھ پراس نکتے کامنکشف ہوناہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولادکے درمیان حتمی نوعیت کی مفاہمت کے قیام کے فریضے سے سبکدوش ہونے کیلئےمیں آپ کواپنے ساتھ نہیں پارہاہوں‘‘۔

ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ دیے جانے کاتعلق چندبرسوں کے دوران مغرب میں پروٹسٹنٹ اوراستشراقیت پسندحلقوں کی وضع کردہ اصطلاح ’’ابراہیمی مذاہب ‘‘سے ہے،جوتین توحیدی مذاہب کوبیان کرنے کیلئےہے جبکہ اس میں مسلمانوں کو غلط طور پر شامل کیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی روایات میں بھی ابراہیم علیہ السلام کاغیرمعمولی مقام ہے تاہم’’ابراہیمی مذاہب‘‘کی اصطلاح نئی ہے۔یہ اصطلاح عربی کے علاوہ عبرانی میں بھی غیرمعروف اور نامانوس ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انگریزی اصطلاح کا ترجمہ کردیاجاتاہے۔

اس نئے مذہب ابراہیمی کی آڑمیں اسرائیل کے ساتھ حالات کومعمول پرلانے کی کوششوں کوتیزکرنے اورفلسطین کے مسئلے کومکمل طورپربھول جانے کی واضح علامات موجودہیں بلکہ اب توخدشہ اس بات کابھی بڑھ گیاہے کہ”گریٹراسرائیل”کے منصوبے کودرپردہ دوستی کے لبادے میں ہی آگے بڑھایاجائے گا۔میں اپنے کئی ایک ٹی وی پروگرامزاورمضامین میں گریٹراسرائیل کی تمام وہ تفصیلات جواسرائیل میں بچوں کوپڑھائے جانے والے نصاب میں شامل ہیں،آپ سے شئیر کر چکا ہوں۔کیا ہمارے یہ عرب حکمران اپنے اقتداراوردولت کوبچانے کیلئے گریٹراسرائیل سے ناواقف ہیں کہ یہودی اپنی سرحدیں کہاں تک بڑھانا چاہتے ہیں جس میں خاکم بدہن مدینہ منورہ بھی شامل ہے اور دوسری جانب شام، لبنان،عراق،مصر اورسوڈان سے آگے ان کی سرحدیں بنانے کا پروگرام ہے اوردوسری طرف مکارہندواس بات کادعویٰ کرتاہے کہ بحرہندکے کنارے جن ملکوں کوچھوتے ہیں،وہ دراصل مہابھارت کاحصہ ہیں اوریہ دونوں ریاستیں، یعنی یہودوہنودکی سرحدیں آپس میں مل جائیں گی اوریہی ورلڈآرڈرتشکیل دینے والے یہودی ہنری کسینجرکاوہ مکروہ پلان ہے جس پر عملدر آمدجاری ہے۔عراق ایران جنگ اوراس کے بعدمسلسل عرب بہارکے نام پرلیبیااوردیگرممالک کوتاراج کردینااسی پالیسی کاحصہ ہے جس میں بدقسمتی کے ساتھ چندعرب حکمرانوں کوبھی شامل کرلیاگیاہے۔

اب متحدہ عرب امارات پر سوشل میڈیا سائٹس پر ابراہیمی مذہب کی تشہیر شروع ہوچکی ہے۔ بہت سے لوگوں نے ابراہیمی مذہب سے متعلق کال کوابراہیمی فیملی ہاؤس سے بھی جوڑاہے جو2019کے اوائل میں دبئی کے حکمران محمدبن زایدنے ابوظہبی میں”پوپ فرانسس اورشیخ الاظہراحمدالطیب کے مشترکہ تاریخی دورے کی یادگار”بنانے کے لیے قائم کرنے کاحکم دیاتھا۔ یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کے معاہدے سے ڈیڑھ سال قبل ہواتھا۔ ابراہیمی فیملی ہاؤس میں ایک مسجد،ایک چرچ اوریہودیوں کی عبادت گاہ بنائی گئی ہے،جسے 2022میں عام لوگوں کیلئے کھولاجائے گا۔اس کی تشہیر کرنے والوں میں متحدہ عرب امارات کی شیخ سلطان بن زیدمسجد کے مولوی وسیم یوسف بھی شامل ہیں حالانکہ اس کوکویت کے مشہورمذہبی رہنماعثمان الخمیس نے شدیدتنقیدکانشانہ بنایاتھا۔”ابراہیمی معاہدے”پردستخط اور’نئے مذہب‘ کی بحث کے بعدمذہب اسلام کے علمااوررہنماؤں نے اسے مستردکرناشروع کردیا ہے۔ طارق السویدان جیسے کچھ مذہبی رہنمانے اس کاموازنہ توہین رسالت سے کیاہے۔ اس لئے یہ معاہدہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا،اسے نہ توعیسائی پیشوا ویٹیکن والے تسلیم کریں گے اورنہ ہی سخت گیریہودیوں کا وہ ٹولہ جواس وقت اسرائیل کوکنٹرول کررہاہے،اس کوتسلیم کرے گاکیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دین ابراہیمی کے ماننے والے دونوں مذاہب عیسائی اوریہودی اپنی دینی تعلیمات میں ایک دوسرے سے نہ صرف شدیدنفرت اوردشمنی رکھتے ہیں بلکہ برسوں برسرپیکارجنگوں میں کشت وخون بہاتے آئے ہیں رہ گئی بات اسلام کی تواس سلسلے میں قرآن کے واضح احکام سے کوئی بھی روگردانی کرکے ایمان سے خارج ہونے کی جرات نہیں کرسکتا۔بہت جلدیہی سازشی عناصراپنے ہی ہاتھوں سے اس دین ابراہیمی کےغبارے کوپھوڑدیں گے ان شاءاللہ۔اللہ کے اس فرمان کوایک مرتبہ غورسے پڑھ کردل میں اتارلیں کہ میرے رب نے اس آِت کوقرآن کی تین سورتوں میں من وعن نازل فرمایاہے کہ :
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دینوں پرغالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(سورۃ التوبہ:33،الفتح :28الصف:9)
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

اپنا تبصرہ بھیجیں