اسلام کوعلامہ اقبال نے دورِحاضرمیں ایک ایسے ضابطہ حیات کی حیثیت سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے جس میں فکری،علمی اورعملی ہرحیثیت سے ہردورمیں انسان کی ہدائت کی صلاحیت اورتوانائی موجود ہے۔انہوں نے اسلام کو ایک زندہ نظامِ حیات کی حیثیت سے پہلے خود از روئے ایمان وعلم سمجھااورپھراسی فکرکواپنے فن کے وسیلے سےعام کرنے کی جہدِمسلسل میں مصروف ہوگئے۔شعرأکے افکارکے بارے میں عام طورپرایک تاثریہ ہوتاہے کہ ان میں کشش تو ہوتی ہے لیکن زندگی کے حقائق کامقابلہ کرنے کی تاب وتوانائی عطاکرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ علامہ اقبال نے اس کلئے کوغلط ثابت کردیا۔وہ نہ صرف بہت بڑے شاعر تھے بلکہ بہت بلندسطح کے مفکربھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی عطاکہ انہوں نے اپنے فکروفن کوکلیتاًاپنے ایمان کی توانائی کے تابع کرلیاتھا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں پاکستان کے قیام کاواقعہ غیرمعمولی اہمیت کاواقعہ ہے اورقیامِ پاکستان میں فکرِاقبال کی توانائی اور قائداعظم کی قیادت کی صداقت اوردیانت نے کلیدی کرداراداکیا ہے۔برصغیرکے مسلمانوں کوآزمائشوں سے گزرناپڑالیکن وہ آزمائشیں ان کیلئے پست ہمتی کانہیں بلکہ عزمِ تازہ پیداکرنے کاوسیلہ بنتی چلی گئیں۔مسلمانوں میں دینی شعوربیداررکھنے میں علماء، اہل علم ودانش اورسیاسی رہنماؤں سمیت مؤثراورمثبت کردارسب نے اداکیاہے لیکن منزل کاتعین کرنے اورپھر جذبہ ایمان کے تحت وحدت فکروعمل کے وسیلے سے اسے حاصل کر لینے میں فکرِاقبال کابڑاکلیدی کردارہے۔اقبال جہاں بہت بڑے شاعراور اسی سطح کے مفکرتھے وہاں ان کے خطبات نے خصوصاًخطباتِ مدارس نے ہماری فکری بیداری کی تاریخ میں بہت مؤثرکرداراداکیاہے،اورپھریہ بھی حقیقت ہے کہ”دل سے جوبات نکلتی ہے اثررکھتی ہے”۔اقبال کی قلبی بے قراری کاان کے فکروفن میں بھرپوراظہارموجودہے!
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوزوسازرومی کبھی پیچ وتاب ورازی
ان کی بے چینی محدودنوعیت کی نہیں تھی۔وہ دیکھ رہے تھے کہ بھرپورمادی ارتقاءکے مراحل طے کرنے والاانسان اس حقیقی روشنی سے محروم ہے جواسے رازِحیات سے آشناکرتی ہے
ڈھونڈھنے والاستاروں کی گزگاہوں کا
اپنے افکارکی دنیامیں سفرکرنہ سکا
انہی حکمت کے خم وپیچ میں الجھاایسا
آج تک فیصلۂ نفع وضررکرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کوگرفتارکیا
زندگی کی شبِ تاریک سحرکرنہ سکا
دورِحاضرکے انسان کایہ سب سے بڑاالمیہ ہے کہ:
ہوفکراگرخام توآزادیٔ افکار
انساں کوحیران بنانے کاطریقہ
ایمانی توانائی نے اقبال کوساری انسانیت کیلئے فوزوفلاح کااندازِفکرعطاکیاتھالیکن اس کیلئے ایک عملی مثال کی بھی ضرورت تھی اوروہ ازروئےایمان یہ سمجھتے تھے کہ انسانیت کواسلام کے سوا کہیں اورامن وسلامتی نہیں مل سکتی،اسی لئے دور اسی لئے دورِحاضرمیں ایک ایسے نظامِ اجتماعی کے قیام کے آرزومند تھے جوبلامذہب وملت ساری انسانیت کیلئے امن وسلامتی کاوسیلہ بن جائے اور اس مقصدکیلئے برصغیرمیں مسلمانوں کی ایک آزادوخودمختارحکومت کے قیام کی آرزوان کا مقصدبنی کیونکہ انہیں اس حقیقت ادراک تھالیکن اسلام کی وحدت خیرقوت کابہترین اظہاربرصغیرمیں ہواہے۔اقبال کی فکرو فن کی بنیادکیونکہ ایمانی توانائی پر تھی اس لئے اس میں بڑاگہراداخلی ربط پایاجاتاہے۔وہ احترامِ آدمیت کے علمبردارہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امکانی طورپرہرانسان کومحض آزاد ہی”قابلِ تکریم”پیداکیا۔اس اصول کے تحت وحدتِ نسلِ انسانی پرایمان ضروری ہوجاتاہے اورمردہ فکرو عمل جواس وحدت کے برعکس ہیں وہ باطل طاقتوں کے مقاصدکی تکمیل کاوسیلہ بن جاتاہے۔
علامہ اقبال محض جذباتی بنیادپراسلام سے وابستہ نہیں،وہ وابستگی گہرے علم اورتاریخی شعورکی بنیادوں پرہے۔علامہ اقبال نے بالکل درست کہاہے کہ اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ ایک ریاست ہے اورغورکیاجائے تویہ بنیادی اہمیت کی بات ہے۔دنیاکے دیگرمذاہب کے ماننے والے زندگی کے سارے معاملات کواپنے مذہبی عقائدسے الگ رکھتے ہیں،یہ ان کی مجبوری ہے۔ان افکارواعمال سے جن کووہ مذہب کی بنیادسمجھتے ہیں،ان لوگوں کوزندگی کے معاملات اورمسائل میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی،اس لئے انہوں نے زندگی کودوحصوں میں تقسیم کرلیاہے،مذہب الگ اورریاست الگ…….!یہ روش غیرمسلمانوں کیلئے درست ہوسکتی ہے لیکن مسلمانوں کیلئے ہرگزدرست نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہادیٔ برحق رسول کرمﷺ نے اسلام کوایک مکمل ریاستی نظام کی صورت میں عطاکیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشوائیت نہیں ہے کیونکہ جہاں پیشوائیت ہوگی وہاں سیکولرازم لازمی طورپرآئے گا۔
معاشرتی زندگی نظامِ حکومت کے بغیربسرنہیں ہوسکتی۔قائد اعظم نے جب یہ کہاتھاتواس کامطلب یہی تھاکہ اسلام میں مذہبی پیشوائیت کاالگ کوئی تصورنہیں ہے بلکہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہونے کی حیثیت سے ایک نظامِ ریاست بھی ہے۔یہ حقیقت اسلام کے نظام کی تفہیم پرمبنی ہے اوراقبال کے خطبات اوران کی شاعری دونوں میں اس کی بھرپور جھلک موجود ہے۔قائد اعظم نے علامہ اقبال کیلئے”مائی گائیڈاینڈفلاسفر” کے جوالفاظ استعمال کئے تھے وہ حقیقی مفہوم رکھتے تھے۔قیامِ پاکستان کے ساتھ ہم سب پرچندخصوصی ذمہ داریاں عائدہوگئیں ہیں۔قیامِ پاکستان کوئی تاریخ کا”حادثہ یااتفاق” نہیں ہے۔اس ملک کا قیام دورِحاضرمیں حقیقی معنوں میں عالمگیرسطح اسلام کے احیاءکی علامت ہے۔
یہی ہماری توانائی بھی ہے اوریہی ہمارے مسائل کاسبب بھی۔ہمیں اس حقیقت کواوراس کے پس منظرمیں اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف سمجھنابلکہ ہمہ وقت ہرسطح پراپنے پیشِ نظربھی رکھناچاہئے۔ہمارے فکری،علمی اورتاریخی اثاثے بہت ہیں۔ایسی دولت دنیامیں کسی دوسری قوم کومیسر نہیں اوراس دولت کی خصوصیت میں ہے کہ وہ تاریخ کاحصہ نہیں،ہردورمیں ہمارے فکروعمل کیلئے مہمیزکاکام کرسکتی ہے۔خودپاکستان کاقیام، اس کااستحکام اوراس کی علاقائی اورجغرافیائی اہمیت اس حقیقت کاسب سے بڑاواضح ثبوت ہے۔
علامہ اقبال کایومِ پیدائش یایومِ وفات ہمارے لئے ایک محض رسم کی ادائیگی کی صورت اختیارکرتے جارہے ہیں۔رسم بھی اہم ہوتی ہے کیونکہ وہ حقیقت تک پہنچنے میں وسیلہ بنتی ہے لیکن یہ بات ہمارے لئے توجہ کاسبب بننی چاہئے کہ قائداعظم ،علامہ اقبال اوردیگرزعماءکی یادیں رسم کیوں بن رہی ہیں۔جس طرح ہم اپنی جسمانی صحت کاخیال رکھتے ہیں ہمہ وقت اسی طرح ہمیں اپنی”ایمانی صحت”کاخیال بھی رکھناچاہئے،کیونکہ ایمان کے بغیرانسان اورحیوان کے جسدِخاکی ایک جیسے ہوتے ہیں۔
رہے نام میرے رب کا جس نے عزت کامعیارتقویٰ میں رکھاہے!
یہ افسردہ اورپریشان بابااقبال کہاں یادآگئے!
آزادکی رگ سخت ہے مانندرگ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے ما نندرگ تاک
محکوم کا د ل مردہ و افسردہ و نومید
آزادکادل زندہ وپرسوزوطرب ناک