جنوبی ایشیامیں ممکنہ جنگ کے بادل

:Share

گزشتہ سال خاصہ ہنگامہ خیزرہا،بھارت اورچین کے درمیان سرحدپرچاردہائیوں کی سب سے خونی جھڑپ ہوئی،رواں برس کے آغازمیں دونوں ممالک نے لداخ کے علاقے سے فوجیں پیچھے ہٹانے پراتفاق کیا۔اس معاہدے سے مسلح تصاد م کافوری خطرہ کم ہوگیالیکن تناؤ برقرارہے اورکسی بھی وقت تنازع پھرسراٹھاسکتا ہے جیساکہ بھارتی وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکرنے2020ءمیں چین اوربھارت کے تعلقات کوانتہائی پریشان کن قرار دیا ۔ 2015ءمیں ہنگامی منصوبہ بندی میمورنڈم (سی پی ایم)نے امریکی سیکورٹی مفادات کے حوالے سے چین اوربھارت کے درمیان فوجی تصادم کے خطرے کواجاگرکیاتھا۔یہ خطرہ ابھی تک باقی ہے اوراس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔

2015ءمیں سی پی ایم نے اندازہ لگایاکہ چین اوربھارت کے تعلقات کافی حد تک مستحکم ہیں اوردونوں کے درمیان بظاہرفوجی تصادم کا امکان نہیں ہے۔دونوں فریقوں نے تجارت اورسرمایہ کاری کے بڑھتے تعلقات پرسرحدی تنازع کاکوئی اثرپڑنے نہیں دیااورسرحدی معاملات کوبروقت بہتر اندازمیں حل کرلیااس کے باوجودسی پی ایم مضطرب ہے کہ غیرحل شدہ تنازعات بیجنگ اورنئی دہلی کے درمیان قائم امن کیلئےگھمبیرچیلنج بن سکتے ہیں۔کسی بھی ایک جگہ تنازع کے نتیجے میں دونوں ممالک کے سیاسی اوراسٹریٹجک مفادات داؤ پر لگیں ہیں اورپھربحران کے دوران انٹیلی جنس اکٹھاکرنا،فیصلہ سازی کرنااورتشددسے بچنے کیلئےاقدامات کرنا انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔ گزشتہ18برس سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پرغیرمسلح جھڑپیں،جارحانہ گشت اوراشتعال انگیزفوجی تعمیرات کاسلسلہ جاری تھا،جس کے نتیجے میں2020ءمیں چین اوربھارت میں خونی تصادم کی فضامکمل طورپرسازگارہوچکی تھی۔2019ءکے ابتدامیں بھارت اورپاکستان تعلقات میں کشیدگی کااثربھی بیجنگ اورنئی دہلی تعلقات پرپڑاکیونکہ پاکستان چین کاقریب ترین شراکت دارہے۔

اگست2019ءمیں بھارت کی جانب سے جموں وکشمیرکی آئینی حیثیت کی اچانک تبدیلی نے چین اورپاکستان کے ساتھ علاقائی تناؤکوبڑھاوا دیا تھا۔جس کے نتیجے میں بھارت کی دفاعی ضروریات میں اضافہ ہوگیا۔2020ءمیں کوروناوائرس کی وبائی بیماری نے بھارتی معیشت کو سخت نقصان پہنچایااوررہی سہی کسرپچھلے چندماہ نے نکال دی ہے جوابھی جاری ہے جس کی وجہ سے باہمی تصادم میں اضافہ ہوااور چین بھارت تجارتی اورسفارتی تعلقات کے مستقبل پرسوالات اٹھنے لگے۔

مستقبل میں چین اوربھارت کے درمیان تناؤبرقراررہنے بلکہ تنازع مزیدبڑھنے کاامکان زیادہ ہے۔اپنی زمینی سرحدوں پردونوں ممالک فوجی حکمت عملی کے تحت ایک دوسرے پربرتری حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اورپچھلے ناکام معاہدے اورکشیدگی کم کرنے کے موجودہ معاہدے پرعمل پیرارہیں گے۔چین اور بھارت کے فوجی عزائم میں کمی آنے کاکوئی امکان نہیں جودونوں ملکوں کی مسلح افواج کوتصادم کے قریب لے جائے گا۔2020ءمیں شدیدکشیدگی کے دوران شمالی بھارت کی سرحد پردونوں جانب سے ہزاروں فوجیوں کوتعینات کیاگیاتھا۔بھارت نے رواں برس کے آغاز میں چینی خطرے کے پیش نظرپاکستانی سرحدپر تعینات اسٹرائیک کورکی تنظیم نوکے منصوبے کااعلان کیاہے۔اس سے چین کے حوالے سے بھارت کے مستقبل کے رویے کاپتاچلتاہے۔رواں برس کے آغاز میں پاکستان اوربھارت نے ایل اوسی پرجنگ بندی کااعلان بھی کیا، لیکن اس کے باوجود نئی دہلی چین اورپاکستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت کے پیش نظرمحتاط رہے گا۔گزشتہ برس پاکستان اوربھارت کے درمیان2020ءکے بعدایل او سی پرشدیدترین شیلنگ کاتبادلہ ہوا۔دونوں جانب سے اعلیٰ فوجی افسران کے مفاہمتی بیانات کے بعدجنگ بندی عمل میں آئی لیکن مستقبل میں پاکستان اوربھارت کے درمیان کسی تنازع کے نتیجے میں اس میں چین کے ملوث ہونے کابہت زیادہ امکان موجودہے۔

بھارت کی جانب سے1971ءکے بعد پہلی بارسرحدپارحملے کیے گئے،بھارتی پائلٹ کی گرفتاری پراعلیٰ بھارتی اہلکارنے ایٹمی صلاحیت کے حامل میزائل استعمال کرنے کی دھمکی دی لیکن پاکستان کی جانب سے اعلانیہ منہ توڑجوابی فضائی حملے نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیاکواہم پیغام پہنچا دیا۔اگرچہ دونوں ممالک نے کسی طرح اس کشیدگی پرقابوپالیالیکن اس واقعہ سے واضح ہوگیاکہ مستقبل میں کسی تنازع کے نتیجے میں دونوں جانب سے اپنے مقاصد کے حصول کیلئےمزید طاقت کے استعمال کاخطرہ بڑھاہے۔

حالیہ برسوں میں چین اورپاکستان کے بڑھتے اسٹریٹجک تعلقات کے پیش نظرمستقبل میں دہلی اوراسلام آبادکے تنازع میں بیجنگ کی شمولیت کا امکان ہے۔چین پاک اقتصادی راہداری پرچین کی جانب سے اربوں ڈالرسرمایہ کاری کی گئی ہے۔سی پیک منصوبے پاکستان کے متنازع علاقوں میں جاری ہیں۔بیجنگ نے2019ء کے بحران میں بھارت کی اشتعال انگیزی کی مذمت کرتے ہوئےاسلام آبادکامؤقف تسلیم کر لیاکہ بھارت کومستقبل کی جارحیت سے روکنے کیلئے مؤثراقدامات کی ضرورت ہے۔مزیدیہ کہ پاکستان کی طرح چین بھی بھارتی کشمیر کے کچھ حصوں پردعویٰ کرتاہے اوراسی لیے اگست2019ءمیں کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پرتنقیدکر چکاہے۔اگربھارت اورپاکستان کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں،جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہیں توایک اور بحران چین اورپاکستان کوبیک وقت بھارت کے خلاف کھڑاکر سکتاہے۔بحران کی پیچیدگی میں مزیداضافہ کرتے ہوئے چین اوربھارت نے 2020ء میں سرحدی کشیدگی کودوطرفہ تعلقات کے دیگرشعبوں تک بڑھادیا۔اس اقدام کامقصداپنے عزائم کااظہارتھا۔

بھارت نے جون2020ءمیں جنوبی بحیرہ چین میں جنگی جہازتعینات کیے،جس پرچین کی جانب سے فوری اعتراض کیاگیا،اس کے ساتھ بھارت نے وی چیٹ اور ٹک ٹاک جیسی چینی ایپلی کیشنزپرپابندی لگائی اورچینی کمپنیوں کی بھارت میں حساس منصوبوں میں شرکت کو محدودکردیاجس کے جواب میں چینی ہیکروں نے اکتوبر2020ءمیں ممبئی کے الیکٹرسٹی نظام پرسائبرحملہ کرکے شہرمیں بلیک آؤٹ کر کے یہ پیغام دیاکہ بھارت کو کبھی بھی مفلوج کیاجاسکتاہے۔اگرچہ دونوں جانب سے اس طرح کے اقدام کامقصدمزیدسرحدی فوجی تصادم سے بچناتھالیکن اس سے پتالگتاہے کہ مستقبل کے بحران کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دیگرشعبوں میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے،یعنی دونوں جانب سے تحمل کے مظاہرے کاامکان کم ہے۔مثال کے طورپرمستقبل میں بھار ت کی حساس تنصیبات پرچینی سائبرحملہ بھارتی رہنماؤں پرشدید عوامی دباؤڈالے گالیکن یہ اندازہ لگانامشکل ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں یاامن کوترجیح دیں گے۔اسی طرح اگربھارت چینی تجارت اورسرمایہ کاری میں نئی رکاوٹیں کھڑی کرتاہے توچین اس کاسخت جواب دے سکتاہے،جیسے بھارت کی دواؤں کی صنعت کواہم خام مال کی فراہمی روکنا۔2015ءمیں سی پی ایم نے چین اوربھارت کے درمیان دیگرتنازعات کی نشاندہی کی،جوکسی سرحدی تنازع کے ساتھ ہی بیک وقت بھڑک سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں