بنگلہ دیش حکومت کے نام نہاد”خصوصی ٹریبونل”نے یکم ستمبرکو ”ہیومن رائٹس واچ”کوتوہین عدالت کے تحت کاروائی کانوٹس جاری کرتے ہوئے”چورمچائے شور، لگا کر پورا زور” کی رسم توپوری کی لیکن اس عمل سے ان کی اپنی تذلیل میں مزیداضافہ ہوگیاہے۔گزشتہ ماہ نیویارک میں صدردفتررکھنے والی تنظیم(ہیومن رائٹس واچ)کی جانب سے ایک بیان جاری کیاگیاتھاجس میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیربزرگ دینی وسیاسی رہنما پروفیسرغلام اعظم کوبنگلہ دیش ٹریبونل نے نوے سال قید کی جس سزاکاحکم سنایاتھااس میں سنگین ترین قانونی اغلاط کی جانب توجہ دلائی گئی اوراس بہیمانہ سزاکی شدیدترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔بیان میں غیرمبہم طورپرکہاگیا ”ٹریبونل کی طرف سے سنائی گئی سزا،مقدمات کے قیام،سماعت اور فیصلوں کے صدروکے حوالے سے متعین عالمی معیارات پرپوری نہیں اترتی۔ہیومن رائٹس واچ کے بیان میں کہاگیاکہ ٹریبونل کے ججوں نے استغاثے کے ایماء پرتحقیقات نے نامناسب کاروائی کی۔استغاثے اورٹریبونل میںپائے جانے والے تعصب کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے دیا”۔
”توہین عدالت”کی درخواست استغاثہ کی جانب سے دائرکی گئی جس میں ہیومن رائٹس واچ کے بورڈآف ڈائریکٹرزکے ارکان بالخصوص اس کے ایشیائی ریجن کے ڈائریکٹربراڈ ایڈمزاوراس کے ایسوسی ایٹ اسٹارم ٹوکونامزدکیاگیا۔بنگلہ دیش میں امریکی سفیرڈین موزینانے گزشتہ ماہ اس درخواست کے دائرکئے جانے کے فوری بعداس اقدام پرگہری تشویش ظاہرکی اورکہااس قسم کی عالمی تنظیموں کوانتہائی اہم اورنازک کردارادانبھانا ہوتاہے ۔توہین عدالت کی درخواست اوراس پرکاروائی پرمیرے ملک (امریکا)کوشدیدتحفظات ہیں۔
چندبرسوں سے بنگلہ دیش میں مسلسل ایسی کاروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں جن کاہدف بنگلہ دیش جماعت اسلامی اوربی این بی کے رہنماؤں کوبنایا جارہاہے۔ایک نام نہاد اورخود ساختہ انٹرنیشنل ٹریبونل بناکردونوں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کوگرفتارکرکے ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جارہے ہیں۔انصاف کے تمام بنیادی تقاضوں کوصریحاًنظراندازکرکے ان رہنماؤں کاحق ِ دفاع پامال کیاجارہاہے۔جماعت اسلامی کے جن رہنماؤں کوسزائیں سنائی گئیں ان پرپورے ملک بلکہ پوری دنیامیں شدیدردعمل ہوا، بنگلہ دیش توایک طرح سے نذرِ آتش ہوکررہ گیاکیونکہ سب جانتے ہیں کہ پروفیسر غلام اعظم،مولاناابوالکلام،مولانادلاورحسین سعیدی اورعبدالقادرملاایسے صاحبِ علم اورمتقی حضرات کادامن ان الزامات میں ملوث ہوہی نہیں سکتا۔
صرف ایک مثال میں ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ مولاناعبدالقادرملانے بنگلہ دیش کے قیام کے فوری بعدڈھاکہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے بنگلہ دیش رائفلز میں جو ایک غیر سرکاری نیم فوجی تنظیم ہے ،شرکت کی۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ ان کے جرائم میں مبتلاہونے کی کوئی خبر۱۹۷۱ ء کے معاًبعدکے زمانے میں کسی کونہ تھی اور اب ۴۲سال کے بعدحسینہ واجد حکومت کے کاندوں کوالہام ہوگیااورنام نہادٹریبونل نے ان پرچھ الزامات عائدکرتے ہوئے عمرقید کی سزاسنادی۔انہوں نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی تاہم عدالت نے اب ان کی سزائے قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
علامہ دلاورحسین سعیدی بنگلہ دیش کے ایک انتہائی معتبرومحترم عالم دین اورشہرہ آفاقی مقرراورمبلغ ہیں ۔۱۹۷۱ء میں ان کاجماعت اسلامی سے
کوئی تعلق نہیں تھا،وہ کبھی بھی کسی غیر قانونی اورغیراخلاقی کاروائی میں بالواسطہ یابلاواسطہ ملوث نہیں پائے گئے ۔جماعت اسلامی کی دعوت سے وہ نظریاتی حوالے سے ۱۹۷۵ء میں روشناس ہوئے اورجماعت کی بحالی کے بعد۱۹۷۹ء سے اس کے سرگرم رکن رہے اورسیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے بعدازاں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پرپارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔یہ حقیقت ہرذی شعور تسلیم کرے گاکہ ان اصحاب ِ گرامی کو صرف اورصرف ظلم اورسیاسی انتقام کانشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
اس مسئلے کی اصل نوعیت کچھ یوں ہے کہ جنگی جرائم کاتعلق ان جرائم سے ہے جوحالت جنگ میںبھی جنگ کے مسلمہ اسباب وحدودکوپامال کرکے انجام دیئے جائیں، اس لئے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم قراردیاجاتاہے اوران کولڑائی کے دوران میں معروف حدودمیں ہونے والے قتل اور تباہی سے ممتازکیاجاتاہے۔اس طرح نسل کشی بھی ایک متعین جرم ہے جس میں ایک خاص نسل،مذہب قومیت یابرادری سے تعلق کی بناء پرظلم وستم کاہدف بنایاجائے،بلاجوازقتل کیاجائے یاتشددکانشانہ بنایا جائے۔یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ بے سروپااورلغوالزامات کا سامناکسی بھی آزاداورغیرجابدارعدالت میںکیاجاسکتاہے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس امرکاواضح اعلان کیا ہے کہ بحیثیت جماعت یااس کا کوئی بھی ذمہ داراس نوعیت کے کسی بھی جرم کامرتکب نہیں ہواالبتہ جماعت نے اس کابرملا اعتراف کیاہے کہ اس نے پاکستان پربھارتی افواج کے ناجائزحملے وجارحیت اورمشرقی پاکستان میں بھارتی” را”کی پروردہ مکتی باہنی کی عسکری اورتخریبی کاروائیوں کے دوران پاکستان کادفاع کیااوراس زمانے میں بارباریہ بھی اعلان کیا کہ مسئلے کاکوئی فوجی حل نہیں۔
شیخ مجیب الرحمان نے بھی بنگلہ دیش کے قیام کے بعدجنگی جرائم کے مرتکبین کے حوالے جوقوانین بنائے ،ان میں جنگی جرائم اورحکومت پاکستان کاساتھ دینے والوں میں فرق کیااور دونوں کیلئے ۱۹۷۲ء میں دوالگ الگ قانون نافذکئے۔۱۶دسمبر۱۹۷۱ء تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے،ان کی سیاسی پوزیشن کے بارے میں پاکستانی کی سیاسی جماعتیں اورعوامی لیگ الگ الگ رائے رکھتے ہیں اوردنیاکی تاریخ میں ایسے واقعات اورحادثات کے موقع پریہ بالکل فطری بات ہے لیکن سیاسی مؤقف کے اس اختلاف کوجنگی جرائم سے خلط ملط کرنا،قانونی،سیاسی اوراخلاقی ہراعتبارسے ناقابل قبول ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک نئی سیاسی حقیقت کے رونماہونے سے پہلے اوراس کے بعدکے معاملات کوسیاسی تناظرمیں لیاجاتاہے۔اس کے سواکوئی دوسرارویہ صریحاً ناانصافی ہوگا۔
دوسری طرف بنگلہ دیش کے اس نام نہادٹریبونل کی بلی اس وقت تھیلے سے باہرآگئی جب بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماعبدالقادرملاکی عمرقیدکوسزائے موت میں تبدیل کردیاتو اس فیصلے کی حمائت میں بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ کے انتہائی مصروف علاقہ شاہ باغ میں مظاہرہ کااہتمام کیاگیاجس کو بھارت کی بھرپور حمائت حاصل تھی۔یہ انکشاف کسی بنگلہ دیشی یاکسی پاکستانی میڈیانے نہیں بلکہ خود بھارت کے ایک بڑے اخبار”ٹائمزآف انڈیا”نے کیاہے۔بھارتی اخبار لکھتاہے کہ انڈیا کے مشیرقومی سلامتی شیوشنکرمینن اوروزیرخارجہ سلمان خورشید نے ان مظاہرین کی پرزورحمائت اوریکجہتی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت خوش ہیں ادھرعالمی شہرت یافتہ ریسرچ سکالرڈاکٹرشرمیلا بوس(سبھاش چندربوس کی نواسی)نے بنگلہ دیش میں شائع ہونے والی اپنی کتاب”ڈیڈرینکنگ”میں اب تک پاکستانی فوجیوں پر۱۹۷۱ء پرلگائے گئے بے شمارالزامات کوردکرتے ہوئے تحریر کیاہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ بنگالی قوم پرست بھی شدیدترین انسانیت سوزجرائم میں ملوث تھے۔ پاکستانی فوجیوں پرتیس لاکھ بنگالیوں کاقتل محض ایک افواہ اورپروپیگنڈہ سے زیادہ نہیں اوراب تک اتنی بڑی ہلاکتوں کاکوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اورکسی سرکاری رپورٹ میں بھی اس تعدادکاحوالہ نہیں ملتا۔جنیدقاضی جیسے محققین نے ذرائع ابلاغ میں دیئے گئے ہلاکتوں کے بارہ مختلف اندازے پیش کئے ہیں”۔شرمیلابوس نے مزیدلکھاکہ”سابق مشرقی پاکستان میں۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کی داستان فاتح فریق یعنی بنگالی قوم پرستوں کی طرف سے بیان کی گئی ہے”۔کتاب کے تعارف میں انہوں نے واضح طورپرتحریرکیاہے کہ ”بنگالیوں نے بھی قابل نفرت مظالم ڈھائے ہیں۔ایک مقام پرغیربنگالیوں کی لاشوں سے دریا کاپانی تک رک گیاتھا۔ خواتین اوربچوں کے قتل عام سے دریغ نہیں کیاگیا”۔شرمیلابوس نے کتاب کی تیاری کیلئے جنگ سے متعلق دستاویزی موادکابھرپوراورگہری عرق ریزی سے مطالعہ کیا۔بنگلہ دیش کے معمردیہاتیوں کے بے شمارانٹرویوزکئے اوران پاکستانی ریٹائرڈفوجی افسران کے سامنے بھی چند سوالات رکھے جواس جنگ میں شریک تھے۔
ڈاکٹرشرمیلابوس آکسفورڈیونیورسٹی میں سنیئر ریسرچ سکالرہیں اوروہ بی بی سی کیلئے بھی کام کرچکی ہیں۔ان کاکہناہے کہ” بھارتی ”را”کی تشکیل کردہ مکتی باہنی نے بے بنیاد الزامات لگا کر پاکستانی فوج کو”خوفناک بلا”بناکرپیش کیااوردوسری طرف تمام بنگالیوں کومظلوم ظاہرکیاگیا۔علیحدگی پسند بنگالیوں کے مظالم اورتشددکی نہ صرف نفی کی گئی بلکہ شدت کم ظاہر کرتے ہوئے انہیں درست ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ بنگالی قوم پرستوں کی بغاوت مشرقی پاکستان میں غیربنگالیوں کے خلاف ناقابل برداشت تشددمیں تبدیل ہوگئی ۔ مغربی پاکستان کے شہریوں اوران میں بھی زیادہ تراردوبولنے والوں کونشانہ بنایاگیاجوتقسیم ہندکے وقت بھارت سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے تھے ،جنہیں بہاری کہا جاتا ہے…… بنگالی قوم پرستی کے نام پرہونے والے نسلی تشددمیںغیربنگالی مرد،عورتوں اوربچوں کی ہلاکتیں چاٹگام،کھلنا،سانتاہراور جیسورمیں جنگ کے دوران اوراس کے دس ماہ بعدتک ہوتی رہیں”۔
مصنفہ لکھتی ہیں”نسل پرست قتلِ عام کاشکارہونے والے غیربنگالیوں کوسینکڑوںاوربعض واقعات میں ہزاروں کی تعدادمیں ہلاک کیاگیا۔قتلِ عام میں کوئی تخصیص اور امتیازروا نہیں رکھاگیا۔نہتے لوگوں کوانتہائی المناک حیوانیت سے قتل کیاگیا۔جب پاکستانی فوج ان مظلوم افرادکوبنگالی قوم پرست باغیوں سے بچانے کیلئے پہنچی توبہت سے علاقوںمیں زمین غیربنگالیوں کی لاشوں سے اٹی پڑی تھی اورایک مقام پرلاشوں کی وجہ سے دریاکا پانی تک رک گیاتھا”۔ڈاکٹربوس کہتی ہیں کہ” بعض بدترین مظالم تو بنگالی علیحدگی پسندوں نے اپنے ہی لوگوں پرڈھائے….جنگ کے آخری دنوں میں ظالمانہ کاروائیاں اورمخالف سیاسی طرزِ فکررکھنے والوں کوراستے سے ہٹاناقوم پرست بنگالیوںکاخاصہ رہا اور مکتی باہنی کے ہاتھوں حکومت کے حامیوںکاقتل عام ایک بدترین جرم تھا۔اب بھی بنگلہ دیش میں بھارت نوازایک ایسامائنڈسیٹ گروہ موجودہے جو ۱۹۷۱ء کے حالات کومسخ کرکے بنگلہ دیش کے لوگوں کو پاکستان سے متنفرکرنے کی بھرپورکوششیں جاری رکھے ہوئے ہے ،اس کی واضح مثال اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں ایک فلم جس کو۱۹۷۱ء کے حالات کے پس منظرمیں حقائق کوپیش کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی نمائش محض اس لئے روک دی گئی کہ اس فلم میں ایک بنگالی لڑکی کوایک ایسے پاکستانی فوجی سے عشق کرتے ہوئے دکھایا گیا جس نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کراس کے خاندان کوقوم پرست باغیوں کے چنگل سے آزادکروایاتھا”۔
کیا خوب ہے کہ ہے معتوب وہی، مغضوب وہی مطلوب وہی
تاریخِ بشر کو جس جس نے خون دے کے گل و گلزار کیا