چین نے اکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ کا تصور۲۰۱۳ء میں پیش کیا،جس کے ذریعے بحرالکاہل،جنوب مشرقی ایشیا، بحرہند اور مشرقی افریقا کو جوڑنے کیلئے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا اعلان کیاگیا۔ میری ٹائم سلک روڈ سمندری راستہ ہے،جس سے اقتصادی راہداری کی تکمیل ہو گی،اس منصوبے کے تحت پورے وسط ایشیا میں انفرااسٹریکچر کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ایک مقصد پورے ایشیا میں چین کے اثرو رسوخ کو بڑھانا بھی ہے۔ ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں انفرااسٹریکچر پر سرمایہ کاری کی شدید کمی ہے۔اس لیے خطے کے زیادہ تر ممالک نے چین کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا ہے۔
چین کی پیشکش کے حوالے سے معاشی استحکام اور سیاسی و جغرافیائی ارادوں پر سوالات بڑھتے جارہے ہیں،اس منصوبے کا مقصد بنیادی طور پر بحر ہند کے ممالک کو باہم جوڑنا ہے۔اس منصوبے میں خاص طور پر بندگاہوں کی تعمیر کو اہمیت دی گئی ہے، جس کی وجہ سے سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف معاشی اور سرمایہ کاری کیلئے ہے یا پھر اس کے عسکری مقاصد بھی ہیں۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری وصول کرنے والے ممالک کی قومی اور خارجہ پالیسی پر چین کے ممکنہ اثرات کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کی روشنی میں سی ایس آئی ایس نے ۷ ماہرین پر مشتمل کمیشن قائم کیا ،جو میر ی ٹائم سلک روڈ منصوبے کے تحت بحر ہند میں چین کے ترقیاتی منصوبوں کے معاشی اور جیو اسٹرٹیجک اثرات کا جائزہ لے گا۔ان ماہرین کی تحقیق اس رپورٹ میں پیش کی گئی ہے،اس مضمون میں انفرااسٹریکچر کے۴ منصوبوں کاتجزیہ کیا گیاہے۔جس میں ۳ میر ی ٹائم سلک روڈ کے چینی منصوبے ہیں اورایک اس کے جواب میں بھارتی منصوبہ ہے۔چینی منصوبوں میں میانمارکا ’’Kyaukpyu‘‘،سری لنکاکا’’ہامبانتوتا‘‘،پاکستان کا’’گوادر‘‘شامل ہیں جبکہ بھارت ایران میں ’’چاہ بہار‘‘بندر گاہ کی تعمیر کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
جب سے سی پیک اور”ون بیلٹ ون روڈ”کے پراجیکٹس عملی شکل اختیارکرتے چلے جارہے ہیں،ان کے خلاف مخصوص پروپیگنڈہ بھی تیزہوتاجارہاہے تاکہ یہاں کی آبادی کو ان منصوبوں کے خلاف مزاحمت کیلئے کھڑاکیاجائے ۔اس کام کے حوالے سے گریگ پولنگ نے راخائن میں خلیج بنگال کے کنارے موجود Kyaukpyu بندرگاہ پر چینی سرمایہ کاری کے معاشی اور تزویراتی مقاصد پر روشنی ڈالی ہے۔چین نے حال ہی میں گہرے پانی کی بندر گاہ Kyaukpyu اور اس سے ملحقہ انڈسٹریل ایریا اور اقتصادی زون تعمیر کرنے کا ٹھیکہ حاصل کیا ہے۔جنوب مغربی چین کے صوبے ’’یوآن‘‘ کے دارالحکومت Kunming کو قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی کی لائنیں بھی Kyaukpyu سے گزرتی ہیں۔یہ منصوبہ تیل اور گیس کی درآمدات کیلئے آبنائے مالاکہ پر چین کا انحصار کم کرنے کیلئے اس کی تزویراتی کوششوں کی عکاسی کرتاہے۔اس طرح Kyaukpyu میں گہرے پانی کی بندر گاہ کی تعمیر سے چین کو اپنے اندرونی صوبوں کی تعمیر و ترقی میں مدد ملے گی۔گریگ پولنگ نے خطے میں موجود ان خدشات کا بھی حوالہ دیا ہے، جن کے تحت یہ کہا جا رہا ہے کہ چین اس گہرے پانی کی بندرگاہ کے معاشی استعمال کے ساتھ ساتھ اس کا فوجی استعمال بھی کرسکتاہے۔کریگ کے نزدیک فی الحال سب بڑاخطرہ یہ ہے کہ چین میانمارکو قرض دے کراس کی معیشت کو مکمل طورپرقابوکرتاجارہاہے۔
جوناتھن ہیل مین نے سری لنکا کی بندر گاہ ہامبانتوتا پر چین کے ترقیاتی منصوبے کا جائزہ لیاہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کولمبو کی بندر گاہ کی موجودہ صلاحیت اور توسیع منصوبے کوپیش نظررکھتے ہوئے ہامبانتوتا کی بندرگاہ پرچینی بحریہ ممکنہ بحری اڈہ تعمیرکرسکتی ہے۔جوناتھن کا کہنا ہے کہ جس طرح سری لنکا نے ۹۹ سالہ لیز پر یہ بندرگاہ چین کے حوالے کی ہے اس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ چین سری لنکا کو بھی قرض کے جا ل میں پھنسا رہا ہے۔ جوناتھن کا کہنا ہے کہ ہامبانتوتا کا کیس یہ سبق دیتا ہے کہ جن ممالک میں اس طرح کے منصوبوں پر کام ہورہاہے انہیں اپنے انفراسٹرکچرکی تعمیرکیلئے طویل المیعاد معاہدوں پردستخط کرنے چاہیے تاکہ وہ قرضوں کے جال میں نہ پھنس جائیں اوراس کے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری کو بنیادی منصوبوں کیلئے چین کی مالی امداد کا متبادل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارتی تجزیہ نگارگرمیت کنول نے بھی اس منفی پروپیگنڈہ میں حصہ لیتاہوئے یہ ہرزہ سرائی کی ہے کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا اہم ترین حصہ ہےسی پیک پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات کی علامت بن چکا ہے۔گرمیت کے مطابق دونوں ممالک ہی سی پیک کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں۔چین کو اپنے مزدوروں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات ہیں تو پاکستان کو پریشانی ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔گرمیت نے بحر ہند کے گیٹ وے گوادر تک چینی بحریہ کی ممکنہ رسائی کے سیکیورٹی اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے۔امریکااوربھارت کی منافقت اورخوف کایہ عالم ہے کہ انہوں نے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک اثرات سے نمٹنے کے لیے بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور امریکا کے درمیان بات چیت اور تعاون کی نشاندہی بھی کی ہے۔
ادھرہرش پینٹ کے مطابق چین انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کے ذریعے ’’گریٹ گیم‘‘ کھیلنے والا تنہا ملک نہیں، بلکہ بھارت بھی اس ڈور میں شامل ہے۔ بھارت کا ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں مدد کرنا دہلی کے عزائم کی عکاسی کرتاہے۔ بھارت خطے کو جوڑنے کیلئے خاص کر افغانستان تک رسائی کیلئے انفراسٹرکچر کو بہتر کررہا ہے۔چاہ بہار بندر گاہ چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی گوادر بندرگاہ کے قریب واقع ہے۔چاہ بہار بندر گاہ خطے میں اسٹرٹیجک حیثیت رکھتی ہے،جس کے ذریعے چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ہرش نے بھارتی حکمت عملی میں پیچیدگی کی نشاندہی بھی کی ہے ،جس کی وجہ ایران کی جانب سے چاہ بہار بندگاہ کی تعمیر میں پاکستان اور چین کا کردار قبول کرنا ہے ۔
ان چارمنصوبوں کے تجزیہ کے علاوہ دو مضامین اور بھی ہیں،جن میں چین کے میری ٹائم سلک روڈ کے معاشی اوردفاعی اثرات پرتبصرہ کیاگیاہے۔
میتھیو اور جوناتھن نے بحر ہند کی تجارتی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، مثال کے طور پر دنیا کی ۱۰ مصروف ترین تجارتی بندرگاہیں بحرہند میں واقع ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی آدھی تجارت بحرہند کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ چین کی سرمایہ کاری معاشی مقاصد رکھتی ہے یا اسٹرٹیجک؟ چینی منصوبے کے نتیجے میں معاشی استحکام کا اندازہ لگانے کیلئے میتھیو اور جوناتھن نے تین مختلف معیار اور اصول متعارف کرائے ہیں، شپنگ لائنز کو قریب لانا، موجودہ بندرگاہوں میں فاصلے کم کرنا اور ملک کے اندرونی علاقوں کوبندر گاہ سے جوڑنے کیلئے سڑکوں کی تعمیر۔میتھیو اور جوناتھن کے مطابق چینی منصوبے کو ان تین معیار پر رکھ کر جانچنے سے پتا لگا کہ اس منصوبے کو معاشی مقاصد سے جوڑنا غلط ہے۔ زیک کوپر کے مطابق بحرہند میں چینی فوجیوں کی موجودگی میں اضافہ حیرت انگیز نہیں ہے، چین بھی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے روایتی راستے پر گامزن ہے۔ چین بیرون ملک اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اپنے فوجی آپریشنز میں توسیع کررہا ہے۔ بحرہندکے راستوں پر چینی تجارت کا انحصار بہت زیادہ ہے، یہ تجارتی راستے چین کیلئے بہت اہم ہیں،خاص کر توانائی کی فراہمی کیلئے، اس لیے چینی حکومت کی جانب سے بحرہند میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ایک قدرتی امر ہے۔
زیک کے خیال میں بحر ہند میں چینی فوج کی موجودگی کے سیکیورٹی اثرات ملے جلے ہوں گے۔ ان کوششوں سے خطے میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوجائے گا ۔زمانہ امن میں قزاقوں کے خلاف آپریشنز اور خطے کی دیگر افواج سے تعاون پر چین کے بحری جہازوں کو بحرہند کی بندرگاہوں تک رسائی مل سکتی ہے،جہاں سے وہ تیل اور دیگر سپلائی کا سامان حاصل کرسکتے ہیں۔ زمانہ جنگ میں بحرہند میں موجود چین کے بحری جہاز اور اڈے دشمن کیلئے آسان ہدف ثابت ہوں گے۔ اس سب کے باوجود مستقبل میں بحرہند میں چین کے سیاسی، معاشی اور عسکری اثرو رسوخ میں اضافہ ہوگا،جس کی وجہ سے بحر ہند کے حوالے سے حکمت عملی بنانے والوں میں تشویش رہے گی۔ بحرالکاہل سے مشرق وسطیٰ جانے والے اہم راستے، خلیج ہرمز اور آبنائے مالاکہ کے چیک پوائنٹس کے حوالے سے امریکا اور آسٹریلیا میں تشویش پائی جاتی ہے۔خطے میں چین کے بڑھتے اثرات سے جاپان بھی تشویش میں مبتلا ہے۔ بھارت بھی بحرہند میں چین کی جانب سے بنائی جانے والی ’’موتیوں کی مالا‘‘ (کی مانند بندرگاہیں) سے پریشان ہے۔ہمالیہ میں جاری چین اور بھارت کی طویل مسابقت کے پس منظر میں ان بندرگاہوں کی وجہ سے خطے میں چین کو نئے اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔گریگ کے مطابق میری ٹائم سلک روڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کا امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا اپنے حال ہی میں قائم ہونے والے اتحاد کے ذریعے جواب دے سکتے ہیں۔
جسکی برکراور اینڈریو نے چار ملکی سیکورٹی ڈائیلاگ (کواڈ) کے تاریخی کردار کاجائزہ لیاہے۔یہ چار ملکی گروپ آسٹریلیا، جاپان، بھارت اور امریکا نے ۲۰۰۴ء میں بحرہند میں سونامی کے بعد انسانی مدد کیلئے قائم کیاتھا۔چین کے ممکنہ ردعمل کے خدشے کی وجہ سے چاروں ممالک باقاعدہ طور پر گروپ کو فعال نہیں کرسکے تھے، مگر اب چاروں ممالک نے کواڈ کو دوبارہ سے فعال کردیا ہے۔جو تجزیہ نگاروں کے مطابق خطے میں چین کی بڑھتی معاشی اور عسکری سرگرمیوں کاجواب ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چاروں جمہوری ممالک کے درمیان بحر ہند کو سب کیلئے کھلا رکھنے کیلئے تعاون کرنے کی حکمت عملی پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ ’کواڈ‘ میں چین کی حکمت عملی میں مثبت تبدیلی کروانے کی پوری صلاحیت ہے، لیکن بہت محتاط انداز میں اقدامات کرنا ہوں گے۔
یہ رپورٹ سی ایس آئی ایس کے ماہرین نے بحرہند کی جیوپولیٹیکل صورتحال کے حوالے سے تیار کی ہے۔ ماہرین کے مطابق میری ٹائم سلک روڈ منصوبہ نہ تومکمل طورپرمعاشی منصوبہ ہے اور نہ مکمل طور پر عسکری منصوبہ ہے۔ چین کی حکمت عملی ابھی تیاری کے مراحل میں ہے،اس رپورٹ سے امریکاودیگر ممالک کو میری ٹائم سلک روڈ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی بیجنگ کو بھی اپنی معاشی حکمت عملی کومزید واضح کرنے پرزورڈالاجاسکے گالیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ چین ان تمام خطرات کے سدباب کیلئے اپنے دفاعی کارڈاپنے سینے سے لگائے بیٹھاہے اوریہ طے ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسیاں ہی ان کوڈبونے کیلئے کافی ہیں جس کی وجہ سے ان کے مغربی اتحادیوں نے ایران کوتنہاکرنے کی امریکی پالیسی سے خودکوالگ رکھاہواہے ۔
Load/Hide Comments