یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں صرف تین ممالک ،ترکی،مصراورپاکستان ایک انتہائی مضبوط اورپیشہ ورافواج کے حامل ہیں جن میں پاکستان واحد ایٹمی صلاحیت کا مالک ہے اور پچھلی ایک دہائی سے مسلسل دہشتگردی کے خلاف ایک کامیاب کاروائی کرکے دنیامیں ایک بہترین پیشہ ور فوج کے طورپراپناوجود منوا چکی ہے۔پچھلے کئی سالوں سے ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کیلئے کئی جتن کئے لیکن اسے محض مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے یورپی یونین نے ہرمرتبہ کوئی نہ کوئی بہانہ بناکرترکی سے منہ موڑے رکھاجس کے بعد موجودہ ترکی نے اردگان کی قیادت میںاقتصادی ترقی اورمضبوط معاشی ٹارگٹ کے حصول کے بعدنہ صرف تمام غیرملکی قرضوں سے نجات حاصل کرلی بلکہ ایک بہترین جی ڈی پی کی حامل معیشت کے ساتھ دنیامیں ایک ممتازحیثیت اختیارکرلی ۔عالم اسلام میں جہاں بھی کسی مسلمان ملک پرکوئی زیادتی ہوتوسب سے پہلے توانا آواز اردگان کی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب عالمی استعمار متحدہوکر ترکی اورپاکستان کے پرکاٹنے کیلئے شب وروزسازشوں میں مصروف ہیں۔
گزشتہ سات برسوں سے شام میں جاری خانہ جنگی۲۰۱۷ءکے اختتام پرکافی مدھم پڑچکی تھی جس کے بعدیہ امیدپیدا ہورہی تھی کہ بالآخرمسلم خون کی ارزا نی کا سلسلہ اب جلدبندہوجائے گااورفریقین کسی بہترین مصالحتی معاہدے پرمتفق ہوکر پرامن مستقبل کی تعمیرمیں مصروف ہوجائیں گے لیکن گزشتہ ہفتے جب ترکی فوجی دستے شمالی شام قصبے عفرین میں داخل ہوئے توکردمسئلہ ایک مرتبہ پھر نمایاں ہوگیا۔ترکی کے مطابق شام کے شمالی علاقوں سے ترکی کی علیحدگی پسند کرد پارٹی”پی کے کے” کومددفراہم کی جاتی ہے۔انہی علاقوں میں امریکی افواج بھی موجودہے جوبظاہرداعش سے نمٹنے کی دعویدارہیں۔ترکی کامؤقف یہ ہے کہ امریکا،برطانیہ اورفرانس سمیت دیگرعالمی طاقتوں نے ترکی کی سرحدکے قریب شامی شہرعفرین میں کردباغیوں کوہتھیارفراہم کرکے جنگ کی آگ کومزید بھڑکاتے ہوئے خانہ جنگی کومزیدابھارا ،اور اس کاجوازداعش کی موجودگی کو قراردیا جبکہ ترکی نے مضبوط شواہدکی بناء پرامریکااوراس کے اتحادیوں کے اس مؤقف کومستردکردیااورعفرین میں اپنی فوج داخل کردی۔
نیٹو کے سیکٹری جنرل نے کہا کہ ترکی نیٹو کا ۶۵سال پرانارکن اورایک اہم ملک ہےاور سرحدی فورس کے امریکی منصوبے کے حوالے سے نیٹو سے مشورہ نہیں کیا گیا جبکہ۱۶جنوری کو ہونے والی ملاقات میں ترک صدراردگان نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل پر واضح کردیا تھاکہ ترکی شام میں”ایس ڈی ایف” کی قیادت میں کوئی فوج برداشت نہیں کرے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ شام میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں ترکی اپنی حفاظت کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گا۔
اس سے قبل۱۶جنوری کوترک وزیرخارجہ مولودچاووش اوغلونے وینکوورمیں اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے ہونے والی ملاقات میں بھی واضح کیاکہ شمال مغربی شام میں کرد ملیشیا کی قیادت میں سرحدی محافظوں کی فورس قائم کرنے کاامریکی منصوبہ ترکی کے ساتھ اس کے تعلقات کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتا ہے۔ شام میں موجود کردفورسزکے خلاف ترکی کی احتیاطی تدابیرصرف شمال مغربی شہر عفرین تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ منبج شہراور دریائے فرات کے مغرب تک پھیل سکتی ہیں۔ہم نے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ ہم ادلب میں موجود اپنے فوجیوں اورفری سیرین آرمی پر”پی کے کے”اوروائی پی جی”کے حملوں کا جواب دیں گے، کسی کو ہمارے خلاف نہیں آنا چاہیے۔ پینٹاگون، امریکی سینٹرل کمانڈاور دیگر اہم امریکی اداروں اور وزارتوں کے درمیان وائی پی جی اور ایس ڈی ایف کی مدد کرنے کے معاملے پر اختلافِ رائے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔
ترک وزیرخارجہ کاکہناتھاامریکا کی طرف سے ”وائی پی جی”کی امداداورترکی کی طرف سے امریکا میں موجود فتح اللہ گولن کی حوالگی کی درخواست جیسے معاملات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو پہلے ہی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ان کامزیدکہناتھاکہ میں نے دوٹوک الفاظ میں ٹیلرسن سے کہاکہ معاملہ(کرد سرحدی محافظ دستہ) بہت سنجیدہ ہے۔ یہ دومعاملات ہمارے دوطرفہ تعلقات کیلئے خطرہ ہوسکتے ہیں اور ہمیں ناقابل ِواپسی راستے پرلے جاسکتے ہیں۔ماضی میں منبج اوررقہ میں داعش کے خلاف ”ایس ڈی ایف”کی امریکی امدادکاذکرکرتے ہوئے ترک وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ امریکاکواپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں۔واشنگٹن کی جانب سے کیے گئے اس وعدے کہ شہروں کو داعش سے آزاد کروانے کے بعد ”وائی پی جی”کی جگہ مقامی کونسل شہروں کا نظام چلائیں گی کاحوالہ دیتے ہوئے ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ منبج اور رقہ کے بارے میں کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھا گیا۔ امریکا کا ماضی میں کہنا تھا کہ”پی کے کے”اور”پی وائی ڈی”اس کے اتحادی نہیں ہیں اوروہ صرف داعش کو شکست دینے کیلئے ساتھ کام کر رہے ہیں یہ بات انہوں نے امریکا پرزوردیتے ہوئے کہا کہ و ہ اس گروپ کی حمایت بندکرے اوروعدے کے مطابق انہیں غیرمسلح کرے۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں ہمارے پاس شک کرنے اوراپنی احتیاطی تدابیرکرنے کی کئی وجوہات ہیں۔
دریں اثناامریکی قیادت میں داعش کے خلاف بننے والے اتحاد”آپریشن ان ہیرنٹ ریسالو”اور”کمبائنڈ جوائنٹ ٹاسک فورس”کے ترجمان”ریان ڈلون ”نے زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ عفرین اس اتحاد کی عملداری میں نہیں آتا۔ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی انادولو کو بھیجے گئے تحریری بیان میں”ریان” نے کہااتحادکامقصدعراق اورشام کے مقررہ علاقوں میں داعش کوشکست دینا اور خطے کے استحکام کیلئے حالات سازگاربناناہے۔اسی روزپینٹاگون کی طرف سے کہاگیاکہ امریکاعفرین میں”پی ڈی ایف “کی حمائت نہیں کرتااوراس کوداعش کے خلاف لڑائی کاحصہ نہیں سمجھتا۔ پینٹاگون کے ترجمان میجرایڈرین نے انادولو کوبتایا ہم انہیں داعش کے خلاف کارروائیوں کاحصہ نہیں سمجھتے اورنہ ہی ان کی حمایت کرتے ہیں۔اس سے قبل پینٹاگون نے کہاکہ امریکا شام میں سرحد کی حفاظت کے متعلق ترکی کے خدشات کو تسلیم کرتا ہے اور آئندہ ترکی کے ساتھ قریبی رابطے رکھے گا۔
عفرین شام کے شمال مغرب میں حلب سے۶۳کلومیٹرکی مسافت پرشام کاایک اہم اوربڑاشہرہے جس کی آبادی ساڑھے۳لاکھ سے زائدہے جوزیادہ ترکردوں پر مشتمل ہے۔ کرددراصل مشرقِ وسطیٰ کے شمال میں رہتے ہیں،ان کی کل تعداد ۳۰ملین کے لگ بھگ ہے۔ان میں۵۶فیصد ترکی ،۱۶فیصدایران،۱۵فیصدعراق اور ۶فیصدشام میں مقیم ہیں جبکہ آرمینیا،لبنان،کویت اوریورپ سمیت دنیاکے۳۰ممالک میں مقیم ہیں۔ نومبر۱۹۷۸ءمیں ترکی کے اشتراکی نظریات کے حامل کردوں نے صرف قومیت کی بناء پر ”پی کے کے” قائم کی جس کاہدف ترکی سے کردوں کی آزادی ہے تاکہ بعدازاں بڑاکردستان بنایاجاسکے۔ترکی نے شروع دن سے ”پی کے کے”کوباغی اوروطن دشمن قراردے رکھاہے لیکن امریکااوراس کے اتحادی داعش کوخطرہ قراردیکرنہ صرف انہیں اسلحہ بلکہ ٹریننگ بھی دے رہے ہیں۔ ”پی کے کے”کے ساتھ کردباغیوں کی دیگرتنظیمیں ”کے سی کے””وائی پی جی” اور”پی وائی ایل” بھی شام سے ترکی میں کاروائیاں کرتی ہیں۔ترک حکومت کے بقول عفرین میں موجودباغیوں نے سات سوسے زائدمرتبہ ترکی کی سرحدی علاقوں پرحملے کئے ہیں جبکہ۲۰جنوری۲۰۱۸ءکوان تمام باغی تنظیموں نے شام سے ایک بھرپورحملہ کیاجس کےبعدترکی نے مزیدایسی کاروائیوں کے انسداد کیلئے فوری فوجی آپریشن کاآغازکردیا۔
امریکا،برطانیہ اورفرانس نے ترکی کے اس آپریشن کے خلاف سخت احتجاج کیا لیکن ترکی نے ٹھوس دلائل کی بناء پریہ احتجاج مستردکردیا۔اس وقت شام میں دو بڑے اتحاد برسرپیکار ہیں جن میں ایک طرف روسی اتحادمیں ایران،ترکی اور چین شامل ہیں جبکہ دوسری طرف امریکا،برطانیہ،فرانس ،سعودی عرب،عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اسرائیل شامل ہیں لیکن روسی اتحادکاپلڑا نسبتاًبھاری ہے۔امریکانے یکم فروری ۲۰۱۸ءکوبشارالاسداورداعش کے پاس کیمیائی ہتھیارہونے کادعویٰ کرکے ان کے خلاف اپنی کاروائیوں کوجوازمہیا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کرد بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آزاد کردستان کے حوالے سے امریکی مؤقف مبہم ہے۔ اندرونِ خانہ امریکاکی خواہش رہی ہے کہ عرب ریاستوں کااتناکمزورکردیاجائے کہ وہ مستقبل میں نہ صرف اسرائیل کے سامنے سرنہ اٹھاسکیں بلکہ خطے میں اسرائیل کو سامنے رکھ کر اپنی بالادستی قائم رکھی جاسکے۔
کردعلاقوں میں امریکی مداخلت پرترکی کوہمیشہ تحفظات رہے ہیں اورترکی کو خدشہ ہے کہ امریکادرپردہ کردوں کی آزادی کی حمائت کررہاہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ شمالی شام کے کردعلاقوں میں ترکی اورامریکاکی افواج صرف چندکلو میٹرکے فاصلے پرموجودہیں اوردونوں کے اہداف مختلف ہیں ۔ترکی اورشام میں عسکری مداخلت کوروس کی مکمل حمائت حاصل ہے ،یہی وجہ ہے کہ شام نے ایک مرتبہ پھر”غوطہ شہر”پرخوفناک بمباری کرکے قیامت صغریٰ برپاکردی ہے جس پر امریکااوراس کے اتحادی مکمل خاموش ہیں۔روس شام کے شمالی علاقوں کی آزادی کامخالف ہے جبکہ دمشق،بغداد،تہران اورانقرہ بھی آزادریاست کے مخالف ہیں یوں بظاہرایک توازن قائم ہے لیکن حالات کے پلٹنے کے امکانات کوبھی ردنہیں کیا جاسکتا،اس لئے کہ طاقتورممالک اپنے مفادات کے اسیرہوتے ہیں۔انہیں عام لوگوں بالخصوص مسلمانوں کی املاک کے نقصانات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
Load/Hide Comments