Ceasefire: Temporary Solution or Lasting Peace?

جنگ بندی:عارضی حل یاپائیدارامن؟

:Share

مشرقِ وسطیٰ ہمیشہ سے عالمی سیاست کاایک حساس مرکزرہاہے جہاں اسرائیل-فلسطین تنازعہ مرکزی حیثیت رکھتاہے۔حالیہ دنوں میں نتن یاہوکے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویزاورامریکی صدرٹرمپ کی غزہ کوامریکی تحویل میں لینے کی تجویزنے خطے میں نئی سفارتی اورسیاسی بحث چھیڑدی ہے۔مصراوراردن نے ان بیانات پرسخت ردِعمل دیتے ہوئے انہیں خطے کے استحکام کیلئے خطرناک قراردیاہے۔ساتھ ہی غزہ میں جاری جنگ بندی اوریرغمالیوں کی رہائی کے تناظرمیں یہ دیکھنا اہم ہوگاکہ آیایہ اقدامات طویل المدتی امن کی طرف پیش رفت ہیں یاصرف عارضی وقفہ۔

قصرسفیدکے نئے فرعون ٹرمپ نے جب سے اقتدارسنبھالاہے،اپنے مختلف بیانات میں ساری دنیامیں ایک عجیب ہلچل اورافراتفری پیداکردی ہے حتیٰ کہ اپنے اتحادیوں نیٹوکوبھی بیچ چوراہے میں لاکھڑاکیاہے۔ابھی وہ گردبیٹھی نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے سب سے سلگتے ہوئے مسئلہ فلسطین پربھی ایک متنازعہ تجویزپیش کی ہے جس میں انہوں نےغزہ کوامریکی تحویل میں لے کرایک”نیوٹریل زون” بنایاجاسکتاہے تاکہ خطے میں امن قائم کیاجاسکے۔یورپی یونین نے ٹرمپ کی اس تجویزکومستردکردیاہے۔یہ تجویزفلسطینیوں اورعرب دنیاکیلئے مزیداشتعال انگیزی کاباعث بنی ہے کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی خودمختاری پرحملہ ہے بلکہ امریکی مداخلت کی نئی شکل بھی ہے اوردنیا کوپھرسے بدامنی اورتباہی کی طرف دھکیلنے کامنصوبہ ہے۔

گذشتہ ہفتے ٹرمپ اورنتن یاہوکی واشنگٹن میں ملاقات اوراپنے ہاں بلاکراس کی بلائیں لیناشروع کردی ہیں اورنیتن یاہونے ٹرمپ کی پشت پناہی پرچینل14کواپنے انٹرویومیں جس کویروشلم پوسٹ نے بھی شائع کیاہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے اوروہ چاہیں تواپنے ملک کے اندرفلسطینی ریاست قائم کرسکتے ہیں۔جس پرفوری طورپرسعودی عرب،مصراوراردن کاسخت ردِعمل سامنے آیاہے۔

دورانِ انٹرویوجب ان سے سعودی عرب کے اس بیان کے بارے میں سوال کیاگیاکہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات معمول پرنہیں آسکتے،ان کاکہناتھاکہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے پرکبھی راضی نہیں ہوں گے جس سے اسرائیل کی سالمیت کوخطرہ ہوجبکہ یادرہے کہ اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کی قراردادکے مطابق،1967کی جنگ میں اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیاتھاوہ مقبوضہ تصورکیے جاتے ہیں۔

ٹرمپ کے بیان پرردعمل دیتے ہوئے سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے فلسطینیوں کوغزہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کومستردکرتے ہوئے کہاتھاکہ فلسطینیوں کے بارے میں ان کامؤقف اٹل ہے۔سعودی عرب،اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات بحال کرنے کے بارے میں بات نہیں کرے گاجب تک فلسطینی ریاست کاقیام عمل میں نہیں لایاجاتا۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان نے زوردیاہےکہ سعودی عرب کامؤقف”واضح اوردوٹوک”ہے اوراس میں کسی بھی صورتحال میں مختلف “تشریح”کی گنجائش نہیں ہے۔یاد رہے کہ ٹرمپ نے غزہ کو”پاک کرنے”کاایک منصوبہ پیش کیاہے مصراوراردن سمیت عرب ممالک مزیدفلسطینیوں کوپناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن قائم کیا جاسکے۔ٹرمپ نے غزہ کو”تباہ شدہ علاقے”کے طورپربیان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایاکہ”ہم پورے خطے کوصاف کرنے کیلئے15لاکھ افرادکی بات کررہے ہیں۔یہ قدم عارضی یاطویل مدتی ہوسکتاہے۔

مصراوراردن،دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کررکھے ہیں لیکن نتن یاہوکے حالیہ بیانات کے بعدان معاہدوں کی حیثیت بے معنی ہوتی نظرآرہی ہے۔مصرنے نتن یاہواورٹرمپ کی تجاویزکوسفارتی اصولوں کی خلاف ورزی قراردیاہے۔اردن،جس کی آبادی کابڑاحصہ فلسطینی نژادہے،نے ان بیانات کوخطے میں کشیدگی بڑھانے والاقراردیاہے۔ان ممالک کامؤقف ہے کہ یہ بیانات نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی توہین ہیں بلکہ خطے میں موجودہ تناؤکومزیدبڑھاسکتے ہیں۔

حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے ٹرمپ کی تجویزمستردکرتے ہوئے کہاکہ وہ تعمیرنوکی آڑمیں ایسی کسی تجویزکومنظورنہیں کریں گے۔غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام نے صرف اپنی سرزمین کیلئے15ماہ تک موت اورتباہی برداشت کی ہے۔ثابت قدمی اورمزاحمت کے ساتھ یہ منصوبہ ناکام ہوجائے گاکیونکہ اس سے پہلے کئی منصوبے ناکام ہوچکے ہیں۔یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حق اوروجودکے منافی ہے جبکہ اس سے جنگی جرائم اورانسانیت کے خلاف جرائم کاتسلسل قائم ہوگا۔ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہترتعمیرکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،بشرط یہ کہ اس علاقے کا محاصرہ ختم کردیاجائے۔خیال رہے کہ اس 15ماہ کی جنگ کے دوران غزہ کے زیادہ تررہائشی نقل مکانی پرمجبورہوئے اورغزہ میں موجوداکثرعمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔

اردن اورمصرکی جانب سے اسے ردکیاگیاہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدرنے مصرسے اس بارے میں کوئی باضابطہ درخواست کی ہے یانہیں لیکن مصرکی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کومستردکیاہے”چاہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہویا زمین پرقبضے کے ذریعے یافلسطینیوں کوان کی زمین سے نقل مکانی کرنے پرمجبورکرنے کے ذریعے ہویاانہیں کسی دوسری جگہ بھیجنے کے ذریعے ہو۔چاہے ایساکچھ وقت کیلئے کیاجائے یاطویل دورانیے کیلئے۔

اردن کی وزارتِ خارجہ کاکہناہے کہ سلطنت بھی فلسطینیوں کی نقل مکانی کومستردکرنے میں”ثابت قدم اورغیر متزلزل”ہے۔اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں نتن یاہوکے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بیان کوجارحانہ مطالبہ قراردیتے ہوئے ایسے بیانات کواقوام متحدہ کے قراردادوں اوربین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قراردیتے ہوئےکہا ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات امن کے خلاف ایک خارجی،اشتعال انگیز نظریے کی عکاسی اورخطے کومزید کشیدگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان سفیان القداہ کاکہناہے کہ اردن سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کااعلان کرتاہے اورعالمی برادری سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ ان غیرذمہ دارانہ بیانات کی مذمت کرے۔اس سے قبل مصری وزارت خارجہ نے سعودی سرزمین پرفلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں اسرائیلی بیانات کولاپرواہ قراردیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔مصری وزارت خارجہ کاکہناتھاکہ اسرائیلی بیانات تمام قائم شدہ سفارتی اصولوں کی خلاف ہے۔

نتن یاہوکے بیانات کوبعض تجزیہ کاراسرائیل کے”گریٹراسرائیل”کے منصوبے کے آغازکے طورپردیکھ رہے ہیں۔اس منصوبے کا مقصداسرائیل کی سرحدوں کووسیع کرنااورفلسطینیوں کے حقوق کومحدودکرناہوسکتاہے۔درپردہ امریکااوردیگر اتحادی ممالک کی حمایت بھی اسرائیل کواس منصوبے میں مددفراہم کرسکتی ہے۔ٹرمپ کے بیانات اورامریکی حمایت اس امکان کومزید تقویت دیتے ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کررہاہے۔مقبوضہ غربِ اردن میں فلسطینی صدرمحمودعباس نے ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردیداورمذمت کی ہے جس سے غزہ کے باسیوں کوپٹی سے نقل مکانی پرمجبورکیاجائے۔

اقوامِ متحدہ نے یہ اندازہ لگایاتھاکہ غزہ میں60 فیصدعمارتیں یاتومکمل تباہ ہوچکی ہیں یاپھریہ بری طرح متاثرہوئی ہیں اوران کی تعمیرِنومیں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔مغربی شہرخان یونس میں نقل مکانی پرمجبورہونے والے افرادسے جب ٹرمپ کے بیان پر ردِعمل مانگاگیاتوان کاکہناتھا:ہم خوداپنی تقدیرکافیصلہ کریں گے کہ ہم کیاچاہتے ہیں۔یہ زمین ہماری ہے اوریہ ہماری پوری تاریخ میں ہمارے آباؤاجدادکی ملکیت رہی ہے۔ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے،سوائے اگرہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایاجائے۔

دریں اثناٹرمپ نے اعلان کیاکہ اسرائیل نے امریکاسے جو”بڑی تعدادمیں اشیا”کی درخواست کی تھی وہ فی الحال فراہم کی جارہی ہیں۔ان سے پوچھاگیاکہ آیاان کی حکومت اسرائیل کیلئے907کلوگرام وزنی بموں کی کھیپ جاری کرے گی۔اسرائیل نے بہت سی چیزوں کی درخواست کی لیکن سابق صدرجوبائیڈن نے انہیں نہیں بھیجا۔اب ان اشیاکی ترسیل کی جارہی ہے۔گزشتہ سال جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کوان بموں کی فراہمی ایک ایسے وقت میں معطل کردی تھی جب اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر بڑے پیمانے پرحملے کامنصوبہ بنارہی تھی۔یہ وہ مقام ہے جہاں بمباری اورجنگ کی وجہ سے14لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لی تھی۔ بائیڈن نے خبردارکیاتھاکہ اس طرح کے علاقوں میں اس قسم کے بم کااستعمال ایک “بڑے انسانی المیے”کاسبب بنے گا۔ایگزیوس پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی قومی سلامتی کے صحافی بارک راویڈنے لکھاکہ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو2000پاؤنڈ وزنی بم اسرائیل بھیجنے پرعائدپابندی ہٹانے کاحکم دیاہے۔

اس قسم کے بڑے،فضاسے گرائے جانے والے بم انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اورعام طورپرانہیں فوجی تنصیبات،کمانڈسینٹرزاور انفراسٹرکچرجیسے اہداف کوبڑے پیمانے پرنقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے اکثراس بات پرفخرکیاکہ اسرائیل کا”وائٹ ہاؤس میں اس سے بہتردوست کبھی نہیں تھا”۔نیتن یاہوبھی ٹرمپ کیلئے اکثرایسے جملے دہراچکے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی اتوارکودوسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔حماس کے زیرحراست چار اسرائیلیوں اوراسرائیلی جیلوں سے تقریباً200فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے۔تاہم جنگ بندی معاہدے پرعملدرآمدکی کوششوں کو نئی رکاوٹوں کاسامناکرناپڑاہے کیونکہ اسرائیل نے مغوی شہری اربیل یہودکی رہائی سے متعلق تنازع کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی تباہ شدہ شمالی غزہ میں واپسی پراعتراض کیاتھا۔اسرائیل نے یہ شرط عائد کی جنوبی اورشمالی غزہ کوالگ کرنے والی راہداری کھلوانے کیلئے اس یرغمالی کورہاکیاجائے۔اس نے حوالہ دیاکہ جنگ بندی معاہدے کے تحت شہریوں کوپہلے رہاکیاجائے گاجس میں حماس ناکام ہواہے۔اسرائیل نے ثالثوں سے حماس سے اس بات کاثبوت مانگاتھاکہ یہودزندہ ہے اورحماس نےمصرکواس بات کاثبوت فراہم کردیاتھاکہ یہود زندہ اورصحت مندہے اور اسے اگلے ہفتے رہاکردیاجائے گا۔

ہفتہ کی شام افراتفری سے بھرپورمناظردیکھنے کوملے۔یرغمالیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعدفلسطینیوں کواس بات کی امیدتھی کہ وہ شمال میں اپنے گھروں کی جانب لوٹ سکیں گے۔تاہم آخری اطلاع آنے تک ایسامُمکن نہیں ہواکیونکہ اسرائیلی افواج نے شمال کی جانب جانے والی اہم راہداری کوبندکررکھاہے اورکسی کوبھی وہاں سے گُزرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔اسرائیل اورحماس کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے والے قطری اورمصری ثالث لاکھوں فلسطینیوں کوشمال کی طرف واپس جانے کی اجازت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراس معاملے میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔

دریں اثناغزہ کے بہت سے باشندے کسی ایسی پیش رفت کابے چینی سے انتظارکررہے ہیں انہیں اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت مل جائے۔بہت سے لوگوں کیلئے واپسی کی امیداس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جوان کاانتظارکررہی ہے یعنی کھنڈرات اور ہرجانب پھیلی تباہی۔اس کے باوجودان کی زندگیوں کودوبارہ حاصل کرنے،اپنے گھروں کی تعمیرنواوراپنے کنبوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب ان کی روحوں کوزندہ رکھے ہوئے ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ آیایہ جنگ بندی دیرپاامن کی بنیادبنے گی یاصرف ایک عارضی حل ہے۔ماضی کے تجربات سے ظاہرہوتاہے کہ جنگ بندی اکثر عارضی ثابت ہوئی ہیں جب تک کہ دونوں طرف سے سنجیدہ اقدامات نہ کیے جائیں۔ٹرمپ کی تجویزکے بعد،یہ خطرہ بڑھ گیاہے کہ بین الاقوامی مداخلت مقامی مسائل کومزیدپیچیدہ بناسکتی ہے۔غزہ کی صورتحال کے اثرات لبنان،شام،اوریمن جیسے ممالک پربھی پڑسکتے ہیں جہاں ایران کے حمایت یافتہ گروہ ابھی تک سرگرم ہیں۔حزب اللہ لبنان،شامی حکومت،اوریمن میں حوثی باغیوں کے ایرانی روابط ابھی تک قائم ہیں اوروہ کبھی بھی اس خطے میں طاقت کے توازن کومتاثرکرسکتے ہیں۔

یادرہے کہ اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیاں،نتن یاہوکی بیان بازی،اورٹرمپ کی مداخلت کے بعدایران کے حمایت یافتہ گروہوں کیلئے دباؤبڑھ سکتا ہے۔تاہم،اس کایہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ گروہ مزیدجارحانہ حکمت عملی اختیارکریں گے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔نتن یاہواورٹرمپ کی تجاویزاورحالیہ جنگ بندی مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے سفارتی اور عسکری موڑکی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مصراوراردن جیسے ممالک کاسخت ردِعمل ظاہرکرتاہے کہ خطے میں اسرائیل اورامریکاکی یکطرفہ پالیسیوں کوقبول کرنے کا رجحان کم ہوتاجارہاہے۔یورپی یونین کی جانب سے ٹرمپ کی تجاویزکی مخالفت اورنیٹوکے ساتھ امریکی تعلقات میں تلخی اس بات کاثبوت ہیں کہ عالمی برادری ان پالیسیوں کومستردکررہی ہے۔غزہ میں جنگ بندی کے اثرات کاانحصارفریقین کی سنجیدگی اوربین الاقوامی برادری کے اقدامات پرہوگا۔حزب اللہ،شام،اوریمن میں ایرانی روابط کے تناظرمیں بھی یہ ضروری ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کوبرقراررکھنے کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھی جائیں۔مشرقِ وسطیٰ میں پائیدارامن کیلئے ایک متوازن، شفاف،اورمنصفانہ حل ناگزیرہے۔

یادرہے کہ ایک چینی مصنف نے کہاتھاکہ دنیاکاامن ہی امریکاکی تباہی میں پوشیدہ ہےلیکن سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کے دورِاقتدار میں عالمی امن کا حصول ممکن ہوگاکہ نہیں؟یادرہے کہ امریکاکی باگ ڈورہلانے والی قوتوں کی زندگی کارازہی جنگوں میں فروخت ہونے والااسلحہ،جنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی ادویات بنانے والوں کی مٹھی میں ہے۔

وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسرالفریڈمیک کوئے نے16نومبر2021ءمیں امریکااورچین کے تعلقات کے بارے میں ایک توسیعی انٹرویومیں پیش گوئی کی ہے کہ چین کی طاقت بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی سلطنت منہدم ہورہی ہے۔ان کے مطابق دونوں سپرپاورزکے درمیان خاص طورپرتائیوان اورہانگ کانگ کے درمیان تناؤبڑھتاجارہاہے،کچھ لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک نئی سردجنگ شروع ہورہی ہے۔”امریکا، مستقبل قریب میں،تائیوان کے خلاف جنگ لڑنے کے امکانات کاسامنا کر رہاہے … جس میں شایدوہ ہارجائے گا،چین یوریشین لینڈماس پرامریکی جیو پولیٹیکل گرفت کوتوڑنے کیلئے بھی کام کررہاہے۔

مصنف پروفیسرالفریڈمیک ایک مشہور زمانہ مؤرخ ہیں اوران کی ایک تازہ کتاب”دنیاپرحکومت کرنا:ورلڈ آرڈرزاورتباہ کن تبدیلی”To Govern the Globe: World Orders and Catastrophic Changeمیں اوربھی کئی ہوشربا انکشافات ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں