فرانس کی پہچان پیرس ہےاورپیرس کی جان شانزے لیزےہے،شانزے لیزےدنیا کی خوبصورت اورمہنگی ترین شاہراہ ہے،یہ سڑک سینکڑوں سال پہلےفرانسیسی بادشاہوں نےاپنی چہل قدمی کیلئےبنائی تھی،یہ سڑک فرانسیسی کاریگروں نےچھوٹےچھوٹےپتھرجوڑ کرمکمل کی تھی اوریہ پتھرآج تک قائم ہیں،شانزے لیزےکودنیاکی پہلی فیشن سٹریٹ بھی کہاجاتاہے،اس سڑک پردونوں اطراف دنیا کےمہنگےترین برانڈزکےشورومز، ریستوران، کیفےاورسٹورہیں،یہ سڑک”پلاس دی لاکنکورڈ”سےشروع ہوتی ہے،یہ دنیاکاسب سے بڑاچوک ہےجس کےعین درمیان میں ایک مخروطی ستون ہے، یہ ستون ہزاروں سال پہلے مصری کاریگروں نےتراشاتھااس دورمیں مصرمیں فرعون راعمسیس کی حکومت ہوتی تھی،یہ وہی فرعون ہے جس نے حضرت موسیٰ کےدورمیں خدائی کادعویٰ کیا، حضرت موسیٰ کےساتھ اس کا مقابلہ میں وہ اوراس کی فوج دریائے نیل میں ڈوب کرمرگئی،یہ ستون مکمل ہواتو کاریگروں نےاس پرتیشے سے فرعون رامسیس کی طاقت،اختیاراورآئینی ترامیم کھوددیں اوریہ ستون بادشاہ معظم کےحضورپیش کردیا،فرعون یقیناً رعایاکے اس تمغے پرخوش ہواہوگااوراس نے یہ ستون اپنے ایوان صدرکے سامنے نصب کروادیاہوگالیکن وقت بدلا،فرعو ن پراکتوبر کامہینہ آیا،وہ اوراس کی سلطنت دونوں بکھرگئےاوراس کاسارااختیار،ساری طاقت اورسارے درباری احکام منہ کے بل گرگئے اور محل کے سامنے والےریت کے میدان میں دفن ہوگئے۔
انیسویں اوربیسویں صدی میں مصری صحراؤں میں فرعون کےآثارقدیمہ دریافت ہوئےتویہ ستون بھی کسی کونے کھدرے میں پڑاہوا مل گیا۔یہ ستون طویل عرصے تک مصری حکومت کی تحویل میں رہا،مصری بادشاہ محمدعلی پاشاپیرس کے سرکاری دورے پرآیا تووہ یہ ستون بھی ساتھ لےآیااورکنگ لوئی کوتحفہ میں پیش کردیا۔بادشاہ نے یہ ستون پیرس کے سب سے بڑے چوک میں لگوادیااور اس چوک کوستون کے حوالےسے“پلاس دی لاکنکورڈ”کانام دے دیا۔یہ ستون آج تک یہاں موجودہےاوراس پرقدیم مصری زبان میں کھدے ہوئے وہ سارے قصیدے بھی جوں کے توں ہیں جوپانچ ہزارسال قبل کےمیاں برادران،مشرف،زرداری،پرویزالٰہی،مولانافضل الرحمان،باجوہ،عمران خا اورپاکستانی عدلیہ کے کچھ جج صاحبان وغیرہ نے تخلیق کئےتھے لیکن افسوس دنیاکے ماہرین لسانیات آج تک کنکورڈکی زبان”ڈی کوڈ”نہیں کرسکےمگر مجھے یقین ہے اگرکبھی دنیاکوکنکورڈکی زبان سمجھ اگئی تووہ کچھ اس طرح ہو گی“ہم آپ کواقتدارکے محل پرشب خون کوجائزقراردیتے ہیں بلکہ ملکی آئین میں تبدیلی کی بھی اجازت دیتے ہیں اورملکی سیاستدان اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے یہ نعرہ باربارلگائیں گے کہ بادشاہ کودس باریونیفارم میں منتخب کرائیں گے،آئین صدرکودونوں عہدے رکھنے کی اجازت دیتاہےاور صدر موجودہ اسمبلیوں سےدوسری باراعتماد کاووٹ لےسکتاہے۔”وغیرہ وغیرہ۔
اگلے پیراگراف میں یہ لکھاہواضرورملے گاکہ ہم پرانے دیس کی نئے سرے سے تزئین وآرائش کریں گے،ملک میں کوڑوں افرادکو روزگارمہیاکرنے کے ساتھ ساتھ50لاکھ گھربناکردیں گے، ملک کیلئے مزیدقرضے مانگنے کی بجائے میں خودکشی کوترجیح دوں گا اورملک کی معاشی مشکلات کیلئے بیرون ملک ہم وطنوں کا200/ارب کاخطیرسرمایہ ملک میں واپس لاکرملک کی تقدیر سنواردوں گالیکن اقتدارسنبھالتے ہی اپنے تمام وعدوں کولات مارتے ہوئےعالمی سودخورمہاجنوں کی منت ترلے کرتے ہوئے ملک کے باسیوں کوجوپہلے ہی کمرتک قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے،ان کوگردن تک مزیداس سودی قرضوں کی لعنت میں گردن تک دھنسادیاگیا۔ جب تنقیدشروع ہوئی تواپنےان آقاؤں سے مطالبہ کیاکہ مجھے اپنے منشورکی تکمیل اوراپنی عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئےان تمام ناقدین کوجیل بھیجناہوگاجنہوں نےاپنے دورحکومت میں لوٹ کھسوٹ کامال بیرون ملک منتقل کیا۔ملک میں جاری مہنگائی،افراط زراوربیروزگاری اوراپنے وعدوں سے عوام کی نظریں ہٹانے کیلئے شب وروزاپنے ناقدین کی کرپشن اورتمام بربادیوں کاذمہ دارمخالفین کوٹھہراکرخودکومعصوم ثابت کرتارہا۔
لیکن ہراس شخص کی طرح یہ بھی اپنے اقتدارکوبرقراررکھنے کی طویل منصوبہ بندی میں مصروف ہوگیااورہمیشہ کی طرح اپنے محسنوں کی گردن پرپاؤں رکھ کرآگے بڑھنے کی کوششون میں یہ خطاکربیٹھا کہ اس دفعہ اقتدارکی شطرنج میں غلط چال چلنے سے خودکو”شہہ”سے بچانہ سکااوراقتدارکا”ہما”سرسے ان لوگوں کے پاؤں میں آن گراجن کوجاری مقدمات میں عمربھرکیلئے اقتدارسے محروم اور جیلوں کوجانےکامکمل پروگرام طے ہوچکاتھا۔آنے والے منتقم مزاج سیاسی حریفوں نے تاک تاک کرقانون سازی کے زہرمیں بجھے ہوئےاپنے ترکش کے وہ تمام تیرکی ایسی بارش کردی کہ اب اسے سمجھ نہیں آرہی کہ ان سے بچاکیسے جائے۔اس نے اپنے بیرونی آقاؤں سے اس سخت اورمشکل وقت میں کمک کی درخواست کی لیکن باوجودانتھک کوشش،ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔ملک میں اپنے اقتدارکی توسیع کیلئے مکمل منصوبہ بندی کی سرتوڑکوششیں جاری ہیں لیکن اقتدارکاہماصرف اسی کے سرپر بیٹھے گاجواپنی گزشہ تمام جفاؤں کومکمل وفاؤں میں تبدیل کرنے کی یقین دہانی کروائے گا۔
شانزے لیزے کی دوسری انتہا پر”آرک ڈی تری اونف”ہے یہ بارہ دری قسم کی عمارت ہے لیکن اس کے صرف چاردروازے ہیں اور یہ نپولین بونا پارٹ کی فتوحات اورکامیابیوں کے اعتراف میں بنائی گئی تھی،اس عمارت کےعین درمیان میں ایک نامعلوم سپاہی کی یادمیں ایک مشعل روشن ہے،یہ مشعل پچھلےسوبرس سے مسلسل جل رہی ہےاورفرانس کےتمام فوجی اس مقام پرپہنچ کرسرسے ٹوپی اتارتے ہیں اوران فرنچ سپاہیوں کوسیلوٹ کرتے ہیں جنہوں نےپہلی جنگ عظیم میں اپنے وطن کیلئےجان دی تھی،اس چوک کو ایک اورانفرادیت بھی حاصل ہے۔پیرس کی بارہ بڑی سڑکیں اس آرک سے شروع ہوتی ہیں اوران سڑکوں میں شاہراہ جمہوریت بھی شامل ہے۔.
تاریخ بتاتی ہےاٹھارہویں صدی کےآخرمیں جب انقلاب فرانس آیاتوپیرس کے انقلابیوں نے اس مقام پرگلوٹین نصب کردی تھی اوراس چوک میں روزانہ150/اشرافیہ، حکم رانوں اور سیاستدانوں کاسرقلم کیاجاتاتھا،انقلابی پیرس کے مختلف چوکوں میں کھڑے ہو جاتے تھے اورانہیں جس شخص کے ہاتھ نرم دکھائی دیتےتھے،جس کے جسم سےعطراور صابن کی خوشبوآتی تھی اورجس نے تازہ شیوبنائی ہوتی تھی،وہ اسے روکتے تھے،سرسری عدالت میں اس کےخلاف مقدمہ چلاتےتھےاورگلوٹین کےنیچےلٹاکراس کاسر قلم کر دیتے تھے۔میں جب اس چوک پرپہنچاتومجھےنجانےکیوں یہ محسوس ہواکہ اس آرک کے نیچے آج بھی فرانس کی اس اشرافیہ کا خون موجود ہےجس نے عوام کیلئے روٹی تک ناممکن بنادی تھی،جس نے مقتدرحلقوں کوکھیل کھیلنےکی اجازت دی تھی اورجس نےعوام کے احتجاج پرپابندی لگادی تھی۔
یہ فرانس کی تاریخ کاوہ دورتھاجس میں سارے سول محکموں کے سربراہ فوجی تھے اور بادشاہ بھاری رشوت لیکرحکومت مختلف سیاستدانوں کے حوالے کرتا رہتاتھا، بادشاہ نے پیرس کے مضافاتی علاقےوارسائی میں محلات بنانے کافیصلہ کیاتواس نے اپنے وزیرخزانہ کوبلایااورحکم دیایہ محلات تم بنواؤگے۔وزیرخزانہ نے سرتسلیم خم کیااورعوام کاخون نچوڑکرمعماروں کےحوالے کردیااورمعماروں نےوارسائی میں دنیاکاسب سے بڑامحل کھڑاکر دیا،یہ محلات آج تک قائم ہیں،یہ شتودی وارسائی کہلاتے ہیں اوران کےدرودیوارسےعوام کےخون کی بوآتی ہے۔آپ کوشاید یہ جان کرحیرت ہوگی،انقلاب فرانس کی بنیادعدالت کے ایک فیصلے نے رکھی تھی،اٹھارہویں صدی کےآخرمیں جب لوگوں کے پاس آٹاختم ہوگیاتھااوروہ محل کےسامنے کھڑے ہو کرآٹے کی دہائی دینےلگےتھےاورنوخیزملکہ نےانہیں روٹی کی جگہ کیک کھانےکامشورہ دیاتھاتوٹھیک اس وقت فرانس کی عدالت میں یہ مقدمہ چل رہاتھا بادشاہ کاہرفرمان قانون ہےاور فرانس کی کسی اتھارٹی کےپاس اس سے سرتابی کااختیارنہیں۔
جس وقت لوگ پیرس کی گلیوں میں آٹا آٹاپکاررہے تھے،ٹھیک اس وقت فرانس کی سپریم کورٹ نےاعلان کردیاتھا،بادشاہ کوزمین پرخداکے تمام اختیارات حاصل ہیں اوردنیاکی کوئی طاقت اس سے یہ اختیارات واپس نہیں لے سکتی۔اس حکم کے دوسرےدن بادشاہ کےایک گماشتے نے ایک مالی کو”آرک ڈی تری اونف”کے مقام پرکوڑے مارناشروع کردئیے،لوگوں نے روکاتو گماشتےنےجیب سے بادشاہ کاحکم نامہ نکال کردکھایا،اس حکم نامے کے مطابق شاہی گماشتے کسی بھی ایسے شخص کوکسی بھی مقام پرسزا دےسکتےتھے جس کےبارے میں نقصِ امن کااندیشہ ہو۔یہ مالی شاہی گماشتے کی مار برداشت نہ کرسکااوراس نے لوگوں کےسامنے دم توڑدیا، مجمع میں سےایک پتھرآیااورسیدھاشاہی گماشتےکےسرپرلگا۔اس نےغصے سے ہجوم کو گالی دی اورپانچ منٹ بعداس چوک میں اس گماشتےکی لاش پڑی تھی،یہ گماشتہ اس انقلاب کاپہلاشکارتھا،اس کی نعش سے لوگوں کومعلوم ہواظالم بھی آخرکارانسان ہی ہوتے ہیں اورانسانوں کی زندگی اورموت میں کوئی آہنی پردہ حائل نہیں ہوتا،بس یہ معلوم ہونے کی دیرتھی،پورے فرانس میں آگ لگ گئی اورلوگوں نےظالموں کی نعشیں بچھاکران پررقص شروع کردیا،وہ دن اور آج کادن،فرانس میں اس کےبعدکسی نے”کنکورڈ”بننے کی کوشش نہیں کی۔
میں”آرک ڈی تری او نف” کی چھت پرکھڑاتھا،میرے قدموں میں شانزے لیزے بچھی تھی،پوراپیرس روشنیوں میں نہایاہواتھا،یہ فرانس کی ایک خوبصورت اورپراسرارشام تھی،افق پرابھی تک لالی کے آثارموجودتھے،میں نے پیرس کی خنک شام کاایک لمباسا گھونٹ بھرااورسوچافرانس اور پاکستان میں کیافرق ہے؟دفعتاًذہن میں یہ سوال ابھراکہ معاشرے کی موجودہ ذہنیت کو کیسے بدلاجائے؟پاکستان میں سول سروس برطانوی دورکی میراث ہے۔اسے برطانوی راج کے نفاذکیلئے انگریزوں نے تیارکیاتھالیکن نہ توہم اس میں اصلاح کرسکے اورنہ ہی سیاستدانوں کا کوئی لائق تحسین کرداررہاہے۔ موجودہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں،یہاں تک کہ خطے میں بھی تمام معاشرتی اشارے میں مقابلہ نہیں کیاجاسکتا ۔شہریوں کیلئے اشرفیہ کے استعمال کردہ الفاظ توہین آمیزہیں۔ریاست اورشہریوں کے مابین ایک اچھی طرح سے طے شدہ معاشرتی معاہدہ کی ضرورت ہے جوحکمرانوں،مالکوں اورشہریوں کیلئے یکساں پابند ہو۔پاکستان میں اکثریہ دہائی دی جاتی ہے کہ ملک پرزیادہ عرصہ فوج نے حکمرانی کی لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک کی ترقی کازیادہ دورانہی فوجی حکمرانوں کے دورکو گناجاتا ہے۔
چین کی کامیابی کاایک عنصریہ ہے کہ حکمرانی میں زیادہ ترافراد ماہرہیں۔یہاں تک کہ چین کے موجودہ صدرکیمیکل انجینئرہیں۔برطانوی راج میں میرٹ پرسختی سے مشاہدہ کیاگیا۔اب ہمارے پاس تمام سرکاری ملازمین کیلئے سیاسی تقرریوں اورسیاسی مجبوریاں ہیں۔ہم میں سے بیشترلوگ اس تصورکی پیروی کرتے ہیں کہ معاشرہ میں عزت کامعیارڈالرکے حصول میں ہے اوراس خواہش میں جائزوناجائزکی کوئی تمیزنہیں رکھی جاتی اورڈالرکی تلاش میں سرکاری ملازمین بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔”ڈالرکی تلاش”کے بعد کیسے اہلیت،دیانت،انصاف کی محنت اورمیرٹ کے فیصلوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔لہذاہمیں معاشرے کی ذہنیت کوبھی بدلنے کی ضرورت ہے لیکن اس کوبدلنے کادعویٰ توسب کرتے ہیں لیکن ایوان اقتدارمیں پہنچتے ہی خودکوبادشاہ اورعوام کواپنا خاندانی غلام سمجھناشروع کردیتے ہیں۔
مجھے محسوس ہورہاہے کہپاکستان1780کا فرانس بن چکاہے۔وہی مسائل،وہی ظلم، وہی جبر،زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی وہی حرص،وہی مفادپرست اور خوشامدی ، سیاستدان، قانون آئین اورضابطوں کی وہی بے حرمتی،وہی سنگدلی،وہی ہٹ دھرمی اورخودکوناگزیراورضروری سمجھنے کی وہی ضد،وہی نوگزکی انا،اللہ کے قرب کے وہی دعوے اورخودکوعقل کل تسلیم کرانے کی وہی کوششیں، عوام کاوہی اضطراب،وہی بے چینی،وہی غصہ اور وہی شدت،ملک کی وہی مہنگائی،وہی بے روزگاری اورآٹے دال کی رسائی ناممکن،میڈیاپروہی ڈنڈے بازی اور پولیس کاوہی کھلم کھلااستعمال،نظام کی وہی شکست وریخت،عدالتوں پروہی عدم اعتماد،سیاستدانوں کی وہی بندربانٹ،وہی ڈیلیں اوروہی سمجھوتے اوربادشاہوں کے وہی مصاحب اوران کی وہی چمچہ گیری،مجھے محسوس ہوا1780 کے فرانس اور2023کے پاکستان میں کوئی فرق نہیں۔بس ماچس کی ایک تیلی گرنے،ایک نعش کے تڑپنے اورایک پتھر اٹھنے کی دیرہے اور عوام ساری حدیں پارکرجائیں گے،مجھے پیرس کی اس شام نے بتایا،پاکستان خونی انقلاب کے دہانے پرکھڑاہے۔
میرے رب!بس تیراکرم درکارہے۔میرے ارض پاک کومزیدتباہی سے بچالے اورہمیں ایسے حکام عطافرماجس کاخواب قیام پاکستان کے وقت دیکھاتھا۔آمین