مٹی کی چلتی پھرتی ڈھیریاں ممٹیوں یامسندوں پرجابیٹھیں توسب کچھ بھول جاتی ہیں۔اپنی اصل اوقات،اپناآغازاوراپناانجام تک بھول جاتی ہیں۔
موت کی ہچکی کوذراغورسے سن
زندگی بھرکاخلاصہ اسی آوازمیں ہے
قبرکاکتبہ پڑھ کرکانپ گیاہوں:
لوحِ مزاردیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہرایک سرکے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
لیکن سنتاکون ہے اورسن بھی لے توسمجھتاکب ہے؟جس نے زندگی بہترگزارنی ہو،اس کیلئے ضروری ہے کہ موت کویادرکھے اورجس مقتدرنے تکبرکی ٹوپی پہن کرخود کوعقل کل سمجھا،وہ بالآخراقتدارسے باہراورزندگی کے مدارسے باہرکردیاجاتاہے، ہائے………کئی مرتبہ بابِ علم سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کی مثال دیتے ہوئےسمجھایاتھا………”بے شک میں نے اپنے ربّ کواپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا”۔ڈرتے رہناچاہئے، بڑے بول سے بچتے رہناچاہئے۔سامنے کی بات ہے کہ کل تک جس کی مرضی کے خلاف پاکستان میں پتہ تک نہ ہلتاتھا،جوہروقت قوم کومکے دکھاکر ڈرانے کی دہمکیاں دیتارہتا تھا،جوبڑے تکبرمیں کہتاتھاکہ تم کوپتہ بھی نہیں چلے گاکہ میری طرف سے بھیجی ہوئی اجل تمہاراقصہ تمام کردے گی لیکن وہ بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس دھرتی پرپہ قدم رکھنےکوترس گیا،یہ الگ بات ہے کہ ارضِ وطن جیسی ماں ایسے نافرمانوں کوبھی اپنی گودمیں سمالیتی ہے۔
کیاستم ظریفی ہے کہ امین وصادق کاڈھنڈورہ پیٹنے والاآج ملکی کرپشن کے بدترین الزامات کاسامناکررہاہے۔کل تک جس کےبیانوں اورتصویروں کے بغیرہراخبار ادھوراتھااورہرخبرنامہ نامکمل تھا………….آج اس پراپنی جان چھڑکنے والے اس کی اپنی جماعت کے ساتھی اس کے چہرے کوقصہ پارینہ سمجھ کراس کانام بھی بھول جانے کااعلان کررہے ہیں۔لیکن کیاکریں رعونت،تکبر،خود پسندی اورنرگسیت کابازارآج بھی ویسے ہی گرم ہے۔ ایکٹربدل گئے،کردارنہیں بدلے، جیسے دیوداس کاکردارکبھی کے ایل سہگل نے اداکیا،پھردلیپ کمارنے اسے امرکردیااورپھرشاہ رخ نے دیوداس بن کردھوم مچادی،اسی طرح تکبراوررعونت کاکرداربھی قائم رہتاہے،صرف اداکاروں کے نام وچہرے تبدیل ہوتے ہیں۔
جنہیں اپنے اگلے پل اورکل کااعتبارنہیں،مستقبل کی صورت گری میں مشغول ہیں،مٹی کے پتلے خاکے بنارہے ہیں،پانی کے بلبلے،مستقبل کی تصویروں میں اپنی پسندکے رنگ بھررہے ہیں۔کوئی عبرت نہیں پکڑرہابلکہ پنجوں کے بل کھڑے ہوکراب بھی اپنے خاکی قدکوبڑھانے میں مشغول ہیں۔عبرت کاذکرہواتو نجانےکیوں ایک واقعہ قلم کی نوک پرآگیاہے جس کوبیان کئے بغیرآگے نہیں بڑھ سکوں گا۔
میں اکثرسوچتاتھاکہ اس قدرکریم ورحیم رب اپنے بندے وسزاکیوں دیتاہے؟اسلام آبادمیں ایک بہت بڑے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے پروفیسرکواچانک ایک غیرمعمولی نمبرسے فون پراپنی سراونڈگنزکی کلیئرنس دینے کوکہاگیا کہ ایک بہت ہی اہم شخصیت ان کے کلینک ان سے ملنے آرہی ہے۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ بکتر بند گاڑیوں نے ان کے دفترکامحاصرہ کرلیا۔سول وردی میں ملبوس تقریباًحساس اداروں کے لوگ دفترمیں آئے۔ایک آفیسر نے اپنامدعابیان کیاکہ امریکاکی سفیرآئی ہیں ،ان کے کتے کوپرابلم ہے،اس کاعلاج کردیں۔تھوڑی دیربعد……سفیراپنےایک عالی نسل کتے کو گودمیں لئے داخل ہوئی،بے صبری سےکہنے لگیں: خدارا! کچھ کریں، میرے کتے کے ساتھ عجیب وغریب مسئلہ ہے،میراکتانافرمان ہوگیا ہے ،اسے میں پاس بلاتی ہوں یہ دوربھاگ جاتاہے،یہ مجھے بہت عزیز ہے ،اس کی بے اعتنائی مجھ سے سہی نہیں جاتی۔ پروفیسرنے پندرہ منٹ تک کتے کاغور سے جائزہ لینے کے بعدکہا!میم، یہ کتاایک رات کیلئے میرے پاس چھوڑدیں میں پوری کوشش کروں گاکہ یہ دوبارہ اپنے مالک کافرمانبرادبن جائے۔
پروفیسرنے اپنے کمدارفیضوکوبلایااورکتے کوبھینسوں کے باڑے میں لے جاکر”لترپریڈ”کاحکم دیتے ہوئے کہا”اسے ہرآدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لتر مار،ہرآدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالناجب پانی پی لے توپھرلترمار۔کمدارجٹ آدمی تھا۔ساری رات کتے کے ساتھ لترٹریٹ منٹ کرتارہا۔اگلہ صبح پورے عملے ساتھ سفیرزلف پریشاں لئے آدہمکی اوربیتابی سے اپنے کتے کے بارے میں دریافت کیاتوپروفیسرنے جواب دیاکہ کتابھی آپ کوبہت مس کررہاہے۔کمدارکتے کولے آیا،جونہی کتاکمرے کے دروازے میں آیا،چھلانگ لگاکرسفیرکی گودمیں آبیٹھا،لگادم ہلانے منہ چاٹنے،کتامُڑمڑکے تشکر آمیزنگاہوں سے ڈاکٹراورکمدارکوتکتارہااورکلینک میں بیٹھے تمام افرادگردن ہلاہلاکرمسکرارہے تھے۔
سفیرکہنے لگی:سرآپ نے اس کے ساتھ کیاکیاکہ اچانک پہلے سے بھی کہیں زیادہ بہتراورفرمانبردارہوگیا؟؟؟ڈاکٹرنے اسے اپنے دل کارازتونہیں بتایاکہ یہ ریشم و اطلس،ایئر کنڈیشن روم،اعلی پائے کی خوراک کھاکھاکے خودکومالک سمجھ بیٹھاتھااوراپنے مالک کی پہچان بھول گیا،بس،اس کایہ خناس اُتارنے کیلئے اس کوذرا سائیکولوجیکل پلس فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی،وہ دے دی……ناؤہی ازاوکے۔
دبئی کے بانی شیخ راشدبن المکتوم سے ان کے ملک کے مستقبل کے بارے میں سوال کیاگیاتوانہوں نے جواب دیاکہ میرے دادا گدھے پرسوارتھے، میرے والداونٹ پرسوارتھے،میں مرسڈیزپرسوارہوں،میرابیٹالینڈروورپرسوار ہے اورمیراپوتااپناذاتی جہازکا مالک ہے لیکن میرے پڑپوتےکو دوبارہ اونٹ پرسوارہوناپڑے گا۔”وہ کیوں”۔اس کاجواب تھا-“مشکل وقت مضبوط آدمی بناتے ہیں، مضبوط آدمی آسان وقت پیداکرتے ہیں۔ آسان وقت کمزورآدمی پیداکرتاہے،کمزورآدمی مشکل وقت پیداکرتاہے۔بہت سے لوگ اسے سمجھ نہیں پائیں گے لیکن آپ کوجنگجوپیداکرنے ہوں گے،مفت خورنہیں۔
انسان کی اوقات ہی کیاہے؟ہم تواپنی کمرکاتل نہیں دیکھ سکتے،داڑھ کادردباؤلاکردیتاہے،سرکے بال اپنے بس میں نہیں،پانی کی ایک بوندسانس کی نالی میں جا گھسے اورچندلمحوں کیلئے دماغ کوآکسیجن معطل ہوجائے تودماغ کے ساتھ جسم کاایک حصہ بھی جواب دے جاتاہے اورکڑیل سے کڑیل جوان بھی ابلی ہوئی سبزی میں تبدیل ہوجاتاہے۔معمولی سی چوٹ یادداشت سے محروم کر سکتی ہے۔نیندروٹھ جائے توانسان خودکشی کاسوچنے لگ جاتاہے۔یہ ایک گہرا تخیل ہے۔جمالیاتی حس کی تسکین،ندرت اوررعنائی کی محتاج ہے۔اللہ جمیل ویحب الجمال سے مفاہیم کشیدکرتے ہوئے جودت طبع کسی پیکر ِ حسن وجمال کی متلاشی رہتی ہے اوراکثر اظہارکی مصنوعی یاعارضی جلوہ گاہوں کی اسیربن کے رہ جاتی ہے۔حسن ازل تک رسائی ہوجائے توبصیرت کی کھڑکی سے نظرآنے والامنظربندے کومکمل طورپر اپنے سحرمیں جکڑلیتاہے۔
بس اتنی کہانی؟
تھوڑی سی مٹی،ٹھوڑاساپانی
بس اتنی کہانی؟
چھوٹاسابچپن،لمبابڑھاپا،کچھ کچھ جوانی
بس اتنی کہانی؟
نہ عہدہ نہ منصب نہ فرمان نہ کاغذ
بس اک روزِمحشرہے سب کچھ زبانی
بس اتنی کہانی؟
نہ کوٹھی نہ کوٹھا،نہ پت جھڑنہ برکھا،
نہ جنت مکانی نہ خلدآشیانی
بس اتنی کہانی؟
یہ سب کچھ ہے فانی
بس اتنی کہانی!
انسان کی اوقات ہی کیاہے؟ڈیاناکاحسن،اوناسس کی دولت،کینیڈی،گورباچوف اورمازوئے تنگ کی بے پناہ طاقت،شہنشاہ ایران کا تکبر اورنخوت،ملاعمر اور خمینی کی سادگی،مدرٹریساکی شفقت،آئن اسٹائن کی ذہانت،نپولین کی شجاعت،برنیڈررسل کی فراست،مائیکل جیکسن کی شہرت؟؟؟کہاں ہیں سب لوگ؟
ہم جو بھی ہوں اورجیسے بھی ہوتے ہیں
بالآخرسب قبروں میں جاسوتے ہیں