اب توان قوتوں کویقین کرلیناچاہئے جس کی دہائی پچھلی تین دہائیوں سے دی جارہی ہے کہ”ورلڈآرڈر”کے تخلیق کاریہودی نژادہنری کسینجرکے منصوبے کے تحت عالم اسلام کوتباہ کرنے کاجوپروگرام مرتب کیاگیا،اسی کے مطابق ایران عراق جنگ سے شروع کی گئی کہانی،عراقی صدام کے ہاتھوں کویت پرقبضے کے بعدمشرقِ وسطیٰ میں باقاعدہ اپنے جنگی اڈوں کے قیام کیلئے کویت،سعودی عرب اورقطرکانتخاب،عراق کی مکمل تباہی کے بعدصدام کو پھانسی پرلٹکادینا، بعدازاں عرب بہارکے نام پرلیبیاکوتاراج کرکے معمر قذافی کی لاش کوسربازارگھسیٹنااوراس کوعبرتناک انجام تک پہنچادینے کے بعدشام میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خانہ جنگی کاآغازاوراب خطے میں دومضبوط معیشت کی حامل ریاستوں، سعودی عرب اورایران کا یمن میں اپنے تمام مالی وسائل کابیدردی سے جنگ کی آگ میں جھونک دینے کا سلسلہ ”ورلڈآرڈر”کے شیطانی جاری عمل کی نشاندہی کوسمجھنے کیلئے کافی ہے۔اس پر مستزاد اب روس اورامریکاسمیت مغربی استعماری قوتوں نے سنی مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعدشام میں اپنے جاری کھیل کواچانک ختم کرنے کی تیاریوں اور غیرمعمولی تباہی اورقتل عام کے باوجودبشارالاسدکی حکومت کوقائم رکھنے کے بعدیہ سازش کھل کرسامنے آگئی ہے کہ عالمی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کے نئے منظرنامے میں عرب علاقوں کے سنی مسلمانوں کوکمزورکرکے اپنی مرضی کاسیٹ اپ قائم کرناچاہتی ہیں چنانچہ قصرسفیدکے جابرفرعون ٹرمپ نے اچانک شام سے فوجی انخلاء کا اعلان کردیاہے جس کے بعدعراق،شام،افغانستان اورلیبیا کی صورتحال پرنظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے سوال اٹھایاہے کہ شام میں امریکی پالیسی اس قدرالگ تھلگ اور منفردکیوں رہی؟
اس سوال کاجواب مختلف سیاسی ودفاعی تجزیہ نگاراورعسکری ماہرین اس طرح سے دے رہے ہیں کہ امریکاسمیت عالمی قوتیں مشرقِ وسطیٰ کے نئے منظرنامے پرسنی مسلمانوں کو کمزور کرنے،انہیں غیرسنی طبقے کے رحم وکرم پرچھوڑنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہیں جوامریکا اورعالمی قوتوں کے مفاد کیلئے خطرہ نہیں بلکہ معاون ہیں۔عالمی قوتوں کے اس منصوبے کی پرتیں اب کھل کرسامنے آگئی ہیں ۔روس اورامریکانے شام میں صدربشار الاسد کاساتھ دینے کیلئے شام میں ایسے وقت میں مداخلت کی تھی جب بشارالاسدکے خلاف ملک کی 70٪سنی آبادی بشارالاسدکے مظالم کے خلاف تقریباً کامیابی سے ہمکنارہونے والی تھی۔عرب خبررساں اداروں کے مطابق امریکی فوجی ذرائع نے شام میں مشن مکمل ہونے کااعلان کیاہے ۔امریکانے 22دسمبر 2014ء کوشام میں اپنی فوجیں بھیجی تھیں اوریہ وہ وقت تھاجب شام میں داعش نے اپنی موجودگی کااعلان کرکے نام نہادخلافت اسلامیہ کے قیام کااعلان کیاتھا۔یادرہے کہ داعش کے قیام کے بارے میں امریکی سابقہ وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن اپنے انٹرویوزکے علاوہ اپنی کتاب میں بھی انکشاف کر چکی ہیںکہ مشرقِ وسطیٰ اوردیگرممالک میں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اس تنظیم کو ہم نے اسرائیل کے توسط سے کھڑاکیا۔
امریکانے بعدازاں اپنے دہرے معیارکوچھپانے کی خاطرداعش کے خلاف کاروائی کاجوازبناکرشام میں فوجی اڈے حاصل کئے اورچنددیگرممالک کوشام میں داعش کے نام پرمشتبہ ٹھکانوں پربمباری شروع کردی۔امریکانے انتہائی مہارت اورسرعت کے ساتھ شام میں انٹیلیجنس ورک قائم کرلیا جبکہ عراق میں 2003ء میں صدرصدام حسین کے خلاف جارحیت کی وجہ سے امریکاپہلے سے موجودتھا۔امریکانے شام کی بہت سی ایسی تنظیموں پر پابندی عائدکردی جوبشارالاسدکے خلاف عوامی تحریک میں اہم کرداراداکررہی تھیں ۔ایسی تنظیموں میں النصرہ فرنٹ کانام نہائت اہم اور سرفہرست ہے ۔ شامی تحریکوں پرنظررکھنے والے تجزیہ کاروں کامانناہے کہ شام کی تحریک کی ناکامی کی ذمہ داری روس اورامریکاپرہی عائدہوتی ہے اوریقیناًیہ ان دونوں ملکوں کی اندرونی ملی بھگت اور سازشوں کی وجہ سے سامنے آئی ہے ۔
شام کااکثریتی طبقہ بشارالاسد کے مخالف مکتب فکرسے تعلق رکھنے والوں کاہے جبکہ بشارالاسد کاعلوی خاندان اورنصیری فرقہ شام کی محض پندہ سے بیس فیصدآبادی پرمشتمل ہے لیکن اس کے باوجودشام کے علوی خاندان کے لوگوں کوشناختی کارڈ پرایسے خصوصی کوڈنمبرہوتے ہیں جس کے ذریعے سرکاری اداروں،ہوائی،زمینی اورسمندری راستوں پرسفراورتجارتی سرگرمیوں کے دوران کسٹم اوردیگراہم اداروں میں ان کی شناخت کی جاتی ہے اورانہیں خصوصی ریلیف اورسہولت فراہم کی جاتی ہے ۔یہ طبقہ شام کا سب سے زیادہ طاقتورتسلیم کیا جاتاہے اورعلوی خاندان کے پس منظر کوجاننے والے مبصرین کے مطابق بشارالاسدکے داداسلیمان الاسدفرانس کاخصوصی نمک خوار اوروفادارتھا۔اسی سلیمان الاسدکے بیٹے حافظ الاسد شامی فضائیہ میں کمیشن لیکربھرتی ہوئے اور غیرمعمولی سرعت ترقی کے ساتھ شام کا بالآخرڈکٹیٹر بن گیا۔خطے میں بعث پارٹی کاقیام عمل میں لایاگیاجس کی عراق اورشام میں مکمل حکمرانی قائم کی گئی۔عراق میں صدام حسین نے بعث پارٹی کے ذریے اقتدارپرقبضہ کیاجبکہ حافظ الاسدنے شام میں اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے 1971ء میں اقتدارپر قبضہ کیااوراپنے مرنے تک29سال شام کے سیاہ وسفیدکامالک بنارہااوراسی پارٹی نے 2000ء میں اس کے مرنے کے بعداس کے بیٹے بشارالاسدکوشام کی عنان اقتدارسونپ دی جوآج تک اسی عہدے پربراجمان شام کی 70فیصداکثریتی سنی آبادی کواپنے اتحادیوں کی مددسے خون میں نہلارہاہے ۔
ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ روس اورامریکانے ”ورلڈآرڈر”کے مطابق سوچی سمجھی سازش کے عین مطابق اس ڈکٹیٹرکی بجائے شام کے سنی عوام کوہی نشانہ بنایاجوآزادانہ انتخابات کامطالبہ کر رہے تھے لیکنامریکااوراس کے مغربی حواری جوجمہوریت کے بڑے چیمپئن بنتے ہیں ،انہوں نے بشار الاسد کی بجائے جائزمطالبہ کرنے والی سنی اکثریت کوہی کچل ڈالا۔شام کے اہم سنی شہروں ادلب، حماس اورحلب کوزمینی اورفضائی بمباری کرکے ملیا میٹ کردیااورایران اوراس کے اہم فکری لسانی فرقہ کے ڈاخلے کی راہ ہموارکی گئی اورسنی علاقوں کو حکومتی اورایرانی مکتبِ فکر کے لوگوں کے حوالے کر دیا گیا اورحزب اللہ کوطاقت کے استعمال کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ امریکا اوراسرائیل نے اس خوبی اورمہارت کے ساتھ ایک تیرکے ساتھ کئی شکار کرنے کی ایسی ہولناک اورخوفناک سازش تیارکی کہ وہ حزب اللہ جس نے لبنان میں اسرائیل کی فضائی برتری کے باوجود اس کوزمینی کاروائی میں لوہے کے چنے چبوا کر عالم اسلام سے جوتحسین وصول کی تھی ،اس کوجہاں عالم اسلام میں بدنامی کے گہرے اورعمیق گڑھے کاشکار کر دیاوہاں اس کی حربی قوت کو بھی کمزورکردیاتاکہ اس خطے میں آئندہ اسرائیل کے سامنے کوئی طاقتورحریف نہ رہے۔
شامی عوام ،مغربی اخوان المسلمین اورتیونس کی النہیضہ سے فکری اورعملی حوالے سے بالکل مختلف ہیں ۔یہ لوگ اعتدال کے ساتھ دینداراور معاملہ فہم ہیں جس کی وجہ سے روس اور امریکاان کی یکجہتی ختم کوختم کرانے میں ناکام ہیں تاہم عالمی قوتیں شامی،ایرانی اورلبنانی ملیشاؤں کی وجہ سے ایک کروڑسے زائدعوام معاشی لحاظ سے بالکل تباہ ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پرمجبور کردیئے گئے ہیں اورامریکا،اس کے مغربی اتحادی اورروس بھی اس سازش میں مکمل ہم خیال ہیں کہ شام سے سنی اکثریت کومزیدخوفزدہ کرکے شام کوچھوڑنے پرمجبور کیا جائے اوریہاں مستقل طور پرایسی مضبوط سنی مخالف حکومت قائم کی جائے جومسلمانوں کوفرقہ واریت کے جہنم میں جلاکرخاکسترکردے تاکہ مستقبل میں اپنے مفادات کی تکمیل میں اسرائیل کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ پرمکمل قبضہ کرکے ان ممالک کے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرلیاجائے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال قبل ایران کے مذہبی رہنماء نے دہمکی دیتے ہوئے خطے کے سنی ممالک کوانتباہ کیاتھاکہ آئندہ ایران سے لیکریمن تک شیعہ مسلک کی طاقتورپٹی اس خطے کے مستقبل کے فیصلوں میں اہم کرداراداکرے گی۔نجانے عالم اسلام اس گہری سازش کاعملی تدارک کرتے ہوئے اپنے مسائل کو باہمی اتفاق رائے سے کب حل کرے گاکہ دشمن کیلئے شیعہ سنی سب کوبلاتمیزختم کرنامقصودہے۔
Load/Hide Comments