Balochistan and the Thought of Iqbal

“سرزمینِ بلوچستان اور فکرِ اقبالؒ — امت کے عہد نو کی بشارت”

:Share

کروڑوں حمدوثنااللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پر اور کروڑوں درود خاتم النبینﷺ کی ذات گرامی پر امابعد: اللہ نے سورہ الانعام کی آیت نمبر 162 میں فرمایاہے: کہہ دوبے شک میری نمازاور میری قربانی اورمیراجینااورمیرا مرنا اللہ ہی کیلئےہے جوسارے جہانوں کا پالنے والاہے”۔
یہ آیت حقیقتِ خودی کی قرآنی تفسیر ہے۔یہ انسان کے پورے وجود کو اللہ کی بندگی میں سمونے کی دعوت ہے —وہی بندگی جسے اقبالؒ نے خودی کا سرچشمہ اور ملتِ اسلامیہ کی اصل قوت قرار دیا۔

میرے انتہائی معززدوستوں،بھائیوں اور عزیزوں
آج مجھے ” سرزمینِ بلوچستان اور فکرِ اقبالؒ۔امت کے عہدِنو کی بشارت “کے بارے میں کہنے کاحکم ہوا ہے جس میں آج ہم حکیم الامت کی روح کو گرما دینے اور وطن عزیز کے اہم خطہ بلوچستان تک کے سفر کاتذکرہ کریں گے ان شاءاللہ

زندگی کی متاعِ عزیزکیاہے؟روپیہ پیسہ،زروجواہر،زمینیں اورجائداد،منصب،جاہ وجلال،ناموری،واہ واہ،دادوتحسین،صلہ وستائش، بیوی،یاردوست ۔بچےعزیزواقرباء،محبت کیاہے ….کیایہی ہے زندگی کی متاعِ عزیز!توپھرنظریہ کیاہے،اصول کیاہے،حق وصداقت کیاہے،دارورسن کیاہے،شہادت ،عشق کیاہے، بے غرضی کیاہے،جاں نثاری کیاہے،مرمٹناکیاہے؟؟؟بتایئے پھر یہ سب کیاہیں؟کسے کہتے ہیں متاع عزیز؟کیاانکارمتاعِ عزیزنہیں ہے؟

جبرکے سامنے انکار،فرعونیت کاانکار،صلہ کاانکار،سودے بازی سے انکار،دولتِ بے بہاکاانکار،باطل کاانکار،سرجھکانے سے انکار،ظلم وجبرکاانکار،رب کی حاکمیت کے سواسب کاانکار.. ……انکارمتاعِ عزیزنہیں ہے توپھرکیاہے انکار؟انکاراوریکسرانکار،پورے شعورکے ساتھ انکار۔کوئی مصالحت نہیں ،بالکل بھی نہیں….مجسم انکار…… باطل کے سامنے، طاغوت کے سامنے،رب کے باغیوں کے سامنے،نفس پرستوں کے سامنے،دنیائے حرص وتحریص کے سامنے، دھوکے کے سامنے،بے وفائی کے سامنے،خدائی لہجے میں بات کرنے والوں کے سامنے…..انکاراوریکسرانکار……… پورے شعوراور پورے وجودکے ساتھ انکار۔بس انکار۔

دلیل چاہے کتنی بھی مضبوط ہو،رب کے سامنے کیاحیثیت رکھتی ہے!بس انکار،لیکن انکاراپنے نفس کوخوش کرنے کیلئے نہیں، نفس کوخوش کرنے کیلئےانکار انکارِابلیس ہے۔اپنے رب کیلئےانکار…یہی ہے اصل اورکچھ نہیں۔ نہیں مانیں گے کسی کی بھی۔ کسی طاقت کی،کسی بھی نظام باطل کی ….نہیں مانیں گے چاہے لاکھ دلیلیں دو۔بس مانیں گے توصرف رب اعلی کی،بس اسی کی اورکسی کی بھی نہیں۔ یہی توحیدہے اورہے کیا توحید! میرادین توشروع ہی انکارسے ہوتاہے یعنی لاسے۔پہلے انکارکی منزل ہے پھر تسلیم کی۔میں انکار کیے بغیرتسلیم کیسے کرسکتا ہوں!اگرمیں انکارنہ کروں اورتسلیم بھی کروں تویہ منافقت ہے،کھلاتضادہے جوقابلِ قبول نہیں۔ملاوٹ نہیں خالص درکارہے بالکل خالص….چاہے ذرہ ہی ہو۔ ملاوٹ شدہ پہاڑدرکارنہیں ہے۔یہی ہے اخلاص اورکیاہے!
توحیدتویہ ہے کہ خداخودحشرمیں کہہ دے
یہ بندۂ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے

انکارروحِ اسلام ہے۔انکارروحِ حسینیت ہے۔انکار…..جا،نہیں مانیں گے۔تمہارے دھوکے تمہیں مبارک،ہماراسچ ہمیں۔انکارلکھنے میں بہت آسان ہے۔پنج حرفی لفظ بہت آسان ہے لکھنا،کرنابہت مشکل ہے۔جان لیواہے،بہت نقصان دہ،بہت قربانی چاہتاہے۔خودسے بھی لڑناپڑتا ہے۔ اپناانکاربھی، نہیں اپنی بھی نہیں مانوں گا۔بہت مشکل ہے یہ بہت کٹھن منزل۔معرکۂ خیروشرکیاہے؟معرکہ حق وباطل کیاہے ؟یہی توہے،حق کا ساتھ دیناخیر،باطل کاساتھ دیناشر۔رب کے سامنے تسلیم خیراورابلیس کاپیروکاربننا شر۔معرکۂ خیروشریہی ہے۔بس یہی ہے۔پورے عالم میں یہی کچھ ہوتاہے۔ہوتارہے گا۔نہیں رکے گایہ معرکہ۔کربلاکادرس کیاہے؟جنگِ بدرکیاہے؟معرکہ احدمیں دندانِ مبارک شہیدہوگئے،چچا حمزہ کے ٹکڑے کردیئے گئے،بلک بلک کررودیئے لیکن سرتشکرسے جھک گئے کہ یہی اللہ کی مرضی، جہادکیاہے؟یہی ہے بس۔سب کادرس ایک ہے:بس انکار۔ انکارکروتوجان سے گزرنا پڑتا ہے۔خاندان نثارکرناپڑتاہے۔سب کچھ قربان کرنا پڑتاہے۔آگ وخون میں نہاناپڑتاہے۔خا ک آلود ہوناپڑتا ہے۔ اپنی خواہشات کوذبح کرناپڑتاہے۔ تیزدھارپرسے گزرناپڑتاہے۔لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔جب شعورکے ساتھ انکارہوتوہرلاشہ اٹھاتے ہوئے یقین بڑھتاہے۔پختگی آتی ہے۔ربِّ اعلی کیلئےسب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ پیداہوتاہے۔

انکارجتنی شدت اختیارکرتاچلاجائےانقلاب اسی شدت سےنمودارہوتاہےاورپھرہمارامسئلہ نتائج نہیں کارزارِخیروشرمیں اپنا کام سرانجام دیناہے۔ ایسے ویسے چونکہ چنانچہ لیکن ویکن نہیں، یکسرانکار۔رب پرکامل یقین کےساتھ باطل کاانکار۔طاغوت کاانکار۔خون رنگ لاتا ہے،پھرانقلاب آتا ہے ۔کب رکا تھامعرکہ حق وباطل!نہیں رکے گایہ معرکۂ خیروشر۔بس غالب وہی رہیں گے جواپنے رب کے ساتھ جڑے رہیں گے۔پورے یقین کے ساتھ،پوری سرشاری کے ساتھ۔ انکارروحِ دین ہے،باطل کاانکار۔طاغوت کی ہرشکل کاانکار،یکسرانکارکوئی مصالحت نہیں،بالکل بھی نہیں۔قربانی ہی قربانی،سرشاری ہی سرشاری!

سرشاری اسے ہی کہتے ہیں۔ہنستے کھیلتے لاشے اٹھانااورپھرآوازِبلندسے رب کی کبریائی بیان کرنا۔یہی ہے دین،اورہے ہی کیا! اسے کہتے ہیں اپنی نذرپوری کرنا ۔اپنے دعوے کی صداقت کومجسم کردینالیکن یہ ہے بہت مشکل،توفیق پرہے یہ۔جانوں کا نذرانہ پیش کرنا اوررب سے التجاکرناکہ قبول کرلیجیے ہماری قربانی اورپھریقین کی منزل پرپہنچ کرپکارنا:کہہ دوبے شک میری نماز اور میری قربانی اورمیراجینااورمیرا مرنا اللہ ہی کیلئےہے جوسارے جہانوں کاپالنے والاہے”۔رب کیلئےخالص۔باطل ہمیشہ سے گھمنڈی ہوتاہے،دوھوکے کاشکار!

انتہائی واجب الاحترام دوستوں،بھائیوں!
اس ساری تمہیدکے بعدجس پرعزم شخصیت کاچہرہ مبارک نظرآتاہے توبے اختیاردل سے ان کانام ِ نامی مصورِ پاکستان جناب علامہ اقبالؒ کانکلتاہے جن کوخراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ہم سب آج یہاں موجودہیں۔میں کس منہ سے اپنے اس مرشدکاشکریہ اداکروں ،جن کا کلام ہمیشہ مشکل وقت میں بھولاہواسبق یاددلادیتاہے۔جب بھی دل بہت بے چین ہوتاہےتوان کے کلام وفرمودات سے ہمیشہ کی طرح دانش و حکمت کے ایسے موتی جھڑتے ہیں کہ اداس روح تک سرشار ہوجاتی ہے اورہرمرتبہ تنگ دامنی کا معاملہ بھی آن کھڑاہوتاہے۔ اب منوں مٹی تلے بادشاہی مسجد اور لاہور قلعہ کے وسط میں اللہ کے ہاں اپنی دائمی منزل پراپنی وفاداریوں کے صلے میں یقیناًجنت میں بیٹھے اپنی جاودانی کامیابی پر مسرورہوں گے ۔

مجھے جب میرے بہت ہی محترم برادرم جناب حافظ عبدالباسط صاحب نےاس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ،کوئٹہ کے اس سرد موسم میں جناب حضرت علامہ اقبالؒ سے محبت کرنے والے اقبال شناسوں کے جمع ہونے کی نویدسنائی گئی ،بتایاگیاکہ صدی کے اس نامور مجاہد آزادی کے اس وژن کو دوبارہ دہرانے کاتذکرہ ہوگا تویقین کریں کہ ایک عرصے کے بعد پھوٹتی سحراچھی لگی،صبح نورکی تازگی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی،اورسجدہ شکر اداکیا۔یوں محسوس ہورہا تھاکہ روح کا ساراآلام دھل گیاہے اوراب روٹھے ہوئے الفاظ ایک دفعہ پھرایک قطار میں مسکراتے کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، پھرسے ہمدم،ہمدرداورغمگسار،بڑھ کرگلے ملنے کیلئے متمنی،جونہی میرے بیانئے نے محبت سے بازو پھیلائے فورابغیرکسی تاخیرکے برچھی کی طرح سینے میں اترگئے کہ آج اقبال کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اور کیوں آج اقبالؒ پرایسے گھناؤنے اور بے ہودہ الزامات لگانے کی جسارت ہو رہی ہے۔

علامہ اقبال جنہوں نے اس کارزارمیں قدم رکھنے سے قبل اپنے رب سے یہ عہدکیا: کہو،میری نماز، میرے تمام مراسِم عبودیت، میراجینااورمیرامرنا،سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس کاکوئی شریک نہیں۔

برصغیرکی تقسیم جیسی زمینی حقیقت کے بعداب تاریخ کوجھٹلانے یاان حقیقی خاکوں میں جھوٹ وبدنیتی کارنگ بھرکرتاریخی واقعات کی شکل بگاڑکرنئی نسل کوگمراہ کرکے اقبالؒ سے بد ظن کرنے کی کوشش ایسے ہی ہےجیسے چاندپرتھوکاواپس اپنے منہ پرگرتاہے۔78سال گزرنے کے بعدایک مرتبہ پھراقبالؒ پرنہروکے اس بے جاالزام کوکیوں دہرایاجارہاہے کہ “اقبالؒ اپنی زندگی کے آخری دورمیں سوشلزم کے زیرِاثرتصورِپاکستان سے دستبردارہوگئےتھے”۔کیاان الزامات سے زمینی حقائق بدل سکتے ہیں کہ دوبارہ ایسااکھنڈبھارت قائم جائے جہاں ہرروزکشمیراور گجرات جیسی قیامتیں مسلمانوں پر ڈھائی جائیں!

اقبالؒ جنہوں نے پاکستان جیسی ریاست کاخواب دیکھا،ان کواس الزام میں آخرکیوں ملوث کیاجارہاہے؟اورآج بالخصوص مئی کی جنگ میں بدترین ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت میں ایسا بے ڈھنگا راگ کیوں سنائی دے رہاہے؟پھربھارتی بہارانتخابات سے قبل تواترسے اس جھوٹ کوپھیلانے کی کیاوجہ ہے کہ سرحدپارٹی وی پربیٹھے دانشوروں کی سڑاندبھی بھڑک اٹھتی ہے ۔آئیے تاریخ کے جھروکوں سے حقائق کی دنیامیں جھانکتے ہیں:

آج کا زمانہ وہ ہے جب امتِ مسلمہ کی وحدت شیرازے کی طرح بکھر چکی ہے۔ طاقت کے مراکز مغرب کے ہاتھ میں،ذرائع ابلاغ اور معیشت کے اعصاب عالمی سرمایہ داروں کے قبضے میں، اور سیاسی فیصلے سامراجی ایجنڈوں کے تابع ہیں۔پاکستان، جو اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے، اس کے خلاف ایک منظم بین الاقوامی منصوبہ بندی جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بارہا اپنے بیانات میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ختم کرنے کی خواہش ظاہر کر چکا ہے۔لیکن یہاں اقبالؒ کا پیغامِ خودی ہمیں راستہ دکھاتا ہے۔ لیکن اقبالؒ کی نگاہ میں قوموں کی قوت نہ توپ و تفنگ سے آتی ہے،نہ معاہدوں سے، بلکہ ایمان کی حرارت اور خودی کی بلندی سے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنی خودی پہچان لے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے محکوم نہیں بنا سکتی۔

اقبالؒ کا یہ فلسفہ دراصل خوف کے مقابلے میں ایمان کی جرات ہے۔ آج جب عالمی طاقتیں پاکستان کو اس کی قوتِ دفاع سے محروم کرنے کے منصوبے بناتی ہیں، تو ہمیں اقبالؒ کے اس پیغام کو عملی صورت دینا ہوگی کہ خودی ایمان کا ہتھیار ہے اور ایمان کسی ایٹمی طاقت سے زیادہ موثر قوت ہے۔
اقبالؒ نے فرمایا تھا
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
یہی وہ ولولہ ہے جو پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا سکتا ہے۔

حالیہ ایّام میں برصغیر کی تاریخ نے ایک اور بھڑکتی ہوئی داستان رقم کی۔ مئی 2025 کی پاک بھارت جنگ، جس میں بھارت کو اسرائیلی پشت پناہی حاصل تھی،اس کی خاکستر میں کئی حقیقتیں چھپی ہیں۔ بھارت کو نہ صرف فوجی سطح پر ہزیمت ہوئی بلکہ اس کے عسکری غرور نے اس کی سیاست کو بھی کمزور کر دیا۔تاہم، امن کے نام پر امریکا کی ثالثی سے جنگ بندی ہوئی، اور اب مودی حکومت ایک بار پھر سرکریک کے محاذ پرجنگی مشقوں کے ذریعے نفسیاتی دباؤ قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس تناظر میں بلوچستان، جو پاکستان کی جغرافیائی ریڑھ کی ہڈی ہے، خاص طور پر استقامت و بیداری کا متقاضی ہے۔مئی 2025 کی پاک-بھارت جنگ کے بعد بلوچستان کے نوجوانوں سے اقبالؒ کا یہ اہم پیغام ضرورپہنچانا چاہتا ہوں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
بلوچ قوم میں غیرت، حمیت، اور قربانی کا وصف ازل سے موجود ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اقبالؒ کے فلسفۂ خودی کوبلوچ نسلوں کے ذہن و کردار میں پیوست کیا جائے۔ اقبالؒ کا مردِ مومن وہ ہے جوطاقت کو امانت اور قوم کو ذمہ داری سمجھتا ہے۔ وہ دشمن کے حملے سے نہیں ڈرتا،بلکہ اپنے ایمان کی قوت سے مقابلہ کرتا ہے۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

آج پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کے مقابلے میں ہمیں سیاسی شعور، فکری اتحاد، اور قومی خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ وہی تین عناصر جو اقبالؒ کے فلسفۂ حیات کی بنیاد ہیں۔ بلوچستان کے لیے اقبالؒ کا پیغام یہی ہے کہ یہ خطہ محض معدنی خزائن کا گہوارہ نہیں، بلکہ اسلامی غیرت، دفاعی شعور، اور فکری استقلال کی علامت ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک قومیں تبھی زندہ رہتی ہیں جب ان کے دلوں میں دین کی حرارت زندہ ہو۔

نائن الیون کے بعد کی دنیا میں پاکستان کے سامنے ایک نئی آزمائش کھڑی کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں امریکا نے دھمکی دی:ہماراساتھ دو،ورنہ تمہیں پتھرکے دورمیں پہنچادیں گے۔ پاکستان نے مجبوری میں اس جنگ میں شمولیت اختیار کی،لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان خودمیدانِ جنگ بن گیا،امریکا نے انڈیاکو سول ایٹمی معاہدہ دے کر نوازا، اور افغانستان میں اسے دہشت گردی کی راہداری فراہم کی۔ جو طالبان کل سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے ہیرو تھے، انہی کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔یہ وہ وقت تھا جب اقبالؒ کی فکرِ نشاۃِ ثانیہ ہمیں ایک نئی سمت دکھا سکتی تھی،وہی فکرجوکہتی ہے کہ اسلام کی بقا اخوت، خودداری، اور اتحادِ ملت میں ہے، نہ کہ مغرب کی خوشنودی میں۔

ایک نظم میں اقبال افغان عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو جاننے کے لیے اپنی سرزمین اور سرزمین میں تلاش کریں:
قیمت شمشاد خود نشناختی
سرو دیگر را بلند انداختی
مثل نی خود را ز خود کردی تهی
بر نوای دیگران دل می نهی
ای گدای ریزه ای از خوان غیر
جنس خود می جویی از دکان غیر
تجھے اپنی ہی لکڑی کی قیمت معلوم نہیں تھی، تو نے دوسرے کا دیودار اٹھایا۔ اپنے سرکنڈوں کی طرح تم نے بھی اپنا دل دوسروں کی موسیقی پر خالی کر دیا ہے۔ تم ایک معمولی بھکاری ہو، مختلف قسم کی دکان سے کھانا مانگتے ہو۔

یہی اقبالؒ کا نوحہ ہے اور یہی ان کی پکار کہ مسلمان اگر اپنی روحانی خودی کو فراموش کر دے تو سیاسی خودمختاری بھی مٹ جاتی ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبالؒ کے تصورِ امت کواپنی خارجہ پالیسی، تعلیمی نظام، اور سماجی اصلاحات میں سمودیں۔ اقبالؒ کا نشاۃِ ثانیہ دراصل اسلامی شعور کی ازسرِنو بیداری ہےجہاں انسان صرف ریاست کا شہری نہیں، بلکہ امت کا سپاہی ہوتا ہے۔بلوچستان، جو افغانستان کے دروازے پر ہے، اسی فکری جدوجہد کا محوری خطہ بن سکتا ہے۔ اگر یہاں کے نوجوان اقبالؒ کے اس پیغام کو سمجھ لیں کہ اسلام صرف عبادت نہیں، بلکہ عمل، عدل، اور قیادت کا نام ہے۔

علامہ اقبالؒ کا خواب صرف ماضی کی داستان نہیں، بلکہ مستقبل کی راہ ہے۔انہوں نے جس نشاۃِ ثانیہ کا خواب دیکھا، وہ اب بھی ہم سے مخاطب ہے۔اقبالؒ کے نزدیک امتِ مسلمہ کی نجات قرآن کی طرف رجوع، خودی کی بیداری، اور اتحادِ ملت میں ہے۔اگر ہم خودی کی حفاظت کرناسیکھ لیں تو عالمِ رنگ و بُو میں ہماری داستان کسی اور رنگ سے سنائی جائے گی۔آج جب عالمی طاقتیں پاکستان کے گرد حصار بُن رہی ہیں، بلوچستان میں فتنہ و انتشار کے بیج بو رہی ہیں،اور امتِ مسلمہ کو قومی، لسانی، اور فکری بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہیں،توہمیں اقبالؒ کی آواز پرلبیک کہناہوگاکہ مومن اپنی تقدیر کا خود خالق ہے،اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اسی دن شروع ہوگی جب امت اپنی خودی کو پہچان لے گی۔

مجھے بطور ایک کشمیری نژاد پاکستانی قائد کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جہاں انہوں نےجس کشمیر کوپاکستان کی شہہ رگ قراردیاتھا، اور مجھے افغانستان کے ملا عمر کے بھی وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے پاکستانی وفد کے استقبال میں کہے تھے:کہ ہم افغان قیامت تک پاکستان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے، آپ کا جہاں پسینہ گرے گا وہاں ہمارا خون بہے گا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے مجبور ومقہوربھائیوں کو بھی یہ پیغام دیا تھا کہ ہم جلد آپ کو ہندو کے ظلم وستم سے آزادی دلوانے کیلئے آئیں گے کہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔اس وقت ملا ہیبت 20 سال کا نوجوان اور ان کا بیٹا ملا یعقوب،افغانستان کا وزیر دفاع 5سال کی عمر میں اپنے والد کے اس خطاب کی گونج کو کیسے بھلا سکیں گے؟

اس بے حسی کودیکھتے ہوئے مجھے تاریخ کااہم واقعہ یادآرہاہے،عبرت کیلئے دہراناچاہتاہوں:
اندلس کاجلیل القدرحکمران درباریوں کے ساتھ نوتعمیرمحل میں نمودارہواجس میں سونے کاقبہ جگمگارہاتھا۔جب دوسرے داد دے چکے توقاضی سعید کی طرف متوجہ ہوا”بادشاہ تم پر شیطان سوارہے قاضی نے کہا کہ سونے سے عمارتیں نہیں بنائی جاتی”آسمان اورزمین کے درمیان ایک سناٹاتھااوردل تھے جوخوف اوراندیشوں سے دھڑک رہے تھے۔جب بادشاہ کی آوازابھری ”سعید کو لوگ بے سبب ہسپانیہ کاضمیرنہیں کہتے،قبہ گرادیاجائے”۔

مجھے ایک اوربہت ہی اہم واقعہ یادآگیا:جب کوفہ ایک بارپھرفتح ہونے پرمختارثقفی کاسرکاٹ کرمصعب ابن زبیرکے سامنے پیش کیاگیاتواس نے فرمان جاری کیاکہ جشن مناؤ،دشمن اسلام ماراگیا۔ دربارمیں بیٹھاایک بوڑھامسکرایاتومصعب نے انتہائی غصے سے دریافت کیا:کیوں ہنستاہے بڈھے؟اس بوڑھے نے کہا:ماضی یادآگیا،حال سامنے ہے،مستقبل آدھادکھائی دے رہا ہے۔مصعب نے حکم دیاکہ تفصیل سے بتاؤ۔بوڑھے شخص نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپوچھا:کیاتم سن سکوگے؟اگرہمت ہے توغورسے سنو: یہی دربارتھا۔عبیداللہ ابن زیادتخت پربیٹھاتھا۔حسین ابن علی کاسرلایاگیا۔ابن زیادنے کہا جشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیا۔ہم نے جشن منایا۔ایک بارپھریہی دربارتھا،جس مختارثقفی کاسرتیرے قدموں میں پڑاہے،یہ اسی تخت پہ بیٹھاتھاجہاں اس وقت توبیٹھاہواہے۔ ابن زیاد کاسرکاٹ کرلایاگیاتومختارثقفی نے فرمان جاری کیا،جشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیا۔ہم نے جشن منایا۔ آج وہی دربارہے اور اسی تخت پرتو براجمان ہے۔مختارثقفی کاسرلایاگیاہے,تیراحکم ہے جشن مناؤ،دشمن اسلام ماراگیا۔ہم آج بھی جشن منائیں گے۔ کل بھی یہی دربارہوگا، یہ تونہیں جانتاکہ تخت پرکون بیٹھاہوگالیکن اتناپتہ ہے کہ سرتیراہوگااورفرمان جاری کیاجائے گا،جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیااورہم جشن منائیں گے۔

بوڑھے کی پیشگوئی کے عین مطابق کوفہ کے دربارمیں عبدالملک بن مروان کے سامنے مصعب بن زبیرکاسرپیش کیاگیا اور اس نے جشن منانے کاحکم دیا۔ کسی نے بوڑھے کی بات کا عبدالملک بن مروان کے سامنے ذکرکیاتوعبدالملک بن مروان نے فوراً دربارکی عمارت کو گرانے اوردربارکوکوفہ کے کسی دور دراز علاقے میں تعمیرکرنے کاحکم دےدیا۔ اب اگلاجشن بھی ہوگا ،سب کو معلوم ہے لیکن اگلی بار”سر”کس کاہوگالیکن یہ پتہ نہیں،کب اورکیوں؟

توکیاہم بحیثیت قوم چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں،صرف جشن مناتے رہیں گے؟کیاہم سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟اگررکھتے ہیں تو پھرسوچتے کیوں نہیں؟اندھی تقلیدکوئی ہم سے سیکھے؟ہماراحال یہ ہے کہ ہمیں چوری اورکرپشن پر پرکوئی اعتراض نہیں،بس چوراورکرپٹ ہماری مرضی کاہو۔لگتاہے کہ اس قوم کواب کسی عبدالملک کی تلاش ہے جواس عمارت کوگراکرنئی عمارت کی تعمیرکاحکم دے یعنی موجودہ نظام کومکمل طورپر تبدیل کر دے گا۔ یقین کیجئے کہ جس دن ہم نے علامہ اقبال کی تعلیمات پر خلوصِ دل سے عمل کرنے کی ٹھان لی تو صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک انقلاب آجائے گا،ان شاءاللہ

پاکستان میں جاری سیاست کاجوتماشہ جاری ہے،اس کاانجام بھی شائدکچھ ایساہی نظرآتاہے۔سیاسی ایوانوں میں کیاہوتاہے؟عدلیہ کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں؟کل کلاں کیاہوگا،یہ تو وقت ہی فیصلہ کرے گالیکن میں یہاں آپ کواپنے ہاں کی ایک مثال دیکربیرون ملک پاکستانیوں کے دل کی ترجمانی کرنےکی اجازت چاہتا ہوں:
آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا ایک عام رواج ہے کہ اگربہو کسی طاقتورخاندان یا قبیلے سے ہوتووہ اپنے سسرال میں بڑی عزت اورراحت اور رعب ودبدبے کے ساتھ زندگی گزارتی ہے کیونکہ سسرال والوں کواس کے خاندان کی طاقت کابھرپوراحساس ہوتاہے اور وہ اس بچی کے ناروا سلوک کے سامنے بھی خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں لیکن اگر وہ بہو کمزور اوربے بس کی بیٹی ہوتواس کے گرہستی کے تمام گُن بھی اس کے عیوب بناکر اسے کمتری کے طعنے دیئے جاتے ہیں۔ یقین کریں کہ بیرونِ ملک رہنے والے بھی آپ کی ان بچیوں جیسے ہیں، اگر آپ یہاں مضبوط ہوں گے تو ہماری عزت میں وہاں اضافہ ہوگااوراگرآپ یہاں کمزورہیں تو اس دنیا میں کمزور کیلئے اب کوئی جگہ نہیں بچی۔

مجھے آپ اجازت دیں کہ میں یہاں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے وہ الفاظ دہرادوں جو انہوں نے حضرت اقبالؒ کے متعلق فرمائے:
شعراء اقوام میں جان پیداکرتے ہیں،ملٹن،شیکسپئیر،بائرن وغیرہ نےقوم کی بے بہاخدمات کی ہے۔کارلائل نےشیکسپئر کی عظمت کاذکرکرتے ہوئےایک انگریزکاذکرکیاہے۔اسے جب شیکسپئراوردولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنے کااختیاردیاگیاتواس نے کہا”میں شیکسپئرپرکسی قیمت نہیں دوں گا۔گومیرے پاس سلطنت نہیں ہے،لیکن اگرسلطنت مل جائے اوراگراقبال اورسلطنت میں کسی ایک کومنتخب کرنے کی نوبت آجائے تومیں اقبال کومنتخب کروں گا۔ جناب مرشد! آپ تواپنے کرداراورعمل کے ساتھ جاوداں ہوگئے اوراپنے پیچھے آنے والوں کوایک ایساراستہ دکھاگئے جہاں جان بھی چلی جائے تویہ سودہ مہنگانہیں۔ جناب حکیم الامت! آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کاتذکرہ ہمیشہ ہمیں بھولاہواسبق یاددلاتارہے گا

میں آپ سب دوستوں اوربھائیوں کابہت ممنون ہوں کہ آپ نے بڑے صبرسے میری اس ساری گفتگوکوسنا۔یقین کریں کہ میرے لئے آج کے لمحات اس لئے بہت مشکل اورحددرجہ جذباتی تھے کہ مجھے اس عظیم المرتبت مہان ہستی علامہ اقبال کے متعلق آپ دوستوں سے سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اللہ سے دعاہے کہ حضرت علامہ اقبال کے درجات بلندفرمائے اوران کے حق میں ہماری گواہی قبول فرمائے۔۔۔اللھم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں