۳۰جون ۲۰۱۸ء کوامریکا میں صدر ٹرمپ کی غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسی کے خلاف ملک بھرکی پچاس ریاستوں میں 630 احتجاجی مظاہروں میں غیر قانونی تارکین وطن کے خاندانوں کو سرحدپرمنقسم کرنے کے خلاف اور ایک ساتھ رکھنے کے حق میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے اپنی شدیدنفرت کااظہارکرتے ہوئے زبردست احتجاج کیا۔ ٹرمپ کی جانب سے متنازع پالیسی کو ختم کرنے کے ایگزیکٹو حکم نامے کےباوجودتقریباً دو ہزار بچے اب بھی اپنے والدین سے الگ ہیں۔صدر ٹرمپ کو گذشتہ بدھ کو عوام کے دباؤ کے سامنے جھکنا پڑااورانہوں نےخاندانوں کوایک ساتھ”حراست میں رکھنے کاایگزیکٹوحکم نامہ جاری کیاتھا”۔ اس کے تحت صدر ٹرمپ کی غیر قانونی تارکین کے بارے میں” زیروبرداشت” کی حکمت عملی گرفتارکیے جانے والے تارکین وطن کے بچوں کوان سے الگ نہیں کیاجائے گا۔ تاہم ناقدین کاکہناہے کہ صدارتی حکم نامے میں ان دوہزارتین سو42 بچوں کے مسئلے کوحل نہیں کیا گیا جنہیں پانچ مئی سے نو جون تک حراست میں لیا گیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں امریکی سرحد پر تقریباً 2000 مہاجر بچوں کو ان کے گھروالوں سے علیحدہ کردیاگیاہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے میکسکوسے امریکاآنے والے غیرقانونی مہاجرین کے خلاف شدیدکریک ڈاؤن کیاجارہاہے اوراس سلسلے میں والدین کوقید کرکے ان کی تحویل سے ان کے بچوں کولیاجارہاہے۔ اس معاملے پرامریکامیں سخت سیاسی نکتہ چینی جاری ہے۔ انٹرنیٹ پرآنے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتاہے کہ غیر قانونی مہاجرین کے بچوں کو پنجروں میں رکھا جا رہا ہے۔ امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے اس’’زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے انجیل کا حوالہ دیا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ کا یہ کریک ڈاؤن امریکا کی طویل المدتی پالیسی میں تبدیلی ہے جس کے تحت پہلی مرتبہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے آنے والوں کو مجرمانہ سزاؤں کا سامنا ہے جو پہلے صرف ایک چھوٹا سا جرم تصور کیا جاتا تھا۔
امریکی محکمہِ ہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق 19اپریل سے31مئی تک1995بچوں کو1940افراد سے علیحدہ کیاجاچکاہے۔ان بچوں کی عمروں کے بارے میں معلومات نہیں دی گئی ہیں۔ان بچوں کوامریکی محکمہِ صحت اورہیومن سروسزکےحوالے کردیاگیاہے۔انہیں یاتوحکومتی حراستی مراکز میں رکھاجائے گایاپھرانہیں کسی فوسٹرفیملی کے حوالے کیاجائے گا۔اقوام متحدہ نے امریکا سے فوری طورپربچوں کوان کی فیملیوں سے علیحدہ کرنے کے عمل کوروکنے کیلئےکہا ہے۔ اٹارنی جنرل جیف سیشنزکاکہناہے کہ بچوں کوساتھ لانے سے کوئی بھی غیرقانونی طورپرسرحد عبورکرنے کے جرم کی سزاسے بچ نہیں سکتا۔انہوں نے سینٹ پالزکے رومی قوم کولکھے ایک خط کاحوالہ دیاہے جس میں حکومت کے قوانین کی اطاعت کی تائید کی گئی ہے۔ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ خط غلامی کے نظام کوبچانے کیلئےبھی استعمال کیاگیاتھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کوکچھ ریپلکنزکی حمایت حاصل ہے تاہم کچھ سیاسی عناصرنے تشویس کااظہارکیاتھا۔صحافیوں سے بات کرتےہوئے ہاؤس سپیکر پال رائن کاکہناتھا کہ انتظامیہ کی جانب سے استعمال کیے گئے حربے ان کے خیال میں درست نہیں۔ اسی ہفتے امریکی ایوانِ زیریں میں ریپلکنز نے ایک نیاامیگریشن قانون کامسودہ پیش کیاہے جس میں سرحدپربچوں کوان کے گھروالوں سے علیحدہ کرنے کاطریقہ کارختم کردیاجائے گا۔اس پلان کے تحت فیملیوں کواکھٹے حراست میں رکھا جائے گا۔اس کے علاوہ اس مسودے میں 18لاکھ ڈاک ڈریمرزکوتحفظ فراہم کرنا،امیگریشن میں لاٹری کے نظام کوختم کرنااورسرحدی حفاظت کیلئے25 ارب ڈالرمختص کرنابھی شامل ہے۔ یہ بل قدامت پسندوں اورمعتدل رہنمائوں کے درمیان سمجھوتہ ہے اورآئندہ ہفتے اس پرووٹنگ ہوگی تاہم صدرٹرمپ نے جمعے کے روز کہا تھاکہ وہ ایک سمجھوتے پرمبنی بل کومنظورنہیں کریں گے چاہے اسے ریپبلکن پارٹی کی حمایت حاصل ہو۔
امریکی خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ نے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کو والدین سے علیحدہ کرنے کی پالیسی پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہاتھا کہ “انہیں بچوں کواُن کے والدین سے جدا کرنے سےنفرت ہے”۔ادھرسابق خاتونِ اول لارا بش نے بھی میکسیکو کی سرحد سے غیرقانونی طورپرداخل ہونے والے خاندانوں کوجدا کرنے کی متنازعہ پالیسی کی مذمت کی ہے۔واشنگٹن پوسٹ اخبارمیں شائع ہونے والے اپنے کالم میں انہوں نے لکھاکہ بچوں کواُن کے والدین سے جداکرناظلم ہے اوریہ اقدام غیراخلاقی اوردل سوزہے۔سابق خاتونِ اوّل کا بیان ایسے موقع پرسامنے آیاہے جب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی تارکینِ وطن کی پالیسی میں ’’زیروبرادشت‘‘پرشدیدتنقید کی جارہی ہے۔ امریکا میں حالیہ چھ ہفتوں کے دوران تقریباً دوہزار خاندانوں کوان کے بچوں سے علیحدہ کردیاگياہے۔ جوبالغ سرحدعبورکرتے ہیں انہیں حراست میں لے کر ان کے خلاف غیرقانونی طورپرملک میں داخل ہونے کے جرم میں مقدمہ چلایاجارہاہے حالانکہ ان میں بہت سے پناہ حاصل کرنے کی غرض سے غیر قانونی طورپرامریکامیں داخل ہو رہے ہیں۔
اس سے پہلے گذشتہ منگل کوامریکا کی17ریاستوں نے ٹرمپ انتظامیہ پرتارکین وطن کو”ظالمانہ اورغیرقانونی”طورپرمنقسم کرنے کاملزم ٹھہراتے ہوئے مقدمہ دائرکیاتھااوراسی دن امریکی سرحد کے ایک سکیورٹی سربراہ نے کہاتھاکہ بچوں کے ساتھ غیرقانونی طورپرامریکامیں داخل ہونے والے تارکین وطن کے خلاف مقدموں کوعارضی طورپرروک دیاگیاہے۔ اس کے متعلق واشنگٹن، نیویارک اورکیلیفورنیاکے ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلزنے قانونی چارہ جوئی کی ابتداکی۔اس کے تحت پناہ حاصل کرنے کیلئے امریکاآنے والوں کوداخلہ دینے سے انکارکرنے والی پالیسی کی مخالفت کی گئی ہے۔دریں اثنا نائب امریکی صدرمائک پینس نےبغیردستاویزات کے تارکین وطن کو خبردارکیاہے کہ وہ امریکا میں غیر قانونی طورپرداخل ہوکر”اپنے بچوں کی زندگیوں کوخطرے میں نہ ڈالیں”۔برازیل میں ایک نیوزکانفرنس کے دوران مائک پینس نےکہاجوامریکاکاسفر کرناچاہتے ہیں ان کیلئے”میرے دل کا سیدھا پیغام ہے کہ اگرآپ قانونی طورپرنہیں آتے تومت ہی آئیے”۔
ادھراحتجاجی مظاہروں میں منتظمین کی اپیل پرہزاروں افراداتحاداورامن کی علامت کے طورپر سفید لباس میں ملبوس تھے۔اس تحریک کی ایک بانی ایناگالینڈنے امریکی پچاس ریاستوں میں شہری آزادیوں کی یونین کے کارکنوں،شہری حقوق ونیشنل ڈیموکریٹ اتحاد کے کارکنوں اورواشنگٹن کے مرکزی احتجاجی مظاہرہ میں امریکی مقبول شخصیات کی شرکت کوانسانی حقوق کے مکمل حصول تک کامیابی سے تعبیرکرتے ہوئے تحریک کو جاری رکھنے کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ یہ پہلاموقع ہے کہ امریکامیں جمہوریت کوشدیدقسم کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔خیال رہے کہ یہ پہلا احتجاجی مظاہرہ نہیں تھابلکہ اس سے پہلے جمعرات کوسینیٹ کی عمارت میں حکومت کی امیگریشن پالیسی کے خلاف احتجاجی دھرنادیاگیا تھا اوراس دھرنے سے چھ سو کے قریب خواتین کوگرفتارکیاگیاتھا۔
امریکاکے علمی جریدے’’پرس پیکٹوزآن پولیٹکس‘‘کے تازہ ترین شمارے میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے،جس میں بتایاگیا ہے کہ امریکامیں جونظام اس وقت کام کررہاہے،اُسے جمہوری قرارنہیں دیا جا سکتا۔ کہنے کویہ جمہوریت ہے،لوگ ووٹ دے کر اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرتے ہیں مگر یہ حکومت ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتی۔ یہ چند بڑوں کی حکومت ہے،جواپنی مرضی اورمفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اوران کے بیشتر فیصلے بدعنوانی پرمشتمل ہوتے ہیں۔اس کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت کے بیشترمعاملات میں عوام کی مرضی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کاکردارووٹ ڈالنے اورچندایک معاملات میں اپنی رائے دینے تک محدود ہوکررہ گیا ہے۔ منتخب ادارے جو چاہتے ہیں،سو کرگزرتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ سے اندازہ ہوتاہے کہ امریکا کے بارے میں اب تک اکثریتی جمہوریت کے حوالے سے جو تصورات پائے جاتے ہیں، وہ کچھ زیادہ حقیقت پر مبنی نہیں۔
امریکا میں عام ووٹر کی بات نہیں سنی جاتی۔ وہ مختلف سطحوں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعدمطمئن ہورہتاہے کہ اس نے جمہوری کردارادا کردیامگرسچ یہ ہے کہ اس نام نہادجمہوری ڈھانچے میں اس کاکوئی خاص کردارنہیں۔امریکی جمہوریت کے حوالے سے اس نوعیت کی تحقیقی رپورٹس کم کم ہی دکھائی دی ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں کے مفادات نے انہیں ایک پلیٹ فارم پر پہنچادیاہے،جس کے نتیجے میں وہ ملک کے مجموعی مفاداوربالخصوص بہبودِعامہ کے مقصد کو ایک طرف ہٹاکرصرف اپنے مفادات کواوّلیت دیتے رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں عام امریکی کیلئے ادا کرنے کوکوئی خاص کردارنہیں رہ گیا۔وہ صرف ووٹ دینے کی حدتک جمہوری رہ گیاہے۔ملک کے کسی بھی اہم فیصلے میں،پالیسی کی تیاری اور ان پرعمل کے معاملے میں عام امریکی کا کوئی کردارنہیں۔ مختلف امورکوجوازبناکرحکمراں طبقہ وہی کچھ کرتاہے،جواُسے کرناہوتا ہے۔
مختصراًیہ کہاجاسکتاہے کہ امریکا میں درحقیقت جمہوریت نہیں بلکہ چند بڑوں کی حکومت ہے، جوہرمعاملے میں اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ان کے فیصلوں کاعوام کے مجموعی مفادسے کم ہی تعلق ہوتاہے۔ مارٹن جلینزاوربنجامن پیج کی تیارکی ہوئی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ امریکامیں جوکچھ بھی جمہوریت کے نام پردکھائی دے رہاہے،وہ محض چندگروپوں کامفاد ہے،جو اپنی بقااوراستحکام کیلئے ایک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مختلف معاملات میں تحقیق کے ذریعے ثابت کیاہے کہ امریکامیں انتہائی طاقتورطبقہ بیشترمعاملات پرجوگرفت رکھتاہے،وہ بھی پوری ایمانداری سے سامنے نہیں لائی جارہی۔اس حوالے سےاعدادوشماربھی درست نہیں۔کاروباری طبقہ بیشتر امورپرحاوی ہوچکاہے۔سیاسی معاملات پران کی گرفت خاصی مستحکم ہے، گوکہ اِس حوالے سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار گمراہ کن ہوتے ہیں۔
’’ٹیسٹنگ تھیوریز آف امریکن پولیٹکس‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں ان دونوں ماہرین نے لکھا ہے کہ امریکا میں اب بیشتر معاملات انتہائی مالدار لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ ہر معاملے میں وہی طریق کار اختیار کرتے ہیں، جو اُن کے تمام مفادات کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ ان ماہرین نے اپنے مضمون میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے انتہائی طاقتور افراد اور اداروں کے بارے میں جو کچھ بھی بیان کیا ہے، وہ اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں اگرچہ بہت متاثر کن دکھائی دیتا ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ طبقہ کس حد تک طاقتور ہے مگر پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی امور سمیت تمام معاملات میں ان کے حقیقی اختیار اور اثر کا درست ترین اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔
امریکی جمہوریت واقعی جمہوریت ہے بھی یانہیں،اِس موضوع پریہ اپنی نوعیت کی پہلی جامع تحقیق ہے۔بہت سے ماہرین کی طرح بنجامن پیج اورمارٹن جلینزنے لکھاہے کہ اب تک یہی دعویٰ کیاجارہاہے کہ امریکامیں جمہوریت ہے اوریہ کہ جمہوری سیٹ اپ چند بڑوں کی بدعنوانی پرمبنی
اجارہ داری کے خلاف کارفرمارہاہےمگر۱۷۷۹پالیسی ایشوزکاعمیق جائزہ لینے کے بعدیہ اندازہ
لگاناکچھ دشوارنہیں کہ امریکامیں جمہوری سیٹ اپ اب تک توچند بڑوں ہی کے مفادات کا نگران و محافظ رہاہے۔جولوگ جمہوری سیٹ اپ کوچلانے کے دعویدارہیں،وہ بہت سے معاملات میں ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کابہبودِعامہ سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوتا۔مختلف معاملات میں اعداد و شمار کا عمیق جائزہ لینے کے بعد مارٹن جلینز اوربنجامن پیج اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ امریکا میں دکھائی دینے والی جمہوریت درحقیقت جمہوریت نہیں بلکہ چند بڑوں کی حکومت یااجارہ داری ہے جوہرمعاملے میں اپنی مرضی کودیگرتمام امورپرمقدم رکھتے ہیں۔یہ چندبدعنوان بڑے ملک کے بیشترامورپرقابض ومتصرف ہیں۔ میڈیاکوانہوں نے اپنے کنٹرول میں کررکھاہے۔منتخب اداروں میں بھی انہی کی اجارہ داری ہے۔عام طورپرروس کے بارے میں یہ خیال کیاجاتاہے کہ وہاں چندبڑوں کی حکومت ہےجوہرمعاملے میں بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں اوراپنی مرضی کے مطابق ملک کوچلاتے ہیں۔امریکا،اگربغورجائزہ لیاجائے،توروس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ چند بڑوں نے ہر چیزپراپناتسلط قائم کررکھاہے۔ شخصی آزادی کاتصورمحض فریبِ نظرہے۔ملک کے تمام اہم امور میں حتمی فیصلہ انہی کاہوتاہے،جوتمام معاملات پرقابض ومتصرف ہیں۔
Load/Hide Comments