مودی سرکاریہ سمجھ رہی تھی کہ پاکستان کے سیاسی اورمعاشی انتشارمیں جی20کانفرنس کاکشمیرمیں انعقادسے اپنے مکروہ عزائم آگے بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوگالیکن جہاں اسےچین،سعودی عرب،ترکی اورانڈونیشیاکے بائیکاٹ سے اسے خاصا دھچکاپہنچاوہاں عالمی سیاسی مبصرین نے بھی مودی کی اس چال کا پردہ چاک کیا۔ارون دھتّی رائے نے کشمیر کی تحریک آزادی کی حمائت کرکے جو ”دانشورانہ ایٹمی دھماکہ”کیاہے اس پرپا کستان میں بیٹھ کرواہ واہ کرنااوربات ہے مگربھارت میں”غداری” کے ارتکاب کاخطرہ مول لیناجان جوکھوں کا کام ہے۔بھارت میں یہ کام گاندھی اورنہروکے دورمیں بھی آسان نہیں تھاجبکہ آج کا بھارت تومتعصب بی جے پی اورشیو سیناکابھارت ہے۔ویسے تو کانگریس اوربی جے پی میں کوئی فرق نہیں لیکن ارون دھتّی کو کیاہوگیاہے؟پا ک وہندکامعاملہ ہوتوپاکستان کے بائیں بازوکے اکثرسیاستدان بھارت کی طرف دیکھتے ہیں اورارون دھتّی رائے بھارت میں بیٹھ کرہماری طرف دیکھ رہی ہے۔چلئے یہ فقرہ مبالغہ آمیزہوگا،یوں کہہ لیتے ہیں کہ ارون دھتّی بھارت میں بیٹھ کرکم ازکم بھارت کی طرف نہیں دیکھ رہیں۔
میں سمجھتاہوں کہ نہ وہ بھارت کی طرف دیکھ رہیں ہیں اورنہ ہی پا کستان کی طرف بلکہ وہ”سچائی”کی طرف دیکھ رہیں ہیں اور سچائی یہ ہے کہ کشمیری عوام کی اکثریت بھارت کے ساتھ نہیں رہناچاہتی۔ظاہرہے کہ اس کے باوجوداس سچ کی قیمت ارون دھتّی کواپنی جیب سے ہی اداکرناہوگی۔بھارت بلاشبہ جہاں گاندھی کاہے وہاں نتھورام گوڈسے کابھی ہے۔یعنی بھارت میں ایک عددنتھو رام گوڈسے بھی رہتاہے جوگاندھی کوغدارقراردیکرہلاک کرسکتاہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ارون دھتّی ایسی کیوں ہیں اورپا کستان کابایاں بازوایساکیوں نہیں ہے؟آخرہمارے یہاں بھی توایسی کئی مقامی ارون دھتیاں پائی جاتی ہیں مگرانہیں کبھی یہ خیال نہیں آیاکہ کشمیریوں کوبھارت سے آزادی چا ہئے۔
تجزیہ کیاجائے توبھارت اورپاکستان میں بائیں بازوکافرق مقامیت اورغیرمقامیت کاہے۔پاکستان کابایاں بازوکبھی پا کستانی سماج میں اپنی جڑیں پیدانہیں کرسکا۔جب تک سوویت یونین تھاپاکستان کے بائیں بازوکے اکثرلوگ سوویت یونین کی طرف دیکھتے تھے،جو لوگ چین نوازتھے وہ ہمیشہ چین سے اپنی تمام پالیسیاں درآمدکرتےتھے۔ان کےحالات کیاکہہ رہے ہیں،انہوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ سٹالن اورمازوئے تنگ کاکیاارشادہے؟جب سے سوویت یونین تحلیل ہواہے،پاکستان کے بائیں بازو کے بہت سے مرداورخواتین امریکی کیمپ میں چلے گئے ہیں اوروہی غلطی دہرارہے ہیں جووہ سوویت یونین کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔فرق یہ ہے کہ پہلے اوّل وآخرماسکواورشنگھائی کی طرف دیکھتے تھے اب واشنگٹن کی طرف دیکھتے ہیں۔
بھا رت میں بایاں بازوسو ویت یو نین کے زیا دہ قریب تھامگروہ صرف سوویت یونین کی طرف نہیں دیکھتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ سو ویت یونین ٹوٹ گیامگربنگال میں کیمونسٹ پارٹی کی حکو مت برقراررہی اوراس کامقا می تناظربھی۔بنگال کے سا بق وزیراعلیٰ جبوتی باسوکوایک وقت میں وزیراعظم کے عہدے کی بھی پیشکش ہوئی مگرانہوں نے اسے قبول کرنے سےانکارکردیا۔ان کاخیال تھاکہ وہ”مقامی دائرے”ہی میں وزنی ہیں،وہ اس سے نکلے تواپناوزن کھودیں گے۔ظاہرہے جن لو گوں کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں ا نہیں مقامیت اسی طرح عزیزہوتی ہے۔ظا ہرہے روس اورچین یاامریکاسے وابستگی طاقت کے مظہرسے متعلق چیزہے۔خیال صرف طاقت سے منسلک ہوجائے تواس میں ایک تصنع اورسطحیت پیداہوجاتی ہے۔اسی اعتبارسے دیکھاجائےتوپا کستان اور بھارت کے با ئیں بازوکافرق دورویوں،دوسما جوں اوردوتجربوں کافرق ہےاورارون دھتّی جیسی ہیں ویسی وہ صرف انفرادی وجوہ سے نہیں ہیں،اس کی پشت پرایک اجتماعی تجربہ بھی کھڑاہے۔
بھا رت کابایاں بازوپاکستان کے بائیں بازوکے مقابلے میں مذہب سے کہیں زیادہ دور ہے لیکن اس میں مذہب اورمذہبی لو گوں کیلئے زیادہ قوت برداشت ہے۔بنگال میں جیوتی باسوکے طویل دورحکو مت میں فرقہ وارانہ فسادات کاکوئی ایک آدھ تجربہ ہی موجودہو گا۔شایدیہی وجہ ہے کہ ارون کیلئے کشمیرکی تحریک آزادی کامذہبی یاجہادی حال اورماضی مسئلہ نہیں بنااورانہوں نے کہہ دیا کہ کشمیرکےعوام آپ اپنے ترجمان ہیں۔اس کے برعکس پاکستان کا بایاں بازوکشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کا حق بھی ادانہیں کرسکا۔بلاشبہ انسانی شخصیت کاایک انفرادی اسلوب بھی ہوتاہے لیکن اس کے با وجودوہ اپنے ماحول کاعکس بھی ہوتی ہے اورماحول کا فرق شخصیتوں کافرق پیداکرتاہے۔اس کے سا تھ ساتھ انسان اورتحریکوں کے مقاصداور جدوجہد کی نوعیت بھی انہیں وہ بناتی ہےجو کہ وہ ہوتے ہیں۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب سے یہ”اوفوبالعہد”کیاتھاکہ ہمیں ایساملک عطافرماجہاں ہم تیرے احکام کی بجاآوری کرتے ہوئے قرآن کامکمل نظام نافذکرسکیں جس کے جواب میں رب کریم نے رمضان الکریم کی27ویں کی مبارک شب کویہ معجزاتی ریاست ہمیں عطافرمائی۔مسلمانوں نے اپنے گھربار، جائیدادیں،برسوں کے رشتے ناطے چھوڑکراس ملک کی طرف ہجرت کرتے ہوئے لاکھوں عزیزوں کی شہادتیں قبول کرکے اس امید پرخوشی منارہے تھے کہ ہمیں یہاں خلافت راشدہ جیسی ریاست میں بقیہ زندگی گزارنے کاموقع ملے گاجہاں ایمان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ امن و سکون کاایساماحول ملے گاجوباقی دنیاکیلئے ایک ایساماڈل ہوگاجوہماری عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن جائے گالیکن صدافسوس کہ شروع دن سے ہی ہم نے وعدہ شکنی کرتے ہوئے نہ صرف اللہ سے کئے گئے تمام عہدوپیمان توڑدیئے بلکہ ہم نے اس ملک میں صرف اپنے اقتدارکیلئے کبھی نظام مصطفیٰ کانعرہ لگایا اوراب توریاست مدینہ کانعرہ لگاکراس کی جڑوں کو کھوکھلاکردیا۔
ارون دھتی جوبھارت میں بیٹھ کراپنی جان کوداؤپر لگاکرکشمیریوں کے حق خوارادیت کابرملانعرہ لگاتی ہے وہاں ہم اپنے اقتدارکیلئے کشمیریوں کاوکیل بن کرانہیں دھوکہ دیا۔امریکا سے واپسی پراسلام آبادہوئی اڈے پراپنے استقبال کیلئے آئے ہوئے افرادکوکشمیرکے بارے میں اپنے مؤقف کی کامیابی کو”ورلڈ کپ سے تشبیہ دے ڈالی اوربعدازاں پتہ چلاکہ امریکاکی گودمیں بیٹھ کراس کاسودہ کردیاگیا۔کیالاکھوں مظلوم کشمیری شہداء کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی؟ان کاتوحساب تودنیاوآخرت میں دیناپڑے گا؟