’’اے وارننگ‘‘

:Share

امریکامیں شائع ہونے والی کتاب’’اے وارننگ‘‘میں انکشاف کیاگیاہے کہ ایک سال قبل ٹرمپ انتظامیہ کے افسران نے اجتماعی طوپرمستعفی ہونے کافیصلہ کیاتھامگراس فیصلے پرعمل کرنے سے انہوں نے اس لیے گریزکیاکہ ایسی صورت میں ملک کو درپیش مسائل کی شدت میں بھی اضافہ ہوجاتا۔ مصنف نے یہ بتایاکہ ٹرمپ کسی بھی اعتبارسے اس منصب کے اہل نہیں۔وہ انتہائی سفاک مزاج کے ہیں اورقوم کیلئےخطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے مزاج کے بارے میں بتایاکہ اُن کے دورمیں یکے بعد دیگرکئی بحران اِس طرح آئے ہیں جیسے کسی بچے کوایئرٹریفک کنٹرول کے سوئچ بورڈپربٹھا دیاجائے اوروہ سوچے سمجھے بغیربٹن دباکرطیاروں کواِدھرسے اُدھرروانہ کرتارہے اورکسی بھی طیارے کومنزل تک نہ پہنچنے دے۔

یہ ٹرمپ کے مزاج میں پائی جانے والی اخلاقی اقداراورذہنی قوتوں کے جائزے اورتجزیے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔مصنف کادعویٰ ہے کہ وائٹ ہاؤس کے بہت سے موجودہ اورسابق مردوخواتین ملازمین نے بھی اس کتاب کوزیادہ وقیع بنانے کیلئےاپنے مشاہدات اورتجربات بیان کیے ہیں۔259صفحات کی اس کتاب میں کسی بھی واقعہ کومتعلقہ جزئیات کے ساتھ پیش کرنے سے گریزکیاگیاہے۔ ایسا کرنے کاواحدمقصد بظاہریہ ہے کہ مصنف کو گمنام مصدشناخت کوطشت ازبام ہونے سے روکاجاسکے۔یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ ٹرمپ کے مواخذے کاعمل شروع کرنے کیلئےکانگریس نے ٹرمپ انتظامیہ کے بہت سےملازمین کوگواہی کیلئےطلب کیاہے اورگواہی دینے سے گریز بھی نہیں کیاجارہا۔ساری بحث اِسی نکتے پر مرکوز ہے کہ ایوان صدر اور صدرکامنصب دونوں ہمارے ملک کی جھلک پیش کریں،کسی اورچیزکی نہیں۔ہوسکتاہے کچھ لوگ میری سوچ کوبزدلی قراردیں اورمیں اس بات کیلئےبھی تیارہوں کہ ضرورت پڑنے پرمجھ سے ٹرمپ کے بارے میں رائے یاگواہی لی جائے‘‘۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری اسٹیفنی گریشم نےاپنی ای میل میں اس کتاب کوبے بنیادواقعات کاپلندااورمصنف کوبزدل قراردیا ہے اس نے اپنانام ظاہر اس لیے نہیں کیاکہ پوری کتاب میں جھوٹ کے سواکچھ بھی نہیں۔سچ لکھنے والے سامنے آکر حقائق کاسامنا کرتے ہیں تاکہ جوکچھ بھی وہ لکھیں اس میں سچائی دکھائی دے۔اس کتاب کے مصنف نےانتہائی بنیادی حصے ہی کوبیچ سے نکال دیاہے۔جوتجزیہ کاراورمصنفین اس کتاب پرقلم اٹھائیں اُن میں اتنی پیشہ ورانہ دیانت توہونی ہی چاہیے کہ کھل کربیان کریں کہ یہ کتاب جھوٹ، صرف جھوٹ ہے‘‘۔امریکی محکمہ انصاف نے ہیچیٹ اورمصنف کے ایجنٹس جیولین کے میٹ لیٹمراورکیتھ اربان کو خبردارکیاتھاکہ ہوسکتاہے گمنام مصنف،نان ڈزکلوزرایگریمنٹ کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔

5ستمبر2018ءکونیویارک ٹائمزمیں مصنف نے’’میں ٹرمپ انظامیہ کے اندرمزاحمت ہوں‘‘کے زیرعنوان اپنے مضمون میں لکھا تھاکہ چندسینئر افسران ملک کوٹرمپ کی غیرذمہ دارانہ سوچ اوربے عقلی پرمبنی اقدامات کے شدیدمنفی اثرات سے بچانے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔تب ٹرمپ نے اس مضمون کے مندرجات کوبغاوت سے تعبیرکیاتھا۔

مصنف نے نیویارک ٹائمزکے مضمون کے حوالے سے اپنی سوچ میں پائی جانے والی غلطی کااعتراف کیاہے’’ٹرمپ انتظامیہ میں اندرونی سطح پرمزاحمت کے حوالے سے میرااندازہ بالکل غلط تھا۔غیرمنتخب افسران اورکابینہ کے ارکان کسی بھی حالت میں ٹرمپ کودرست راہ پرگامزن کرنے کی تحریک دے سکتے تھے نہ اُن میں ایساکرنے کی لگن ہی تھی۔ٹرمپ جوکچھ ہیں وہی ہیں، کچھ اورنہیں ہوسکتے‘‘۔

کتاب کے مندرجات کے مطابق بہت سے اعلیٰ افسران صبح اٹھتے تھے توانہیں شدید بدحواسی کاسامناہوتاتھا۔یہ بدحواسی ان احمقانہ اعلانات کے نتیجے میں پیداہوتی تھی،جوٹرمپ نے ٹوئٹرپرکیے ہوتے تھے!یہ منظرایساہوتاتھاجیسے آپ کسی نرسنگ ہوم میں اپنے بوڑھے انکل کی عیادت کوجائیں اوروہاں آپ دیکھیں کہ انکل کی پینٹ اتری ہوئی ہے اوروہ کیفے ٹیریاکے کھانے کی شکایت کرنے کے نام پرغل غپاڑہ کررہے ہوں اورنرسنگ اٹینڈنٹس ان پرقابو پانے کی کوشش کررہے ہوں!یہ دیکھ کرآپ حیران ہوں گے، سوچتے ہی رہ جائیں گے اورگھبراہٹ کاشکاربھی ہوں گے,ہاں،ایک فرق ہے۔آپ کے انکل شایدیہ سب کچھ روزانہ نہ کریں،ان کے کہے ہوئے الفاظ پوری قوم بلکہ دنیاکوسنائی نہ دیں اوراُنہیں پینٹ پہن کرامریکی صدرکی کرسی پرنہ بیٹھناہو!‘‘

کتاب کے مندرجات کے مطابق ٹرمپ کواپنے ساتھ کام کرنے والوں اوردوسرے بہت سے لوگوں کے بارے میں انتہائی اہانت آمیز اندازسے رائے دینے کاشوق ہے۔کوئی بھی عورت کیسی دکھائی دیتی ہے اورکس طرح کی کارکردگی کامظاہرہ کرتی ہے یہ سب کچھ بیان کرنے میں انہیں ذرابھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ وہ غیر معمولی پروفیشنل ازم کی حامل خواتین کو سویٹی یاہنی کہنے میں ذرابھی قباحت محسوس نہیں کرتے۔خواتین کے میک اپ، لباس ،جسمانی ساخت،وزن اورچلنے کے اندازکے بارے میں کچھ بھی کہنااُن کیلئےذرابھی مشکل نہیں۔کسی بھی ادارے میں اورکسی بھی سطح پرباس کوزیب نہیں دیتا کہ خالص’’ورکنگ کنڈیشنز‘‘میں اس طرح کی زبان استعمال کرے۔ایک میٹنگ کے دوران انہوں نے میکسیکوسے سرحدعبور کرکے امریکامیں داخل ہونے والوں کی شکایت کرنے کیلئےہسپینک لہجے کی نقّالی بھی کی۔اس میٹنگ میں ٹرمپ نے کہا ’’میکسیکوسے آنے والی عورتیں عام طورپربہت سے بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔یہ ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔اگریہ اپنے شوہرکے ساتھ آئیں توپھربھی اتناتوممکن ہے کہ ہم انہیں بھٹے کے کھیتوں میں کام پرلگادیں‘‘۔

مصنف کے مطابق ٹرمپ میں کسی بھی بڑے بحران سے ملک کونکالنے کی صلاحیت نہیں۔وہ انٹیلی جنس اورقومی سلامتی سے متعلق اجلاسوں کے ماحول کوبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے اوراس بات کوبھی درست نہیں مانتے کہ دنیابھرمیں یہ تاثرپایا جاتاہے کہ وہ اپنے اطراف خوشامدی لوگوں کودیکھناپسند کرتے ہیں ۔ وہ اپنے بارے میں پائے جانے والے اس مضبوط تاثرکو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ وہ بہت تیزی سے دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اوریہ کہ کوئی بھی اُن کے کان بھرکررائے تبدیل کرسکتاہے۔

کتاب کے مندرجات کے مطابق2018ء میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگارخاشقجی کے قتل کے بعدٹرمپ نے اپنے مشیروں کو بلایا اورکہاکہ اس معاملے میں سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان کے سامنے کھڑاہوناحماقت ہی کہلائے گاکیونکہ بحران نے زور پکڑاتو عالمی منڈی میں خام تیل کابھاؤ150ڈالرفی بیرل سے بھی بلندہوجائے گااوراگرایساہواتوعالمی معیشت کاحلیہ بگڑ جائے گا۔اس کتاب میں چندایسے دعوے بھی کیے گئے ہیں جن کے حوالے سے ثبوت یا شواہدفراہم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی مثلاً یہ کہ ایک مرحلے پرپوری کابینہ اس بات کیلئےتیارتھی کہ آئین کے آرٹیکل25کاہارالے کرصدرکو عہدے سے ہٹادے اوریہ کہ اس معاملے میں نائب صدرکی طرف سے بھی بھرپورمعاونت کی امیدتھی۔نائب صدرپینس نے اس دعوے کوبے بنیاد قراردیتے ہوئے کہاہے’’یہ سب کچھ انتہائی بے بنیادہے کیونکہ نائب صدرکی حیثیت سے میں نے کبھی آئین کے آرٹیکل25کے بارے میں نہیں سُنااور میں بھلاکیوں صدرکواُن کے منصب سے ہٹانے کے بارے میں کچھ سوچوں گایاکروں گا؟‘‘

کتاب میں ایک بنیادی خیال جگہ جگہ ملتاہے۔وہ بنیادی خیال یہ ہے کہ ٹرمپ قانون کااحترام نہیں کرتے اوراپنی مرضی ہی کوقانون قراردینے پربضد رہتے ہیں۔اس حوالے سے مصنف نے لکھاہے کہ ٹرمپ کومعافی دینے کابہت شوق ہے۔وہ اس شوق کواس طور پوراکرتے ہیں گویاانہیں کسی بھی حد تک جانے کالائسنس دے دیاگیاہے۔مصنف نے اس حوالے سے ان فیڈرل کورٹس کاحوالہ دیا ہے،جنہوں نے ان کی وضع کی ہوئی پالیسیوں کے خلاف فیصلے دینے کی جرأت کی ہے۔2017ءمیں سفر پرپابندی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ مصنف کادعویٰ ہے کہ ایک مرحلے پرٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے وکلاسے کہا تھاکہ وہ فیڈرل کورٹس کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے قانون کامسوّدہ تیارکرکے کانگریس کوبھیجیں۔ٹرمپ نے اجلاس کے دوران کہاکہ کیاہم ججوں سے نجات پاسکتے ہیں؟پھرکہاکہ ججوں سے تونجات حاصل کرنی ہی پڑے گی۔

مصنف کادعویٰ ہے کہ ٹرمپ کوبغاوت سے بھی بہت ڈرلگتاہے۔وہ اس بات کوبھی پسندنہیں کرتے کہ اجلاس کے دوران کوئی نوٹس لے۔ایک بار اجلاس میں ان کاایک معاون نوٹ بک میں کچھ لکھ رہاتھا۔یہ دیکھ کرٹرمپ آگ بگولاہوگئے اورپوچھاکہ کیا تم نوٹس لے رہے ہو۔اس پرمعاون نے گھبراکرنوٹ بک بندکردی۔

مصنف کایہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹرمپ کسی بھی اعتبارسے صدرکے منصب پرفائزکیے جانے کے اہل نہیں کیونکہ وہ سوچنے اور سمجھنے کی موزوں صلاحیت سے بہرہ مندنہیں۔ذہنی یاعقلی طورپراس منصب کے اہل ہیں یانہیں یہ فیصلہ تومیں نہیں سنا سکتا مگرہاں یہ ضروربتاسکتاہوں کہ اُن کی موجودگی میں لوگ لمحہ لمحہ الجھن محسوس کرتے ہیں۔وہ بولتے بولتے رک جاتے ہیں، الجھ جاتے ہیں،کچھ کاکچھ کہہ جاتے ہیں،تیزی سے بھڑک اٹھتے ہیں اورمعلومات کوباہم مربوط کرنے یاسمجھنے میں غیرمعمولی الجھن یاپیچیدگی محسوس کرتے ہیں اوریہ سب کچھ کبھی کبھی نہیں ہوتابلکہ باقاعدگی سے ہوتاہے۔ جو لوگ اس سے ہٹ کرکچھ بیان کرتے ہیں وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں یاپھرقوم سے‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں