سوڈان کی فوجی حکومت نے دس دن پہلے3500لوگوں کی سوڈانی شہریت منسوخ کرنے کاارادہ ظاہرکیاجس میں سے اکثریت فلسطینیوں کی ہے ۔ حکومت کے اس اعلان نے سب کوحیرت میں ڈال دیاہے۔حماس کے سیاسی بیوروکے سابق سربراہ خالدمشعل اور تیونس کی اسلامی تحریک “النہضہ” کے رہنماراشدالغنوشی کے نام بھی ان افرادکی فہرست میں شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس نے سوڈان کوان ممالک کی فہرست سے نکالنے کااعلان کیاتھاجودہشتگردوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔اس سے قبل خرطوم نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کافیصلہ کیاتھا۔ان سب اقدامات کے بعدہی فوجی حکومت کی جانب سے3500لوگوں کی شہریت منسوخ کرنے کااعلان سامنے آیاہے۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرآنے کے بعدکے سوڈان کے حوالے سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔اگرچہ سوڈانی حکومت ان سارے اقدامات کے حوالے سے خاموشی اختیارکیے ہوئے ہے، تاہم وزارت داخلہ نے’’قرارداد521‘‘جاری کرنے کی تصدیق کی ہے جس کے تحت112/افراد کی شہریت منسوخ کی گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ 1989ءتا2019ء3500افرادکوشہریت دینے کے حوالے سے جتنی بھی انتظامی اورقانونی اقدام اٹھائے گئے ان کو بھی کالعدم قراردیاہے۔
اس فیصلے سے متاثرہونے والے افرادنےفلسطینیوں کی شہریت منسوخ کرنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئےبتایاگیاکہ ان فلسطینیوں کو2014ء میں صدرعمرالبشیرنے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ شہریت دی تھی۔چندمتاثرہ افرادنے اس بات کی طرف اشارہ کیاکہ’’ان میں سے بیشترلوگ ملک سے باہر رہتے ہیں،اس لیے وہ ضروری کاغذات فراہم نہیں کرپائیں گے اوریہ ان کی شہریت کی منسوخی کہ وجہ بنائی جائے گی۔اس طرح کے فیصلوں سے سوڈان میں مقیم فلسطینی برادری میں اضطراب پیداہوگیا ہے۔وہ اس شک میں ہیں کہ آیایہ فیصلہ انتظامی بنیادوں پرکیاگیاہے یاپھر اس فیصلے کے پیچھے سیاسی وجوہات ہیں،اگریہ سیاسی فیصلہ ہواتواس بات کاامکان ہے کہ سوڈان سے تمام فلسطینیوں کوملک بدرکردیاجائے۔یہ بات یادرہے کہ سوڈان فلسطینیوں کیلئے بقیہ عرب ممالک کی نسبت جنت کی حیثیت رکھتاہے کیونکہ جوسہولیات انہیں یہاں حاصل ہیں وہ کسی عرب ملک میں نہیں۔
سوڈان میں مقیم ایک فلسطینی کاکہناہے کہ فوجی کونسل کے اس فیصلے سے اسلام پسندوں اورسیاسی دھاروں سے وابستہ افراد کی سوڈانی شہریت کے خاتمے کی راہ ہموارہوگئی ہے،قطع نظراس بات کہ وہ ان شرائط پرپورااترتے ہیں یانہیں۔جب سے فوج نے بشیرحکومت کاخاتمہ کیاہے، تب سے یہاں رہنے والے فلسطینی اس خوف کاشکارہوگئے ہیں کہ سوڈان میں رہنااب ان کیلئےخطرے سے خالی نہیں رہا۔اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ فوجی کونسل جلدیابدیرفلسطینیوں کی سوڈانی پشت پناہی بھی چھوڑ دے گی جس سے اسلام مخالف مغربی ممالک میں رہنے والیے فلسطینیوں کیلئےمسائل پیداہوں گے۔
سوڈان میں چھ ہزار فلسطینی ہیں جن کوشہریت دی گئی ہے،تاہم200سے بھی کم ایسے ہوں گے جنھوں نے یہ شہریت تمام قانونی کاغذات مکمل کرنے کے بعدحاصل کی ہوگی۔لگتاایساہے کہ صدرعمرالبشیرکے دورمیں جن فلسطینیوں کوشہریت دی گئی وہ منسوخ کردی جائے گی۔اسی طرح سوڈان میں رہنے والے فلسطینی اس بات سے بھی خوف کاشکارہیں کہ ان اقدامات سے غیر سرکاری سطح پرجوامداد طلبااورضرورت مند فلسطینیوں کوتعلیمی سلسلہ برقراررکھنے کیلئےدی جاتی تھی اس پربھی پابندی نہ لگا دی جائے۔
فوجی کونسل کے فیصلے کے نتائج فلسطینیوں کیلئےتباہ کن ہوں گے۔وہ فلسطینی جنہوں نے بغیرقانونی کاغذات کے سوڈانی شہریت حاصل کی ہوئی ہے،وہ شہریت منسوخ ہونے کے بعدغیرقانونی تصورکیے جائیں گے اورانہیں ملک بدری کاسامنابھی کرنا پڑسکتا ہے۔سوڈان کے سب پڑوسی ممالک کے اسرائیل سے تعلقات معمول کے مطابق ہیں۔ان ممالک میں مصر،جنوبی سوڈان،ایتھوپیااور اریٹیریاشامل ہیں۔ اسرائیل کوہمیشہ یہ تشویس لاحق رہی ہے کہ خرطوم اس کے اثرورسوخ کے دائرے سے باہرہے۔اس لیے اسرائیل کی ترجیح رہی ہے کہ وہ سوڈان سے سفارتی تعلقات قائم کرے۔ان تعلقات سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حماس کواسلحے کی ترسیل ’’ٹریکنگ‘‘ٹیکنالوجی کے ذریعے سے روکی جاسکے گی لیکن دوسری طرف یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ سوڈان کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کا مطلب حماس کواسلحے کی ترسیل کامکمل رک جاناہے۔ایران جوکہ اس مزا حمتی تحریک کواسلحہ فراہم کرتاہے،سوڈان کی رکاوٹ کے بعداس ترسیل کوجاری رکھنے کیلئےدیگرراہیں تلاش کرے گا۔کیونکہ ایران کے پاس غزہ تک اسلحے کی فراہمی کیلئےدیگرکئی سمندری اورزمینی رابطوں کے حوالے سے وسیع تجربہ ہے۔
غزہ کواسلحے کی ترسیل روکناگزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل کی سکیورٹی ترجیحات میں شامل رہاہے۔مارچ2014ء میں اسرائیلی بحریہ نے سوڈان اور اریٹیریا کے درمیان بین الاقوامی پانیوں میں ایک کشتی پکڑی جس میں ایرانی ساختہ خودکاراسلحے کی ایک بڑی کھیپ موجودتھی۔ اس اسلحے میں100کلو میٹر تک مارکرنے والے میزائل بھی شامل تھے۔دسمبر2012ءمیں اسرائیل نے الزام لگایاکہ سوڈان نے حماس کوایرانی اسلحے کی ترسیل کیلئےاپنی بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہےاسی طرح2010ءمیں مصری فوج نے سوڈانی سرحدوں پراپنی نفری میں اضافہ کیاتھاتاکہ اسلحے کی اسمگلنگ روکی جا سکے۔جنوری2009ءمیں اسرائیلی فضائیہ نے17ٹرکوں کے ایک قافلے کوسوڈان میں نشانہ بنایاتھاجوایران سے اسلحہ لیکرغزہ کی طرف جارہاتھا۔
حماس کو2016ءمیں ہی اس بات کا اندازہ ہوگیاتھا کہ ایران سے غزہ اسلحے کی فراہمی کیلئےاب سوڈانی راستہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔جب سوڈان نے تہران سے تعلقات ختم کردیے اورحماس کی زیرنگرانی علاقے غزہ کواسلحے کی اسمگلنگ بھی رکوادی تواسرائیل نے امریکا اوریورپی ممالک سے کہہ کر سوڈان سے اپنے تعلقات کوبہتربنانے کامطالبہ کیا۔
بتایاجارہاہے کہ سوڈان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے عمل کی قیادت اسرائیلی خفیہ ایجنسی موسادکے سربراہ یوسی کوہن کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کی سوڈانی شہریت منسوخ کرنے کافیصلہ کیاگیاجس کا براہ راست تعلق سکیورٹی سے ہے۔ حماس نے سوڈان اسرائیل تعلقات کومستردکردیا ہے ۔اب ان حالات میں سوڈان کاسہاراختم ہوجانے کے بعدحماس کواسلحے کی فراہمی کیلئےدیگرراستے تلاش کرناہوں گے۔