چندعشرے کتنافرق ڈال دیتے ہیں۔90ءکی دہائی کے وسط میں امریکیوں(اوربعض دیگراقوام)کویقین تھاکہ امریکی لبرل جمہوریت مستقبل میں دنیاپر چھاجائےگی۔وارساپیکٹ پاش پاش ہوچکاتھا۔لاطینی امریکاکے آمرانتخابات کرارہے تھے۔انسانی حقوق کے تصورات پھیل رہے تھے اورلبرل ادارے پروان چڑھ رہے تھے۔انسانیت کامستقبل جمہوریت سے وابستہ دکھائی دیتاتھا۔فرانسس فوکویاماکے مشہورجملے’’انسانیت اپنانقطۂ عروج پاچکی “اور”یہاں تاریخ اختتام پذیرہوتی ہے‘‘دنیا بھر میں عمومی سیاسی سوچ کا حصہ بن چکے تھے۔ٹامس فریڈمین ہم سب کوبتارہے تھے کہ سبھی سرمایہ دارانہ نظام کواپناچکے ہیں اوریہ کہ اس نظام کااہم ترین کھلاڑی امریکاہے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ تین امریکی صدورنے انہی تصورات کوسراہا،اپنایااورآگے بڑھایا۔کلنٹن کی قومی سلامتی پالیسی روابط رکھنے اوراپناحلقہ اثروسیع کرنے کےگردگھومتی تھی۔اس کا اعلانیہ مقصد جہاں تک ہوسکا،جمہوریت کاپھیلاؤتھا۔بظاہرجارج ڈبلیو بش لبرٹی ڈاکٹرائن رکھتاہواطاقت کا ایساتوازن چاہتاتھاجوآزادی کی حمایت کرے۔اس نے اپنے دوسرے افتتاحی خطاب میں اسے امریکاکامقدس مشن قراردیالیکن”ورلڈآرڈر”جیسی لعنت کا سرخیل بھی وہی ہے۔اوبامانے اس ہدف کامحتاط جائزہ لیا،تاہم تمام تر احتیاط کے باوجوداس نے لیبیااورشام میں”عرب بہار”کے نام پرآمریتوں کے خلاف کارروائی کی لیکن مقصد”ورلڈآرڈر”کی تکمیل تھا۔ اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کوبتایاکہ اپنے رہنماچننے اوراپنے مقدرکاتعین کرنے سے زیادہ بنیادی حق کوئی اورنہیں اس نے2010ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کوبتایاکہ اپنے رہنماچننے اوراپنے مقدرکاتعین کرنے سے زیادہ بنیادی حق کوئی اورنہیں لیکن الجزائرمیں ہونے والی مغربی ممالک کی کاروائی میں امریکاکادرپردہ ساتھ ان کے دوغلے پن کوچھپانہیں سکا۔اس طرح گزشتہ تین دہائیوں سے امریکاکویقین تھاکہ دنیامزید لبرل،قابل احتساب اورجمہوری گورننس کی طرف بڑھ رہی ہے اوراس پرکسی کوبھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے لیکن مصرکی منتخب حکومت کوختم کرکے السیسی کوبرسراقتدارلانے میں جوگھناؤنا کردارادا کیاگیاوہ بھی ساری دنیا کے سامنے ہے۔
لیکن پھرکیلنڈرپر2017کاصفحہ پلٹااورامریکیوں کویکایک احساس ہواکہ فردِواحدکی حکومت کادورواپس آچکاہے۔روس میں آمریت کاراج ہے۔چینی رہنماشی جن پنگ بھی اپنی طاقت مستحکم کر چکے ہیں۔بعض حلقے انہیں چیئرمین ماؤ زے تنگ سے بھی زیادہ بااثرقراردیتے ہیں۔ٹرمپ کے یہودی نژاد داماد”جیرالڈ”اورسعودی ولی عہدکے بہت ہی قریبی دوست اورموجودہ دور کے”لارنس آف عریبیا”نے ولی عہدکے خصوصی محل میں بیٹھ کرایک ایسا پلان تیارکیاجس کے بعدسعودی ولی عہدنے احتساب کی آڑمیں اپنے سیاسی مخالفین کا نہ صرف صفایاکردیابلکہ ان پرکرپشن کے الزامات لگاکران سے سینکڑوں بلین ڈالربھی وصول کئے اوران کی یہ تحریک اب بھی چل رہی ہے۔وہ ملک کی زیادہ ترطاقت اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔
مصرپرایک مرتبہ پھرانتہائی سفاک اور بدعنوان فوجی آمریت مسلط ہےاوربنگلہ دیش کی خونی ڈائن کی طرح السیسی بھی اسلام پسندوں کودرجنوں کے حساب سے پھانسی پرلٹکانے کاعمل جاری رکھے ہوئے ہے اورامریکاسمیت کسی بھی یورپی یونین کے ممبرملک کویہ توفیق نہیں کہ پھانسی کی ان سزاؤں پران دونوں ممالک کاہاتھ روک سکیں جبکہ پاکستان میں ہزاروں بے گناہ معصوم پاکستانیوں کے قاتل دہشتگردوں کوپھانسی دینے پرانہیں سخت تکلیف پہنچتی ہے اورانسانی حقوق کی تلافی پرپاکستان کومعاشی دہمکیوں سے خوفزدہ کیاجاتاہے۔اب ایک مرتبہ پھرملکی سیاست کی چائے کی پیالی میں طوفان برپاکرنے کیلئے عدلیہ کے ججزکاخط میدان میں لایاگیا ہے تاکہ خوف کے طوفانوں میں اس شکستہ کشتی کے ایٹمی طاقت جیسےپتوارچھین لئے جائیں جوان کادیرینہ خواب ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ میں بظاہرداعش کی آندھی بیٹھ چکی ہے لیکن گاہے بگاہے جہاں اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، اس کوزندہ کرکے اپناکام لیکردوبارہ سلادیاجاتاہے۔کوئی نہیں جانتاکہ ابھی تک عراق اورشام میں کس قسم کی حکومتیں قائم ہوں گی جوواقعی آزادی کے ساتھ اپنے ملک کی تعمیروترقی کیلئے مکمل آزادہوکرکام کرسکیں گی لیکن اگرمستقبل میں ایسی کوئی کوشش بھی ہوئی تویہ بات البتہ یقینی طورپرکہی جاسکتی ہے کہ یہ حکومتیں جمہوری ہرگز نہیں ہوں گی۔مشرقی یورپ ابھی تک مکمل طورپرجمہوری نہیں۔ہنگری اورپولینڈ یقینی طورپرایسی آمریت کی راہ پرگامزن ہیں جہاں یورپی یونین درپردہ مکمل طورپرکھلی آنکھوں سے اپنے ایجنڈے پرکام کررہی ہے تاہم یہ ریاستیں کھل کرلبرل تصورات کی نفی توکررہی ہیں، ایساکرنے سے ممکن ہے کہ وہ یورپی یونین کی رکنیت کیلئےنااہل ہوں لیکن شایدان کے پیش نظرکچھ اورمقاصدہوں جوفی الحال عالمی سیاست کے منظرنامے سے اوجھل رکھے جارہے ہیں۔
اس عالمی ماحول میں امریکی حکومت کیاکہہ سکتی ہے؟اس کیلیےڈونلڈ ٹرمپ جیسے ضدی اوراناپرست کی حکومت کے ان اقدامات کوذہن میں رکھنابہت ضروری ہے کہ اقتدارمیں آتے ہی اس نے امریکی قوم کی فوقیت کواپنامنشورمافوق الفطرت قرار دیکرامریکاکاچہرہ بگاڑکررکھ دیا۔فوری طورپرکئی ملکوں کوراندہ درگاہ بناکربالخصوص مسلم دشمنی کاپہلی مرتبہ واشگاف انداز میں نہ صرف اعلان کیابلکہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے درمیان بھی ہزاروں میل دیوار بنانے کاناممکن اعلان کرکے شہرت حاصل کرنے کا آسان پروپیگنڈہ شروع کردیا۔عرب بادشاہوں کوکھلے عام آئینہ دکھاناشروع کردیاکہ ان کااقتدار امریکی مددکامحتاج ہے اوربدلے میں ان آمریتوں اورفرد واحد کی حکومتوں کیلئےستائشی الفاظ کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالرکے دفاعی معاہدے معرضِ وجودمیں آگئے۔معاملہ یہاں پرہی ختم نہیں ہوابلکہ اسرائیل کوپہلی مرتبہ عرب ممالک میں نہ صرف تسلیم کروایاگیابلکہ عربوں کا صدیوں پرمحیط تہذیب وتمدن بھی بتدریج دم توڑرہاہے اورخودسعودی عرب میں ہزاروں میل پرمحیط ایک ایسانیاصوبہ تیزی سے تعمیرہورہاہے جوایک خبرکے مطابق عیاشی میں مشہورامریکی ریاستوں ہوائی اورالاسکاکے بھی پیچھے چھوڑدے گا۔
امریکاکونسلی بنیادپرتقسیم کرنے والے اس پاگل رہنماءکوبظاہران آمریتوں سے کوئی شکوہ یاشکائت نہیں رہی بلکہ وہ انہیں رشک بھری نگاہوں سے نہ صرف دیکھتے رہے بلکہ ان کی مکمل پشت پناہی میں اس کی غلامانہ سوچ کوبھی ہوادیتے رہے کہ اُن ریاستوں میں حکمرانوں کانہ کوئی احتساب ہوتاہے اور نہ ہی کسی آئینی قدغن کاپہرا۔اس میں کسی کوحیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اسی لئے یہ صدر(ٹرمپ)اپنے ہاں نظام انصاف کوہدفِ استہزابناتے رہتے ہیں ۔انہیں اس بات کادکھ ہے کہ نظامِ انصاف پران کازیادہ کنٹرول کیوں نہیں رہا۔اگرآپ کویادہوتو ٹرمپ نے ایف بی آئی کے”جیمزکومی”کومحض اس لیے نکال باہرکیاتھاکہ وہ صدرپراپنی وفاداری ثابت کرنے میں ناکام رہاتھا۔ٹرمپ نے اُنہیں امریکی صدارتی انتخاب میں روس کی تکنیکی مداخلت کی تحقیقات روکنے کا حکم دیاتھا۔
اپنے دورِاقتدارمیں ٹرمپ یہ تاثر دیتارہاکہ ان کے ہوتے ہوئے ریاستی اداروں کی ضرورت نہیں۔وہ جوچاہتے ہیں کرسکتے ہیں،ان پرکوئی پابندی درست نہیں لیکن ٹرمپ یہ کیوں بھول گئے کہ امریکی حکومت نے طویل عرصے تک اپنے ہاں جمہوریت کاجودفاع کیاہے،اس کواتنی جلدی آسانی کے ساتھ ریورس نہیں کیاجاسکتا۔اس سے بھی اہم بات یہ کہ اس نے طویل مدت تک جمہوریت کیلئےقربانیاں دی ہیں اوریہ مزیدقربانیاں بھی دے سکتی ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ٹرمپ کارویہ امریکا کی سیاسی روایات سے کھلاانحراف تھا۔امریکانے ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کرنے میں اکثرعدم تسلسل سے کام لیاہے اوراہم ایشوزپرآمروں کے ساتھ خوش دلی سے اتحادکیاہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل اور حکمرانی کیلئے فردِ واحدسے ڈیل کرنازیادہ آسان سمجھتے ہیں، لیکن اہم سیاسی معاملات اوردوسرے مفادات پرڈیل کرناایک بات ہے اوراپنے نظریات کوچھوڑکرغیرنمائندہ شخصیات کی تعریفوں کے پُل باندھناالگ چیزہے۔ایسا کرنا بھی براہے کیونکہ یہ اس روایت کو،جوماضی میں ایک قیمتی سفارتی اثاثہ ہواکرتی تھی،توڑ دیتاہے۔ یہ اس بات کایقین تھاکہ امریکامحض انفرادی نوعیت کے مفادات کی بجائے کسی اورمقصدکیلئےاسٹینڈلیاکرتاہے۔
یہ تبدیلی وہ نہیں ہے جس کالوگوں کوسردجنگ کے فوراًبعدانتظارتھا،لیکن یہ حیران کن بھی نہیں۔طاقتورہونے کی بجائے دنیاکی بڑی اوراہم جمہوریتوں کوگزشتہ پچیس سال کے دوران بڑے نقصانات سے دوچارہوناپڑاہے۔امریکانے عراق اورافغانستان پرغلط وجوہ کی بنیادپرحملہ کیا۔معاملات کوالجھایا اورانتظامی صورت حال کی خرابی کے باعث بڑے پیمانے پرنقصان بھی اٹھایا۔اس کے نتیجے میں امریکاکاسیاسی نظام بگڑتاچلاگیا۔سیاست دانوں کے بارے میں عوام کی رائے دن بہ دن خراب سے خراب ترہوتی چلی گئی۔اس سے بھی بدتریہ کہ کسی ذمہ دارسے جواب طلبی نہ کی گئی اورعوام کے عروج پاتے غم وغصے کوٹرمپ کے اقدامات نے مزید جلابخشی۔یورپ میں یوروکاقیام ایک مہلک غلطی ثابت ہوا،جس کے نتائج بہت دورتک جاتے ہیں ۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے نے برطانوی حکمرانوں کی نااہلی کاپردہ چاک کیا کہ ان کی بصیرت بروقت اس منصوبے کی کامیابی اور ناکامی کے ادراک میں بری طرح ناکام ہوئی ۔
ٹرمپ جنہیں قابل رشک سمجھتے ہیں ایسے بہت سے آمرذرابھی شاندارریکارڈنہیں رکھتے۔پیوٹن نے چندایک معاملات میں بہتر کارکردگی کامظاہرہ ضرور کیاہے تاہم وہ روسی معیشت کی کمزوریاں دور کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ساتھ ہی ساتھ وہ معاشرتی مسائل کابہترحل تلاش کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔امریکااورکچھ دوسری جمہوریتوں نے دودہائیوں سے بری کارکردگی دکھانے کے باوجودخودکوکامیابی سے قائم رکھاہے لیکن افغانستان اورعراق کے معاملات پرمجرمانہ غفلت کے بھی مرتکب ہوئی ہیں اوربالخصوص اپنے مفادات کے حصول کیلئے اپنے پالتواسرائیل کوغزہ میں اورمودی کوکشمیرمیں کھلے عام انسانیت کے بہیمانہ قتل کالائسنس مہیاکررکھاہے۔
یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ2008ءکے بحران سے امریکانے خودکوتیزی سے باہرنکالنے کی کوشش کی لیکن چین کی بڑھتی ہوئی معاشی واقتصادی ترقی کوروکنے کیلئے غیردانشمندی کاثبوت دیتے ہوئےانڈیاکوعلاقے کاتھانیداربنانے کی حماقت کاسہرابھی پچھلی دونوں حکومتوں بالخصوص جونئیربش کے سرپر ہےجس کوعروج پرپہنچانے کیلئے ٹرمپ کی ہٹ دھرمی خودامریکاکی تباہی کاسبب بن کررہے گی اوررہی سہی کسرموجودہ امریکی صرکے ہاتھوں پوری ہو کررہے گی۔شمالی کوریاکے ہاتھوں امریکا کی درگت نے ٹرمپ کوندامت کے گھڑوں پانی نے اس قدر شرابور کیاہے کہ امریکاکی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل گئی ہے۔ اگریادہوتونئے سال کے آغازمیں پاکستان کوخوفزدہ کرنے کیلئے ایک بہیودہ “ٹویٹ” جاری کرنے کے بعدخودامریکامیں سیاسی حلقوں اورتجزیہ نگاروں نے اس کی دماغی حیثیت پرشک کااظہارکرناشروع کردیاتھا۔ٹرمپ نے اپنی یکسرغلط پالیسیوں اورہٹ دھرمی سے امریکاکوجو نقصان پہنچایا،خودامریکاکے اندرسیاسی تجزیہ نگارٹرمپ کی برطرفی کامطالبہ کرناشروع کردیاتھا۔سابقہ صدررونالڈ ریگن کے بیٹے نے ٹرمپ کوایک بیوقوف،پاگل اورامریکی تاریخ میں سب سے زیادہ نالائق فرد قراردیتے ہوئے اس کے خلاف مواخذہ کامطالبہ کیاتھا۔
ٹرمپ کے”یروشلم کواسرائیل کا جائزدارالحکومت”قراردینے پردنیابھرمیں ایک بھونچال پیدا کردیاتھاجس کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں اس معاملے پرٹرمپ کومنہ کی کھانی پڑی لیکن ٹرمپ اب ان ممالک کی تعریف وتوصیف میں مگن رہے جنہوں نے اس قراردادکی رائے شماری میں حصہ نہیں لیاتھا ۔ اسرائیل بہرحال اپنے صہیونی منصوبوں کومرحلہ وارآگے برھاتا چلاجارہاہے۔مسلم دنیا،باہمی چپقلش اوراستعماری قوتوں کی خوشامدمیں لگی ہے۔اس میں کوئی تبدیلی آسکے گی؟یہ دیکھناابھی باقی ہے۔
اسرائیل کاہمیشہ اصراررہاہے کہ بیت المقدس اس کے زیرِانتظام رہے گااورفلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ کم ازکم اس کے مشرقی حصہ پر(جو1967ءکی عرب اسرائیل جنگ میں،اردن کے ہاتھوں سے نکل کراسرائیل کے قبضے میں چلاگیاتھا)فلسطینی کنٹرول ہوناچاہیے۔اسی مشرقی بیت المقدس میں تقریباً35/ایکڑرقبہ پرمشتمل وہ خطۂ زمین ہے جوحرم الشریف کے نام سے موسوم ہے اور جس کی حدودمیں مسجد الاقصیٰ اورقبۃ الصخرۃ(پتھروالا گنبد ) واقع ہیں۔یہ وہ جگہ ہے جہاں سے نبیٔ آخرالزماںﷺ نے معراجِ سمٰوٰت کاعظیم سفرکیاتھااورجس کی طرف رخ کرکے تقریباً15سال تک خودنبی اکرمﷺاوران کے صحابہ نمازاداکرتے رہے۔اسی لیے اس کوقبلۂ اول کہاجاتاہے۔دنیاکی صرف تین مسجدوں کے بارے میں ارشادِ نبویﷺ ہے کہ وہاں نماز پڑھنے کیلئےخصوصی طورپرجانااوراُنہیں دوسری تمام مساجدپرفوقیت دیناجائزہے۔یہ تین مسجدیں کعبۃ اﷲ،مسجدِ نبوی اورمسجدِ اقصیٰ ہیں۔
28ستمبر2000ءکواسرائیلی انتہاپسندجماعت لیکوڈپارٹی کے سربراہ(بعدمیں اسرائیلی وزیراعظم بھی)ایریل شیرون نے حرم الشریف (مسجدِ اقصیٰ)کا دورہ کیا،جس پرفلسطینی مسلمانوں نے پُرامن احتجاجی مظاہرے کیے۔اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین کوگولیوں سے بھون دیا۔اس کے بعدسے پورا فلسطین ایک بھٹی کی مانندسلگ رہاہے۔اہلِ فلسطین،تین بارانتفاضہ کے نام سے غیرمعمولی تحریکِ آزادی چلاچکے ہیں۔اس طرح محاصرہ کاشکارغزّہ بھی بارباراسرائیلی عسکری جارحیت کاشکارہوتارہاہے اوراب پچھلے کئی ماہ سے غزہ کے شب وروزساری دنیاکے سامنے ہیں۔مجھے بڑے دکھ سے یہ تحریرکرنا پڑ رہاہے کہ 57اسلامی ممالک بزدلوں کی طرح اپنے اقتدارکوبچانے کی فکرمیں اخروری فکرسے غافل ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی اس بات پربضدہیں کہ مسجدِ اقصیٰ کی حدودمیں ہیکل سلیمانی ضرورتعمیرکریں گے۔متحدہ یروشلم(بیت المقدس)کواپنا دارالحکومت بنائے رکھیں گے اورامریکا سمیت ساری دنیا کے سفارت خانوں کو،تل ابیب سے یروشلم منتقل کروائیں گے۔دوسری طرف یہودیوں کواس بلاجواز کارروائی سے روکنے کیلئے صرف فلسطینی مسلمان بالخصوص غزہ میں سات اکتوبرسے اب تک اسرائیلی بمباری سے مجموعی طورپرکم ازکم 31553فلسطینی شہیدہو چکے ہیں۔ان ہلاک ہونے والوں میں دوتہائی تعداد فلسطینیوں بچوں اورعورتوں کی ہے۔اب تک زخمیوں کی تعداد 73546بتائی گئی ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے زخمی علاج کی سہولت میسرہوسکی ہے کیونکہ غزہ میں ہسپتال کی بڑی تعدادبمباری اورحملوں سے تباہ کی جاچکی ہے جبکہ باقی تھوڑے بہت بچ جانے والوں میں علاج کی سہولیات ناکہ بندی کے باعث ختم ہوچکی ہیں اورتقریباًسبھی ہسپتال ناکارہ ہوچکے ہیں۔پوری دنیاکی نگاہیں بیت المقدس میں جاری کشمکش پر مرتکز ہیں۔
دوسری طرف عالمی میڈیامیں امریکی صدرجوبائیڈن کاایک منافقانہ بیان گردش کررہاہے کہ”عرب ریاستیں اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے تیارہیں اور میں سعودی عرب،مصر،اردن اورقطر سمیت دیگرتمام ممالک کے ساتھ کام کررہاہوں”۔کون نہیں جانتاکہ ناجائز اسرائیلی ریاست کوامریکاکی کس قدر پشت پناہی حاصل ہے۔جوبائیڈن آئندہ امریکی انتخابات میں اپنی فتح کویقینی بنانے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔وہ ایک طرف مسلمان ممالک کو دوریاستی حل کاچکمہ دے رہے ہیں اوردوسری طرف اسرائیل کے جنگی اور خونی ہاتھوں کوچوم کردوبارہ قصرسفیدمیں براجمان رہنے کے خواہش مند ہیں۔یہ واضح رہے کہ ان حالات میں جوبھی اسرائیل کوتسلیم کرنے کاارادہ بھی کرے گا،خودوہاں کی عوام ہی ان کاایسااحتساب کریں گے کہ جس اقتدارکی خاطریہ جرمِ عظیم کرنے پر آمادہ ہوں گے،اسی اقتدارکی غلام گردشیں ان کومزیدپناہ دینے سے انکارکردیں گی۔
ادھرہمارے ہاں درپردہ امریکی اشارے پرطاقتور حلقوں کی آشیروادسے یہ بحث چھیڑی جاتی رہی ہے کہ اسرائیل کوتسلیم کرلینے میں کیاحرج ہے۔ہمارا اسرائیل سے کیاجھگڑاہے؟اب تو بہت سی عرب حکومتوں نے بھی اسرائیل کوتسلیم کرلیاہے یاکرنے والی ہیں۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ عربوں نے کب ہماراساتھ دیاکہ اب بھی ہم ان کی وجہ سے اسرائیل سے دشمنی مول لیتے رہیں۔اُس سے ہماری دشمنی کانقصان یہ ہورہاہے کہ اسرائیل اوربھارت دوست بنے ہوئے ہیں۔اگرہم اسرائیل کوتسلیم کرلیں توہم بھی اس کے دوست بن سکتے ہیں اوربھارت سے اس کی قربت کوکم کرسکتے ہیں لیکن ہم نجانے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اس وقت سینکڑوں بھارتی اسرائیل کی فوج میں بھرتی ہوکرغزہ کے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے میں میدان جنگ میں موجودہیں۔
یہ دلائل سادہ دل اورمعاملے کے تاریخی،واقعاتی،ایمانی،اخلاقی اورنفسیاتی پہلوؤں سے ناواقف لوگوں پراثراندازہوسکتے ہیں لیکن یادرکھیں کہ اسرائیل کوتسلیم کرنے کامعاملہ محض ایک ملک کوماننے یانہ ماننے کانہیں۔اسرائیل یہودیوں کا جبری طورپرحاصل کردہ نسلی وطن اورعالمگیرصہیونی تسلط کانقطۂ پَرکارہے۔حق وباطل کی ازلی کشمکش میں سے پچھلے ہزاروں سال کے سینکڑوں خَم دارپہلو اس سے وابستہ ہیں،جنہیں ہوش وحواس میں رہنے والاکوئی باغیرت مسلمان نظراندازنہیں کرسکتا۔بیت المقدس کی اہمیت اوراس کاتاریخی پس منظرکیاہے؟اس پراسرائیلی اور عرب دعوؤں میں حقیقت کتنی ہے؟اور اس حوالے سے صہیونی عزائم اورمنصوبے کیاکیاہیں؟مسئلۂ فلسطین کی نزاکت اوراس کے ایمانی پہلوؤں سے ہی نہیں،واقعاتی اورتاریخی حقائق سے بھی روشناس ہوناضروری ہے۔