کیاامریکی جارحیت کے مقابلے میں جہادکاراستہ اپناکرطالبان نے غلطی کی؟کیایہ اسلام کاتقاضہ نہیں بلکہ ایک جذبا تی فیصلہ تھا؟کیا اس تصادم کوامریکا کے ناجائز مطالبات مانے بغیرٹالاجاسکتاتھا؟کیاباہمی طاقت کافرق دیکھ کرطا لبان حکومت کوبھی دوسرے اسلا می ملکوں کی طرح اپنی خودمختاری سے خودہی دستبردارہوجانا چاہئے تھا؟کیاجب تک فتح کایقین نہ ہواس وقت تک جہاد کوموقوف کردیناچاہئے تھا؟کیاامریکااورطالبان کی جنگ واقعی کفراوراسلام کی جنگ ہے؟اگریہ سچ مچ جہادہے تواللہ کی نصرت اب تک کیوں نہیں آئی؟……..5سال قبل ایسے متعددسوالات جوبہت سے ذہنوں میں اورزبانوں پرزدعام تھے ان کے جوابات کیلئے ایک ایسے پروگرام کااہتمام کیاگیاتھا جس میں بلامبالغہ دو ہزار سےکہیں زیادہ افراد(جن میں اکثریت یونیورسٹی کے طلباءاورطالبات کی تھی)نے شرکت کی۔مجھے بھی ان سوالات کے کٹہرے میں سے گزرنا پڑا جن پربڑی سنجیدگی سے نہ صرف ہماری نوجوان نسل بلکہ پوری قوم کوبھی تدبراورغوروفکرکی دعوت دی گئی تھی!
مغربی زعماء ایک مدت سے اپنی تہذیب کیلئے اسلام کوجس طرح واحدخطرہ باورکراتے چلے آرہے ہیں،مغرب کی طرف سے دہشتگردی کے خاتمے کے نام پرشروع کی جانے والی موجودہ عالمگیرمہم کوجس طرح عملاًاسلام کے خلاف تحریک بنادیاگیا ہے،مغربی میڈیانے اس مقصد کیلئے جوگمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کررکھاہے، خود قصرسفید کے ایک فرعون سابقہ صدرجارج بش نے ابتداء ہی میں جس طرح صلیبی جنگ کی بات کرکے اس تحریک کاآغازکیاتھا اوراس کے بعداٹلی کے وزیراعظم نے کھلم کھلا اسلام کے مفتوح بنا لئے جا نے کی ضرورت کا اظہار کیااورافغانستان کے بعدعراق اوربعدازاں”عرب بہار”کے نام پرلیبیااور تیونس کوتاراج کرنے کے بعدمصرکی منتخب حکومت کادھڑن تختہ کرکے اپنے ایجنٹ کولانے کے باوجوداب جس طرح دوسرے مسلمان ملکوں تک اس جنگ کادائرہ وسیع کرنے کی باتیں کی گئیں،ان عوامل کی روشنی میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ یہ جنگ فی الحقیقت مغرب نے اسلام ہی سے نمٹنے کیلئے شروع کی اوراسامہ بن لادن کانام محض ایک بہانہ تھا۔ افغانستان میں بری طرح ہزیمت اٹھانے کے بعداپنے اس منصوبے کوکامیاب کرنے کیلئے”عراق اورشام”کی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے”داعش”کومیدان میں اتاراگیااور پیرس حملے کے بعداس جوازکو سند بھی مہیاکردی گئی۔اس کے بعدیہ بات خود بخود صاف ہوگئی کہ امریکااوراس کے حواریوں کے حملے کامقابلہ کرنے کیلئے طالبان کی طرف سے اسے جہاد قراردینا بھی بالکل درست ہے اوریہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں ہے۔
اب رہ گیایہ سوال کہ کیاطالبان اس تصادم کوطاقت کے توازن میں بے پناہ فرق کے سبب امریکا کے ناجائزمطالبات تسلیم کرلیتا اورعملاًاپنی خودمختاری سے دست بردار ہوئے بغیرفی الوقت ٹال سکتاتھا،توحالات کی روشنی میں یہ بالکل عیاں ہوگیاکہ انہوں نے اس امرکی پوری کوشش کی کہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔اسامہ کے معاملے میں ثبوت وشواہد پیش نہ کئے جا نے کے باوجود امریکاکوآخرتک مذاکرات کی پیشکش کرتے رہے۔ثبوت فراہم کر دیئے جا نے کی صورت میں اسامہ پرکسی مسلم ملک میں مقدمہ چلائے جانے پربھی انہوں نے مختلف مواقع پرآمادگی ظاہرکی لیکن خودمختلف مغربی ذرائع کے مطابق امریکابہادرایسی ہر پیشکش کومستردکرتارہا اور بالآخراس نے افغانستان پرباقاعدہ فوج کشی کردی گویایہ جنگ طالبان نے خودنہیں چھیڑی بلکہ امریکااوراس کے مغربی اتحادیوں نے طالبان پرمسلط کی اورکسی نہ کسی بہانے امریکااوراس کے مغربی اتحادیوں کویہ کرنا ہی تھاکیونکہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کے تحت امریکااوراس کے مغربی ا تحاد ی اسلام سے نمٹنے کافیصلہ بہت پہلے کرچکے تھے کیونکہ اسلامی احیاءکے سب سے نمایاں امکانات اس وقت افغانستان ہی میں تھے جوانہیں قطعاًگوارہ نہیں تھاکہ اسلامی نظام کی برکات سے باقی دنیاآگاہ ہوسکے اوران کاجھوٹاجاری نظام دھڑام سے زمین بوس ہوجائے ۔
طالبان دوسرے مسلم حکمرانوں کی طرح مغرب کی خواہشات کے مطابق جھکنے پرتیارتھے نہ بکنے پرلہندا مغرب کاپہلاہدف طالبان ہی کوبنناتھا۔اتحادی طاقتوں اور طالبان کی عسکری صلاحیت کے درمیان بے پناہ فرق کے پیش نظریہ بات پہلے دن سے واضح تھی کہ طالبان کی حکومت ختم ہوجائے گی اور طالبان کوایک طویل چھاپہ مارجنگ کی حکمت عملی اپنانی ہوگی،اس کا اظہارخودمختلف طالبان رہنماؤں نے پہلے ہی کردیاتھایعنی یہ بات یقینی تھی کہ طالبان کواس جہادکے کم ازکم پہلے مرحلے میں فتح حاصل نہیں ہوگی اوربرسوں طویل چھاپہ مارجنگ کے نتائج کیارہیں گے،اس با رے میں بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی تھی گویایہ جہاد دنیاوی فتح کی نسبت دنیاوی شکست کے نمایاں امکانات کے باوجودشروع کیاگیااورایسااس لئے ہواکہ درپیش حالات میں قرآن کے واضح احکام کی روسے ایک مسلمان حکومت کوئی دوسرافیصلہ کرہی نہیں سکتی تھی کیونکہ جب اسلامی مملکت پرکفرکی طاقتیں جنگ مسلط کرہی دیں توپھر طاقت کے توازن کی پرواہ کئے بغیرمقابلہ لازمی ہوجاتاہے۔قران کہتا ہے کہ:
اے لوگوجوایمان لائے ہوجب کافرتمہارےمقابلے میں لشکرلیکرآجائیں توپیٹھ نہ پھیروجس نے ایسے موقع پرپیٹھ دکھائی ..وہ اللہ کے غضب میں گھرجائے گا،اس کاٹھکانہ جہنم ہوگااوروہ بہت بری جگہ ہے۔ (سورة الانفال۔15۔16)اورایک اورجگہ ارشاد ہے کہ ”نکلوخواہ ہلکے ہویابوجھل، اور جہادکرواللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے،یہ تمہا رے لئے بہترہے اگرتم جانو۔” (سورة التوبہ۔41)
ان ہدایات سے واضح ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ جب تک دشمن سے مقابلے کیلئے کسی خاص سطح تک تیاری نہ ہومقابلہ نہیں کرناچاہئے۔تیاری کاحکم استطاعت کے مطابق ہے یعنی جتناکچھ بس میں ہوجہادکیلئے مہیارکھناچاہئے مگرجب مڈبھیڑہوہی جائے توپھریہ نہیں دیکھناچاہئے کہ تیاری کم ہے یازیادہ۔اگرایساہوتاتواللہ کے پیارے رسول محمد ﷺ ستراونٹ،دوگھوڑوں اورٹوٹی ہوئی تلواروں کے سا تھ تین سوتیرہ مسلما نوں کوکافروں کے کیل کانٹے سے لیس ایک ہزارشہسواروں کے مقابلے میں لیکربدر کے میدان میں معرکہ آرانہ ہوتے۔میراایک استدلال یہ بھی تھاکہ افغانستان کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے جبکہ قران کہتا ہے کہ:
”اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے،اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیویاں،اورتمہارے عزیزواقارب اور تمہارے وہ مال جوتم نے کمائے ہیں،اورتمہارے وہ کاروبارجن کے ماندپڑجانے کاتم کوخوف ہے اورتمہارے وہ گھرجوتم کوپسند ہیں تم کواللہ اوراس کے رسول اوراس کی راہ میں جہادسے عزیزترہیں توانتظارکروکہ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سا منے لے آئے اوراللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ ” (سورة التوبہ۔24)
ان ارشادات سے عیاں ہے کہ طالبان نے دنیاوی نتائج کی پرواہ کئے بغیرجہادکافیصلہ اللہ کے واضح احکام کی روشنی میں کیا۔ انہوں نے زمینی حقائق کی نسبت آسمانی حقائق کوترجیح دی کیونکہ وہ اس کا شعوررکھتے ہیں جبکہ مادہ پرست لوگ قرآن کے بقول ”دنیا کی زندگی کابس ظاہری پہلوہی جانتے ہیں اورآخرت سے وہ خودہی غافل ہیں۔” (سورة الروم۔7)
اس لئے با قی مسلم حکومتوں کے فیصلے نام نہادزمینی حقائق تک ہی محدودرہے۔ان کی بنیادکسی اصول پرنہیں بلکہ محض وقتی مفادات پرہے۔اب جہاں تک نصرت الٰہی کاتعلق ہے توقرآن ہی بتاتاہے کہ ضروری نہیں کہ اہل ایمان کووہ ہمیشہ دنیاوی کامیابی ہی کی صورت میں حاصل ہو۔جہادمیں اللہ نے مومنوں کودوبھلائیوں فتح اورشہادت میں سے ایک کی ضمانت دی ہے،چنانچہ انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ :
دشمنان دیں سے کہہ دوکہ تم ہما رے معاملے میں جس چیزکے منتظر ہووہ اس کے سوا کیاہے کہ دوبھلائیوں میں سے ایک بھلا ئی ہے،اورہم تمہا رے معا ملے میں جس چیزکے منتظرہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خودتم کوسزادیتاہے یاہما رے ہاتھ سے دلواتاہے۔”( سورة التوبہ۔52)
اس سے معلوم ہواکہ جہادلازماًدنیاوی فتح ہی کیلئے نہیں ہوتااوریہ فیصلہ کہ کون حق پرہے اورکون باطل پر،ظاہری فتح وشکست سے نہیں،فریقین کے اخلاقی معیارسے ہوتاہے اورآج دنیادیکھ رہی ہے کہ کابل سے جولوگ گئے وہ کس درجے کے تھے اورجولائے گئے ہیں،اخلاق وکردارکے لحاظ سے کس معیارکے ہیں۔دیکھنے والے خودفیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ۔ جہاں تک جہاد کامعاملہ ہے توصرف اللہ کاحکم بجالانے کیلئے ہوتا ہے، اور طالبان نے ثابت کردیاہے کہ انہیں فتح و شکست سے بالاتررہتے ہوئے صرف اللہ کی خوشنودی مطلوب تھی اوراللہ نے ان کی استقامت واطاعت کے بدلے میں امریکاجیسی سپرپاوراوراس کے اتحادیوں کوبالآخر خاک چاٹنے پرمجبورکردیااورساری دنیانے دیکھاکہ دوحہ امن معاہدے کے فوری بعد دنیا بھرکے میڈیاکے سامنے اسی ہال میں ان بوریانشینوں نے اللہ کی کبریائی کے نعرے بلندکرتے ہوئے اپنی عاجزی کااظہارکیسے کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ طالبان نے اللہ پرایمان اورتوکل کے معاملے میں حجت تمام کردی۔ان کی حکمت عملی رضائے الٰہی کے سوا کچھ نہیں،اسی لئے انہوں نے ربِّ کریم کے اس وعدے پرتوکل کرتے ہوئے گینداللہ کی کورٹ میں ڈال دی کہ”تم ہی غالب رہوگے اگرتم مومن ہو۔”لیکن عموماً کھرے کھوٹےکوالگ الگ کرنے کیلئے آزمائش کے نہائت کٹھن مراحل کے بعد کا میابی کی یہ منزل اس وقت آتی ہے جب عام لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ اللہ کی مدد کے بارے میں جوکچھ ان کوبتایا گیا تھاوہ سب بے حقیقت تھا۔قران کہتاہے”یہاں تک جب پیغمبرلوگوں سے مایوس ہوگئے اورلوگوں نے بھی یہ سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولاگیاتھاتو یکایک ہما ری مددپیغمبروں کو پہنچ گئی ۔”اب دیکھنایہ ہے کہ اس معرکے میں جویقیناابھی ختم نہیں ہوابلکہ مکاردشمن اپنی شکست کے بدنمازخموں کوبھولانہیں اوراس کی پوری کوشش ہے کہ انخلاء کے نفاق کابیج کچھ اس اندازسے کاشت کیاجائے کہ مستقل خانہ جنگی کے نتیجے میں یہاں کبھی امن نہ ہوسکے۔اسی لئے امریکی فورسزجہاں بھی بیسزخالی کرتی ہیں،انہیں عالی الاعلان افغان فوج کے حوالے اسی لئے کیاجاتاہے تاکہ طالبان کواس کی خبرہواوروہ اشتعال میں آکراس کابزورقبضہ حاصل کرنے کیلئے کاروائی کریں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کے آغازہوتے ہی وہاں کی مقامی آبادی اس خونریزی سے بچنے کیلئے دوسرے علاقوں کارخ کریں۔
ابتدائی طورپرچارامریکی بیسزجوافغان فوج کے حوالے کئے گئے تھے وہاں خانہ جنگی کے بعدان پرطالبان کاقبضہ ہوچکااور اب انہی طالبان کی فتوحات کی خبریں خود مغرب اورامریکاکامیڈیاتواترسے نشرکررہاہے اورطالبان کے مخالفین کی صفوں میں پہلے سے کہیں زیادہ بے پناہ افراتفری دکھائی دے رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں امریکااپنے پالتوگماشتوں کوامریکابلاکرایک مرتبہ پھرسازشوں میں مصروف ہے اوروہاں کٹھ پتلی افغان صدراشرف غنی کے ساتھ شمالی اتحادکے عبداللہ عبداللہ کوبلاکر طالبان کے خلاف مشترکہ محاذبنانے کیلئے نیااتحادتشکیل دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں اوردرپردہ موجودہ کاروائی کیلئے بھارتی شمولیت کے ساتھ طالبان کاراستہ روکنے کیلئے پاکستان پردباؤبڑھانے کی سازشیں جاری ہیں جبکہ شنیدیہ بھی ہے کہ پچھلے دنوں طالبان کے سیاسی دفتردوحہ قطرمیں”را”کاچیف اجیت ڈوول بالآخرملاقات کرنے میں کامیاب ہوگیاہے۔تاہم یہ سب جانتے ہیں کہ جو امریکا اپنی بھرپورفرعونیت اورسپرطاقت کے گھمنڈمیں20سال تک اپنے اتحادیوں کی مددسے لاکھوں ٹن بارودکی بارش کرنے کے باوجودبالآخرجس عالمی رسوائی سمیت رخصت ہورہاہے،اب بھلااس کی سازشیں کس قدرکامیاب ہوسکتی ہیں تاہم یہ ضرورہے کہ وہ وقتی طورپراس خطے کے امن کوسبوتاژ کرنے کی ہرکوشش کرے گااورشائدقدرت کا ایک اورفیصلہ باقی ہے کہ اس خطے کے ایک اورظالم فرعون مودی سرکارکے تابوت میں آخری کیل بھی افغانستان ہی مہیاکرے گا۔
بہرحال وقت نے توفیصلہ صادرکردیااورکھلی آنکھیں اس کانظارہ بھی کررہی ہیں کہ میرے رب کی نصرت کس کے ساتھ ہے…. بس تھوڑاانتظار….. کہ استعمارکا سورج غروب ہونے کوہے!
سجنو!د یکھیں اللہ کاآخری فیصلہ کب آتاہے!
انصاف کی یہ آنکھ ،یہ سورج کی روشنی
یارب یہی ہے دن تومجھے رات چا ہئے