گزشتہ برس کے آخری ہفتے میں واشنگٹن پوسٹ نے افغانستان میں جاری طویل اور ناکام امریکی جنگ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر دستاویزات شائع کیں جس کو سیموئیل موئن اور اسٹیفن ورٹہیم ایک نہ ختم ہونے والی جنگ قرار دیاتھا۔اس کے بارے میں عمومی رائے یہ تھی اگرچہ اس اشاعت کے اثرات ویت نام جنگ کے دور میں شائع پینٹاگون دستاویزات کی طرح انقلابی نہیں ہوں گے لیکن یہ اشاعت امریکاکی قومی سلامتی پالیسی کو سمجھنے کیلئے اہم ضرور ہے۔ دوہا افغان امریکاجنگ بندی معاہدے اورانخلاء کے ابتدائی عمل کے بعداس رپورٹ کواب بڑی پذیرائی مل رہی ہے.ری پبلکن پارٹی تو ہمیشہ ہی غیر ذمہ دار رہی ہے، ان حالات میں یہ انکشاف ہونا کہ امریکی حکام نے جنگ کے حوالے سے اپنے خدشات چھپائے، انہیں پتا تھا کہ جنگ میں امریکی حکمت عملی ناکام ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پوری صورتحال ہی تبدیل ہوسکتی ہے۔ ویسے امریکی عہدیداروں نے عوام سے اتنا جھوٹ نہیں بولا جتنا انہیں گمراہ کیا ہے، خاص کر افغان جنگ کے بارے میں اپنے خدشات کو حکومتی رازداری میں رکھ کر۔ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ حکومت جانتی تھی کہ افغان حکومت بدعنوان اور ناقابل اعتبار ہے، پاکستان طالبان کی مدد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا، ایسے میں امریکی حکمت عملی حالا ت سے بے خبر اور تضادات سے بھرپور تھی۔
ان حقائق سے امریکی عوام اور کانگریس کوآگاہ کرنے کے بجائے سول اور فوجی حکام عوامی حمایت اور کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کیلئے جنگ کے بارے میں باربار حوصلہ افزا رپورٹ پیش کرتے رہے۔ مثال کے طور پر دسمبر 2009ء میں افغانستان میں امریکا کے سب سے اعلیٰ کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ ’’اگلے 18/ ماہ اس جنگ کے لیے فیصلہ کن ہیں اور بالآخر فتح ہماری ہوگی، ہم اپنے اس مشن کو مکمل کرسکیں گے‘‘۔ ان کے جانشین جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بھی ایک سال بعد ایسی ہی امید افزا گفتگو کی، حالانکہ اس وقت امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کچھ اور کہہ رہی تھیں۔2010ء میں جنرل جیمز میٹیس جو بعد میں سیکرٹری دفاع بنے، نے کانگریس کوبتایا کہ’’ہم اس وقت صحیح راستے پر ہیں‘‘ اس طرح کی گواہی ایک مخصوص حکمت عملی کا حصہ تھی۔
سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کے عملے نے ایک رپورٹ 2006ء میں تیار کی، جو صرف خوش کن اطلاعات سے مزین تھی۔ جنرل ڈین کے میک نیل نے 2007ء میں زبردست پیش رفت کے بارے میں بتایا۔اس وقت کے امریکی صدر باراک اوبامااور وزیردفاع لیون پنیٹا نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2011ء اور 2012ء میں جنرل پیٹریاس نے بتایا کہ امریکی فوج مشکلات سے نکل آئی ہے۔ پانچ برس بعد جنرل جان نکسن نے ان خوشخبری بھرے بیانات کو ہی دہرایا، لیکن یہ سب لوگ غلط تھے، کیونکہ افغانستان کے حالات مسلسل بگڑتے جا رہے تھے۔امریکی حکام کی جانب سے ایک ہی جیسی بیان بازی کی طویل تاریخ شرمنا ک ہے۔ اعلیٰ حکام سے لے کر نچلے درجے کے اہلکاروں کی جانب سے خوشخبریوں کے باوجود افغانستان میں امریکی کوششوں کے ناکام ہونے کے ثبوت موجود تھے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جان سوپکو کی بہت سی تنقیدی رپورٹس بظاہر واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے جاری دستاویزات کی بنیاد پر ہی تیار کی گئیں ۔ اگرآپ چند سفارشات پر غور کریں توواضح ہوگا کہ اگرافغانستان سے طویل وابستگی کا عزم برقرارہتا تو یہ جنگ مزید ایک دہائی جاری رہتی اور اس میں مزید سیکڑوں ارب ڈالر لگ جاتے اور پھر بھی ناکامی کے سواکچھ ہاتھ نہ آتا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایک بہت دور بیٹھی بڑی طاقت کبھی بھی ایسی جنگ نہیں جیت سکتی، جبکہ اس کے د شمنوں کا خودامریکی اوران کے اتحادیوں کی موجودگی کے باوجودافغانستان کے70فیصدعلاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوں اور اس کی اتحادی افغان حکومت ناامیدی کی حد تک بدعنوان اور ناکارہ ہے۔یہ حقائق گزشتہ 13برس سے زائد عرصے سے عیاں ہیں، بد قسمتی سے امریکا کی دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا ہے۔ یقینی طورپر دو دہائیوں کی کوششوں اور ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجودمطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جاسکے، افغان معیشت کی ترقی کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، معیارِ تعلیم اورمعیارِ زندگی بہتر نہ ہوسکا، خواتین کو زیادہ حقوق دینے کاخواب بھی پورانہ ہوسکاتاہم افغانوں کوجس کی لاٹھی اس کی بھینس کے انتخابات کا جوتجربہ حاصل ہوا، اس کے نتیجے میں اب تک شمالی اتحادکے عبداللہ عبداللہ نے آج تک اشرف غنی کوملک کاصدرتسلیم نہیں کیاتاہم لیکن لاکھوں افغان شہید اور2300/امریکی فوجیوں سے زائد ہلاک اورہزاروں امریکی اوراس کے اتحادی زخمی ہوکرعمربھرکیلئے معذورہوگئے۔
امریکا افغانستان میں اپنے مستقبل کے عزائم میں فی الحال کامیاب تونہیں ہوسکالیکن انخلاء کے باوجوددحہ معاہدہ کی خلاف ورزیوں کی بناء پرملک میں خانہ جنگی کاماحول پیداکرنے سے وہ ہرگزبازنہیں آرہاتاہم یہ بات واضح ہوگئی کہ افغانستان کی تقدیر کا فیصلہ افغان عوام ہی کریں گے نہ کہ بیرونی طاقتیں۔کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، افغان جنگ عراق پر حملہ کرنے جیسی سنگین غلطی نہیں تھی لیکن عراق کے مقابلے میں افغانستان میں ناکامی کاسامنا ہے۔تواصل سوال یہ ہے کہ امریکا کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بھرپور مالی وسائل رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ ایک کبھی نہ جیتی جانے والی جنگ کیوں جاری رکھی؟کیوں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے چند ممبران ہی حالات کا درست اندازہ لگا سکے اور اس حوالے سے لوگوں کو آگاہ بھی کیا، اندرونی حلقے کیا کچھ جانتے ہیں اور جنگ اتنا طویل عرصے کیوں چلتی رہی۔جنگوں کی ایک وجہ تو امریکا کاسازگار اسٹرٹیجک مقام پر واقع ہونا ہے۔ ایک دنیاسے کٹا ہوا علاقہ جو دولت سے مالامال بھی ہے، لیکن افغانستان جیسی مہنگی جنگ19/ٹریلین ڈالر کی معیشت بھی ہل کررہ گئی اوراب رہی سہی کسرکورونا نے نکال دی ہے۔