آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیامسلم دنیاکاسب سے بڑاملک ہے۔ملک کی جغرافیائی نوعیت بھی عجیب ہے۔ہزاروں چھوٹے بڑے جزائرپرمشتمل یہ ملک نسلی ،نظریاتی اورسیاسی تنوع کاحامل ہے۔کوروناوباکے دوران معیشت کوجونقصان پہنچاہے اُس نے سیاست اورمعاشرت کوبھی شدیدنقصان پہنچایاہے۔ حکومت اس نقصان کے اثرات کادائرہ محدودرکھنے کے نام پرچندایک اقدامات کررہی ہے۔یہ اقدامات اگرچہ ضروری ہیں مگراِن کے نتیجے میں چندایک خرابیاں بھی پیداہورہی ہیں۔سیاسی سطح پراچھی خاصی ہلچل محسوس کی جاسکتی ہے۔انڈونیشیامیں کورونانے مکمل طور پردم نہیں توڑا۔ایسے میں حکومت کا79قوانین پرنظرِثانی کافیصلہ حیرت انگیزاورپریشان کن ہے۔پارلیمان نے5/اکتوبرکو’’اومنی بس بل‘‘کی منظوری دی ہے۔اپوزیشن کاکہناہے کہ اس بل کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق اورمراعات پرڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ ملک کوروناوباسے نمٹنے کی بھرپورتیاریاں کر رہاہے اورایسے میں صدرودودوکی طرف سے متعدد قوانین میں ترامیم کاڈول ڈالا گیاہے۔یہ توسیاسی بحران کومدعوکرنے والی کیفیت ہے۔
انڈونیشیاکے طول وعرض میں لاکھوں محنت کش سڑکوں پرآگئے ہیں۔ان کاکہناہے کہ حالات پہلے ہی بہت خراب ہیں۔ایسے میں آجروں کونوازنے کی پالیسی مزیدخرابیاں پیداکرے گی۔مزدورانجمنوں کے علاوہ شہری آزادی یقینی بنائے رکھنے کیلئےکام کرنے والی انجمنوں نے بھی قوانین میں اصلاحات کی کوشش کوخطرناک اورمزدوردشمن قراردیاہے۔5/اکتوبر کو907صفحات پرمشتمل جس’’اومنی بس بل‘‘کی منظوری دی گئی ہے،اُس کے تحت محنت کشوں سے متعلق قوانین کے ساتھ ساتھ محصولات کے قوانین پربھی نظرِثانی کی جانی ہے۔سات سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی۔سابق صدر سُسیلوبومبانگ یدھویونوکی دی ڈیموکریٹک پارٹی اوردی اسلامک پراسپیرس جسٹس پارٹی نے اس بل کے خلاف ووٹ دیا۔
حکومت کادعویٰ ہے کہ ملک کوایسے قوانین کی ضرورت ہے جن کی مددسے معیشت کوتیزی سے فروغ دیاجاسکے۔حکومتی ارکان کاکہناہے کہ سرخ فیتے کی لعنت کوختم کرنالازم ہوچکاہے کیونکہ اس لعنت کے باعث ہی کاروباری ماحول بہتربناناممکن نہیں ہوپارہا۔بیوروکریسی ہرمعاملے میں غیرمعمولی حدتک مداخلت کرتی ہے،جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اورملک بھرکے آجربھی مشکلات محسوس کرتے ہیں۔سرخ فیتہ ہی محصولات کے نظام کوبھی درست اندازسے چلانے میں کامیابی یقینی نہیں ہونے دے رہا۔ملک کوبیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔بعض قوانین اوراُن کے تحت متعین قواعدوضوابط معاملات کوالجھارہے ہیں۔صدرودودوکاکہناہے کہ ملک کوبیرونی سرمائے کی ضرورت ہے اوروہ بھی بڑے پیمانے پر۔یہی سبب ہے کہ حکومت قوانین کی اصلاح کے ذریعے کاروباردوست ماحول یقینی بناناچاہتی ہے۔
انڈونیشیاکی حکومت کہتی ہے کہ کوروناوبانے بہت سی مشکلات پیداکی ہیں مگربلی کے بھاگوں چھینکاٹوٹاکے مصداق چندایک اچھے مواقع بھی پیداہورہے ہیں۔انڈونیشیاکی معیشت کوبھرپورکارکردگی کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔عالمگیرسطح پراموال کی فراہمی سے جُڑے ہوئے کئی بڑے ادارے چین سے رختِ سفرباندھ رہے ہیں۔انڈونیشین حکومت چاہتی ہے کہ یہ ادارے انڈونیشیاکا رخ کریں۔اس کیلئےلازم ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے پرکشش مراعات یقینی بنائی جائیں۔
بل پرتنقید دوحوالوں سے کی جارہی ہے۔ایک طرف تومزدورانجمنیں یہ کہہ رہی ہیں کہ نئے قوانین سے مزدوروں کے حالات بدتر ہوجائیں گےاور دوسری طرف ماحول کاتحفظ یقینی بنانے کیلئےکام کرنے والے غیرسرکاری ادارے یہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ماحول کوپہنچنے والے نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے کاروباری برادری اورسرمایہ کاروں کوایسے منصوبوں کیلئےگرین سگنل دے دیاہے،جن سے بارانی جنگلات کوشدید نقصان پہنچے گا۔
اومنی بس بل کوپارلیمان میں ووٹنگ کیلئےپیش کیے جانے سے پہلے ہی میڈیا میں اس کے حوالے سے بہت کچھ آچکاتھا ۔اپوزیشن نے مخالفت کی تیاری کی اورمزدورانجمنوں نے بھی اس کے خلاف جانے کااعلان کیاتو حکومت نے منصوبہ تبدیل کرتے ہوئے اپوزیشن کی اعلان کردہ تین روزہ ہڑتال سے قبل ہی یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظورکرالیا۔مزدورانجمنوں کاکہناہے کہ اس کے باوجودقوانین میں ناپسندیدہ ترامیم کے خلاف احتجاج جاری رہے گا۔انڈونیشن فیڈریشن آف ٹریڈیونینزکے صدرسعیداقبال کاکہنا ہے کہ ملک بھرکے مزدورکوروناکے ہاتھوں پہلے ہی شدیدمعاشی مشکلات کاشکارہیں۔ انہوں نے بے روزگاری اورمہنگائی کا سامنا کیاہے۔اب آجروں کونوازکرحکومت مزدوروں کیلئےمشکلات بڑھارہی ہے۔ایک طرف توان کی تعطیلات گھٹائی جارہی ہیں اور دوسری طرف بلاجواز نکالے جانے کی صورت میں انہیں اب32کی بجائے19ماہ کی تنخواہ ملاکرے گی۔ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے خودمختار جریدے’’لازن‘‘نے ایک تجزیے میں لکھاہے کہ قوانین میں متنازع نوعیت کی ترامیم سے صدر ودودوکی حکومت مزدوروں کواپنے سامنے جھکاناچاہتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کیلئےکچھ زیادہ مطالبات نہ کرسکیں۔حکومت کومزدوروں کیلئے مشکلات بڑھانے کی بجائے ایساماحول پیداکرناچاہیے،جس میں وہ زیادہ دل جمعی سے کام کرسکیں۔معیشت کودوبارہ مستحکم کرنے کیلئے ایسا کرناناگزیرہوچکاہے۔
سرمایہ کاری کوفروغ دینے کیلئےبے تاب انڈونیشین حکومت ماحول کوپہنچنے والے نقصان کوبھی نظراندازکررہی ہے۔ماحول کا تحفظ یقینی بنانے والے ملکی اداروں کے علاوہ بعض عالمی تنظیمیں بھی انڈونیشیا کی حکومت پرزوردے رہی ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری کوفروغ دینے کے نام پر ماحول کوداؤپرنہ لگایاجائے اوربالخصوص بارانی جنگلات کاتحفظ یقینی بنانے پرزیادہ توجہ دی جائے کیوںکہ ایسانہ کرنے کی صورت میں اگرماحول کوزیادہ نقصان پہنچ گیاتوآگے چل کر سرمایہ کاری شدیدمتاثرہوگی۔
اپوزیشن کاکہناہے کہ سرخ فیتے کی لعنت نے قومی معیشت کوبہت حدتک جکڑرکھاہے۔پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان بھی سرخ فیتے کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں۔اس وقت انڈونیشیاکوایک ایسے معیشتی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں بیوروکریسی کی مداخلت کم سے کم ہو۔ کورونا کے دوران انڈونیشیاکو بھی بحرانی کیفیت کاسامناکرناپڑا۔معیشت کوبھی نقصان پہنچااورصحتِ عامہ کانظام بھی شدیدمتاثرہوا۔ حکومت کواس حوالے سے زیادہ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔صدرودودوکیلئےبہتراورمحفوظ راستہ یہ ہے کہ وہ قوانین میں ترمیم کے نام پرکسی طبقے کی حق تلفی سے گریزکریں۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی خبردارکیاہے کہ ملک کوجتنے بھی بحرانوں کاسامناکرناپڑتاہے،اُن کے حتمی نتائج توغریب عوام ہی کو بھگتناپڑتے ہیں۔اس حوالے سے معاملات پرنظرِثانی کی ضرورت ہے۔غیرمعمولی منصوبہ بندی لازم ہوچکی ہے۔اگر محنت کشوں کیلئےمراعات کم کردی گئیں توان کی کارکردگی متاثر ہوگی اوردوسری طرف سیاسی سطح پربھی بے چینی پیداہوگی۔آبادی کاایک بڑاحصہ افلاس کی زَدمیں ہے۔غریبوں کوامید چاہیے ۔انہیں بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ بہترزندگی بسرکرنے کیلئےکچھ اوربھی درکارہے۔یہ وقت بے چینی اوربے یقینی کوپھیلنے سے روکنے کاہے۔ اگر معاملات درست کرنے میں فہم وفراست کامظاہرہ نہ کیاگیا توقوم پرستی اورانتہاپسندی کوفروغ ملے گا۔