تاریخ شاہدہےکہ سائنسدان پہلے یہ بات نہیں مانتے تھے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہےالبتہ قران نے چھٹی صدی عیسوی میں بتادیا تھاکہ (کائنات مسلسل پھیل رہی ہے،اورآسمان کوہم نےاپنے ہاتھوں سے بنایااورہم اِسے مزید وسعت دے رہے ہیں)۔(الذاریات:47) سائنسدان پہلے یہ مانتےتھے کہ کائنات پھیل نہیں رہی۔خلا(سپیس)مطلق ہے.ٹائم مطلق ہے۔یہ سب نیوٹن کی بتائی ہوئی سائنس تھی۔اس سے ہٹ کرسوچناپاگل پن سمجھاجاتاتھا.سائنسدان پہلےاس نکتۂ نظر کواتنابُراسمجھتےتھے کہ آئن سٹائن نےجب جنرل تھیوری ڈیولپ کی تواس کی مساوات میں کائنات پھیلتی ہوئی نکل رہی تھی اوراس پھیلاؤکیلئےجتنی توانائی درکارتھی آئن سٹائن کواُتنی توانائی کہیں سے مل نہ رہی تھی تواُس نے اس خرابی کو ختم کرنے کیلئےایک کانسٹینٹ لیاجسے آئن سٹائن بعدمیں اپنی زندگی کا ’’بِگ بلنڈر‘‘ کہاکرتاتھا۔
“کائنات پھیل رہی ہے”یہ بات سائنسدانوں نے کسی ریاضی کی مددسے معلوم نہیں کی جیسا کہ عموماًہوتاہے۔پہلے کوئی تھیوری ڈیولپ ہوتی ہے اوراس کی ریاضی کودیکھتے ہوئے اس کی حقیقت کودریافت کیاجاتاہے لیکن ’’کائنات پھیل رہی ہے‘‘وہ حقیقت ہے جسے انسان نے اپنی آنکھوں سے پہلے دیکھااوراس کی ریاضی بعد میں ڈیولپ کی۔’’ہبل‘‘نے1923میں اعلان کیاکہ اُس نے دُوربین سے دیکھاہے اوراُسے صاف نظرآیاہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔اس نے جودیکھااورسائنسدانوں کوبھی دکھایاتب سب نے یقین کرلیااورآئن سٹائن نے بھی اپنے کانسٹینٹ کوبِگ بلنڈرکہنا شروع کردیا۔کردیاجبکہ حقیقت تومیرے رب نے کھول کررکھ دی کہ:ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کو سزاوار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔(الانعام:1)
جب آنکھوں سے دیکھ لیاتوبعدمیں اُن فاصلوں اورکہکشاؤں کوریاضی کی مددسے مزیدسمجھناشروع کردیا۔ایسی ہی ریاضیاں ڈیولپ کرتے ہوئے سائنس دان بالآخراس نتیجے پرپہنچے کہ اگر کائنات میں توانائی کی مقدارمخصوص ہے توپھرجس رفتارسے یہ کہکشائیں دوربھاگ رہی ہیں،لازمی طورپریہ رفتاروقت کے ساتھ ساتھ سلو (آہستہ) ہورہی ہوگی کیونکہ اگررفتارکووقت کے ساتھ ساتھ سلوہوتاہوانہ ماناجائے توپھراتنی توانائی کہاں سے لائیں گےجواس مسلسل پھیلتی ہوئی کائنات کومزیدپھیلنےکیلئےدرکارہے؟یہ وہ سوال تھاجس کی وجہ سے حتمی طورپریہ تسلیم کرلیاگیاکہ کائنات پھیل تورہی ہے لیکن اب یہ پہلے سے آہستہ رفتارمیں پھیل رہی ہے۔مسلسل سلوہورہی ہے۔یہ سب کچھ ریاضی دانوں کےتخمینےتھے۔ توانائی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئےاوریہ بات کہ کائنات سلو ہورہی ہے 1923سے لے کر1998یعنی ہمارے دورتک سائنسدانوں کے حتمی یقین کاحصہ رہی۔ریاضی کایہ قیاس کہ کائنات کے پھیلنے کی رفتارمسلسل آہستہ ہورہی ہے کئی عجیب وغریب نتائج اخذ کرنے پرمجبورکیاکرتاتھا۔ کائنات کوایک پھُولتے ہوئے غبارے جیسا تصورکیاجاتاتھا اوریہ سوچاجاتاتھاکہ اگراس غبارے کے پھیلنےکی رفتار مسلسل سلوہورہی ہےتوایک مقام پر پہنچ کریہ غبارہ یاتوپھٹ جائے گااوریاواپس اُلٹاسفرکرے گایعنی کائنات جس حدتک پھیل سکی پھیل جائے گی اورپھر واپس پلٹے گی، دوبارہ ایک نقطے کی طرف اورایساہونے سے تمام واقعات اُلٹے پیش آئیں گے جیساکہ بیٹاباپ سے پہلے پیداہوگااورجس عمر میں مراتھااس میں پیداہوگااورپھراپنی پیدائش کے دن مرجائےگا۔
پھرایک دن،بعینہ پہلے حادثے کی طرح جو’’ھبَل‘‘کے ساتھ پیش آیاتھایعنی آنکھوں سے دیکھاتوپتہ چلاکہ کائنات پھیل رہی ہے، ایک اورحادثہ 1998 میں پیش آیاجب پتہ چلاکہ کائنات پھیل بھی رہی ہے اوراِس کے پھیلنے کی رفتار سلونہیں ہورہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تب تو فزکس کی دنیامیں بھونچال آگیا۔یہ کیسے ممکن ہے؟یہ بالکل ناممکن ہے؟اگر کائنات مسلسل پھیل بھی رہی ہے اوراس کی رفتارمسلسل بڑھ بھی رہی ہےیعنی ایکسیلیریٹ بھی ہورہی ہےتوپھراتنی توانائی کہاں سے آئی جو کائنات کے مادے کوایک دوسرے سے پرے دھکیلتی جارہی ہے؟ اتنی زیادہ توانائی،جس کا تصوربھی محال ہے آخرکہاں سے آئی؟ اس خوفناک سوال کے جواب کے طورپر ’’ڈارک انرجی‘‘کاتصورمتعارف ہوا۔ سائنسدانوں نے کہا،’’بیچارہ آئن سٹائن‘‘خودکوغلط سمجھتارہااوراپنے کانسٹینٹ کو اپنا ’’بِگ بلنڈر‘‘کہتارہالیکن آج وہ ہوتاتوکتنا خوش ہوتاکہ اس کا کانسٹینٹ بِگ بلنڈرنہیں تھا۔اگراُس نے کانسٹینٹ نہ لیاہوتاتوآج ہم ڈارک انرجی کی ایگزیکٹ اماؤنٹ کاپتہ کیسے لگاپاتے؟
غرض آج دنیا کی ساری سائنس یہ بات مانتی ہی نہیں بلکہ اپنے’’سمع وبصرسےمشاہدہ کرچکی ہےکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اورایک تاریک توانائی (ڈارک انرجی)ہے جواسے اورتیزی کے ساتھ پھیلا رہی ہے۔پہلے کی طرح اب بھی نئے نئے نتائج اخذ کیے جارہے ہیں۔جن میں سب سے مقبول اور لاجیکل یہ ہے کہ اگرکائنات اِسی رفتارسے پھیلتی رہی توبہت جلد تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے اتنی دور ہوجائیں گی کہ ایک دوسرے کونظرہی نہیں آئیں گی۔یہ کائنات ایک ٹھنڈی،خاموش اورکالی رات میں بدل جائے گی اورہم بالکل تنہارہ جائیں گے۔ڈارک انرجی کے بارے میں ابھی کوئی سراغ نہیں ملاکہ وہ فی الواقعہ وجود بھی رکھتی ہے یانہیں البتہ اُس کی تلاش جاری ہےاورلیبارٹریزمیں ڈارک میٹراورڈارک انرجی کے ذرّات کودریافت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مشکل یہ ہےکہ یہ ذرّات زمین سے بھی آرپارہوجاتے ہیں۔اس لیےاِن کاکسی شئے کےساتھ ٹکراؤممکن نہیں اورکسی بھی آلے سے پیمائش ممکن نہیں۔پھربھی افریقہ کی ایک پرانی،متروک سونے کی کان میں،جوزمین کے اندرسترکلومیٹر گہری ہے،نہایت ٹھنڈے عناصر (ایلیمنٹس ) کی پلیٹوں پرکئی سال سے ڈارک میٹراورڈارک انرجی کے ذرّات کوپکڑنے کی کوشش جاری ہے اورابھی تک اِن ذرّات کا سراغ نہیں مل سکا ۔سترکلومیٹرگہرائی میں،یہ کوشش اِس لیے کی جارہی ہے کہ وہ جگہ ہرطرف کی ریڈی ایشن سے پاک ہے اوردیگر تمام قسم کے ذرّات جومادے اورتوانائی کے ہیں،وہاں کم سے کم ہیں۔اُن پلیٹوں سے کسی دن کوئی ایک ذرّہ بھی ٹکرایاتوگویاہم ڈارک میٹریا ڈارک انرجی کودریافت کرلیں گے۔
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے۔ اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (پڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) اللہ اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔اوراللہ نے (جو مثالیں) بیان فرماتاہے(تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اوراللہ ہر چیز سے واقف ہے۔(وہ قندیل) ان گھروں میں (ہے) جن کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بلند کئے جائیں اور وہاں اللہ کے نام کا ذکر کیا جائے (اور) ان میں صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہیں۔(النور:35-36)