سعودیہ ایران سردجنگ اورپاکستان

:Share

گزشتہ برس مکہ میں ہونے والی اوآئی سی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیراورفلسطین کے بارے میں ایک لفظ تک شامل نہیں کیاگیا،آخرہماری اس خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ کیاہے؟ سعودی ولی عہداورسعودی وزیرخارجہ نے واحد جوہری طاقت اسلام آباد کے الگ الگ دورے کرکے علاقائی خطرات سے نمٹنے میں ریاض کاساتھ اورایران کے خلاف حمایت کا مطالبہ کیاتھا۔سعودی چاہتے تھے کہ دسمبر2015 میں انسدادِ دہشتگردی کیلئے جو 34ممالک کا اتحاد انہوں نے قائم کیا اور ریاض نے یمن کی جنگ میں اسلام آبادکی عسکری مددچاہی کیونکہ عمران خان کی حکومت جواس وقت دھرنہ پرتھی، انہوں نے فوری طورپرپارلیمنٹ میں آکراس کی شدیدمخالفت کی جس کی وجہ سے ایسی حمایت اسے حاصل نہیں ہوسکی اور سعودی حکام کوخالی ہاتھ ہی لوٹناپڑاتھا ۔ پچھلی حکومت میں پاکستانی فوج کے سربراہ راحیل شریف نے سعودی سلامتی کو کسی بھی خطرے کی صورت میں سخت ردعمل ظاہرکرنے کی بات کی۔ دوسرا پیغام وزیراعظم نواز شریف نے کسی بھی فریق کی طرف داری کا بوجھ اٹھانے کی بجائے ایران اورسعودیہ کے تنازع میں پاکستانی ثالثی پر زور دیا۔

موقع پرستی کی حدوں کوچھوتانوازشریف کایہ غیرجانبدارانہ رویہ نے ہی سعودی،ایران جھگڑے میں اسلام آباد کا کردار متعین کیا۔ 1947میں آزادی کے بعد سے ہی پاکستان کوبارہاعربوں اورایرانیوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناپڑاہے۔کئی باراسلام آبادنے غیرجانبداررہنے کی گنجائش نکالی جس سے درحقیقت اسے مسلسل فائدہ ہی ہوا۔تاریخ سے یہ بھی ظاہرہے کہ فرقہ وارانہ ہمدردیوں کے بجائے جغرافیائی سیاسی ترجیحات ہی اسلام آبادکوراس آئیں گی۔آج پاکستان کے خلیجی عرب ممالک، خاص طورپرسعودی عرب سے تعلقات تو ہیں جہاں لاکھوں پاکستانی کام بھی کرتے ہیں اورایک مرتبہ پھروہیں سے سستااورادھارتیل اور دیگر معاشی فوائد بھی حاصل ہوگئے ہیں لیکن ایران ایک بڑا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوہری صلاحیتوں کاحامل ایک ایسا ملک ہے جوبرسوں کی عالمی تنہائی کے بعداب دوبارہ ابھر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب اسلام آبادسعودی درخواست پرغورکرتاہے توتہران کوبھی ایک نئے زاویے سے دیکھناپڑتا ہے۔

عمومی نظریہ یہ ہے کہ ایران، پاکستان تعلقات1979 میں ایرانی انقلاب کے بعدخراب ہوناشروع ہوئے کیونکہ اس کے نتیجے میں تہران میں ایک انقلابی شیعہ حکومت وجود میں آئی اورسنی عرب ریاستوں نے اسلام آبادکوگھیرے میں لے لیاجیساکہ ٹائم میگزین نے بھی لکھاکہ ایران،پاکستان تعلقات اس وقت سے خراب ہیں،جب سے آیت اللہ خمینی اقتدار میں آئے اورتہران نئی دہلی سے قریب ہوگیالیکن درحقیقت یہ سیکولراورمغرب نوازایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھے جنہوں نے خمینی کے اقتدارمیں آنے سے ایک دہائی پہلے ہی اسلام آباداورتہران کی دوستی کودشمنی میں بدلنے والی طاقتوں کو متحرک کردیا تھا ۔جب1947 میں پاکستان وجودمیں آیاتوکمیونزم مخالف شاہِ ایران کوخدشہ ہواکہ یہ بکھری ہوئی کمزورقوم کہیں سوویت یونین کالقمہ ترنہ بن جائے۔انہوں نے امداد، نقدرقوم اور سفارتی حمایت پاکستان کے پلڑے میں ڈالی،خاص طورپراس وقت،جب اس نے1965اور1971 میں بھارت کے خلاف جنگیں لڑیں لیکن دومرتبہ پاکستانی مؤقف شاہ کو ناراض کرگیا۔

پاکستان کاپہلا مطالبہ تویہ تھاکہ شاہِ ایران بھارت کوتنہاکریں۔شاہ نے ایساکرنے سے انکارکیااور17مئی1974 کوسوال اٹھایا کہ کیاپاکستان کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ بھارت سے جنگ کرے اورجیت جائے؟دوسری مرتبہ وہ مزید جھنجھلااٹھے جب بھارت کے ساتھ عسکری دوڑکی مالی امدادکیلئے پاکستان نے تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں کی جانب دیکھناشروع کیا ۔ 1968میں جب برطانیہ نے خطے سے دستبرداری کے اشارے دیے توپاکستان نے عسکری محافظ بننے کا خواب دیکھتے ہوئے خلیجی ریاستوں کی جانب کئی فوجی دستے بھیجے لیکن پھرپاکستانی صدرایوب خان نے خلیج فارس کاعسکری قائدبننے کے ایرانی منصوبے کوچیلنج نہ کرنے کافیصلہ کیااورتہران کی خوش قسمتی کہ امریکی صدرنکسن نے بھی برطانیہ کی جگہ لینے کیلئے شاہ کوتھپکی دی اورپاکستان چپ ہوگیالیکن ایران،پاکستان تعلقات میں توڑپھوڑشروع ہوچکی تھی اورکسی طرح کی فرقہ واریت یاتاریخی تنازع کااس میں کوئی دخل نہیں تھا۔اس وقت کے اسلام آباد،تہران تعلقات کاذکرکرنے والی امریکی وبرطانوی خفیہ دستاویزات میں بھی شیعہ اورسنی کے الفاظ کہیں نہیں ملتے۔ان دنوں ایک اور اصطلاح زیادہ عام تھی: شاہ نے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکے بارے میں کہاکہ بھٹوعربوں کوخوش کرنے کیلئے اس قدربے تاب ہیں کہ انہوں نے خلیج کاذکراس کے لازمی لاحقے فارس کے بغیرکرناشروع کردیاہے۔اگرانہیں سستاتیل درکارہے توانہیں ہرحال میں اپنے عرب دوستوں کاکچھ کرناہوگا۔

لیکن اگرشیعہ سنی تقسیم کوئی مسئلہ نہیں تھی،تب بھی عرب وعجم کی کشمکش اصلی تھی اور پاکستان کوبیچ میں شاہ نے پھانسا ہواتھا۔فروری میں اسلامی کانفرنس کیلئے لاہور1974ءآنے کی بھٹوکی دعوت محض اس لیے ردکردی تھی کہ بظاہر اس کی تاریخ سعودی شاہ فیصل نے چنی تھی۔ شاہ نے اس موقع پراپنے انتہائی قریبی رفقاسے کہاآخرمیں کیوں فیصل کوتاریخ متعین کرنے دوں؟یہ واقعہ بظاہربے ضررتھالیکن یہ ان اولین مواقعوں میں سے تھا جب ایران اور سعودیہ دونوں نے پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی۔آخرمیں پاکستان نے کانفرنس میں عربوں سے لاکھوں کے اقتصادی وعدے حاصل کر لیے ۔یہی بھٹو صاحب پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول شیعہ سیاستدان تھے جو دوسروں کی توقعات کواکثرغلط ثابت کردیتے تھے۔

1979میں شاہ کے زوال اوراسلامی شیعہ حکومت کے قیام نے ایران کے سنی عرب ہمسایوں کوتویقینابہت زیادہ چوکناکیا مگر پاکستانی مؤقف پراس کاکوئی خاص اثرنہ ہوا۔ ایران، عراق جنگ(1980تا1988)کے دوران جب خلیجی ریاستیں صدام کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہارہی تھیں اورتہران کوتنہاکرنے کیلئے اسلام آباد پردباؤڈالاجارہاتھا،پاکستانی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔پاکستان میں سنی نوازپالیسیوں کے معمارضیاالحق نے عرب مطالبات کے باوجودعملی طورپرکراچی بندرگاہ ایران کیلئے کھول دی تاکہ اس کے تجارتی جہازعراقی فضائیہ کے حملوں سے بچے رہیں جوایرانی بندرگاہوں کونشانہ بنارہی تھی۔اس دور میں پاکستان،ایران تجارت بھی خوب پھلی پھولی اورساتھ ہی اسلام آبادعربوں کی مایوسی دورکرنے میں بھی کامیاب رہا۔ دوسرے الفاظ میں اسلام آبادنے انتہائی حساس توازن قائم کیا اوراس کے ثمرات بھی سمیٹے۔

پاکستان نے40سال کاآزمودہ یہی سادہ سا نسخہ حالیہ سعودی،ایران زورآزمائی کے دوران آزمانے کی کوشش کی لیکن آج کا معاملہ محض جغرافیائی سیاسی سطح پرپھرتی دکھانے کانہیں کیونکہ آج پاکستان میں فرقہ واریت کامسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوچکاہے۔85فیصدسنی اور7فیصد شیعہ مسلمانوں پرمشتمل پاکستان اب ایران اورسعودی عرب کی جانب سے چھیڑی گئی کسی اورفرقہ وارانہ جنگ کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ کئی مواقعوں کی طرح اس دفعہ بھی اسلام آباد،تہران اور ریاض کے خدشات دورکرنے کی انتھک کوشش کررہاہے تاکہ علاقائی بالادستی کیلئے جاری ان کی سردجنگ کاایندھن نہ بن سکے جس کی نہ صرف اوآئی سی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں کشمیرکاذکرنہ کرکے پاکستان کوسزاسنائی گئی ہے بلکہ مودی کوکھل کرگلے لگایاگیاہے۔

تاہم ایران اورسعودی عرب کے درمیان تعلقات میں جب بھی کسی بہتری کی صورت نظرآتی ہے،عین اسی وقت کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجاتاہے کہ جو دشمنی میں اضافہ کاموجب بن جاتاہے۔سعودی شیعہ مذہبی رہنماشیخ نمرالنمرکی سزائے موت سے شروع ہونے والی حالیہ کشیدگی کی حدت ابھی تک خطے میں محسوس ہورہی ہے جبکہ سعودی عرب کاموقف ہے کہ شیخ نمرالنمرسعودی شہری تھے جنہیں ریاست کے خلاف بغاوت کے باقاعدہ شواہدکے نتیجے میں مقدمہ چلاکرسزاسنائی گئی تھی۔ردّعمل میں تہران میں سعودی سفارتخانے کونذرآتش کیے جانے اورریاض سے ایرانی سفارتکاروں کی بے دخلی نے جلتی پرتیل کاکام کیا۔

خطے میں سیاسی اورمذہبی اثرورسوخ کی دوڑمیں ریاض اورتہران کے درمیان جاری مقابلہ بازی کے اثرات خلیج کے پرسکون پانیوں سے کہیں دورتک پھیل سکتے ہیں اورشایدہی مشرق وسطیٰ کاکوئی ملک ایساہوجوان دونوں کی کشیدگی سے متاثر ہوئے بغیررہ سکا۔اس کشیدگی کاسب سے بڑااورفوری نتیجہ یہ نکلاکہ شام اوریمن میں سفارتکاری کے ذریعے کسی تصفیے کے امکانات معدوم ہوگئےخاص طورپربین الاقوامی سطح پرجاری مذاکرات سے یہ امیدپیداہوگئی تھی کہ شام اوریمن میں مسلح کاروائیاں ختم ہونے جارہی تھیں اوروہاں امن کے امکانات پیداہوگئے تھے لیکن ایران اورسعودی عرب کی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ان امیدوں پراوس پڑگئی۔دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی اوردُوری اتنی ہی خطرناک ہے جتنی1980ء کی دہائی میں ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں1988ءاورپھر1991ءمیں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات معطل ہوگئے تھے ۔یہ وہ وقت تھاجب1979ءکے ایرانی انقلاب کو تقریباً دس برس ہوچکے تھے اورایران اورعراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ بھی جاری تھی۔

اس جنگ میں سعودی عرب اورخلیج تعاون کونسل کے دیگررکن ممالک صدام حسین کی حمایت میں کھڑے تھے ،ایران بھی اِن ممالک کے بحری جہازوں کونشانہ بنارہاتھا۔انہی دنوں میں سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر ایک ایرانی جنگی جہازبھی مارگرایاتھا۔سعودی عرب اورخلیجی ریاستوں کی حکومتیں مسلسل الزام لگاتی ہیں کہ ایران خطے میں شیعہ عسکریت پسندی کوہوادے رہا ہے۔اِن ممالک کواس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ1981میں بحرین میں حکومت کاتختہ الٹنے کی ناکام کوشش اوراورچارسال بعد کویت کے امیرکے قتل کی سازش کے پیچھے ایران کاہی ہاتھ تھا۔اس دوران مئی 1987 میں”حزب اللہ الحجاز”کی بنیادرکھی گئی جسے ایران کی پشت پناہی حاصل تھی۔اس گروہ کی تشکیل لبنان کی حزب اللہ کی طرزپرکی گئی اورملاؤں کی زیرقیادت کام کرنے والے اس نئے گروہ کامقصد سعودی عرب کے اندردہشتگردی کی کارروائیاں کرناتھا۔حزب اللہ الحجازنے آغازسے ہی کئی اشتعال انگیزبیانات جاری کیے جس میں نہ صرف سعودی شاہی خاندان کودھمکیاں دیں گئیں بلکہ1980کی دہائی میں سعودی عرب میں کئی مہلک حملے کیے گئے جس کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیاتھا۔

اگرچہ حالیہ کشیدگی میں ابھی تک دونوں ملکوں میں براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا ہے، تاہم یہ کشیدگی اتنی ہی خطرناک دکھائی دیتی ہے۔اس مماثلت کی تین وجوہات ہیں۔پہلی وجہ توکئی سالوں سے جاری فرقہ وارانہ سیاست ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ شیعہ سنی خطوط پرتقسیم ہوچکا ہے اورایران اورخلیج فارس کے دوسرے کنارے پرواقع اس کے پڑوسیوں کے درمیان بداعتمادی اپنے عروج پرپہنچ چکی ہے۔اس فرقہ واریت سے بھرپورفضامیں دونوں انتہاؤں کے درمیان کھڑی ہوئی اعتدال پسندی کی قوتیں بہت کمزورہوچکی ہیں اور اب خطے کے معاملات ان لوگوں کے ہاتھوں میں آچکے ہیں جو
مخالف فریق کی ایک بھی سننے کوتیارنہیں ہیں۔ اس مماثلت کی دوسری توجیح یہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران خلیجی ریاستیں مسلسل ایک ایسی خارجہ پالیسی پرکاربندہیں جس میں خاصی سختی آچکی ہے، خلیجی ریاستیں سمجھتی ہیں کہ ایران علاقائی تنازعوں میں مسلسل اپنی ٹانگ اڑارہاہے اوران ریاستوں کوشک ہے کہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں امریکی انتظامیہ کی نیت کوئی ٹھیک نہیں۔

یوں توکروناوبانے ساری دنیامیں لائف سٹائل تبدیل کرکے رکھ دیاہے لیکن اندروں خانہ اب بھی دنیابھرمیں پھیلی مناقشت زیرِ زمین جانے کے بعدپھر سے سراٹھارہی ہے۔تمام ممالک اپنی خارجہ پالیسیوں کابھرپورجائزہ بھی لے رہے ہیں کہ کروناکے بعد ایک نئی دنیاکاوجودسامنے آرہاہے اوران حالات میں “کیاکھویا،کیاپایا” کے بعدتمام ممالک بظاہراپنی اکانومی کودوبارہ اپنے پا ؤ ں پرکھڑاکرنے کیلئے مختلف اہم اقدامات کاآغازکررہے ہیں لیکن ہمارے خطے میں قیام پاکستان سے لیکراب تک مسئلہ کشمیراب ایسی نہج پرپہنچ چکاہے کہ سا ؤ تھ ایشیامیں دوایٹمی ملک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں اور خاکم بدہن اگراس مسئلے پربھارت کی جارحیت اورہٹ دھرمی کے باعث ایٹمی جنگ کاآغازہوگیاتوصرف جنوبی ایشیاہی نہیں بلکہ عالمی جنگ کے خطرات بھی ساری دنیاکوتباہی کی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں