ہما ری حالت توایسے جاں بلب مریض جیسی ہوگئی ہے جو بڑی مشکل سے رینگتاہوااپنے معالج کے پاس توپہنچ جاتاہے لیکن اس میں اتنی ہمت با قی نہیں کہ وہ یہ بھی بتاسکے کہ اس کوکیاتکلیف یاکیابیما ری ہے۔معا لج کے پوچھنے پراس کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں ہوں اورزخموں سے چورجسم کے ہراعضاکی طرف اشارہ کرے ۔سالوں پرانی بیماریوں کاکرب اور سارے جہاں کادرد سمٹ کراس کے چہرے سے عیاں ہولیکن بتانے کیلئے اس کی اپنی زبان اس کا ساتھ چھوڑدے۔ماسوائے سسکیوں،آہوں اورکراہوں کے درمیان صرف اشارے سے کبھی سرکی طرف،کبھی دل پرہاتھ رکھ کراورکبھی دونوں ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پررکھ کرزور سے روناشروع کردے۔جب معالج تھوڑاحوصلہ دلائے توپھراس کی جانب ایک عجیب سی امیداورآس کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں امید اوررحم کی درخواست کرے۔
یہی حال آجکل ان لوگوں کاہے جن کے سینے میں اس مملکت خدادادپاکستان کادردآبلہ بن کرایک ناسورکی شکل اختیارکر چکاہے اوردردکی شدت سے ان کوایک پل چین میسرنہیں اوردکھ کی بناپران کی آنکھوں سے نینداڑچکی ہے۔نیم شب جب وہ اپنے اللہ کے حضورسجدہ ریز ہوتے ہیں توان کی ہچکی بندھ جاتی ہے۔اللہ سے رحم اورامید کے ساتھ پاکستان کیلئے شفااورسلا متی کی عاجزانہ دعاؤں کے سا تھ اپنے ان شہداکاواسطہ دیتے ہیں جواس ملک کی خاطر قربان ہوگئے۔میراوجدان تواس وقت مجھ کوشدیدبے چین کر دیتاہے اورسانس لینادشوارہوجاتاہے جب کبھی یہ سوچتاہوں کہ ان سوالاکھ بے گناہ بیٹیوں اوربہنوں کوروزِقیامت کیاجواب دوں گا جن کواس مملکت پاکستان کی خاطرمشرقی پنجاب میں ہم چھوڑآئے تھے،جو آج بھی آسمان کی طرف منہ کرکے اپناقصورپوچھتی ہوں گی!صرف مشرقی پنجاب کے ان پانچ ہزارسے زائدکنوؤں کاحال کس قلم سے کیسے لکھوں جن میں مسلمان بچیاں اپنی آبرو بچانے کیلئے کودگئیں۔ان ہزاروں بچوں کاتذکرہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کوآتا ہے جن کوان کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے تلواروں اوربھا لوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کردیاگیا۔آج بھی لاکھوں افراداپنے پیاروں کویا دکرکے چپکے چپکے اپنے اللہ کے حضوراشک بارہوکراس پاکستان کیلئے ان کی قربانی کی قبولیت کی دعائیں کرتے ہیں!
لکھتے رہے ہم پھربھی حکایات خونچکاں
ہرچند کہ اس میں ہاتھ ہما رے قلم ہوئے
یہ حالت صرف ان لوگوں ہی کی نہیں جنہیں میرے رب نے حالات وواقعات کا ادراک دیاہے۔وہ کسی بڑی آندھی یا طوفان کے آنے سے پہلے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں اورفوری طورپراپنے تئیں ان خطرات سے آگاہ کرنا شروع کردیتے ہیں،منادی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔دن رات اپنے تمام وسائل بروئے کارلا تے ہوئے دامے درمے اورسخنے اسی کام میں لگ جاتے ہیں کہ کسی طرح ان خطرات کاتریاق کیاجائے۔
آجکل ذراسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی حیرت میں گم چہرہ لئے ایک دوسرے سے یہی سوال کرتاپھررہاہے،کیاہونے و الاہے اوراب کیا بنے گا؟ ہمارامستقبل کیاہے،ہم کہاں کھڑے ہیں؟ایک دوسرے سے کوئی اچھی خبرکی تمنادل میں لئے ہوئے ،ایک امید کی شمع آنکھوں میں سجائے جیسے بسترمرگ پرپڑے مریض کے لواحقین کسی معجزے کی آرزومیں کسی حکیم، حاذق سے مرض کے تریاق ملنے کی نویدکیلئے بے تاب ہوتے ہیں یاکسی صاحب نظرکی دعاکے محتاج جس سے مریض کی جاں بچنے کی آس ہوجائے لیکن شائد اب مریض کوکسی حکیم کے تریاق،کسی ڈاکٹرکی دوایاپھرکسی صاحب نظرکی دعاسے زیادہ کسی ماہر سرجن کی ضرورت ہے اورشا ئدآپریشن میں جتنی دیرہوگی مریض کی جان بچنے کے امکانات اتنے ہی مخدوش ہو جائیں گے، مریض کی حالت اتنی ہی بگڑتی چلی جائے گی،مرض اتناہی پھیلتاجائے گا،آپریشن اتناہی لمبااورتکلیف دہ ہوجائے گا۔مجھ سے ما یوسی کاگلہ بالکل نہ کریں اورنہ ہی میرامقصدبلاوجہ آپ کوڈراناہے لیکن آپ ہی مجھے یہ بتا ئیں کہ آپ کا کوئی عزیزجوآپ کوبہت ہی پیاراہووہ کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوجائے،آپ اس کے علاج کیلئے دنیاکے بہترین ڈاکٹر،بہت ہی سمجھدارطبیب یابڑا نامورحاذق تلاش کر نے میں دن رات ایک کردیں گے اور اس کی زندگی بچانے کیلئے ا پنی توفیق سے بڑھ کرخرچ کر نے میں کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔یہ تمام وسائل مہیاہونے کےبعدآپ سجدے میں رو رو کراپنے عزیزکی شفایابی کیلئے اپنے معبود کواس کی تمام جملہ صفات کاواسطہ بھی دیں گے تب جاکرآپ کے دل کواطمینان آئے گاکہ وہی شفاکامنبع ہے اس سے بہترکون ہے جوہما ری دعاؤں کوشرف قبولیت دے گا۔
ہم نے اپنے رب سے اس معجزاتی ریاست میں بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں دینےکاوعدہ کیاتھااور پچھلے 73سالوں سے اوفو بالعہد کی کھلم کھلاخلاف ورزی کرکے اپنے خالق کوایساناراض کردیاہے کہ ہماری مساجدتک بندہوگئی ہیں۔ہمیں من حیث القوم سجدے میں گڑگڑاکر معافی مانگنے اور اپنے عہدکی پاسداری کرتے ہوئے فوری طورپر ملک میں قرآن کے نفاذکا اعلان کرکے رب کومناناہوگا۔نجانے کس کی آنکھ سے ٹپکنے والا ندامت کاآنسوہماری مشکلات کامداوابن جائے۔