برطانیہ کامشہورِزمانہ اخبارسنڈے ٹائمزہرسال برطانیہ کے ایک ہزارامیرترین افرادکی فہرست شائع کرتاہے۔اس سال بھی اس نے ہزارارب پتیوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق جم ریٹکلف ایک دفعہ پھربرطانیہ کاامیر ترین شہری قرارپایاہےاوراس کے اثاثوں کی ملکیت05۔21بلین پانڈہے۔اس کی دولت میں ہر گھنٹے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ(تین کروڑ روپے)اضافہ ہورہاہے۔اس کے بعدبھارت نژادہندوجا برادران اورلکشمی متل کانمبرآتاہے۔لکشمی متل نے چندبرس پہلے سنٹرل لندن میں 72 ملین پاؤنڈکاایک محل خریداتھاجودنیاکامہنگاترین محل ہے اوراس لحاظ سے گنیزبک آف ورلڈریکارڈمیں شامل ہو چکاہے۔اس فہرست میں سرانورپرویزاورعارف پٹیل سمیت سات پاکستانی بھی شامل ہیں۔ سنڈے ٹائمزکاکہناہے کہ پورے یورپ میں سب سے زیادہ ارب پتی برطانیہ میں آبادہیں اورآبادی کے لحاظ سے بھی برطانوی باشندے یورپ بھرمیں سب سے زیادہ امیرہیں۔
مجھے اس فہرست میں شامل لوگوں کاپروفائل پڑھنے کااتفاق ہوا،اس میں بڑے بڑے امیرلوگ موجودہیں۔لوگوں کے پاس محلات ہیں،ہوائی اور بحری جہازہیں،وہ کارساز اداروں سے اپنے لئے مخصوص گاڑیاں بنواتے ہیں۔ان کے دفتروں،کمپنیوں اور کارخانوں میں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں۔ان کے جوتے اورکپڑے ڈیزائن کرنے کیلئے،ان کی خوشبویات اورباتھ رومز کی اشیا بنانے کیلئے الگ کمپنیاں ہیں۔سوئٹزرلینڈکی ایک کمپنی برطانیہ کے صرف سوخاندانوں کیلئے جوتے بناتی ہے۔ایک ڈینش کمپنی ان لوگوں کے کتوں اوربلیوں کیلئے خوراک بناتی ہے۔یہ خوراک ان لوگوں کے گھروں پرپہنچائی جاتی ہے،یہ کبھی مارکیٹ نہیں ہوتی۔ان لوگوں کی ذاتی زندگی،ان لوگوں کے اخراجات اورپسندوناپسند ایک الگ کہانی ہے،یہ کہانی ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھارکھتے ہیں۔
سرِدست ہم اس فہرست پرغورکرتے ہیں۔اس فہرست میں ایک ہزارلوگ شامل ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے،ان ہزاروں لوگوں میں ایک بھی سیاستدان،وزیرمشیر،سفیر،جرنیل یابیوروکریٹ نہیں۔یہ سب لوگ بیوپاری،تاجراورصنعتکارہیں۔ مجھے یہ جان کرحقیقتاحیرت ہوئی کیونکہ اگر کبھی پاکستان میں ارب پتیوں کی فہرست بنی تواس میں صرف سینکڑوں سیاستدان وزیرمشیر ،سفیر،جرنیل یابیوروکریٹس شامل ہوں گے۔یہی نکتہ ہی پاکستان کی پسماندگی کی واحدوجہ ہے۔ معاشروں اورریاستوں میں تاجر،بیوپاری اورصنعتکارپیسہ بنایا کرتے ہیں اورسیاستدان،وزیرمشیر،سفیر،جرنیل یابیوروکریٹس ایسی پالیسیاں جن کے ذریعے صنعتکاروں،تاجروں اوربیوپاریوں کے اثاثے،اکانٹس اورمنافعے ٹیکس کے دائرے میں آجائیں اوروہ لوگ اپنے مالیاتی حجم کے مطابق سرکاری خزانے میں جمع کرائیں،اپنی آمدنی کاایک بڑاحصہ خیراتی کاموں میں خرچ کریں اور عوامی فلاح کے منصوبوں میں حکومت کاہاتھ بٹائیں لیکن جس معاشرے میں سیاستدان،وزیرمشیر،سفیر،جرنیل یابیورو کریٹس ارب پتی ہوں،وہ خودصنعتکار، بیوپاری اورتاجرہوں،اس ملک میں کبھی ٹیکس کے مضبوط قوانین پاس نہیں ہوسکتے ۔جس ملک میں قانون توڑنے والے ہی قانون سازہوں،اس ملک میں کبھی قانون کی پاسداری نہیں ہوسکتی اورجس ملک میں حکمرانی کی جڑیں جاگیرداروں کی ڈیوڑھیوں میں پیوست ہوں،اس ملک میں جاگیر داری کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔آپ خود سوچئے اگرآپ کسی جواری کوایس ایچ اولگادیں توکیااس تھانے کی حدودسے جواخانے ختم ہوں گے؟کبھی ختم نہیں ہو سکتے!لہندابرطانیہ جیسے معاشرے،پارلیمینٹ اور چیمبرآف کامرس کے درمیان ہمیشہ ایک خندق کھودکررکھتے ہیں۔وہ کسی سیاستدان،وزیرمشیر،سفیر،جرنیل یا بیوروکریٹس کوسرمایہ دار بننے دیتے ہیں اورنہ ہی کسی سرمایہ دارکو سیاست دان ، وزیرمشیر،سفیر،جرنیل یابیوروکریٹس!
ذرادل پرہاتھ رکھ کرجواب دیجئے کہ جس ملک میں دواسازکمپنیاں اپنے کسی نمائندے کومحکمہ صحت کاوزیرمقررکروالیں توکیااس ملک کی ادویات کی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے؟جی نہیں،قیامت تک کم نہیں ہونگی جبکہ اس ملک میں اگریہ محکمہ کسی ایسے شخص کے حوالے کردیاجائے جوعرصے تک خوددوائیں خریدتارہاہوجواپنی جیب سے دوائیں خریدکر غریبوں میں تقسیم کرتارہاہویاجس نے طویل عرصے تک لوگوں کے چندے سے چلنے والے کسی اسپتال میں کام کیاہو،آپ دوسرے روزہی اس وزارت میں تبدیلی محسوس کرلیں گے مگریہ کام ہمارے معاشروں میں ممکن نہیں۔ہمارے ملک میں تو اقتداراورپیسے کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہوتا،ہم خربوزوں کی رکھوالی کیلئے ہمیشہ گیدڑبھرتی کرتے ہیں اوراس کے بعدچھلکے گنتے رہتے ہیں ۔
یقین کیجئے جن معاشروں میں ایک ہی شخص مدعی بھی ہواورمنصف بھی ان معاشروں میں کبھی انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔ آج سے چودہ سوسال پہلے حضرت ابوبکرصدیق خلیفہ منتخب ہونے کے بعدگھرسے نکلے توحضرت عمرنے پوچھا”امیر المومنین کہاں کاقصدہے؟فرمایا”اپنی دوکان پرجارہاہوں ” حضرت عمرمسکرائے اورعرض کیا”جناب عالی!جس بازارمیں خلیفہ کی دکان ہوگی وہاں دوسروں کی دوکانیں کہاں چلیں گی؟حضرت ابوبکر صدیق نے اثبات میں گردن ہلائی اورگھر واپس چلے گئے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعدجب جرمنی پوری طرح تباہ ہوگیاتووہاں ایک قانون پاس ہوا”کوئی صنعتکار، تاجر،بزنس مین، بیوپاری پارلیمنٹ کاممبر نہیں بن سکتا،اگرکوئی بنناچاہے تواسے پہلے کاروباربندکرناہوگا”یہ قانون صرف یہیں تک محدود نہیں رہا۔آج یہ حالت ہے جرمنی میں کوئی سیاستدان سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعدبھی جرمنی میں کاروبار نہیں کرسکتا جبکہ ہمارے ملک میں دوکانوں، شاپنگ پلازوں،کارخانوں اورفارم ہاسز پروزارت کے جھنڈے لہرارہے ہیں ۔ سیاستدان،وزیر مشیر، سفیر،جرنیل یابیوروکریٹس کارخانے دارہیں لہنداہم ترقی کیسے کریں گے؟
پاکستانی الیکشن کمیشن ہرسال پارلیمنٹ کے ممبران،حکومتی عہدیداران سے ان کے اثاثوں کی فہرست طلب کرتاہے تو ہمیں پتاچلتاہے کہ ہمارے بہت سے سیاستدان اورحکمران تواتنے غریب ہیں کہ وہ زکو ٰۃکے مستحق ہیں۔ہمارے بعض سیاستدانوں کے پاس رہنے کیلئے نہ گھرہے اورنہ سواری کیلئے کوئی گاڑی،جن محلات میں وہ مقیم ہیں وہ یاتوان کی اولادکی ملکیت یاان کے رشتہ داروں کی ملکیت ہوتی ہیں اورمالی لحاظ سے بھی وہ مقروض ہیں۔ محلات میں مقیم اور قیمتی گاڑیوں کے جلو میں سفرکرنے والے ان رہنماں کوکیامعلوم کہ اس ملک کے کتنے گھروں میں بھوک اورمسلسل مفلسی کے ہاتھوں کتنے افراد خودکشی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس وقت سیاستدان جوتماشہ لگائے بیٹھے ہیں اورپوری قوم کوساری دنیا کے سامنے ایک تماشہ بنایاہواہے دراصل اس کی روح یہ ہے کہ سیاستدان جب اقتدارکی غلام گردشوں میں داخل ہوتے ہیں توان کی سب سے بڑی خواہش ریاست کی تمام طاقت پرمکمل قبضہ کرکے اپنی مرضی کے مطابق ملک کے تمام وسائل پرکنٹرول حاصل کرناہوتاہے جہاں یہ کسی کو جوابدہ نہ ہوں۔چاردہائیوں سیاس ملک میں طاقت کے تین ستون تھے۔ایک پیپلز پارٹی ، دوسری مسلم لیگ اور تیسری قوت اس ملک کی ا فواج،جب طاقت کے دوحصے ایک طرف ہو جاتے تھے تواس ملک کی باگ ڈوروہ سنبھال لیتے تھے اوراس طرح اقتدارکی میوزیکل چیئرچاردہائیوں تک اس ملک کی قسمت سے اپنے مفادات کے خوفناک کھیل میں مصروف رہی۔
اگست 2002میں اس طاقت کے تگڈم میں آزادمیڈیاکوبھی باریابی ملی۔پہلی دفعہ پاکستانی عوام نے اس میڈیاکواپنے مسیحا سمجھتے ہوئے اس کابھرپور ساتھ دیناشروع کردیااور اقتدارکی تگڈم کوجوابدہی کااحساس ہونے لگااوراس طرح طاقت کے مراکزکی تعدادچارہوگئی۔پھر2007میں آزادعدلیہ کی حیرت انگیز تحریک شروع ہوجاتی ہے جوعوام اور میڈیا کے تعاون سے کامیابی حاصل کرکے پاکستانی اقتدارکی اس”چوکر”کواپنے وجودکااحساس دلاتے ہوئے تمام غیرقانونی کاموں کاجواب طلب کرتی ہے توگویااس ملک کے طاقت کے مراکزکی تعداداب بڑھ کرپانچ ہوکرایک پنجہ کی شکل اختیارکرگئی ہے۔ پچھلے72 برس سے اقتدارکی تگڈم نے ہمیشہ عدلیہ کواپناماتحت سمجھااوراپنی مرضی کے مطابق اس کو استعمال بھی کیااور عدلیہ بھی طوہاًکرہاًاسی میں اپنی عافیت سمجھ کران کے ہرغلط اقدام کی توثیق کرتی رہی۔
لیکن2007میں بے بس،مجبورومقہورعوام کی قربانیوں کے ساتھ اس تحریک نے اتنازورپکڑاکہ حکومت کوجب اپنے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتاہوا نظرآیاتوطاقت کے دوسرے مراکز نے حکومت کوآزادعدلیہ کی بحالی پرمجبورکردیااورطاقت کے اس سرچشمے یعنی عدلیہ نے اپنی اس آئینی ذمہ داری کامطالبہ کردیاجوملک کے آئین میں اس کاحق ہے تو اقتدار میں بیٹھے فرعونوں نے اس کابہت برامنایا۔آزادعدلیہ نے اقتدارکے نشے میں بدمست افراد سے اس بات کامطالبہ کیاکہ پچھلے 72 برسوں سے اخلاقیات کاجو سبق آپ بھولے بیٹھے ہیں اس پراب عمل کرناناگزیرہے ۔پہلی مرتبہ سابقہ چیف جسٹس کھوسہ کووزیر اعظم کی اس تقریراورمطالبے کامیڈیاپرآکرکہناپراکہ ہمیں کسی طاقتورکاطعنہ نہ دیں۔عدلیہ اب تک ایک وزیراعظم کوگھر بھیج چکی ہے،دوسرے کونااہل کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بندکرچکی ہے اورتیسرے ریٹائرڈجنرل اورصدرکے بارے میں فیصلہ دینے والی ہے۔
بعدازاں ر یٹائرڈجنرل اورصدرکے بارے میں فیصلہ توآگیااوروہ فیصلہ ایک مرتبہ پھرعدالتی موشگافیوں میں گم ہے اورنجانے اب اس کی کب باری آئے گی لیکن کیاہی بہترہوتاکہ ہماری معززعدلیہ ان چارسوسے زائدجن افرادکانام پاناماسکینڈل میں مطلوب ہے،ان کے بارے میں بھی کاروائی شروع ہوجاتی اورکم ازکم اس تصورکی تونفی ہوجاتی کہ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کوخصوصی طورپرانصاف کی تلوارکاسامناکرناپڑا۔ اسی ضمن میں چندماہ قبل بحریہ بلڈرزکے سربراہ ریاض ملک کے برطانیہ سے 19کروڑپاؤنڈکی واپسی کی تفصیلات سے حکومت وقت کاکوئی وزیرمشیربتانے سے کیوں گریزکر رہے ہیں اور اب یہ معاملہ بھی منوں مٹی میں دفن ہوگیاہے…..آخر سب کی زبان کیوں گنگ ہے،اس سے قوم بخوبی واقف ہے۔
ساری دنیااس وقت کروناجیسے خطرناک وبائی وائرس کاشکارہوچکاہے۔دنیاکے ترقی یافتہ ممالک بھی چیخ اٹھے ہیں اوراس کوقابوکرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ اموات کا سلسلہ قیامت خیزنتائج لئے بگٹٹ بھاگ رہاہے۔یورپی یونین کااہم ملک اٹلی ایسالاوارث ہوگیاہے کہ یورپی یونین کے دیگرممالک بھی اس کی مددکرنے سے قاصرہیں۔یورپی یونین نے اپنے اتحادکیلئے جن سرحدوں کوختم کرکے خودکوایک دوسرے میں ضم کرلیاتھا،کوروناوائرس کے خوف سے دوبارہ سرحدوں کاقیام عمل میں آگیاہے اوریونین کی ایک ریاست کاشہری دوسری ریاست میں داخل نہیں ہوسکتا۔سفاک ہندومودی حکومت نےگزشتہ برس 5/اگست کوجبری طورپرمقبوضہ کشمیرکواپنے ہی آئین اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سارے کشمیرمیں اب تک لاک ڈاؤن کررکھاہے اورکرفیولگاکرساری ریاست کودنیاکی سب سے بڑی جیل میں منتقل کردیاہے ۔
حقوق انسانی کاچیمپئن پورا مغرب اورامریکااپنے مفادات کی خاطرمنہ میں گھنگنیاں ڈال کرخاموش رہالیکن یہ کیسامکافات عمل ہے کہ پورایورپ اورامریکاسمیت دنیاکے دودرجن سے زائدممالک کو اپنے ملک میں اپنے ہی شہریوں کیلئے لاک ڈاؤن کرناپڑگیااورسیاسی اورمعاشی تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ دنیاکے طبی ماہرین اسے پچھلی دوصدیوں کی سب سے بڑی ناگہانی آفت قراردے رہے ہیں۔وہ ممالک جوچاندپرکمندڈالنے کے بعداب مریخ کوتسخیرکرنے کی کاشوں میں مصروف ہیں،وہ اس خدائی فوج کے سامنے اس بری طرح پسپانظرآرہے ہیں کہ اپنی آبادی کے تیس فیصدکی اموات کے خدشات کااظہارکررہے ہیں۔خوف اورسراسیمگی کایہ حال ہے کہ انسانی حقوق کے چیمپئن اپنے بوڑھوں بزرگوں کی خبرتک لینے کو تیار نہیں۔
کیااب وقت نہیں آگیا کہ ہمارے سرمایہ دار،سیاستدان،وزیرمشیر،سفیر،جرنیل یا بیوروکریٹس اس بھولے ہوئے سبق کویاد کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرلیں اور لوٹی ہوئی قومی دولت کوواپس لانے میں انتہائی سنجیدہ اقدام اٹھاتے ہوئے اسے واپس لائیں اورحکومت وقت ان کیلے کسی ایسی لائحہ عمل کااعلان کرے جس سے یہ کام آسان ہوسکے لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے کہ اس وبائی آفت پرمنہ کوڈھانپنے والاایک معمولی ساماسک ناپیدہو گیاہے یاپھراس کی قیمت آسمان کوچھورہی ہے ۔ وقت توبہ ہے لیکن حکمرانوں سمیت قوم کی نافرمانی دیکھ کرخوف آرہاہے ۔اب وقت آگیاہے کہ قرآن کواپنامسیحاجانتے ہوئے مکمل طورپراپنے رب کی غلامی کاصاف اورشفاف نظام نافذکرنے کااعلان کیاجائے جہاں ہرکسی کوانصاف ملے اور ظالموں کابڑا عبرت ناک احتساب ہو۔ عین ممکن ہے کہ اللہ اس وبائی آفت سے دنیاکومحفوظ فرمادے۔