قرآن کامطالبہ

:Share

“مسلمان محض قرآن میں تفکرکرکے بہت جلداُس مقام پرپہنچ سکتے ہیں کہ جہاں انتہائی ترقی یافتہ اقوام،سالہا سال کی ریسرچ اور کھربوں ڈالر خرچ کرکے پہنچے ہیں”…میں نے کسی کالم میں یہ تحریرلکھی تھی۔بہت سے قارئین نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور وہ طریقہ دریافت کیاکہ جس سے مسلمان انتہائی ترقی یافتہ اقوام سے آگے نکل سکتے ہیں،اورمجھے اپنے اس بیان کی تصدیق کیلئے مزیددلائل دینے کیلئے کہا۔دراصل قرآنِ کائناتی فارمولوں کی ”دستاویز”ہے۔قرآن میں ہردورکے تمام علوم موجودہیں۔مثلاً اس میں معیشت ومعاشرت بھی ہے… موت کیاہے؟…موت کے بعدایک اورزندگی کیاہے؟… کائنات اوراس کے اندراشیاء کی تخلیق کس طرح ہوئی؟…اورکن کن طریقوں سے اللہ نے وسائل فراہم کئے…علومِ ظاہری اورعلومِ باطنی… عالم رنگ وبوکی تشریح… اورعالمِ غیب میں موجود مخلوقات کی تعریف…لاشعوری یعنی پیراسائکالوجی یاروحانی علوم…علم طب،علم جمادات ونباتات و حیوانات…سورج،چاندستاروں اورگلیکسیزکے علوم…گویاقرآنِ پاک دنیاوکائنات کے تمام علوم یا فارمولوں کی”مائیکروفلم”ہے جس میں کائنات کے ذرے ذرے کاعلم بصورت”شارٹ فارم”موجودہے۔

مثلاًحضرت یوسف کے قصے میں بہترین پلاننگ کاعلم موجودہے…حضرت سلیمان کے قصے میں آوازوں کوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے علم کاتذکرہ ہے…اسی طرح حضرت عزیرکے واقعہ میں ڈیپ فریزرکے فارمولے کی طرف اشارہ کیاگیاہے…حضرت مریم کے بیان میں روحانی علوم کی طرف اشارہ موجودہے… حضرت موسٰی کے قصے میں فرعون کے دور میں ماورائی،جادوئی،اورانتہائی ترقی یافتہ علوم(پیرامڈٹیکنالوجی)میں مہارت کوواضح اندازمیں بیان کیاگیاہے…حضرت ابراہیم کے واقعہ میں کائناتی ریسرچ کااصول بیان ہواہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے ذہن کوریسرچ کاخوگر بناکراللہ کی ذات تک رسائی حاصل کی…حضرت عیسٰی کے واقعہ میں علم طب اورمیڈیکل سائنس کے عروج کوموضوعِ بحث بنایا گیاہے۔

اس وقت سائنس کی تمام ترترقی کادارومدار”سپیڈ”پرہے۔سائنس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ”ٹائم اینڈسپیس”کی نفی کر کے زیادہ سے زیادہ سپیڈپرکنٹرول حاصل کرلیاجائے۔قرآنِ میں حضرت سلیمان کے قصے میں ایک ایسے انسان کاتذکرہ ہواہے جس نے ملکہ بلقیس کابہت بڑاتخت 1500میل کے فاصلے سے ایک سیکنڈمیں ان کے پاس پہنچادیاتھا۔گویاکہ ٹائم اینڈ سپیس کو”لیس نیس”کرنے کا فارمولہ بھی قرآن میں موجودہے… اس میں معیشت معاشرت بھی ہے اورمادی وروحانی و سائنسی علوم بھی موجود ہیں۔قوموں کے عروج وزوال کے حقائق بھی واء ہیں۔اس میں مذہب وتمدن بھی ہے اوردنیا وآخرت میں کامیابی کے اصول بھی موجود ہیں…یعنی یہ کتاب دنیااوراُخروی زندگی میں کامیابی کی ایک مکمل اوریقینی”کلید”ہے۔

باوجود اس کے کہ قرآنِ تمام مادی وروحانی علوم،معیشت ومعاشرت،مذہب وتمدن اورسائنسی وکائناتی تسخیری فارمولوں کی دستاویزہے۔مسلمان قوم کی زبوں حالی دیکھئے اوردوسری قوموں کاعروج بھی ملاحظہ کیجئے:یورپ کی کل سالانہ برآمدات 6307/ارب ڈالر ہیں۔امریکاکی ڈھائی ٹریلین ڈالر،جرمنی کی1448/ارب ڈالر،جاپان کی 1000/ارب ڈالر ہیں…اس کے مقابلہ میں پاکستان،سعودیہ ،ایران سمیت55/اسلامی ممالک کی کل برآمدات صرف 610/ارب ڈالر ہیں…دنیا کی13بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 82فیصد عالمی خوراک پراپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔یہ تیرہ کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ان کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کرکے مسلمان روزانہ کروڑوں ڈالراسرائیل کو”گفٹ” کر دیتے ہیں۔ترقی یافتہ (غیر مسلم) ممالک کے چندباشندے پوری دنیاکی کل آمدنی کا 83فیصد حاصل کر لیتے ہیں جبکہ دنیاکے4/ارب انسان غریب جبکہ ایک ارب افرادغربت کی لکیرسے بھی آخری حدسے نچلی سطح پرزندہ ہیں… عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حکمت عملی طے کرنے والے مغربی معاشی ماہرین کے پاس غربت دورکرنے کیلئے”چھٹک جانے والی معیشت”(ٹرکل ڈا ؤن اکانومی)کالائحہ عمل ہے۔ یعنی امیروں کی امارت کے برتن اس حد تک بھردئیے جائیں کہ وہ چھلکنے لگیں اور ان کے چھلکنے سے غریبوں کابھی کچھ بھلا ہوجائے…قارئین کرام سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس زبوں حالی کوخوشحالی میں بدلنے کاآخرکوئی طریقہ توہو گا……؟؟؟

مختلف قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کامطالعہ کرکے اس حقیقت کاانکشاف ہوتاہے کہ ریسرچ کامقابلہ ریسرچ ہی سے ممکن ہے۔جس قوم نے بھی ترقی کی ہے تحقیق،غوروفکر،ریسرچ اورایجادات کے ذریعے ہی کی ہے۔اس لئے کہ ”تفکر،غورو فکر اور ریسرچ،قرآنی طرزِفکرہے۔جوقوم بھی قرآنی تعلیمات”تحقیق،تفکر،غوروفکراورریسرچ ”پرعمل کرے گی دنیامیں ترقی و خوشحالی وعروج حاصل کرے گی،مسلم یاغیرمسلم کی اس میں کوئی تخصیص نہیں…مسلمانوں کیلئے انتہائی ترقی کاشارٹ کٹ قرآن میں ریسرچ اورتفکرسے ہی وابستہ ہے۔علاوہ ازیں تمام راستے پستی کی طرف گامزن ہیں…اوریہ اس مضمون پہ ختم الکلام ہے۔

ایجادات کا قانون:…انسان کی فکردورخوں میں کام کرتی ہے،پہلارخ کسی بھی شے کے ظاہرکودیکھتاہےلیکن جب تخیل کو کسی بھی ایک نقطے پرمرکوز کرکے اس شے کی گہرائی یعنی باطن یالاشعورمیں جھانکاجاتاہے،توتفکر،تجسس اورریسرچ کی فکر اس شے کے باطن یالاشعورمیں پہنچ کراس شے کے اندر گہرائی سے خفیہ صلاحیتوں اورعلوم کوشعورکی سطح پرکھینچ لاتی ہے اور نتیجہ میں کوئی نہ کوئی ایجادمعرضِ وجودمیں آجاتی ہے۔اس لئے کہ ذہن انسانی کی فکر یاتخیل یاتفکریاریسرچ ”نقطۂ ذات”(تحتِ لاشعور)کی گہرائی میں جاکران علوم اورصلاحیتوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتاہے کہ جہاں ازل تاابد تمام علوم کئی لاکھ سال سے موجودتھے،ہیں اوررہیں گے… اس کی مثال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کاعلم آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان کے تحت لاشعور میں موجودتھا لیکن جب کس ریسرچرنے تفکرکیاتویہ علم منصہ شہودپراُبھرکرموجود دورمیں عمل کی شکل میں ہمارے سامنے آگیا۔ قرآن جیسی عظیم دستاویزکو خوبصورت ریشمی غلافوں میں بندکرکے ہاتھ سے دوراونچی جگہ پررکھ کر،صبح وشام چوم کر، آنکھوں کولگالینا،اوراس کی اصل تعلیمات ”عمل وتفکر و ریسرچ”سے روگردانی کرنا…کیا یہی اندازِ مسلمانی ہے…؟؟جبکہ قرآن کاتوہم سےمطالبہ ہے”أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا” بھلا یہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے یا(ان کے) دلوں پرقفل لگ رہے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں