قاسم سلیمانی کے قتل سے ایران میں سخت گیرگروہ کونئی زندگی مل گئی ہے اوروہ آئندہ ماہ کے عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔قاسم سلیمانی کے قتل سے ایک بارپھریہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ گئی ہے کہ امریکاکو ایرانی شدت پسندوں کومضبوط کرنے اورایرانی سیاست کی حرکیات سمجھنے کے فن میں توخاص مہارت حاصل ہوچکی ہے۔ناکامی کی صورت میں امریکی پالیسی سازایسا بہت کچھ کرجاتے ہیں جوانہیں اپنے اہداف سے بہت دورلے جاتاہے۔ایک زمانے سے امریکا اس کوشش میں مصروف ہے کہ ایران میں موجودہ سوچ کوشکست دے کرنظامِ حکومت تبدیل کرے اوراعتدال پسندوں کے اقتدار کی راہ ہموارکرے۔ اس مقصد کابرملااظہارکرنے سے بھی گریزنہیں کیاجاتا۔یہ ایک بنیادی غلطی ہےجوایرانیوں کوامریکاسے مزید دورکرنے کاسبب بنتی ہے۔قاسم سلیمانی کے قتل سے یہ بات بھی مزیدواضح ہوگئی ہے کہ امریکا نے کئی عشروں کی ناکامی کے بعدبھی ایران کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی ہے۔
قاسم سلیمانی کے قتل سے ٹرمپ انتظامیہ بظاہرایران کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئی ہے اوراس کھیل میں ایران اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھ رہاہے۔ایرانیوں نے اس مفروضے کاسہارالیاکہ امریکاکویہ تاثردیاجائے کہ اُسے ایک اورجنگ کی طرف کھینچایادھکیلاجارہاہے۔اس کے جواب میں وہ کچھ نہ کچھ کرے گااورجال میں آ پھنسے گا۔ایران کی حکمتِ عملی کامیاب رہی ہے۔
گزشتہ ماہ عراق میں امریکی فوج کاایک کنٹریکٹرماراگیاتھا.اس قتل کے ذریعے ایران نے نئی بساط تیارکی۔امریکانے کنٹریکٹرکی موت کابدلہ لینے کیلئے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاپرحملہ کیا۔اس حملے میں ملیشیا کے سربراہ عبدالمہدی المہندس کے ساتھ قاسم سلیمانی کی بھی موت واقع ہوئی۔ایران نے کنٹریکٹرکی ہلاکت کے ذریعے جوصورتِ حال پیداکی اُس نے بغدادمیں امریکی سفارت خانے کے محاصرے کی راہ ہموارکی۔امریکاکو1975ءمیں سائیگون(ویتنام) میں بھی ایسی ہی صورتِ حال کاسامناکرناپڑاتھااورپھر 1979ء میں ایرانی انقلاب کے برپاہونے کے بعدتہران میں امریکی سفارتخانے کا444دن تک محاصرہ کیا گیا تھاجوبالآخرامریکا کے اخراج پرمنتج ہوا۔
عراق میں جنگ کے نام پرداخل ہونے کے بعدسے امریکاکواب تک ایک ہزارارب ڈالرسے زیادہ کاخسارہ برداشت کرناپڑاہے۔ اس کے باوجود اب اُسے وہاں سے انخلا کاسامناہوسکتاہے۔عراقی پارلیمان نے امریکی افواج کے انخلا کیلئے قرارداد لانے اوراس کی تعمیل یقینی بنانے کافیصلہ کیاہے۔عراق اب امریکیوں کیلئے بہت حدتک نوگوزون کادرجہ حاصل کرچکاہے۔امریکی شہریوں کوعراق سے نکل جانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔انٹرنیشنل کرائسزگروپ ایران کے ماہرعلی واعظ کہتے ہیں کہ ’’اب عراق سے امریکاکاشرمناک انخلابہت حدتک ممکن دکھائی دے رہاہے‘‘۔ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیااس نکتے پر تکیہ کیے بیٹھی ہے کہ وہ عراقیوں پرمشتمل ہے،اس لیے اُسے ایران کی طرف سے نشانہ نہیں بنایاجائے گا۔
عراقی شیعوں کے سپریم لیڈ ٓایت اللہ علی السیستانی خاموش رہے ہیں۔انہوں نے اپنے کردارکومحدودرکھتے ہوئے بیشتر معاملات میں ضبط وتحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ وہ بہت کچھ کرسکتے تھے مگرنہیں کیا۔اگروہ امریکی افواج کو نکالنے کا فتویٰ جاری کردیتے توامریکیوں کیلئے عراقی سرزمین پرٹِکے رہناانتہائی دشوارہوجاتا۔
سعودی قیادت بظاہربدحواسی کاشکارہے۔ گزشتہ ستمبرمیں سعودی عرب میں تیل کی دوبڑی تنصیبات پرحملے ہوئے۔یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ایرانی مددکے بغیریہ حملے ممکن نہیں ہوسکتے تھے۔ان حملوں کے حوالے سے امریکانے وہ ردعمل نہیں دیا جس کی توقع کی جارہی تھی اورضرورت بھی تھی۔ٹرمپ بظاہرہچکچاہٹ کاشکاردکھائی دیے اورپھرایرانیوں نے امریکی فوجی ڈرون بھی مارگرایا۔سعودیوں کویہ سمجھنے میں دیرنہیں لگی کہ معاملات اُن کے حق میں نہیں اورکشیدگی کاگراف نیچے لانے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کرناہی پڑے گا۔جب انہیں یقین ہوگیا کہ امریکااُن کی مدد کیلئے آگے نہیں بڑھے گاتو انہوں نے ایران سے معاملات درست کرنے پرتوجہ دی اورسفارت کاری کاسہارالیا۔
یورپی پارلیمان کی خارجہ امورکمیٹی میں سوشل ڈیموکریٹس کے مشیرایلدارایمیدوف کہتے ہیں کہ اب تک ایران کی حکمتِ عملی کامیاب رہی ہے۔مشرق وسطیٰ کے میدان میں وہ کھلاڑیوں کواپنی مرضی کے مطابق حرکت دینے میں کامیاب رہاہے۔امریکی حملے میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت پرامریکاکوعلاقائی حلیفوں کی طرف سے بھی بھرپورحمایت اب تک حاصل نہیں ہو پائی۔ صرف اسرائیل نے کھل کراس حملے کوسراہاہے۔سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے تحمل سے کام لینے پرزوردیاہے۔
ایران اب ایک ایسی جنگ لڑرہاہے،جس میں بہت کچھ اس کے حق میں ہے۔وہ کسی بھی کاروائی کاجواب دینے میں ذہانت سے کام لے رہاہے۔اس حوالے سے غیرضروری جوش وخروش دکھائی نہیں دے رہا۔ قاسم سلیمانی کے قتل کاانتقام لینے کے حوالے سے ایرانی قیادت پرغیرمعمولی دباؤہے،تاہم وہ ایسی کوئی کاروائی کرناچاہتی ہےجس کے جواب میں امریکاکوئی جذباتی نوعیت کااقدام کرکے پھرجال میں پھنس جائے۔ایرانی امورکی ماہرڈینااسفندیاری کہتی ہیں کہ ایرانی قیادت کوئی بھی قدم بہت سوچ سمجھ کراٹھائے گی۔وہ مکمل اورکھلی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔ایسی کوئی بھی جنگ اُسے شکست سے دوچارکرے گی۔ ایسے میں ڈھکی چھپی جنگ ہی بہترین طریقِ واردات ہے۔
ایران میں آئندہ ماہ پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں۔امریکاکے ہاتھوں قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے مذہبی رہنمائوں کووہ سب کچھ دے دیاہے جس کی انہیں اشد ضرورت تھی۔امریکاایک زمانے سے یہ ثابت کرنےکی کوشش کرتارہاہے کہ ایران میں انقلاب پسند رجعت پسندشکست سے دوچارہوں اوراعتدال پسندوں کوعروج نصیب ہو۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اُس کے اقدامات سے ایران میں انقلابی لابی تقویت پاتے رہے۔2015ءمیں جوہری معاہدے کے بعدیہ سوچاجانے لگاتھاکہ اب امریکا ایسے اقدامات کرے گا جن سے ایران میں اعتدال پسندوں کے اقتدار کی راہ ہموارہو۔
ٹرمپ کے سابق مشیربرائے قومی سلامتی جان بولٹن نے ایک بارپھرامریکی ہدف کوطشت ازبام کردیاہے۔ان کاکہناہے کہ “قاسم سلیمانی کی ہلاکت سےایران میں شدت پسندوں کی کمرٹوٹے گی اوراقتداراعتدال پسندوں کومنتقل ہونے کی راہ ہموار ہوگی۔امریکی پالیسیوں نے ایران کومشرق وسطیٰ میں جنگجوگروپ کھڑے کرنے اورڈھکی چھپی جنگ جاری رکھنے کی ترغیب دی ہے اور ایسالگتاہے کہ ایرانی قیادت فی الحال اِس راہ سے ہٹنے کوتیارنہیں۔ایران میں شدت پسندوں کومضبوط تربنانے والے اقدامات سے امریکاکی ایران پالیسی کی وقعت کم ہوگی۔بنیادی غلطیوں سے وہ سب کچھ ہوتارہے گاجن سے امریکابچنے کی کوشش کرتارہاہے۔
تاہم ایران اپنے آئندہ انتخابات میں ٹرمپ کے اسرائیل اورفلسطین تصفیہ کیلئے امن منصوبہ کوبھی آڑے ہاتھوں لے رہاہے اور امریکاکے خلاف نفرت کواپنے حق میں استعمال کرے گا۔ ایرانی صدرروحانی اورکابینہ نے1979کے اسلامی انقلاب کی41 ویں برسی کے موقع پرخمینی مقبرے کادورہ کرتے ہوئے اسرائیل اورفلسطین تصفیہ کیلئے امن منصوبہ کوتمام مسلمانوں کیلئے “شرمناک اورقابل نفرت” قراردیکرآئندہ انتخابی مہم کانقشہ واضح کردیاہے۔
روحانی نے2 فروری کواسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ خمینی کے مزارپرحاضری کے موقع پراپنے خطاب میں کہاکہ”ان دنوں ہم ایک بڑی شرمندگی کامشاہدہ کرسکتے ہیں،جسے انہوں(امریکی صدراوراسرائیلی وزیراعظم)نے صدی کے معاہدے کے طورپرتاریخی قراردیاہے۔یہ تمام مسلمانوں اور آزادی کے متلاشی لوگوں کیلئے کتناشرمناک اورنفرت انگیزہے۔انہوں نے مزید کہاکہ”مزاحمت کے سواکوئی راستہ نہیں،متحدہوکرحملہ آورکے سامنے کھڑاہوناہے”۔
اس سے قبل فلسطین کے صدرمحمود عباس نے ہفتہ کوقاہرہ میں عرب لیگ کے ایک روزہ ہنگامی اجلاس کے دوران اعلان کیاکہ فلسطین نےٹرمپ کے پیش کردہ مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کومستردکرتے ہوئے امریکااوراسرائیل کے ساتھ تمام تعلقات ختم کردیے ہیں۔ امریکی صدرکے منصوبے پرتبادلہ خیال کرنے کیلئے بلائے گئے عرب لیگ کے اجلاس میں محمودعباس نے بتایا “ہم نے دوسری طرف(اسرائیل)کوآگاہ کردیاہے کہ ان کے اور امریکاکے ساتھ سکیورٹی سمیت کسی بھی طرح کے تعلقات نہیں رکھے جائیں گے۔تاہم اسرائیلی حکام نے ان کے اس بیان پرفوری طورپرکوئی تبصرہ نہیں کیا۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے مشرقِ وسطی امن منصوبے میں ایک محدود فلسطینی ریاست اورمقبوضہ مغربی کنارے پرآباد بستیوں پراسرائیلی خودمختاری تسلیم کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔ روئٹرزکے مطابق فلسطینی صدرنے یہ بھی کہاکہ انہوں نے فون پرٹرمپ کے ساتھ اس منصوبے پربات کرنے سے انکارکردیا تھااوراس منصوبے کے مطالعہ کیلئے اس کی کاپی وصول کرنے سے بھی انکارکیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ٹرمپ یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے ان سے مشاورت کی ہے۔
فلسطینی صدرنے مزیدکہا”میں اپنی تاریخ میں یہ بات ریکارڈ نہیں کراؤں گاکہ میں نے یروشلم کوبیچ دیاجبکہ ٹرمپ نے کہا کہ محمودعباس مجھ سے فون پربات کرناچاہتے تھے لیکن میں نے انکارکردیااورانہوں نے یہ کہاکہ وہ ایک خط بھیجناچاہتے ہیں لیکن میں نے اس سے بھی روک دیا۔
روئٹرزکے مطابق قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہاگیاہے کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کی خواہشات پر پورانہیں اترتااورعرب لیگ اس منصوبے پرعمل درآمدمیں امریکاکے ساتھ تعاون نہیں کرے گی۔امریکاکے تین قریبی اتحادی ممالک مصر،سعودی عرب،اردن کے ساتھ ساتھ عراق،لبنان اوردیگرممالک کے وزرائے خارجہ نے کہا کہ 1967 سے پہلے کے علاقوں میں فلسطین کے حقوق کوتسلیم کیے بغیرکوئی امن نہیں ہوسکتا۔
اس سے قبل فلسطین کے وزیراعظم نے بھی کہاتھاکہ ہم چندعرب ممالک کی سیاسی مجبوریوں کوسمجھ سکتے ہیں لیکن اب ایک واضح پوزیشن اختیارکرنے کاوقت آگیاہے۔جولوگ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں ہیں وہ مستقبل میں اپنے آپ کودوسری طرف(امریکا اوراسرائیل) پرکھڑاپائیں گے اوریہ عرب ممالک کیلئےغیرمعمولی ہوگا۔یقیناًاس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ ایران کوہوگا۔