امریکامیں پچھلےدوماہ کے دوران بہت سے معاملات کاغیرمعمولی چرچارہاہے۔صدارتی انتخاب کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں ۔ امریکی صدرکے منصب کیلئےانتخاب لڑنے کیلئےڈیموکریٹک امیدواروں کے درمیان بھی مباحثے جاری ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اب تک اپنے امیدوارکاباضابطہ اعلان نہیں کیاہے۔ٹرمپ کے مواخذے کا معاملہ بھی زوروں پرہے اورملک بھرمیں اُن کے خلاف فضاتیارہورہی ہے۔دوسری طرف امریکاکے سب سے بڑے حلیف اسرائیل کے نیتن یاہوپرمختلف الزامات عائدکیے جانے سے صورتِ حال عجیب تر ہوچکی ہے۔اسرائیل میں سیاسی سطح پرخاصاانتشارپایاجاتاہے۔ جب اتنابہت کچھ ہورہاہو توچندایک معاملات کامنظرسے ہٹ جانایانظرنہ آناحیرت انگیز نہیں۔امریکااورسعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ امریکامیں کوئی بھی بڑی شخصیت سعودی عرب کے حوالے سے کوئی بھی ایسی ویسی بات کرنے سے احترازکرتی ہے۔ سابق نائب صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کے بارے میں چندریمارکس دیے کہ امریکی قیادت سعودی عرب کوایک سال قبل استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں واشنگٹن پوسٹ کے سعودی نژادصحافی جمال خاشقجی کے قتل کی قیمت اداکرنے پر مجبورکرے گویاجوبائیڈن کی نظرمیں سعودی حکمراں خاشقجی کے قتل کاذمہ دارہے اوراگر جوبائیڈن صدربن گئے توسعودی عرب مزیدلاڈلابچہ نہیں رہے گا۔ جوبائیڈن نے مطالبہ کیاکہ امریکاسعودی عرب کواسلحے کی فروخت روکے کیونکہ یہ اسلحہ یمن کے خلاف استعمال کیاجارہاہے اوریمن میں بچوں کوقتل کیاجارہاہےاورسعودی قیادت نے جوکچھ کیاہے،اُس کے نتیجے میں اب اس کی معاشرتی قدرقدرے گھٹ کررہ گئی ہے۔
متوقع ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے میں جوکچھ جوبائیڈن نے کہا،وہ ہراعتبارسے سعودی ولی عہد پر شدید نوعیت کے عدم اعتمادکو ظاہرکرنے کے سواکچھ نہیں۔دیگرامیدواروں میں سے کسی نے بھی سعودی عرب سے متعلق جوبائیڈن کے خیالات سے اختلاف ظاہرکرنے میں دلچسپی ظاہرنہیں کی گویاجوکچھ سعودی عرب کے بارے میں جوبائیڈن نے کہاوہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی اجتماعی سوچ ہے۔
جوبائیڈن کے خیالات اس اعتبارسے نظراندازنہیں کیے جاسکتے کہ سعودی عرب اورامریکاکے خصوصی تعلقات کم وبیش سات عشروں پرمشتمل ہیں۔ ان تعلقات کاآغاز1943ءمیں اُس وقت ہواتھا،جب اُس وقت کے امریکی صدرفرینکلن روزویلٹ نے مستقبل کے دوسعودی بادشاہوں فیصل بن عبدالعزیزاورخالدبن عبدالعزیزکووہائٹ ہاؤس مدعوکیاتھا۔یہاں سے مشرقِ وسطیٰ کی اہم ترین ریاست سے امریکاکے خصوصی تعلقات کاوہ دورشروع ہوا،جوکسی نہ کسی حیثیت میں اب تک جاری ہے۔تب سے اب تک ہر امریکی صدرنے سعودی عرب سے تعلقات بہتررکھنے کی خصوصی کوشش کی ہے ۔1973 ء میں جب سعودی عرب نے امریکا کوتیل فروخت کرنے سے انکارکردیاتب بھی اُس وقت کے امریکی صدرنکسن نے سعودی عرب جاکرشاہ فیصل بن عبدالعزیزکو سراہنے سے گریزنہیں کیا۔انہوں نے تیل کی فراہمی پرپابندی کونظراندازکرتے ہوئے سعودی عرب سے تعلقات کومثالی قرار دیا ۔
2011ءمیں عرب دنیامیں بیداری کی لہردوڑنے کے بعدتعلقات میں درآنے والی تھوڑی سی کشیدگی یاسردمہری کے باوجود امریکی صدراوبامانے چاربار سعودی عرب کادورہ کیا۔اوباماانتظامیہ نے کسی بھی پیش رَوکے مقابلے میں سعودی عرب کوزیادہ (100/ارب ڈالر)کااسلحہ بیچا۔اوباما بائیڈن انتظامیہ نے یمن میں سعودی عرب کی جنگ کی سفارتی اورعسکری دونوں سطحوں پر حمایت کی۔یہ حمایت اورمدداس حقیقت کے باوجودتھی کہ سعودی عرب نے یمن میں حقیقی استحکام پیدا کرنے کے حوالے سے کسی بھی مرحلے پرسنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیااورکوئی بھی حتمی نوعیت کی حکمت عملی تیارنہیں کی۔
سعودی عرب سے متعلق جوبائیڈن کے ریمارکس ستمبر میں سعودی عرب کے علاقے البقیق میں تیل کی تنصیبات پرمبینہ ایرانی حملے کے بعدامریکی ایوان نمائندن کی اسپیکرنینسی پیلوسی کے دورۂ اردن کے تناظرمیں دیکھے جانے چاہییں۔اُردن میں پیلوسی نے کہاتھاکہ امریکاپرسعودی عرب کاہرحال میں دفاع کرنے کی ذمہ داری عائدنہیں ہوتی۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ امریکا اب سعودی عرب کواسلحے کی فروخت روک دے۔انہوں نے خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی بھی شدیدالفاظ میں مذمت کی۔
اب جبکہ امریکا میں صدارتی انتخاب کی دوڑشروع ہونے والی ہے،ڈیموکریٹک پارٹی کی دواہم شخصیات کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف آراءکا اظہار نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔دیگرڈیموکریٹک شخصیات بھی سعودی عرب سے تعلقات پر نظرثانی کا مطالبہ کررہی ہیں۔اہلان عمرنے سعودی عرب سے تعلقات کوغیراخلاقی اوریکسربے ہودہ قراردیاہے۔الزابیتھ وارن اوربرنی سینڈرزنے بھی سعودی عرب کواسلحے کی فروخت روکنے کامطالبہ کیاہے۔ امریکا کی تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ اسے دوست بدلنتے کوئی دیرنہیں لگتی۔امریکاچڑھتے سورج کاپجاری ہے۔خطے میں سعودی عرب کی ناکام خارجہ پالیسی کے بدلنے کاوقت آن پہنچاہے اوریہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب کی بادشاہت کے اندرونی اختلافات کسی نئی جوہری تبدیلی کاسبب بن جائیں جو یقیناً ایک دہماکے سے کم نہیں ہوگا۔