کشمیریوں کاوکیل!

:Share

محترمی برادرم آزاد حفیظ صاحب
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ابھی چند لمحے پہلے آپ کے رفیق اورساتھی شاہین صاحب کی شہادت کی خبر ملی کہ وہ فانی دنیاسے دار بقاء کی طرف تشریف لے گئے ہیں،اس عارضی زندگی کی بہاروں اورگلوں کی خوشبوؤں سے منہ موڑکردائمی بہار،سداخوشبوؤں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہوگئے ہیںاوراپنے ہرتعلق رکھنے والوں کو چھوڑ کراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق کارشتہ جوڑچکے ہیں۔

برادرم! موت توکوئی نئی چیز نہیں۔موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔موت کے قانون سے نہ تو کوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔ جو بھی آیا ہے اپنا مقررہ وقت پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں، پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے۔کسی کااس بھری جوانی میںاس طرح حالتِ ایمان اورراہِ خدامیں قربان ہوجانااس کے حق میں بڑی نعمت ہے اورپھرکیوں نہ ہو،ایسی موت تووصل حبیب اوربقائے حبیب کا خوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اورپھربقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت کیاہوگی!

انتہائی واجب الاحترام !اس دنیامیں جوبھی آیاہے اسے یقیناً ایک دن جاناہے اوراس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنے ماں باپ ،لواحقین اوراہل وطن کیلئے ایسی دولت اورفخروانبساط کی ایسی وراثت چھوڑجاتے ہیں کہ جس کے آگے خزائن وحشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سو فقیروں کے فقیراورسو کنگالوں کے کنگال لگتے ہیں۔

مجھے آج مقبوضہ کشمیرکے ن تمام قابل صداحترام والدین اوراساتذہ کوخراج عقیدت پیش کرناہے جنہوں نے نئی نوجوان نسل کے قلب وذہن کے اندر پچھلی کئی دہائیوں سے عملِ خیرکابیج بویاتھااوراس بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات نے بالآخر کس طرح عمل خیرکی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگادی ۔اگراس فصل کی تقسیم شروع کردی جائے توسب کوہی اپنادامن تنگ نظرآئے گا۔ ان نوجوانوں نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسول ﷺ کے نقوش کوایسااجاگرکیاہے کہ ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔ ان نوجوانوںکی للہٰیت، اخلاص نیت اوربے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیں جس کی تمناانبیاء، اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔ان عظیم نوجوانوں کی یاداب تاقیامت تک کفر کے تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی۔

اس برخوردارکی شہادت نے جہاں اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیر وجودبھی تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میںاپناحصہ رکھتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کو دھندلا جاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتاہے اورمیزان نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے اوریوںآخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہونگے تویہ نوجوان(شاہین) بھی شہداء کے کے گروہ میں شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضرہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا۔

محترمی آزاد صاحب:
خداسے ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے،خداجانے کب……؟خداجانے کہاں……؟اورکس حال میں ہوںگے؟کتنی بڑی ملاقات ہوگی جب ایک عبد ذلیل اپنے معبوداکبرسے ملے گا!جب مخلوق دیکھے گی کہ خوداس کاخالقِ اکبراس کے سامنے ہے ،رب کی قسم …..!کیسے خوش نصیب ہیں یہ نوجوان کہ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پرخداکونذرکرنے کیلئے خداکاکوکوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجودہوگا۔جی ہاں !ان کفنوں کی جھولیوںمیں جن میں بدن اور سچے ایمان وعمل کی لاش ہوگی مگر شہادت کے طمطراق تمغے سے سجی ہوگی۔ان تمغوں کوخدائے برتر کی رحمت لپک لپک کر بوسے دے گی اوراعلان ہوگا:
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے
یہ بندۂ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے

کاش ہمیں بھی اس ملاقات اوریقینی ملاقات کاکوئی خیال آتااورتڑپادیتا،کاش ہم بھی ایسی موت سے ہمکنار ہوجائیں جہاں فانی جسم کے تمام اعضاء باری باری قربان ہو جائیں ، سب خداکیلئے کٹ جائیں،سب اسی کے پائے نازپرنثارہوجائیںجس کے دستِ خاص نے ان کووجودکے سانچے میں ڈھالاہے۔یقینا ان نوجوانوں کے دھڑ شیطانی قوتوں کاشکارہوگئے ہیں مگر اشک بارآنکھوں سے سوبارچومنے کے لائق ہیں کہ فرشتے ان کو اٹھاکراللہ کے ہاں حاضرہوگئے ہیںاوران کی جوانیاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ دنیاپرنہیں یہ آخرت پرنثارہوئی ہیں۔انہوں نے دنیاکی کسی چیزسے نہیں خودخداسے عشق کیا، انہوں نے دنیاکی ساری اشیاء اورعیش وعشرت پرنہیں خود رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک پرایمان کی بنیادرکھی،انہوں نے دنیاکی نشیلی چھاؤں میں نہیں بلکہ شہادت کے پرشوق سائے میں پناہ ڈھونڈی،انہوں نے زندگی کی دلفریب اورایمان کی شاہکار شاہراہ پر اس طرح سفرکیاہے کہ زندگی سے ہٹ کر شہادت اورشہادت کے اس پار تک کچھ سوچنے کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔وہ شباب وحسن سے وجدکرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضر ہوگئے ہیں کہ حسن وجوانی باربارایسی حسرت کرے!!!

وہ زندگی اوردنیاپرجھومنے کی بجائے سچائی اورآخرت پرمرجانے کی رسم اداکرگئے تاکہ زمین وآسمان ان کی موت پرآنسو بہائیں لیکن خدااپنے فرشتوں کی محفل میں خوش ہوکہ اس کابندہ اس کی بارگاہ تک آن پہنچا۔دراصل کشمیرکوآزاددیکھنے والے ہرنوجوان کومعلوم ہوگیاہے کہ ان کاگھر اس دنیامیں کہیں نہیں بلکہ اس دنیامیں ہے جوجسم وجاں کاتعلق ٹوٹتے ہی شروع ہوتی ہے۔ایسی دنیا جہاں خودخدااپنے بندوں کامنتظرہے کہ کون ہے جودنیاکے بدلے آخرت اورآخرت کے بدلے اپنی دنیا فروخت کرکے مجھ سے آن ملے۔جہاں وہ جنت ہے جس کے گہرے اورہلکے سبزباغات کی سرسراہٹوںاورشیرو شہد کی اٹھلاتی لہراتی ہوئی ندیوں کے کنارے خوف وغم کی پرچھائیوں سے دورایک حسین ترین دائمی زندگی،سچے خوابوں کے جال بن رہی ہے۔جہاں فرشتوں کے قلوب بھی اللہ کے ہاں پکار اٹھیں گے کہ خدایا…..!یہ ہیں وہ نوجوان جن کی ساری دنیاتیرے عشق میں لٹ گئی ہے،یہ سب کچھ لٹاکر تیری دیدکوپہنچے ہیں،ان کے قلوب میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ راہِ حق میں ماراجاناہی دراصل تجھ تک پہنچنے کاذریعہ ہے اورشہادت کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہناہے۔یہ توسب کچھ لٹاکراس یقین تک پہنچے ہیں!

اورہاں!کتناقابل رشک ہے ان نوجوانوں کایقیں اورایمان،جن پرملائکہ ایسی گواہی دیں گے اورکس قدررونے کے لائق ہیں ہمارے ایمان جن کیلئے ہمارے دل بھی گواہی دیتے دیتے کسی خوف سے چپ ہوجاتے ہیں۔کل جب میدان حشرمیں اشک ولہومیں نہائے ہوئے یہ نوجوان خداوندی لطف واعزاز سے سرفرازکئے جارہے ہوں گے، خداجانے ہم مظلوم کشمیریوں کے وکیل کادعویٰ کرنے والے کہاں اورکس حال میں ہوں گے؟

سوال یہ پیداہوتاہے کہ شب وروزانسانیت کادرس دینے والے جواپنے ہاں کسی جانورکے مرنے پربھی آسمان سرپراٹھالیتے ہیں، وہ اس وقت گونگے شیطانوں کاکردارکیوں ادا کر رہے ہیں؟کیاموم بتیاں جلانے والے لبرل اندھے اوربہرے ہوگئے ہیں؟مسلم حکمرانوں کی اکثریت کی زبانوں پرچھالے نکل آئے ہیں یامیرے رب نے ان منافقین سے یہ توفیق ہی سلب کرلی ہے۔آخرہم کب تک اپنے بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے،کٹے پھٹے بدن اورگوشت کے لوتھڑے اسی طرح جمع کرتے ہوئے فریادوماتم اورخون کے ان دریاؤں میں ڈوبتے مرتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے ہی منافقین،رذیل ،بدبخت اوراستعمارکے نامزدحکمرانوں کی غلامی برداشت کریں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں