بغل میں سورج،موم بتی سے خوف

:Share

گزشتہ برس قیامِ پاکستاان کے دوران سرکاری دفترجانے کااتفاق ہوا۔سیکرٹری صاحب ہم سے محوکلام بھی تھے اورفائلوں پردستخط بھی کررہے تھے۔اس افراتفری کے دوران اذان کی آوازگونجی،ہم سب خاموش ہوگئے۔اذان ختم ہوئی توسیکرٹری
صاحب نے کافی کالمباساگھونٹ بھرا،جوتے اورموزے اتارے،شرٹ کے کف اوپرچڑھائے اورہماری طرف دیکھ کربولے “آپ گپ شپ لگائیں،میں وضو کرکے آتاہوں”ہم تینوں باری باری سیکرٹری کے غسل خانے میں گئے،وضوکیااورنمازکیلئے باہر آ گئے۔ سیکرٹری صاحب کے دفترکے سامنے صفیں بچھی تھیں،ہم آخری صف میں نمازیوں کے جوتوں کے پاس بیٹھ گئے۔

امامت کی جگہ پرسیکرٹری کاباریش چپڑاسی بیٹھاہواتھا۔پہلی صف میں دوسرے چپڑاسی،ڈرائیور،بیرے،کلرک اورڈی آر بیٹھے ہوئے تھے اور دوسری اورتیسری صف میں جونیئراورسنیئرآفیسربیٹھے ہوئے تھے جبکہ چوتھی صف میں ہم تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔سیکرٹری کے دائیں بازوپرایک مفلوک الحال بوڑھابیٹھاہواتھاجس کے جسم پرکپڑوں کی جگہ چیتھڑے لٹک رہے تھے اوراس کے بدن سے پسینے کی ہلکی ہلکی بواٹھ رہی تھی۔تکبیرکی آوازپرسب اٹھ کھڑے ہوئے۔ہم سب کاامام دوسرے گریڈ کاچپڑاسی تھاجبکہ تین چارپانچ اورگیارہ گریڈکے بیسیوں کلرک،بیرے،ڈرائیور اور نائب قاصدہمارے آگے کھڑے تھے۔اس وقت ہم سب ایک تھے،ایک سے محتاج،ایک سے منگتے اورایک سے مجبور۔ سیکرٹری کی گردن بھی جھکی ہوئی تھی،ایڈیشنل سیکرٹری،جوائنٹ سیکرٹریوں،ڈپٹی سیکرٹریوں،اسسٹنٹ سیکریٹریوں اورسیکشن افسروں کاسینہ بھی اندرکودبا اورگردنیں نیچے گری ہوئی تھیں۔چپڑاسی،کلرک،بیرے،ڈرائیور،سیکرٹری صاحب اوردیگرتمام افسران کے ساتھ وہ بوڑھا مفلوک الحال جس کے جسم پرچیتھڑے لٹک رہے تھے اورجسم سے پسینے کی بدبوآرہی تھی،وہ سب ایک دکھائی دیتے تھے ۔بڑے اورچھوٹے،غریب اورامیراورمحتاج وغنی کی تفریق ختم ہو چکی تھی۔بقول اقبال
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز
نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز

نمازہوتی رہی،ہم سب اللہ اکبرکی آوازپرہاتھ کھولتے اورباندھتے رہے،ایک ہی آوازپررکوع وسجودمیں جھکتے رہے اورایک ہی آواز پرسجدے سے دوبارہ قیام کی حالت میں سرجھکاکرکھڑے ہوتے رہے۔اس دوران کسی نے ایک لمحے کیلئے نہ سوچا کہ چپراسی ان کاامام ہے۔ان کاچپڑاسی انہیں جھکنے،زمین پرماتھاٹیکنے اوردوبارہ کھڑاہونے کاحکم دے رہاہے اوروہ اس کی ہر آوازپرعمل درآمدکررہے ہیں اورپھرسلام پھیرنے کاوقت آگیا اور جونہی دوسری باراسلام علیکم ورحمتہ اللہ کی آوازآئی، سارے مقتدیوں نے بائیں طرف سرپھیرا،تیزی کے ساتھ سارامجمع اس ڈسپلن سے آزاد ہو گیا۔امام چندسیکنڈمیں چپڑاسی ہو گیا، کلرک کلرک،ڈرائیور،بیرے،کلرک اورڈی آرسب اپنےعہدوں پرواپس لوٹ آئے۔

عہدوں اورگریڈوں کی گری ہوئی دیواریں یک لخت پورے قدکے ساتھ کھڑی ہوگئیں،مری ہوئی تقسیم دوبارہ زندہ ہو گئی، محتاج محتاج اورغنی غنی ہوگیا،غلام غلام اورصاحب صاحب ہوگیا۔سیکرٹری صاحب نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ باقی نمازاندرکمرے میں پڑھیں گے۔

ہم لوگوں نے جوتے پہنے اورواپس22ویں گریڈمیں آگئے۔ سیکرٹری نے اپنی میزکے درازسے ایک عمدہ اورقیمتی”یوڈی کلون “نکالا،پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پرچھڑکااورپھرمجھے ہاتھ بڑھانے کوکہا۔مجھے یادآیاکہ نمازکے فوری بعدکچھ نچلے گریڈ کے لوگوں نے بڑی عاجزی کے ساتھ صاحب سے ہاتھ ملایا تھاشائداسی بناءپر صاحب کواب اپنے ہاتھوں سے ان میلے کچیلے جراثیم زدہ ہاتھوں کی بدبوکوختم کرنامقصودتھا۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد سیکرٹری نے گھنٹی بجائی اورچند لمحے پہلے جو ہمارا امام تھا،وہ میزسے کپ اٹھارہاتھا۔وہ پی اے جوہم سے دوصفیں آگے کھڑاتھاوہ صاحب سے بری طرح ڈانٹ کھارہا تھا اوراذان دینے ولاڈرائیورصاحب کیلئے گاڑی کادروازہ کھول کرکھڑاتھا۔رہاوہ مفلوک الحال بوڑھاجس کے جسم پرکپڑوں کی جگہ چیتھڑے لٹک رہے تھے اوربدن سے پسینے کی ہلکی ہلکی بدبواٹھ رہی تھی،وہ ہاتھ میں درخواست پکڑے باہر سڑک پر کھڑا تھا۔جونہی گاڑی گیٹ سے باہرنکلی،وہ بوڑھاتیزی کے ساتھ گاڑی کی طرف آنے کی کوشش کررہاتھا کہ راستے ہی میں اس کوسیکورٹی والوں نے دبوچ لیا۔صرف چندلمحوں میں اتنی بڑی تبدیلی،میرادماغ اس تبدیلی کوقبول کرنے کوتیارنہیں تھا۔

ہم باہرنکلے تومیں نے اپنے دوست سے کہا”یاراللہ ہرروزپانچ بارہمیں یاددلاتاہے تم سب ایک ہو،چپڑاسی اورسیکرٹری میں وہ افضل ہے جس کے اعمال اچھے ہوں،اللہ کی بارگاہ میں وہ زیادہ معتبرہے،وہ زیادہ اچھاہے جس کی جبین پرزیادہ سجدے، جس کی گردن میں زیادہ عاجزی اورجس کے دامن میں زیادہ نیکیاں ہیں۔”ان اکرمکم اللہ عنداللہ اتقاکم…تم میں سب زیادہ عزت والا وہ ہے جواللہ سے ڈرتا ہے۔ہم دن میں پانچ بارچپڑاسیوں کلرکوں اورڈرائیوروں کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں کھڑے بھی ہوتے ہیں۔دوچارسجدوں تک یہ حکم بھی مانتے ہیں لیکن جونہی نیت کی مدت ختم ہوتی ہے ہمیں آنکھیں گھمانے،چلنے پھرنے اور بولنے چالنے کی آزادی ملتی ہے ہم اللہ کایہ حکم فراموش کردیتے ہیں۔ہم صاحبوں اورمحتاجوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ افسروں اورماتحتوں میں بٹ جاتے ہیں۔دنیامیں اس سے بڑی فکری اورعملی منافقت کیاہوگی،ہم دن میں پانچ بارمساوات کا عہد کریں ،اللہ تعالیٰ کومساوات کی پریکٹس بھی کرکے دکھائیں لیکن سلام پھیرتے ہی ہماری گردنوں کا”سریا”واپس آجائے ۔ہم اس عہدسے پھر جائیں ۔جوقوم دن میں پانچ باراللہ سے وعدہ کرتی ہواورپھرپانچ بارہی یہ وعدہ توڑدیتی ہو،وہ قوم اللہ کی زمین پرذلیل وخوارنہیں ہوگی توکیاہوگی۔ بنی اسرائیل نے ایک وعدہ توڑاتھااللہ کی زمین پراسے آج تک پناہ نہیں ملی اور جواقتدار کیلئے مزارپرجاکرسجدہ کرناجائزاوراپناخطاب”ایاک نعبدووایاک نستعین”سے شروع کرکے ریاست مدینہ بنانے کاوعدہ کرکےآئی ایم ایف کے سامنے دست سوال بڑھادےاورہرروزپانچ باراللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے،عہدشکنی کرے اورپھر ساتھ ہی توقع کرے کہ ہمارے لئے آسمان سے فرشتے اتریں گے اورہم پورے کرۂ ارض پرغالب آجائیں گے،اس سے بڑی بے وقوفی کیاہوگی!

شائدیہی وجہ ہے کہ بالعموم امت مسلمہ اوربالخصوص پاکستان اس وقت سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلاہے۔کیاہماری اپنی منافقتوں کی بناءپرہم پرایسے حکمران مسلط کردیئے گئے ہیں؟ہم آج اپنی بغل میں سورج چھپاکرایک موم بتی سے ڈررہے ہیں ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں