کیاجنرل اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریرکے بعدبہت کچھ بدل گیاہے یاابھی بہت کچھ بدلنا باقی ہے؟دوست کی تعریف بدل گئی ہے،دشمن کی نشانی بدل گئی ہے،کس سے ہاتھ ملانا ہے اورکس سے لڑناہے،اس کا پیمانہ بھی بدل گیاہےکیا؟؟؟پاکستانی قوم کو پچھلے72سال سے علم ہےکہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہےلیکن مشرف اورزرداری کے زمانے میں “امن کی آشا”کاڈھونڈورا بھی خوب پیٹاگیالیکن ایک دفعہ پھرتسلیم کرلیاگیاکہ تعلقات کی بحالی میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیرہے۔پاکستانی وزیرِ خارجہ کاکہناہے،دوست ممالک اگرکوئی کردارادا کرنے چاہیں توکوئی حرج نہیں لیکن مودی سرکارکی رٹ ہے کہ کشیدگی کی وجہ دہشتگردی کے مراکز ہیں اوربھارت مخالف عناصر کاقلع قمع کئے بغیرحالات وتعلقات معمول پرنہیں آسکتے۔
آخرپاکستانی وزیراعظم نےاپنی تقریرمیں یہ کیوں نہیں پوچھاکہ پاکستان میں مبینہ دہشتگردی کے مراکز1948ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے قائم ہوئے تھے یابعد میں،اور1965ءکی جنگ میں پاکستان میں دہشتگردی کے کون سے مراکزفعال تھے ؟اسی طرح 1971ء کی جنگ میں پاکستان میں موجود دہشتگردی کے مراکزنے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی تھی اور مکتی باہنی بھی شائد پاکستان میں موجود دہشتگردی کے مراکز کی پیداوار تھی؟مجھے حیرت تونہیں البتہ افسوس ضرور ہوا ہے کہ کیا عمران خان صرف منہ دیکھنے کیلئے وہاںگئے تھے،کچھ تومودی اورٹرمپ کے مشترکہ جلسے کاجواب دیتے؟پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے،اپنے ملک کی 72سال پرمحیط خارجہ پالیسی کی لاج رکھنے کی توکوئی کوشش کرتے لیکن ان الزمات پران کی مجرمانہ خاموشی کوان کی سفارتی رضامندی سمجھ کرگویایہ تسلیم کرلیا گیا کہ واقعی پاکستان میں دہشتگردی کے مراکزہیں۔کشمیر کامسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں عالمی طاقتیں ضامن ہیں، پھر ثالثی کیلئے بھارت کی رضامندی کابہانہ کیسا؟
اگرہم پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کب تک تقریروں سے کام لیتے ہوئے سیاسی اسکورنگ کافائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ کوئی ہے جومجھے یہ سمجھادے کہ ایٹمی حملے کےخوف سے مسئلہ کشمیرپرکوئی پیش رفت ہوئی ہے؟پاک بھارت تعلقات میں سردی گرمی توابتدأسے ہے۔کیاتین جنگیں دہشتگردی کے مراکزکی وجہ سے ہوئی ہیں،کیا بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں دہشتگردی کے مراکز ختم کرنے کیلئے داخل ہوئی تھی،کیا 1965ء میں لاہورجمخانہ میں شراب پینے کااعلان دہشت گردی کے مراکز ختم کرنے کیلئے کیاگیا تھااورخود پرویز مشرف کے دورمیں دونوں ملکوں کی افواج سرحدوں پرآمنے سامنے کھڑی ہوگئیں تھیں توکیاوہ بھی دہشتگردی کے مراکزختم کرنے کیلئے ہوئی تھیں؟؟؟؟ان سوالات کواٹھانے سے کس نے منع کیاتھا؟
کیاہم مودی اورٹرمپ کے الزام کو بآسانی تسلیم کرکے آگئے کہ اصل مسئلہ کشمیرنہیں،دہشتگردی کے مراکزہیں۔کلبھوشن کا پاکستان میں جاری دہشتگردی کے جرائم کااعتراف کاذکرکیوں بھول گئے٫افغانستان میں درجن سے زائدبھارتی دہشتگردی کے مراکزکس نے کھول رکھے ہیں؟ہیوسٹن میں لگائے گئے الزامات پرخاموشی کامطلب یہی ہواکہ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ دہشتگردی کے مراکز ہیں؟1948ء میں پہلی جھڑپ اورکشیدگی پاک فوج سے ہوئی تھی،دوسری جنگ 1965ء میں پاک فوج اور پاکستانی قوم سے ہوئی تھی اور1971ء میں توساری فوج کشی پاکستانی قوم کے خلاف تھی،گویا دہشتگردی کے مراکزپاک فوج اورپاکستانی قوم ہیں۔شائدپاکستانی حکام یہ بات برملاتسلیم نہ کریں،سب کے سامنےاعتراف کرنے میں مشکل پیش آئے گی لیکن بھارت کی نظر میں دہشتگردی کے مراکزپاکستانی فوج اورمحب وطن عوام ہی ہیں۔
یہ لشکرِطیبہ اورجماعتہ الدعوة توابھی چندبرس پرانی بات ہے۔کیا1948ء،1965ءاور1971ء میں صرف پاکستانی افواج اور پاکستانی عوام دہشتگردی کے مراکزتھے؟جنرل ایوب نے کسی وجہ سے ہی کلمہ طیبہ پڑھ کربھارت سے جنگ چھیڑے جانے کی اطلاع دی تھی۔جنرل محمدایوب کے اندرکلمہ طیبہ کتنااتراہواتھااس کاعلم تواب اللہ کوہوگالیکن پاکستانی قوم تو اسی کلمہ طیبہ سے سرشارتھی جب ہی لاہورکی حفاظت فوج کے ساتھ ساتھ لاہورکے عوام نے کی تھی۔یوں بھی”خطہ لاہورتیرےجانثاروں کو سلام”پیش کیاگیاتھا۔پاکستانی قوم توہرسال5فروری کوکشمیریوں سے اظہارِیکجہتی کرکے کشمیریوں کیلئے اپنی جان و مال کانذرانہ پیش کرکے ثابت کرتی ہے کہ وہ تواب بھی کشمیر کے مسئلے کوپاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کااصل سبب قراردیتی ہے۔
خطے میں قیامِ امن کادروازہ تصفیہ کشمیرہے،پاکستان کشمیریوں کاوکیل نہیں بلکہ فریق ہے لیکن ہمارے حکمران تو وکالت سے بھی ایک درجہ پیچھے ہیں،بس حمائت کے درجے پرفائزہیں اوربھارت کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی خواہش میں ہربات اورتمام قربانیوں کو بھولنے کیلئے تیارہیں۔مودی دہشتگردی کی رٹ لگاکر پاکستان کودباؤمیں مسئلہ کشمیر سے دستبردار کرواناچاہتاہے۔
یادرہے کہ ضیاءالحق کے دوراورمشرف کے ابتدائی دورمیں بھارت نے عالمی سطح پرکشمیرکومتنازعہ تسلیم کرلیاتھالیکن عالمی دباؤ اوراندرونی کمزوری کی بناءپررفتہ رفتہ مشرف کشمیرکی تحریکِ آزادی کودہشتگردی سمجھنے لگاتھابلکہ جن لوگوں کو مجاہد قراردیاجاتاتھاانہیں سہولتیں دی جاتی تھیں، ان کوپکڑپکڑکرجیل میں ڈال دیاگیا۔یہ نفسیات پیپلزپارٹی کی حکومت کوبھی منتقل ہوئی بلکہ پی پی حکومت نے خود پاکستانی مندوب برائے اقوامِ متحدہ کے ذریعے لشکرِ طیبہ اور جماعتہ الدعوة کے ساتھ کچھ دوسری جماعتوں کودہشتگردقراردلواکران پر عالمی طورپرپابندی لگوانے کی قراردادمنظورکروائی اور اس سلسلے میں ہمسایہ دوست چین کواس قراردادکوویٹو نہ کرنے کا خصوصی پیغام پہنچایا گیا۔
ممبئی حملوں کے بعد فوری طورپرحافظ سعید اورکئی دوسرے افرادکوگرفتارکرلیاگیاتھااوررحمان ملک نے وہی کیاجو ان کے بیرونی آقاؤں کاحکم تھااور الزامات اورجو باتیں کسی جانب سے نہیں کی گئی تھیں،انہیں تسلیم کرکے ایف آئی آرپکی کرا لی، گاڑیاں،کشتی،ٹکٹ،سازوسامان کی خریداری،اسلحہ وغیرہ کی خریدوفروخت کے ثبوت اورسب کچھ فرمادیا،انہیں تو خودکش حملہ آوروں کی نقل وحرکت اورگاڑی کارنگ اورنمبر تک پتہ چل جاتاتھا لیکن پکڑا کوئی نہیں گیا۔ساری دنیا میں یہ واحد اور انوکھی قسم کاوزیرِداخلہ تھا۔ایک مرتبہ پھرامریکاجانے سے قبل ایسی کاروائیاں دہرائی گئی ہیں بلکہ اب تو انسداد دہشتگردی کے الزامات بھی لگادِیئے گئے ہیں جبکہ حافظ سعیدکی گرفتاری پرٹرمپ نے ٹوِئٹ میں سارارزاکھول دیا تھا۔اب پاکستانی قوم کی یہ ذمہ داری ہے وہ اس مسئلے کے حوالے سے جاگتی رہے اورحکومت کواس کی ذمہ داریوں سے منحرف نہ ہونے دے۔