کیاآپ جانتے ہیں کہ دنیاکے غریب اورپسماندہ ممالک کے حکمران،سیاستدان،جرنیل،صحافی،دانشوراور سول سوسائٹی کے علمبردارکیوں سستے داموں بک جاتے ہیں،ان کے ضمیروں کاسودہ مغربی ممالک اورامریکاکے سفارت خانوں میں کن مقاصدکے حصول کیلئے کیاجاتاہے،ان بکاؤافرادکاانتخاب کیسے ہوتاہے اوران ضمیرفروشوں کوکیسے پہچاناجاتاہے،ان کی لالچ حرص اور ہوس کوکیسے سہانے خوابوں کے ساتھ سجایاجاتاہے؟؟؟وکی لیکس کے انکشافات نے تو صرف دنیا کے اس بازاراورمنڈی سے متعارف کروایاہے جہاں بولیاں لگانے والے،وطن کاسودہ کرنے والے،ننگ دیں وننگ ایمان اورضمیر فروشوں کی کوئی کمی نہیں ۔اس نے چندحقائق سے پردہ اٹھایاہے جسے اس ملک کاہرباشعور شہری پہلے سے جانتاتھاکہ اس کی قوم کی تقدیرکوکب، کہاں اور کتنے میں بیچاگیااورکس شخص نے اپنی کیاقیمت وصول کی۔لیکن کیاآپ کوعلم ہے کہ یہ بازارآخرکیوں سجایاجاتا ہے،ان ضمیرفروشوں کی اس قدرعزت افزائی کیوں کی جاتی ہے؟
اس لئے کہ اس دنیامیں صہیونی سرمایہ دارکارپوریٹ کلچر کی ایک حکومت ہے جس نے امریکاکے ایوانوں سے لیکردنیابھر کے میڈیاسمیت سب کواس خاص مقصدکیلئے خریدرکھاہے کہ غریب ممالک کے مجبورومقہورعوام کی جیبوں سے زیادہ زیادہ سرمایہ ان کی جیبوں میں منتقل ہوتارہے۔آخری خون کے قطرے تک نچوڑنے والے اس کارپوریٹ کلچرکاکمال یہ ہے کہ وہ پہلے بڑے مغربی ممالک کی قیادت کوسیاسی جماعتوں کی معاشی مددکے ذریعے خریدتے ہیں پھران کے ذریعے دنیابھرکے غریب ممالک میں ضمیرفروشوں کی حکومتیں قائم کرواتے ہیں۔انہیں مالیاتی اداروں کے ذریعے قرضوں کے بوجھ میں جکڑتے ہیں اورپھرخود موٹے تازہ مردم خوربھیڑیوں کی طرح روزلوگوں کاخون پی پی کرجوان ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 1970ء کے عشرے میں غریب ممالک اپنی تجارت میں امیر ملکوں سے ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر زیادہ کماتے ہیں جسے معاشیات کی زبان میں ٹریڈ سرپلس کہاجاتاہے۔اب غریب ممالک کا خسارہ بیس ارب ڈالرسے تجاوزکر چکاہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیابھرکی چندملٹی نیشنل کمپنیوں نے غریب ممالک کی اجناس تک کا30 فیصد حصہ خریدلیاہے۔تیل اورمعدنیات توویسے ہی انہی چندکمپنیوں کے کنٹرول میں ہیں۔
1990ء کے عشرے میں ضمیرفروش قیادتوں کے ذریعے جونجکاری کی مہم شروع کروائی گئی اس کے نتیجے میں ان غریب ممالک کی دولت اب صرف ایک فیصددولت مند افراد کے ہاتھ میں آگئی ہے جوجب چاہیں چینی آٹے دال کا بھاؤمقررکر دیں ۔ان کمپنیوں نے سب سے پہلے ان ملکوں کو ورلڈبینک اورآئی ایم ایف کے ذریعے مقروض کیااورپھران کوسودکی لعنت میں ایسا پھنسایا کہ 1996ء میں غریب ممالک 6.88کھرب ڈالرسوددیتے تھے اور1999ء میں 4.114 کھرب ڈالراداکرنے لگے اوراب یہ تعداد3سوارب ڈالرسے کہیں زیادہ تجاوزکرچکی ہے۔اس سودکی ادائیگی کیلئے قوم کے لیڈروں سے یہ کہاجارہا ہے کہ یہ بھی ہمیں بیچو،وہ بھی ہمیں بیچو۔اپنامال ہمیں اس بھاؤپرفروخت کرواورہمارامال اس مہنگے دام پراپنے عوام کوفروخت کرکے ان کا خون نچوڑو۔
یہی وجہ ہے کہ دنیامیں آج پچاس فیصدلوگ روزانہ دوڈالریومیہ سے بھی کم آمدن پرزندگی گزارنے پرمجبورہیں۔دوارب لوگوں کے پاس نہ صاف پانی،بجلی، صفائی،اراضی کی ملکیت اورنہ فون ہے۔حتیٰ کہ ان پرکوئی آفت ٹوٹ پڑے توبچانے کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں۔دنیامیں ہرروزچالیس ہزاربچے بھوک اور بیماری سے مرجاتے ہیں۔اس کاروباری گورکھ دھندے میں کوئی ایک سوکے قریب بڑے ادارے شامل ہیں جن میں51ملٹی نیشنل کارپوریشن ہیں۔ان میں سے 47کے ہیڈکوارٹرزامریکامیں موجودہیں اوریہ سب امریکاکی دونوں جماعتوں کوکثیرچندہ دیتے ہیں اورامریکی کی کانگرس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرواتے ہیں۔ دنیاکاساراکاسارامیڈیاان کارپوریشنوں کے اشتہارات اورخفیہ رقوم کامرہونِ منت ہے۔یہ اشتہارات بند کر دیں تومیڈیا کاگلہ یوںبند ہوجائے کہ اس کی آوازتک نہ نکل سکے اورآن کی آن میں سارا میڈیاصفحہ ہستی پر گنگ ہوجائے ۔اسی لئے دنیا کے ہرملک میں امریکی سفیرکسی ملک کے مفادکاتحفظ نہیں کررہاہوتا بلکہ ان ایک سوکے قریب بڑے اداروں کے مفادات کی خاطرکام کرتاہے جواس دنیاکاخون چوس رہے ہیں۔
یہ ادارے ہرغریب ممالک کی قیادت کواپنی طرح کاروباری اداروں میں شریک کرتے ہیں،انہیں مشترکہ فیکٹریوں میں حصے داربناتے ہیں۔انہیں غریبوں کولوٹنے کاگربتاتے ہیں،یوں یہ ضمیرفروش قائدین اس بڑے کلب کاحصہ بن جاتے ہیں جواس دنیا کے وسائل پرقبضہ کرناچاہتاہے۔یہ اپنے ملک کی اجناس کوباہربھجوائیںگے تاکہ سستی خریدی جائے،وہاں ذخیرہ ہوگی، پھر کئی گنامہنگی قیمت پرواپس خریدکرلائیں گے۔ایک ملک سے سستی خریدی گئی گندم یاچینی دوسرے ملک کو مہنگی فروخت کی جائے گی۔
ان تمام کمپنیوں کاطریقہ واردات کمال کاہے۔پہلے کسی بھی ملک کی قیادت کورشوت اورکمیشن کے ذریعے بددیانت بنایا جاتا ہے اورجب ان کے پاس ناجائزآمدنی کاوافرحصہ جمع ہوجاتاہے توانہیں کالے دھن کوسفید کروانے کیلئے کاروبارکروایاجاتاہے۔ جب وہ منافع خوری اورلوگوں کولوٹنے کے اس فن کے تمام اصول سیکھ جاتے ہیں توپہلے اندرونی طورپربلیک میل کرکے کام نکلوائے جاتے ہیں،وہ یہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن جب مطالبات بڑھ جائیں اوریہ ضمیرفروش ذرا ہچکچاہٹ دکھائیں توان کے سکینڈل منظرعام پرآنے لگتے ہیں۔کام چلتارہے توٹھیک وگرنہ انہیں گندے ٹشوپیپرزکی طرح گندگی کی ٹوکری میں پھینک دیاجاتاہے۔ان مطالبات میں سب سے اہم مطالبہ اسلحہ ساز کمپنیوں کاہوتاہےکہ جنگ جاری رکھو،اپنے لوگوں کوآپس میں لڑاؤ۔ کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی پھیلاؤ۔ گزشتہ سوسالوں میں دوبڑی اورکئی سوچھوٹی جنگیں لڑی گئیں۔پہلے جنوبی مشرقی ایشیامیں،پھرجنوبی امریکااوراب مسلم ممالک میں۔
دہشتگردی کی جنگ میں ہماراساتھ دو،اس جنگ میں وہ ہماراخون ہی نہیں بلکہ اپنی رعایاکابھی لہونچوڑتے ہیں۔اس وقت دنیاکے فوجی اخراجات سالانہ 2کھرب ڈالر سے کہیں زیادہ تجاوزکر چکے ہیں اوران میں سے نصف سے زیادہ صرف امریکاکے ہیں،یعنی ہرامریکی مرد،عورت اوربچے کو2100ڈالرسے کچھ زیادہ اداکرنے پڑتے ہیں اوریہ سب رقم ان بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس جاتی ہے جوڈرون بناتی ہیں اورغریب ممالک پرحملہ آورہوتے ہیں۔اسلحے کے تاجر پوری دنیامیں پھیلے ہوئے ہیں۔ایک ہی تاجراسرائیل اورحماس کو،شیعہ اورسنی کو،ہندو اور مسلمان کواورترک اورکردکواسلحہ بیچتاہے۔اسلحہ لوگوں کے گھروں کی دہلیزتک پہنچایاجاتاہے،اس کو استعمال کرنے کی تربیت مفت فراہم کی جاتی ہے اورپھران کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے اورمستزادیہ کہ اس ترسیل کوعالمی تحفظ حاصل ہے۔
یہ داستان بہت طویل ہے۔یہ وہ المیہ ہے جس نے خوراک میں خودکفیل افریقہ کوقحط میں مبتلاکردیااورامن سے رہنے والے ایشیاکولاکھوں لاشوں کانذرانہ۔قارئین اگرآپ کو یادہو تووکی لیکس نے توضمیرفروشوں کے صرف نام ظاہر کئے تھے لیکن ضمیرخریدنے والوں کے چہروں پرابھی تک نقاب پڑاہواہے۔سارامیڈیاان کے ہاتھ میں غلام اورساری سیاسی قیادتیں ان کی زر خریدہیں۔اب کس میں ہمت ہے کہ ان چہروں کو بے نقاب کرے اوردنیاکو درپیش تباہی کے سونامی سے محفوط کرسکے؟ جنوبی ایشیامیں واقع پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اوراس کی نیوکلیر طاقت کا حامل ہوناان بڑے اداروں کو بری طرح کھٹک رہا ہے۔وہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کے مادی وسائل اوراس کے محنتی عوام اس ملک کی تقدیربدلنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ ضمیرخریدنے والی قوتوں کو کیسے گوارہ ہے کہ ایسی زرخیزمنڈی ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کو مسلسل ایک ایسے مصنوعی عذاب میں مبتلا کررکھا ہے کہ ہرآنے والا دن گزرے دن سے بدترہوتاجارہا ہے۔ہمیں نہ صرف غلامی سے بدتر زندگی گزارنے پرمجبورکردیا گیا ہے بلکہ ہماری قومی غیرت کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں ہیں ۔
اس ملک کونیوکلیرصلاحیت سے ہمکنارکرنے والے سائنسدانوں سے ان ضمیرفروشوں نے کیا سلوک کیا؟ڈاکٹر عبدالقدیرکو قومی مجرم بناکر ٹیلیویژن پرپیش کرکے رسواکردیاگیااوردوسری طرف ملک کے انتہائی نامورسائنسدان بشیرالدین محمودکی ماں نے قوم کے سامنے دہائی دی کہ آئندہ کوئی پاکستانی ماں اپنے بچے کوسائنس کی تعلیم نہ دلوائے۔ایک نہتی اوربیکس عافیہ صدیقی کوامریکی جیل میں پھینک کرہم بھول گئے ہیں اورزرداری کے دورحکومت میں ریمنڈ کو انسانی شکارگاہ کی یہ سہولت فراہم کردی گئی کہ اس نے دن دیہاڑے سرعام لاہورمیں ہمارے شہریوں کے سروں میں بڑی بے رحمی سے سوراخ کرکے اپنے شکارکی فلم بنائی اوراس کامعاوضہ اداکرکے باعزت واپس اپنے ملک میں لوٹ گیااوران کارناموں پرفخر کریں کہ وہ ایک نیوکلیرطاقت کے حامل مسلم ملک پاکستان میں انسانی شکارسے لطف اندوزہوسکتے ہیں۔قارئین!اگر آپ کویاد ہوتو چندبرس پہلے امریکی اٹارنی جنرل نے بھری عدالت میں یہ کہاتھاکہ پاکستانی چندہزارڈالر کے عوض اپنی ماں کوفرخت کر دیتے ہیں۔اس وقت بھی پاکستان کے غیورعوام ان ضمیر فروشوں کونہ پہچان سکی اورکیااب بھی یہی کیفیت ہے؟؟؟
لکھتے رہے ہم پھر بھی حکائتِ خونچکاں
ہر چندکہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے