افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء کی بازگشت کے ساتھ ہی خطہ میں امن واستحکام کی جوامیدپیداہوئی تھی،وہ پلوامہ حملے کے بعدبھارت اور پاکستان کے مابین بھڑک اٹھنے والی کشیدگی کے باعث دم توڑتی دکھائی دیتی ہے،بدقسمتی سے ایک ایسے وقت میں جب ہمارے ریاستی ادارے مغربی سرحدوں کے اس پارچالیس سال پرمحیط طویل جنگوں کے مضمرات پرقابو پانے اورمشرقِ وسطیٰ کے خونی تنازعات سے دامن بچانے کی تگ ودو میں مصروف تھے،عین اسی وقت کشمیرکی تحریک آزادی کی مہیب لہریں وادی کی حدودسے نکل کردہلی کے ایوانوں سے ٹکرانے لگیں ،ا یسا لگتاہے کہ تقدیر ایک بارپھرجنوبی ایشیاء کوکسی طویل اورہولناک جنگ کی بھٹی میں جلانے والی ہے،اگرایساہواتویہی جدلیات نہ صرف اس خطے کی تمام مملکتوں کو معاشی ترقی کے نئے امکانات سے محروم کردے گی بلکہ یہ اذیت ناک کشمکش جنوبی ایشیاء کو کئی ناقابل یقین جغرافیائی تبدیلیوں سے بھی دوچارکرسکتی ہے۔ اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ اس وقت کشمیرکاتنازعہ آتش فشاں کے ابلتے ہوئے لاوے کی مانندبہہ نکلنے کوتیارہے،اگر طاقتور پڑوسی ممالک اورعالمی برادری نے اس قضیہ کے پرامن حل کی راہ نکالنے میں کردارادانہ کیاتو دنیابہت جلدغیرمحدودجنگ کے مناظردیکھنے پر مجبورہوجائے گی۔
1947ء میں مسئلہ کشمیربظاہرہندوستان کے بٹوارے کامعمولی جزتھااوراگراسے تقسیم کے فارمولا اورمقامی آبادی کی خواہش کے مطابق نمٹادیا جاتاتودونوزائیدہ مملکتیں ان تین جنگوں سے بچ سکتی تھیں جوتنازعہ کشمیرکی سرگرانی کے باعث پاکستان اوربھارت کے درمیان لڑی گئیں لیکن افسوس کہ اس وقت کے برٹش گورنرجنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اسے محض جغرافیائی تنازعہ سمجھ کردانستہ التواء میں رکھ کرایسی مہیب کشمکش کامحرک بنادیاجس کے مضمرات نے اس خطہ کے پسماندگی ،غربت وافلاس اورنہ تھمنے والے تشددکے حوالے کردیا تقسیم کے فوری بعد1948ء میں پاک بھارت کے درمیان لڑی جانے والی پہلی محدوجنگ کے بعدبھی برطانوی حکومت اگریواین کیاستصواب رائے کی قراردادپر عملدرآمدکرانے میں مددکرتی توبھی یہ خطہ گنجلک تنازعات سے بچ سکتاتھاجنہوں نے جنوبی ایشیاکوایک ایٹمی جنگ کے دہانے پرلاکھڑاکیاہے۔
دوسروں سے کیاگلہ کیاجائے ،خودبرصغیرکی مقامی قیادت کی تنگ نظری اورناتجربہ کاری ہی کشمیریوں کوخودکش حملوں کی منزل تک پہنچانے کاذریعہ بنی۔یہ بھی فطری امرہے ،اگرکسی قوم یاگروہ انسانی کیلئے اپنے جائزحقوق کے حصول کی تمام آئینی وقانونی راہیں بندکردی جائیں تو غاصب قوتوں کے خلاف ان کابندوق اٹھاناجائزہوجاتاہے،مگرافسوس کے اب بھی دنیاتشددکے محرکات کوختم کرنے کی بجائے شورش کوکنٹرول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے حالانکہ دنیاکی واحدسپرپاورامریکادہشتگردی کے اصل محرکات کوایڈریس کرنے کی بجائے بیس سال سے دہشتگردوں کے تعاقب کی مہم چلانے کاتجربہ کرچکی ہے،لاریب،دہشتگردی پرقابوپانے کی عالمی طاقتوں کی جنگی مہمات جوں جوں زورپکڑتی گئیں توں توں انسانی المیے بڑھے،جس سے نفرت وتشددپرمبنی سوچ زیادہ شدت کے ساتھ ابھرکریورپ کے دروازے تک جاپہنچی۔
انڈین حکومت نے طاقت کے استعمال کے ذریعے سترسال میں بنیادی آزادیوں اورحق خودارادیت مانگنے والے کشمیریوں کی تین نسلیں تہہ خاک سلادیں،کشمیریوں کیلئے جنہیں اب فراموش کرنا ممکن نہیں ہوگا؟حریت کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جدوجہدآزادی ٔ میں بھارتی درندہ صفت فورسزکے ہاتھوں شہیدہونے والی کشمیریوں کی تعدادایک لاکھ سے زائدہوگئی ،ریاستی جبرکے خلاف مزاحمت کے باعث کشمیریوں کے کاروباراورتعلیمی ادارے تباہ ہوتےگئے،جس سے بیروز گاری،غربت وافلاس اورمایوسی بڑھتی رہی جس سے پرتشددتحریکوں کوتازہ لہواور افرادی قوت بہم پہنچی ،مستزادیہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ اب اس تنازعہ نے کئی نئی جہتیں بھی اختیار کرلیں ہیں،جن میں دو بہت اہم ہیں،ایک توسندھ طاس معاہدے کے بعدبھارتی حکومت کی جانب سے کشمیرسے نکلنے والے دریاؤں کے دہانوں پرڈیموں کی تعمیرکے ذریعے اس خطہ کے واٹرسورسزپہ مستقل اجارہ داری قائم کرنی کی کوشش نے کشمیرکی تزویراتی اہمیت بڑھادی،ہمارے ہاں بہنے والے تمام دریاؤں کا سرچشمہ ہونے کی حیثیت سے کشمیرکی سرزمین اب پاکستان کی بقاء کاسنٹرآف گرویٹی بن گئی ہے ،اس لئے پاکستان مسئلہ کشمیرسے الگ نہیں ہوسکتا،دوسرے کشمیر تنازعہ میں چین جیسی عالمی طاقت کی تلویث اس ایشوکوایک نیازاویہ دینے کاسبب بن گئی۔مقبوضہ کشمیرکی ساٹھ فیصدآبادی مسلمان،باقی ہندوبرہمنوں اوربدھوں کے علاوہ سکھوں پرمحمول ہے،اس وقت جموں وکشمیرپر مشتمل 45فیصدشمال مشرقی علاقوں پربھارتی گورنمنٹ ،آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان پر مشتمل 35فیصدجنوب مغربی خطہ پرپاکستان کوتصرف حاصل ہے، 20فیصد علاقہ چین کے قبضہ میں ہے چنانچہ مسئلہ کشمیر اب فقط کشمیری عوام کے حق خوداردایت کامسئلہ نہیں رہابلکہ یہ پاکستان کی بقاء اورعلاقائی طاقتوں کے وسیع ترسٹرٹیجک مفادات کامحوربن چکاہے ، تاہم اس مسئلے کاحل آج بھی استصواب رائے میں مضمرہے ۔
کشمیرمیں استصواب کے معاملہ کوالتواءمیں رکھنے ہی سے یہاں وقفہ وقفہ سے احتجاج کی لہریں اٹھتی رہیں،ابتداء میں کشمیری عوام نے جمہوری انداز میں بنیادی آزادیوں اورآئینی حقوق مانگنے کی کوشش کی جسے بھارتی بنئے نے طاقت کے ذریعے کچل دیا،1989ء میں پہلی بارکشمیری نوجوان نے بھارتی جارحیت کے خلاف مسلح جدوجہدکی جس میں محتاط اندازے کے مطابق دس ہزارفوجیوں کے علاوہ سترہزارسے زائدکشمیری زندگی گنوابیٹھے تاہم 16جولائی2017ء کو 22 سالہ کشمیری فریڈم فائٹربرہان وانی کی شہادت نے کشمیری نوجوانوںکونئی امنگ اوراس تحریک آزادیٔ کوغیر محدود توانائی بخشی جس کے بعدپوری وادی بھارتی فوج کیلئے جہنم بنتی گئی ،یہی تغیرخطہ کی تقدیراوربھارتی ریاست کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیاگیا ۔ اب مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارت کے نیم فوجی دستوں پہ خودکش حملہ کے بعد کشمیرکی جدوجہدآزادیٔ ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے جس نے بھارتی ریاست کی قوت قاہرہ کوجھنجھوڑکررکھ دیا۔ پلوامہ فدائی حملہ میں 44بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعدبھارتی حکومت اورسول سوسائٹی کے غیرمعمولی ردّ ِ عمل نے بھارت کے طول وعرض میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرتوں کی خلیج مزیدبڑھادی،خدشہ ہے اگر بھارتی درندہ صفت فورسز پراس قسم کے مزیدحملے ہوئے تویہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا،بظاہرایسالگتاہے کہ جوں جوں کشمیر پربھارتی حکومت کی گرفت کمزورہوتی جائے گی توں توں مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کے امکانات دورہوتے جائیں گے اور بھارتی ریاست کشمیری مسلمانوں کے جذبہ آزادی کاسامناکرنے کی بجائے اس قضیئے کو پاکستان کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کرے گاجودوایٹمی ملکوں کے درمیان تصادم کاسبب بنے گی۔
اب بھی وقت ہے کہ بھارت کوجیواورجینے دوکے اصول کوتسلیم کرتے ہوئے استصواب رائے کا حق دے دیناچاہئے۔اگربھارت یہ سمجھتاہے کہ وہ کشمیرسے نکلنے والے دریاؤں پرڈیم بناکرپاکستان کوپانی کے حق سے محروم کرنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردے گاتویہ اس کی غلط فہمی ہے۔ پاکستان جنگ کے خوف یاطریقہ کارکے ہتھکنڈوں سے گھبراکراپنی بقاء کے تقاضوں اور کشمیری مسلمانوں کے حق خودارادیت کی حمائت سے دستبردارنہیں ہوگا۔
Load/Hide Comments