اک نیافتنہ

:Share

ہمارے ہاں معاشی ناہمواریوں کے سبب کئی ایسے مسائل ہیں جن سے روزمرہ زندگی میں کئی حادثات جنم لیتے ہیں لیکن جہاں دولت کی فراوانی اور زندگی کی دوسری تمام آسائشیں موجود ہوں وہاں بچوں کانہ صرف اپنے ماں باپ، معاشرے سے بلکہ دین سے بغاوت کی غیرمعمولی خبریں چونکا دیتی ہیں۔ سعودی حکومت اوروہاں کے معاشرہ کیلئے یقینا ًنئے سال کے آغازمیں ہی عالمی میڈیاکی زینت بننے والی افسوسناک خبرنے سب کو دہلا کررکھ دیاکہ کس طرح ایک18سالہ بچی رہف محمدالقنون نے سعودی عرب سے بھاگ کرتبدیلی مذہب کے ساتھ کینیڈا میں پناہ لے لی،اس طرح انسانی حقوق کی نام نہادعالمی این جی اوزنیٹ ورک نے سعودی عرب میں معاشتی نظام کودھچکادینے کیلئے معاشرتی بغاوت پرآمادہ سعودی نوجوان لڑکیوں کوکینیڈامیں جمع کرکے سعودی عرب کی نوجوان لڑکیوں کوعمومی طورپرسعودی معاشرتی نظام کے خلاف بغاوت پرتیارکرنےاورتربیت کے بعدان کے ذریعے سعودی معاشرے میں مغربی تہذیب کوفروغ دینے کیلئے موجودہ معاشرہ کے مذہبی نظام کوپلٹنے کے منصوبے کاانکشاف ہواہے۔
سعودی گورنرکی 18سالہ بیٹی رہف محمدالقنون جومغربی تہذیب کی دلدادہ اورموجودہ سعودی معاشرے سے متنفر،سعودی عرب سے کویت فرار ہونے کے بعدبنکاک تھائی لینڈ پہنچ گئی جہاں وہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے تعاون سے کینیڈاپہنچ گئی جہاں اس کااستقبال کینیڈا کے وزیربرائے انسانی امورامیگریشن نے کیااوراس مفرورلڑکی کی میزبانی کرتے ہوئے اسے صبح ناشتے میں کھانے کیلئے سورکاگوشت اورپینے کیلئے شراب سے تواضع کی گئی اوربعدازاں انسٹاگرام پران تمام مناظرکی تصاویرشیئرکرکے انسانی ہمدردی کے پردے میں خباثت کااظہار کرکے بالخصوص سعودی عرب اوربالعموم تمام مسلمانوں کوخوب شرمندہ کیاگیامفرورلڑکی نے کینیڈامیں پناہ لینے کے بعدمختلف خبررساں اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے فرارکی یہ وجہ بتائی کہ وہ خاندانی روایات ،والدین اوربھائیوں کی سختی اورآزادروی کے خلاف تنگ نظری سے نفسیاتی اورذہنی مشکلات میں مبتلاہو گئی تھی،اس لئے اس نے اس معاشرے سے دوربھاگنے میں ہی عافیت سمجھی اورفیملی سمیت کویت جانے کے دوران تھائی لینڈ کاٹکٹ خفیہ طورپرخریدا،اور جب سب گھروالے سو رہے تھے ،وہ ہوٹل سے فرارہوکرتھائی لینڈپہنچ گئی لیکن اس سے قبل اپنے دوستوں کوتفصیل سے آگاہ کر دیا تھا۔اس لئے تھائی لینڈکے جس ہوٹل میں ٹھہری تھی وہاں انسانی حقوق کے کارکن پہنچ گئے اوریوں میں آزادتہذیب کے دلداہ لوگوں میں پہنچ گئی اور اپنی جیسی بے شمارآزادی کی خواہش رکھنے والے سعودی نوجوان لڑکیوں اورلڑکوں کوآزادکرانے کی کوششیں کرنے کاعزم رکھتی ہوں۔
باغی لڑکی نے آسٹریلیوی چینل آئی بی ایس کوبھی انٹرویودیا،اس میں بھی اس نے فرارکاجواز معاشرتی مظالم کوقراردیااورکہاکہ وہ سعودی عرب کے ”گھٹن زدہ”معاشرے میں مصائب جھیلنے والی لڑکیوں کیلئے آئیڈیل بنناچاہتی ہے،وہ چاہتی ہے کہ سعودی عرب کی ایسی خواتین،لڑکیاں جرأت کا مظاہرہ کریں اورمغربی ممالک کارخ کریں جہاں کاآزاد معاشرہ ان کے خوابوں کی تعبیر لئے منتظرہے اوریہاں وہ اپنی مرضی کی زندگی اوربیجا پابندیوں سے آزادخوشحال زندگی گزار سکے گی۔ اس نے مزیدکہاکہ میں جب رات کو نکلی جب سب سو رہے تھے۔ اگر کسی کو اندازہ ہو جاتا کہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں تو مجھے مارا جا سکتا تھا ۔یہ پہلا موقع تھا کہ میں جہازمیں بیٹھی تو مجھے یہ خوشی بھی ہورہی تھی کہ میں گھٹن کے ماحول سے ہمیشہ کیلئے آزادہوگئی ہوں اورمیری منزل اب ایسی جگہ ہے جہاں میں اپنی مرضی کی خوشحال زندگی گزاروں گی۔
جب میرے والد کو احساس ہوا کہ میں گھر پرنہیں ہیں تو انھوں نے پولیس کو اطلاع کی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی چونکہ میں وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر ان کے اکاؤنٹ میں ان کا فون نمبر تبدیل کر چکی تھی اس لیے جب ا نتظامیہ نے انھیں کال کرنے کی کوشش کی تووہ دراصل مجھے کال کررہے تھے۔جب میں نے لینڈکیاتومجھے پولیس کی جانب سے پیغامات موصول ہوئے جومیرے والدکوبھیجے گئے تھے۔ ادھرباغی لڑکی کے اہل خانہ نے اپنی بیٹی سے برأت کااظہار کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کیلئے عاق کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اپناخاندانی نام بالکل استعمال نہ کرے اورنہ ہی خود کوسعودی قبیلے سے منسلک کرے۔اب وہ ان کیلئے اجنبی بن چکی ہے اوراسے کبھی واپس نہیں لیاجائے گا۔
کینیڈاکے حکام نے دعویٰ کیاہے کہ باغی سعودی لڑکی کوجان کے خطرہ کے پیش نظررکھتے ہوئے نہ صرف پناہ دی گئی ہے بلکہ سیکورٹی گارڈبھی فراہم کردیاگیاہے۔ایک سعودی ادارے نے دعویٰ کیاہے کہ کینیڈاکافی عرصے سے سعودی عرب کے اندربدامنی اورمعاشرتی عدم استحکام کوبڑھاوادے رہاہے اورریاض میں واقع کینیڈاکاسفارت خانہ اس سازش میں مصروف تھا۔اگست 2018ء میں کینیڈاکے سفارت خانے نے سعودی عرب کے داخلی معاملات ویب سائٹ پرشائع کرکے انسانی حقوق کی آڑمیں سعودی معاشرے کوہدف بنایاتھاجس کے بعدسعودی عرب نے 24 گھنٹوں میں ان افراد کوملک سے نکال دیااورٹورنٹومیں اپناسفارتخانہ بھی بندکردیااورتمام سفارتی، تجارتی وسیاسی تعلقات ختم کردیئے۔ سعودی عرب کے ہزاروں طلباء طالبات کو جوکینیڈامیں سعودی حکومت کے خرچ پرتعلیم یاکوئی تربیتی ڈگری یاڈپلومہ حاصل کررہے تھے ،انہیں فوری طورپردوسرے ملکوں میں تعلیم مکمل کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔اس کے علاوہ کینیڈاسے اسلحہ کی ایک بہت بڑی ڈیل کاسودہ بھی منسوخ کردیاجس کے باعث کینیڈاکے تین ہزارسے زائد باشندے بیروزگارہو گئے جبکہ اسکالرشپ کے میدان میں بھی کینیڈاکوکئی ارب ڈالرکاخسارہ ہوا لیکن کینیڈانے اپنی روش کونہیں بدلااورانتقاماًزیادہ سرگرمی سے سعودی معاشرے کودرہم برہم کرنے کی مغربی ممالک کی مشترکہ ہم جوئی کرنے لگا۔خلیجی ممالک کے امور کے ماہرین کایہ کہناہے کہ مغربی ممالک کے نام نہادآزادی اورانسانی حقوق کے نام پرمعاشرتی نظام رکھنے والے مسلم ممالک کونشانہ بناتے ہیں اورانہیں دباؤمیں رکھنے کیلئے ہروقت عالمی سطح پرکوئی نہ کوئی ایشوبنائے رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں