میانمار میں ایک زمانے سے روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے کاسلسلہ جاری ہے۔میانمارکی سیکورٹی فورسزنے سرکاری پالیسی کے تحت روہنگیامسلمانوں کوختم کرنے میں کوئی کسراٹھانہیں رکھی ہے۔انہیں تیسرے یاچوتھے درجے کاشہری بنادیاگیاہے۔میانمارکی سرکاری مشینری انہیں قبول کرنے کیلئے تیارنہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میانمارکی سرزمین پرروہنگیا مسلمان صدیوں سے آباد ہیں۔ان سے کہاجارہاہے کہ بنگلا دیش چلے جائیں کیونکہ وہ وہیں سے آئے ہیں۔میانمارمیں نسلی تطہیر سے بچنے کیلئے آٹھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے بنگلادیش میں پناہ لے رکھی ہے۔ 40 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان بھارت بھی پہنچے جن میں سے 15 ہزار پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن سے باضابطہ رجسٹرڈ ہیں۔2012ء میں7 روہنگیا مسلم نوجوانوں نے میانمار کی سیکورٹی فورسز کے مظالم سے تنگ آکر جان بچانے کیلئے بھارت کی ریاست آسام کا رخ کیا۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کی۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسے لوگوں کو جیلوں میں نہیں بلکہ کیمپوں میں رکھا جاتا ہے اور بین الاقوامی ادارے ان کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ آسام کی حکومت نے ان ساتوں مسلمانوں کو جیل میں رکھا اور اب 3/اکتوبر 2018ء کو انہیں میانمار کے سرحدی حکام کے حوالے کردیا۔
انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو میانمار کے حوالے کرنے کی صورت میں ان کی زندگی کو لاحق خطرات بیان کرکے ایک پٹیشن بھارت کی عدالتِ عظمیٰ میں دائر کی گئی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ انہیں میانمار کی فورسز کے حوالے نہ کیا جائے مگر عدالتِ عظمیٰ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے ساتوں مسلمانوں کو میانمار کے حوالے کرنے کیلئے گرین سگنل دے دیا۔
ادھربھارتی منافقت کایہ عالم ہے کہ 3/اکتوبر2018ء کو جنیوا (سوئٹزر لینڈ) میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے سالانہ اجلاس میں بھارتی مندوب نے اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئےبیان دیاکہ ہم ایک ذمہ دار جمہوری اور قانون پسند ریاست ہیں اور اُسی دن بھارتی حکام نے روہنگیا نسل کے سات مسلمانوں کو میانمار کے حکام کے حوالے کردیا۔ ان ساتوں مسلمانوں کو2012ء میں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے پرگرفتارکیاتھا مگر یہ بھی دیکھاجاناچاہیے تھا کہ انہوں نے سرحد کسی اور مقصد کے تحت نہیں بلکہ جان بچانے کیلئے عبور کی تھی۔ زیادہ شرمناک بات یہ تھی کہ ان ساتوں مسلمانوں کووکیل کی خدمات فراہم کی گئیں نہ انہیں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن سے اندراج کا موقع دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے بلاجواز اور غلط تھا کہ بھارتی حکومت میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کو رجسٹر بھی کرتی ہے اور انہیں کیمپوں میں رکھنے کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ ایسے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ان ساتوں مسلمانوں کو میانمار کے حوالے کیوں کیا گیا۔
جن سات مسلمانوں کو میانمار کے حوالے کیا گیا انہیں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے پر تین ماہ کیلئے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں انتظامی حراست میں دے دیا گیا۔ انہیں میانمار کے حوالے کرنا اس لیے بہت حیرت انگیز امر ہے کہ روہنگیا سے آنے والے مسلم پناہ گزینوں کو بڑے پیمانے پرمیانمار کے حوالے کرنے کے بھارتی حکومت کے منصوبے کو روکنے کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ میں ایک درخواست پہلے ہی زیر التوا ہے۔ ایسے میں عدالت عظمیٰ نے سات مسلمانوں کو میانمار کے حوالے کرنے کی منظوری کیوں دی؟
سات روہنگیا مسلمانوں کومیانمارکے حوالے کرنے سے روکنے کی پٹیشن 29ستمبر کودائر کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے سماعت کیلئے 4/اکتوبرکادن مقررکیاتھاجبکہ حکومت پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ ان ساتوں افرادکو13/اکتوبرکو میانمارکے حوالے کردیاجائے گا۔آسام کےحکام نے دعویٰ کیاتھاکہ 2016ءمیں ان ساتوں روہنگیا مسلمانوں نے اپنے وطن جانے کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ اپنے اہل خانہ سے مل سکیں۔ بہرکیف یہ متعصب بھارتی حکومت کاظالمانہ قدم ہے جس پرانسانی حقوق کی طرف سے بھرپورمذمت کی جارہی ہےاور بھارتی عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے اصولوں سے رُو گردانی کی ہے۔ بھارت کی کئی عدالتوں نے پناہ گزینوں سے متعلق کیسز میں بین الاقوامی تسلیم شدہ اصولوں کا خیال رکھا ہے۔ ارونا چل پردیش میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے دائر کردہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریاستی ہائی کورٹ نے پناہ گزینوں کی ملک بدری رکوائی۔ کئی دوسری بھارتی عدالتوں نے بھی پناہ گزینوں سے متعلق ایسے ہی فیصلے سنائے ہیں۔
آسام کی حکومت کا یہ کہنا بھی انتہائی نامعقولیت کی دلیل ہے کہ جنہیں میانمار کے حوالے کیا گیا وہ غیر قانونی تارکین وطن تھے۔ جب کسی ریاست میں ظلم و جبر کا بازار گرم ہو اور نسلی تطہیر کا معاملہ ہو تو لوگ ہنگامی طور پر کسی بھی قانونی دستاویز کے بغیر ہی سرحد عبور کرکے کسی دوسری ریاست میں داخل ہوتے ہیں۔ معاملہ جان بچانے کاہوتاہے۔ایسے میں قانونی اورغیرقانونی کی بحث کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔اس نکتے کوذہن نشین رکھاجائے توسات روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کے حوالے کرنابھارت کے آئین اوربین الاقوامی قانون دونوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ آسام کی حکومت کایہ کہنابھی بالکل غلط ہے کہ جن سات روہنگیامسلمانوں کوگرفتارکیاگیاتھاوہ میانمارکے شہری تھے اس لیے انہیں میانمارکے حوالے کردیاگیا۔جولوگ ریاستی جبرسے جان بچا کر کسی دوسری ریاست میں داخل ہوتے ہیں وہ عام طورپراپنی ریاست کے باضابطہ شہری ہی ہوتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر انہیں ڈی پورٹ نہیں کیا جاسکتا۔
بھارتی قوانین میں پناہ گزینوں کے حقوق سے متعلق کافی صراحت موجود نہیں۔ اس حوالے سے بھارتی اورعالمی قانون سازاداروں کواپناکردارادا کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی ملک سے جان بچاکر آنے والوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی راہ ہموارہوسکے اوراس حوالے سے بھارت کی ریاستی مشینری کوایسے ظالمانہ کردارکی عالمی اداروں میں جوابدہی کیلئے طلب کیاجاسکے اورعالمی ادارے مستحسن طریقے سے بین الاقوامی قانون کی پابندی کی ذمہ داری کاکراداراداکریں تاکہ ان اداروں کی عملداری کا بھرپور تاثر قائم ہوسکے۔
Load/Hide Comments