یہودوہنود…ایک ہی سکے کے دورخ

:Share

اسرائیل کاکرداراس نائکہ جیساہے جوشہرکے تمام لوگوں کویہ کہہ کرکوستی رہی کہ اس بستی میں تواب”شرفا”کی زندگی حرام ہوکررہ گئی جب ایس ڈی اوزاورایگزیکٹوسے لیکرہرشعبہ زندگی کاچوہدری ہمارے دھندے کی باگ ڈورسنبھال لے گاتوکوئی بتائے کہ ہم ”شرفا”کہاں جائیں گے۔ اسرائیل کی شرافت کوکون نہیں جانتاکہ اس وقت دنیابھرکے امن کوسب سے زیادہ خطرات اس کی پالیسیوں سے لاحق ہیں اوربالخصوص عالم اسلام کاہروہ ملک جوترقی کی راہ پرگامزن ہونے کی کوشش کرتاہے ،کسی نہ کسی بہانے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے مذموم سازشوں کا جال بچھانے کیلئے ہروقت مستعد رہتا ہے۔اسرائیل کی پارلیمنٹ نے گزشتہ دنوں ایک نیابنیادی کانوائے بنایاہے جس کے تحت اسرائیل کو” یہودیوں کی قومی ریاست”بنادیاگیاہے۔اس قانون کے تین اہم ترین نکات ہیں:
(1)ریاست کادارلحکومت یروشلم(بیت المقدس)ہوگااوریہ مکمل اورمتحدریاستی دارلحکومت ہوگا ۔ (2)یہودیوں کی قومی ریاست ان یہودیوں کے تحفظ کااہتمام کرے گی جواپنی یہودیت کی بناء پر مشکلات کاشکاریاگرفتارہوں گے۔(3)ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ غیر ممالک میں مقیم یہودیوں سے تعلقات استوارکرے تاکہ ان کے اورریاست کے مابین محبت اوربھائی چارہ پیداہو۔(4)یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ غیر ممالک میں مقیم یہودیوں کے جان ومال ،ثقافتی،تاریخی اورمذہبی روایات کاتحفظ کرے۔ریاست یہودی آبادکاری کوایک اہم قومی اثاثے کی حیثیت سے دیکھتی ہے اوریہودی آبادکاری کی حوصلہ افزائی کرے گی اوران کی تعمیرات کوفروغ دے گی۔(5)ریاست کاکیلنڈرعبرانی ہو گاتاہم عیسوی کیلنڈربھی اس کے ساتھ استعمال کیاجائے گا۔(6)”یوم آزادی” ریاست کی مکمل چھٹی کادن ہوگااوردیگریادگاری دن جویہودیوں کی اسرائیلی جنگوں میں قربانیوں ، ہولوکاسٹ اورہیروزکی یادگارکے دن سرکاری طورپرمنائے جائیں گے۔(7)”یوم سبت”(بروزہفتہ )اسرائیل کے دیگرایاّم فیسٹیول آرام کے دن ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کے منظورکردہ اس نئے قانون نے دنیابھرمیں بے چینی کی لہرپیداکردی ہے اس لئے کہ یہ نسل پرست قوانین ہیں جوانسانی حقوق کی پامالی کولازمی قراردیتاہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں تقسیم فلسطین کے جس فارمولے کے تحت وجودمیں لایاگیاتھاوہ اس کے برعکس پورے فلسطین پرقابض ہوگیاہے۔1948ء کے فارمولے میں مغربی کنارہ اورغزہ پرمشتمل فلسطین اورشمال مغرب میں واقع علاقوں پرمشتمل اسرائیل جبکہ اسرائیل کے اندرعرب علاقوں اوریروشلم (بیت المقدس) کوبین الاقوامی نگران انتظامیہ کے تحت غیرجانبدارعلاقہ بنناتھا،یہ ہی فلسطینی عرب مسلمانوں کے ساتھ بڑی زیادتی اورناانصافی تھی اوراسے بھی فلسطینیوں نے ماننے سے انکارکردیاتھا جس کے نتیجے میں پہلی عرب اسرائیلی جنگ چھڑگئی تھی اوربعدمیں غزہ پرمصر،مشرقی یروشلم پراردن اورمغربی کنارے پراسرائیل قابض ہوگیاتھا۔بعدازاں1962 ء میں دوسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے نہ صرف سارے فلسطین پرقبضہ کرلیاتھابلکہ اس نے شام اورمصرکے کچھ علاقوں پربھی قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی قراردادکے مطابق فلسطین کی ریاست وجودمیں ہی نہیں آئی بلکہ اسرائیل کی مرضی ومنشاء سے منظورکی جانے والی اس قراردادکے باوجوداسرائیل نے وہ علاقہ بھی ہتھیالیاجوفلسطینیوں کوملناتھا۔اس وقت سے اب تک اس علاقے پراسرائیل کاہی ناجائزقبضہ چلا آ رہاہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کے حالیہ متذکرہ قانون میں یروشلم کواسرائیل کادارلحکومت قراردیاگیاہے یہ بھی بین الاقوامی قانون کے صریحاًخلاف ہے کیونکہ وہ تواسرائیل کاحصہ ہی نہیں،اس سے قبل 1980ء میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی تھی لیکن ایک متفقہ منظورکردہ قراردادکے ذریعے جو پاکستان نے پیش کی تھی،سلامتی کونسل نے اس قانون کوتسلیم کرنے سے انکارکر دیا تھا لیکن گزشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ نے اپناسفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کافیصلہ کیاجس کے بعداسرائیل متحرک ہو گیااوراسرائیلی پارلیمنٹ نے نیابنیادی قانون وضع کرکے یہودی قومی ریاست کی بنیادرکھ دی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے فلسطین کودوریاستوں میں تقسیم کرنے کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں۔علاوہ ازیں یہ قانون اسرائیل کے عرب شہریوں کے انسانی حقوق کوپامال کررہاہے جن کی آبادی18لاکھ سے متجاوزہے۔
اسرائیل کی فلسطین کے پورے علاقوں پرقبضہ اورعربوں کے تیل کے وسیع وعریض ذخائرپر اسرائیلی قبضہ اس بات کی ضمانت بھی ہے کہ اس کی بناءپرمغرب کے اسلحہ سازی کے کارخانے دن رات تواترسے رواں دواں رہتے ہیں جوایک طرف مغربی نوجوانوں کوپکی نوکریاں فراہم کرتے ہیں تو دوسری طرف اسلحہ کی من مانی داموں پرفروخت سے مغربی معیشت ہمہ وقت عروج پر رہتی ہے۔اسرائیل کے قیام کے روزِاوّل سے ہی ان کی ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ فلسطین سے عربوں کی شناخت کورفتہ رفتہ بالکل ختم کردیاجائے۔واضح رہے جس معاہدے یاسفورکے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں لایاگیاتھااس وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعدادآٹھ لاکھ تھی جواب ایک کروڑکے لگ بھگ ہوگئی ہے جبکہ اسرائیل میں بیس فیصد عرب مسلمان اورعیسائی بھی موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں