امریکاکے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیونےکہاہے کہ اگرطالبان امن مذاکرات کاحصہ بنے توٹرمپ انتظامیہ طالبان کے ساتھ افغانستان میں امریکی اوربین الاقوامی فورسزکے کردارپربات کرسکتی ہے اورامریکا،افغانستان حکومت کے ساتھ مل کرطالبان سے امن مذاکرات اورسیاسی استحکام کیلئے آمادہ ہیں ۔خیال رہے کہ طالبان کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہاہے کہ افغانستان سے امریکا اوراس کے اتحادی ممالک کی فورسزکے انخلاکے بغیرامن مذاکرات کی گنجائش موجودنہیں ہے۔گزشتہ ہفتے طالبان کے رہنما بیت اللہ اخونزادہ نے واشنگٹن پرزوردیاتھاکہ افغان حکومت کونکال کرطالبان قیادت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرے۔عالمی سیاسی تجزیہ نگاراس حیرت انگیزامریکی تبدیلی کوجہاں خوش آئندقراردے رہے ہیں وہاں افغانستان میں 17سال سے موجود امریکاکی بالآخرپسپائی سے تشبیہ دیتے ہوئے طالبان کی جیت قراردے رہے ہیں کہ ان کی شرائط پرنہ صرف امریکا نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں بلکہ براہِ راست مذاکرات پربھی آمادگی کاعندیہ بھی دیاہے بلکہ افغانستان میں امریکاکی موجودگی اوراس کے قیام کا تعین کرنے پربھی رضامندہے۔ افغان حکومت اورافغان طالبان کی جانب سے عیدالفطرکے احترام میں جنگ بندی کے دوران افغان طالبان کی جانب سے بھرپور قوت کامظاہرہ کرنے اوردارلحکومت کابل سمیت کہیں پربھی حملہ نہ کرنے پرعملدرآمداوراپنی بات پرقائم رہنے پرامریکی وزارتِ خارجہ نے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکاافغان حکومت اورافغان طالبان کے مابین جنگ بندی کاخیرمقدم کرتاہے اورحالیہ جنگ بندی کے بعداس بات پرآمادہ ہے کہ افغان حکومت اورافغان طالبان کی جنگ بندی کوتوسیع دی جائے اورساتھ ہی امریکاکی افغانستان میں موجودگی اوربین الاقوامی فوج کے کردارکاتعین اوران کے قیام کے حوالے سے بھی بات چیت ہوسکتی ہے ۔
امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ اوروزیرخارجہ مائیک پومپیو نے افغان صدراشرف غنی کوپیغام ارسال کیاہے کہ امریکاافغان طالبان کی اس بات پرغور کرنے کیلئے تیارہے کہ امریکی افواج کے قیام کے حوالے سے بات چیت کی جائے اوراس بات چیت پرافغان حکومت ،طالبان اورامریکابراہِ راست مذاکرات کرسکتے ہیں۔امریکاکی جانب سے یہ عندیہ کہ امریکا بین الاقوامی فوج کے کردار کے تعین کیلئے تیارہے نہ صرف طالبان کی کامیابی ہے بلکہ اس سے نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ 17سال کے بعدامریکانے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور براہِ راست مزاکرات پرآمادہ ہوگیاہے۔امریکااس سے قبل خود کوفریق تسلیم نہیں کرتاتھااورامریکاکایہی مطالبہ رہاکہ افغان طالبان اورافغان کٹھ پتلی حکومت آپس میں مذاکرات کریں۔امریکاگزشتہ 17 سالوں سے اپنے لاکھوں فوجیوں اوراتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام رہاجبکہ طالبان افغانستان کے 47فیصد سے زائد علاقے پرنہ صرف قابض ہوگئے ہیں بلکہ امریکااورااس کے اتحادیوں کواربوں ڈالرکے نقصان کے ساتھ ساتھ خاصاجانی نقصان بھی اٹھاناپڑاہے اورافغانستان میں دن بدن حالات خراب سے بدترہوتے جارہے ہیں۔
افغانستان میں ایک طرف داعش اوردیگر تنظیمیں پنپ رہی ہیں تودوسری جانب امریکی حملوں میں عام لوگ جاں بحق ہورہے ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان نے امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان پر ردّ ِعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ افغان طالبان افغانستان میں ہرقسم کے مذاکرات کیلئے تیار ہیں تاہم وہ امریکاکے ساتھ مذاکرات کرناچاہتے ہیں کیونکہ امریکا ہی افغانستان میں اصل فریق ہے ۔افغان طالبان کاکہناہے کہ اگرامریکا افغانستان سے پرامن انخلاء میں سنجیدہ ہے توفوری طورپر مذاکرات کی میزپرآجائے تاکہ جارحیت کے مزیدالمیے کوختم کیاجاسکے جس کابڑانقصان جہاں پرامن افغان کاہورہاہے وہاں امریکی بھی جانی ومالی نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔ افغان طالبان کا یہ کہناہے کہ اب امریکیوں کی یہ غلط فہمی دورہوجانی چاہئے کہ ہرمعاملہ یامسئلہ بزورطاقت سے حل نہیں کیاجاسکتا اورنہ ہی نتیجہ خیزہوسکتاہے۔کم ازکم افغانستان میں اسے اپنی غلط پالیسیوں کا ادراک تو ضرور ہوگیاہوگا۔امریکاکویہ بات تسلیم کرناہوگی کہ جس طرح روسی جارحیت کے خلاف افغانوں کی جدوجہدجائزتھی اسی طرح امریکی جارحیت کے خلاف بھی افغان کی جدوجہد بالکل درست ہے اورانہیں کوئی بھی اس کام سے نہیں روک سکتا۔
افغان طالبان چاہتے ہیں کہ افغان عوام اپنے پاؤں پرکھڑے ہوں،عوام کوروزگارملے ،معیشت ترقی کرے،عوام کواپنے ملک میں رزقِ حلال کمانے کے امکانات میسرہوں،کارخانوں کاقیام اورفیکٹریاں قائم کی جائیں تاکہ افغانستان میں معیارتعلیم ،شرعی نطام اوروقارکے ساتھ زندگی میسرہو۔ افغان طالبان نے مزیدکہاکہ امریکاکی جانب سے براہِ راست مذاکرات کاعندیہ طالبان کی قربانیوں کاثمر ہے تاہم اس کے باوجودجنگ بندی سے ایک روزقبل امریکانے غزنی میں طالبان کے ریڈیواسٹیشن کونشانہ بنایاہے جس سے یہ بات ظاہرہے کہ امریکاہرصورت طاقت کےاستعمال کوہی جائز سمجھتاہے۔ اگرامریکاواقعی افغانستان کاحل چاہتاہے تواسے کھل کرمذاکرات کی دعوت دینی چاہئے اورایساماحول بھی پیداکرناچاہئے جس سے اس کی سنجیدگی کاپتہ چلے۔افغان طالبان دنیاکے کسی بھی گوشے میں امریکاسے بات چیت کیلئے تیارہیں کیونکہ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب عیدکے روزافغان طالبان نے پورے افغانستان میںنہ صرف اپنی دھاک بٹھادی بلکہ پہلی بارامریکااورافغان حکومت کے اس پروپیگنڈے کاتوڑبھی کردیاہے کہ افغان طالبان غیرملکی جنگجوؤں پرمشتمل ہے اورہمسایہ ممالک کے کہنے پرلڑرہے ہیں۔17سال بعدافغان طالبان کے دستے کابل میں داخل ہوئے اورانہوں نے کابل داخل ہوتے ہی وزارتِ داخلہ کے قریب چیک پوسٹ پراپناتمام اسلحہ جمع کروادیااورمقامی کمانڈروں کی قیادت میں وزیرداخلہ اویس برمک کے ساتھ نہ صرف ملاقات کی بلکہ عیدکی مبارکبادبھی دی ،افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے طالبان کا مؤقف پیش کیا۔اس موقع پراویس برمک اورافغان کمانڈروں کی مشترکہ تصویربھی جاری کی گئی۔اس موقع پردنیا بھرکے ذرائع ابلاغ نے یہ دکھایاکہ کابل کے اندر تمام طالبان کمانڈرزاوران کے ساتھی ناصرف افغان ہیں بلکہ مقامی لوگ ہیں اورانہوں نے یہ ثابت کردیاکہ وہ کابل میں نہ صرف موجودہیں بلکہ ایک کثیرتعدادکاتعلق کابل اوراس کے مضافات سے ہے۔اسی طرح کابل کے علاوہ قندھار،گزنی،بدخشاں،سرائے پل، فاریاب،ہرات،ننگرہار،لغمان اوردیگر صوبوں میں بھی دارلحکومتوں میں آئی جی افسرز،کورکمانڈرزکے دفاترکے سامنے سینکڑوں گاڑیوں میں طالبان نمودارہوئے اورانہوں نے اپنااسلحہ افغان فوج کے حوالے کرکے ان تمام آفیسر سے ملاقات کرکے انہیں عیدکی مبارکبادپیش کی اورافغانستان میں قیام امن کیلئے اپنے مؤقف کودہراتے ہوئے تجاویز بھی پیش کیں۔
اس موقع پرنہ صرف افغان عوام بلکہ دنیابھی حیران ہوگئی کہ ہزاروں افغان طالبان کس قدر خاموشی کے ساتھ کابل اوردیگرعلاقوں میں امڈآئے اور حیران تھے کہ کس دیدہ دلیری کے ساتھ انہوں نے اپنااسلحہ افغان فوج کے حوالے کیااورملاقاتیں کرکے اپنااسلحہ واپس لیکرخاموشی کے ساتھ واپس لوٹ گئے لیکن دنیابھرکے ذرائع ابلاغ نے بھی بغورمشاہدہ کیاکہ ان میں سے ایک بھی غیرافغان نہیں تھا۔ دراصل افغان طالبان نے نہ صرف افغان عوام کویہ پیغام دیاہے کہ وہ افغان عوام کے ساتھ پرامن رہنے کیلئے کبھی بھی ان کسی نقصان پہنچانے کے حق میں نہیں اوراس کے ساتھ ساتھ افغان پولیس اورفوج کوبھی یہ پیغام دیاکہ ہم ایک ہیں لیکن امریکی افواج کی موجودگی اورمدد ان کی زندگیوں کیلئے خطرہ ہے اورموجودہ قتل وغارت وخانہ جنگی صرف امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے ہے۔یہاں بھی افغان پولیس اورافغان فوج نے افغان طالبان کے ساتھ بڑے شوق سے تصاویربھی بنوائیں جوبعدازاں میڈیاکی بھی زینت بنیں جبکہ پکتیااوردیگرعلاقوں میں مشترکہ طورپرعلاقائی رقص بھی کیاجوایسے خوشی کے تہواروں کے مواقع پرمنعقدکیاجاتاتھالیکن پچھلے کئی برسوں سے یہ سلسلہ بندہوچکاتھا۔اس موقع پردنبے اوردیگرجانوربھی ذبح کئے گئے جس سے ایک بہت بڑی ضیافت کااہتمام بھی کیاگیا۔
افغان طالبان نے افغان فوج اورپولیس کے اعلیٰ حکام کویہ بھی بتایاکہ وہ اپنی بات پراس لئے قائم ہیں کہ سیزفائرکے اعلان کے بعداسلحہ فوج کے حوالے کیااورواپسی پراپنااسلحہ وصول کرنے کے بعدخاموشی کے ساتھ کابل کوچھوڑدیا۔اس عمل میں فغان حکومت کوبھی یہ پیغام دیاگیاہے کہ افغان طالبان جنگ نہیں بلکہ افغانستان کوایک فلاحی ریاست بناناچاہتے ہیں۔اس حوالے سے نہ صرف افغان طالبان نے جنگ بندی پرمکمل عملدر آمدکیابلکہ تین دن سے زائدجنگ بندی میں توسیع سے بھی انکارکردیا۔افغان صدرنے مزیدجنگ بندی میں توسیع کی درخواست بھی کی لیکن افغان طالبان نے مزید جنگ بندی کو بے سودقراردیتے ہوئے اپنے مقصدسے انحراف سمجھتے ہوئے انکارکردیا لیکن عیدکے تین دن سارے ملک میں زادی کے ساتھ طالبان دندناتے رہے جس سے انہوں نے افغان عوام اورغیرملکی افواج سمیت میڈیاکویہ پیغام دیاکہ وہ جب چاہیں سارے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں لیکن وہ بے گناہ اورمعصوم عوام کی خونریزی سے گریزچاہتے ہیں۔
اس بارپہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ1996ء کے بعدافغان طالبان کے چھوٹے کمانڈروں سے لیکرصوبائی کمانڈروں تک نہ صرف بین الاقوامی میڈیا سے مخاطب ہوئے بلکہ بین میڈیاکے نمائندوں کے ساتھ سیلفی بناتے ہوئے طنزبھی کرتے رہے۔تغمان کے پولی نیکنک کے علاقے لغمان ،ننگرہار، غزنی، بلخ،بدخشاں،قندوزاورقندھارمیں بین الاقوامی میڈیاکے نمائندوں کوکہتے رہے کہ بتاؤکون ہم میں غیرملکی ہے یاپاکستان یادوسروں کی لڑائی لڑرہا ہے ؟آپ لوگ اپنے میڈیاکے ذریعے جوپروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں،اب ثابت کروکون غیرملکی ہے؟یہ سارے افغان ہیں اورمقامی علاقوں سے ان کا تعلق ہے اورپوری دنیانے یہ دیکھ لیاہے کہ ہم اپنے ملک سے تمام غیرملکیوں کے انخلاء اوراپنے ملک کی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ امریکااوراس کے اتحادی افغان جنگ ہاررہے ہیں۔
تغمان کے طالبان کمانڈر صالح نے الجزیرہ،نیویارک ٹائمز اورسی این این کے نمائندوں کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں کاپروپیگنڈہ کہاں گیا کہ ہم آئی ایس آئی کیلئے لڑرہے ہیں،یہ جولڑنے والے ہیں ان میں کون سے پاکستانی،ایرانی یاغیر ملکی ہیں۔یہ سارے مقامی افغان ہیں ۔یادرکھیں ہمیں نہ توکسی بھی ملک کی مددکی ضرورت ہے اورنہ ہی ہم پاکستان یا ایران کی جنگ لڑرہے ہیں۔ پاکستان کروڑوں لوگوں کاملک ہے اوروہ اپنے مسائل خودحل کرسکتے ہیں۔اگرافغانستان میں بین الاقوامی میڈیا کے مقامی نمائندے پروپیگنڈہ بندکردیں تو افغانستان میں قیام امن مشکل نہیں ۔طالبان کی اچانک آمداور افغان فوج کے ساتھ عیدمنانے کے بعدستمبر2017ءمیں حکمت یارکی جانب سے پیش کئے جانے والے پانچ نکاتی امن منصوبے کی اہمیت بڑھ گئی ہے اورافغان حکومت نے اب باقاعدہ طورپرحکمت یارسے منصوبے پرعملدرآمدکیلئے مددطلب کرلی ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت نے حکمت یار کے کہنے پر64 سے زائدافغان طالبان کے رہنماؤں کورہا کردیاہے جس میں اکثریت علماء کی ہے جبکہ 250سے زائد حزب کے کے قیدیوں کوبھی رہا کردیا ہے۔
افغان حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے عیدکے موقع پرحکمت یارسے اس امن منصوبے پرمزیدبات چیت کی ہے جس میں پانچ نکات کے مطابق امریکی انخلاء،بین الافغان مذاکرات،افغان طالبان قیدیوں کی رہائی،افغان طالبان قیادت کیلئے فری زون کاقیام اورافغانستان اورامریکاکے اسٹرٹیجک معاہدے کاازسرنوجائزہ لیناشامل ہے۔حکمت یارنے افغان حکام کوبتایاکہ اگرامریکاانخلاء کااعلان کرتاہے توافغان طالبان کے بتدریج افغان حکومت میں شمولیت کے امکان زیادہ ہیں لیکن جب تک امریکاانخلاء کااعلان نہیں کرتاتوافغانستان میں امن ممکن نہیں ہے اوراس کاعملی مظاہرہ عیدکے دن نظرآیاجب ایک سال قبل انہوں نے (حکمت یار)کہاتھا کہ افغان طالبان،حزب اسلامی اورافغان فوج ایک ہی لوگ ہیں اورلیکن بین الاقوامی فوج کی موجودگی کی وجہ سے آپس میں دشمن بنے ہوئے ہیں اوراس کاعملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیاجب افغان طالبان اورافغان فوج باہم عید گلے مل رہے تھے۔حکمت یارنے ایک مرتبہ پھرافغان حکومت پر زوردیاکہ اگروہ امریکی فوج کو انخلاء کیلئے بات چیت کیلئے آمادہ کریں تو ممکن ہے طالبان مستقل جنگ بندی کیلئے تیارہوجائیں لیکن ایک طرف مستقل جنگ بندی ہواوردوسری طرف سے امریکی بمباری کرے تویہ یقیناً قطعی طور پرکسی کیلئے قابل قبول نہیں۔
افغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی کودوبارہ مستقل جنگ بندی کیلئے وسیع پیمانے پرکوششیں شروع ہوچکی ہیں اوراگرامریکاکی جانب سے انخلاء کے ٹائم ٹیبل پرآمادگی اورپیش رفت ہوتی ہے توافغانستان میں مستقل جنگ بندی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان،ترکی اور سعودی عرب نے دوبارہ اپ نی کوششیں شروع کردیں ہیں اورقوی امکان ہے کہ امریکاکی جانب سے مذاکرات کی میزپربیٹھنے سے قبل انخلاءکا ٹائم ٹیبل کااعلان ہوسکتاہے تاہم قندوزمدرسہ جیسے واقعات سے جنگ کے خطرات بھی لاحق ہیں۔امریکاکوفوری طورپرفضائی کاروائیاں روک کر خود کواپنے اڈوں تک محدودکرنے کااعلان کرناچاہئے تاکہ افغان طالبان سے مستقل جنگ بندی کامطالبہ کیاجاسکے تاہم سترہ سال بعد افغان طالبان کی تین روزہ جنگ بندی نے انہیں عالمی سطح پرمتعارف کرانے اورانہیں ایک بڑی مسلمہ بڑی طاقت کے طورپردنیاکے سامنے پیش کردیاہے جبکہ گزشتہ سترہ سال میں افغان طالبان اورفوجی کمانڈروں کے درمیان تین روزتک مسلسل براہ راست روابط نے بہت سی غلط فہمیاں دورکردیں ہیں جومستقبل میں افغان مسئلے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں۔
ادھرامریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل موریل نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی امداد بند یا کم کر کے اس پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ امریکاکاپاکستان پرناجائزدباؤکا حربہ کارگر نہیں ہوگاالبتہ اس دباؤسے امریکاکونقصان پہنچ سکتاہے پاکستان کونہیں کیونکہ پاکستان امریکی امداد سے آزادہوچکاہے۔چین جیسے دوست کی امداداسے حاصل ہے اوراس وقت سی پیک جیسامیگا پراجیکٹ کے وجہ سےپاکستان،چین کی بھی اہم ضرورت بن چکاہے۔اہم بات یہ ہے کہ امریکا پاکستان کی فضائی اورزمینی راستوں کامحتاج ہے جس کے تعاون کے بغیریہ جنگ امریکانہ تو جیت سکتا ہے اورنہ ہی فوری انخلا ۔سی آئی اے کے سابق قائم مقام سربراہ مائیکل موریل نے ایک حالیہ انٹرویومیں صدرٹرمپ کی تقریرپراپناردّ ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کوہم کس قدر پالیسی میں تبدیلی پرآمادہ کرسکتے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت سے کنارہ کش ہوجائے تاہم ایران اورروس کی امدادسے طالبان میں ایک نئی قوت پیداہوچکی ہے ان میں نظریاتی عنصرایسا ہے جسے شکست دیناناممکن ہے وہ ہتھیارنہیں ڈالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صدرٹرمپ کی پالیسی واضح نہیں ہے نہ ہی انہوں نے کوئی پلان دیاہے کہ کتنی فوج بھیجی جائے اوراس کارول کیاہوگاجبکہ انہوں نے افغان حکومت کے کردارکی بھی وضاحت نہیں کی۔انہوں نے افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل اورفوری انخلا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کیلئے اس سے آسانیاں پیداہوں گی تاہم انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگرامریکی افواج کی زمین پرموجودگی میں اضافہ ہوتاہے توطالبان کی کاروائیوں سے امریکی فوجیوں کے تابوت پہنچنے پر امریکا میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوسکتاہے جوجنگی خسارے سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ہوگا۔یادرہے کہ طالبان کے ساتھ جاری جنگ میں اب تک صرف امریکی فورسزکے2500 ہزارسے زائداہلکارہلاک ہوچکے ہیں۔
مائیکل موریل نے مزیدکہا کہ طالبان کے اثرورسوخ کوروکنے کیلئے افغان حکومت کی کرپشن کے خاتمے اورافغان فوج کی کارکردگی بہتربناناہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ امریکااگرہارے نہ بھی تو جنگ جیت نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی جنگ نظریاتی ہے۔ایران اورروس کی پالیسیوں کا جائزہ لیناضروری ہے جبکہ اب یہ ممکن نہیں رہاکہ پاکستان کوآمادہ کیاجا سکے کہ وہ طالبان کی حمایت سے دستبردارہوجائے کیونکہ پاکستان پردباؤکارگر نہیں ہوگاوہ امریکی امدادسے آزادہوچکا ہے۔چین اس کی ہرقسم کی مددکررہاہے اورخودپاکستان بھی خطے میں ایک مضبوط عسکری قوت بن چکا ہے۔ماضی میں بھی امریکاامدادبندکرکے دیکھ چکاہے لہذاطالبان کومذاکرات کی میزپرلانے کیلئے اس کاسیاسی حل تلاش کرناہوگااوراس میں جس قدر تاخیرہوگی امریکاکیلئے اسی قدرمشکلات بڑھتی جائیں گی۔ انہوں نے کہاکمانڈرنکلسن کابھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلہ حل ہو گااورطالبان کوبھی یہ احساس ہے کہ وہ جنگ جیت نہیں سکتے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیرمحمودحیات کابھی کہناہے کہ غیرملکی فورسز کی تعیناتی سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔افغان مسئلے کاحل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے،جنگ سے نہیں۔پرامن افغانستان پاکستان کے بہترین مفادمیں ہے۔پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف دنیاکی سب سے بڑی جنگ لڑی اورجیتی ہے۔پاک فوج نےعوام کی مددسے دہشتگردوں کوشکست دی۔خطاب کرتے ہوئے ان کاکہنا تھاکہ آپ ہماری مددکرناچاہتے ہیں توضرورکریں لیکن ہمارے طریقے سے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے کہاکہ بھارت کشمیر سے دھیان ہٹانے کیلئے ایل اوسی پرجارحیت کررہاہے اورعام شہریوں کونشانہ بنارہاہے جودہشتگردی کشمیر میں ہورہی ہے اس سے بھارت کاسفاکی دراندازی کامکروہ چہرہ عیاں ہوتاہے۔
اس سے قبل 14فروری کوبھی افغان طالبان نے امریکی عوام اورکانگریس ارکان کے نام ایک کھلے خط میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہاتھا کہ افغانستان کے مسئلہ کومذاکرات کے ذریعے ہی حل کیاجاسکتاہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری ہونے والے اس خط میں امریکی عوام اور”امن پسند” کانگریس کے ارکان کومخاطب کرتے ہوئے کہاگیاتھاکہ وہ اپنی حکومت پرزورڈالیں کہ وہ پرامن ذرائع سے افغانستان کے مسئلہ کاحل نکالنے کی کوشش کریں۔اس خط میں امریکی عوام اوردانشور کے سامنے افغانستان میں حالیہ تاریخ کی طویل ترین جنگ کے بارے میں بھی کئی سوالات رکھے گئے تھے اورانہیں ان کے جوابات پر غورکرنے کیلئے بھی کہاگیاتھا۔یہ خط پشتواورانگریزی زبانوں میں طالبان کی اپنی ایک ویب سائٹ پرجاری کیاگیاتھا۔
افغان عوام کی نمائندگی کادعویٰ کرتے ہوئے تحریک طالبان افغانستان نے اپنے آپ کواسلامی امارات آف افغانستان کانام دیاہے اورکہاکہ وہ امریکی عوام اورامن پسند کانگریس ارکان سے کہتے ہیں کہ وہ امریکی حکمرانوں پرافغانستان پرقبضہ ختم کرنے کیلئے دباؤڈالیں۔خط میں کہاگیا تھا کہ “ہٹ دھرمی”سے جنگ جاری رکھنے اورکابل میں ایک “کرپٹ”اور”غیرموثر”حکومت کی پشت پناہی جاری رکھنے سے پورے خطے اورامریکاکے اپنے استحکام کیلئے انتہائی مضراثرات مرتب ہوں گے۔
اس خط میں کہاگیاہے کہ افغانستان پرامریکاکی طرف سے غیرقانونی اوربلاجوازفوج کشی سے اب تک سترہ برس میں افغانستان میں منشیات کی پیداوارمیں ستاسی فیصد اضافہ ہواہے۔امریکی فوج کو کافی زیادہ جانی نقصان برداشت کرناپڑاہے،دسیوں ہزارمعصوم اوربے گناہ افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکی عوام کے ٹیکسوں کے960/ارب ڈالرسے زائد ضائع ہوئے ہیں اورطالبان اس عرصے میں ایک طاقتورقوت بن کرابھرے ہیں۔ طالبان نے اس خط میں یہ اشارہ بھی دیاہے کہ امریکا، افغانستان میں تنہا رہ گیاہے اوراس کے اپنے اتحادی بھی اس کاساتھ چھوڑگئے جبکہ ان کااپنے بارے میں کہناتھاکہ انہیں اب بعض بیرونی طاقتوں اورہمسایہ ملکوں کےعلاوہ دنیاکے دیگر ممالک سے بھی اخلاقی حمایت حاصل ہورہی ہے لیکن وہ یہ جنگ صرف اپنے ملک کی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔خط کے آخری حصہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کاراستہ ابھی بند نہیں ہواہے لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیاگیا کہ امریکااپنا قبضہ ختم کرے اورافغان عوام کی امنگوں کے مطابق طالبان کاافغانستان پرحکومت کرنے کے جائزحق کوتسلیم کرے۔اس خط میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلہ کاذکرکرتے ہوئے یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے موجودہ حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے امریکابین الاقوامی سطح پرتنہائی کاشکارہوتاجارہا ہے۔
Load/Hide Comments