آٹھ دن میں تین انتہائی بڑے جان لیوا حملوں نے نہ صرف پشاور کوبلکہ پورے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔پہلا خونخوارحملہ اتوار ۲۲ ستمبرکے روز کوہاٹی گیٹ چرچ پرہوا جہاں دو خود کش حملوں کے نتیجے میں ۸۴/افرادہلاک اور۱۶۸سے زائدزخمی ہوگئے۔ دوسرا دہماکہ ۲۷ستمبر کو جمعہ کی دوپہر گل بیلہ کے علاقے میں چارسدہ روڈ پرسول سیکریٹریٹ کے سرکاری ملازمین کی بس میں ہواجہاں کم از کم ۱۷/افراد ہلاک اور۲۰ سے زیادہ زخمی ہو گئے جو پشاور سے چارسدہ جا رہے تھے اورتیسرادھماکہ اتوار ۲۹ستمبرکو پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی میں رازق خان تھانے سے کوئی دس گز دور مسجد اور مسافر خانے کے ساتھ ایک سفید رنگ کی گاڑی میں دو سو کلو گرام تک دھماکہ خیز مواد کے علاوہ بڑی مقدار میں کیلیں اور چھرے رکھ کرایک خوفناک دھماکے کے ساتھ اڑادیاگیاجس کے نتیجے میں ۳۸/افراد ہلاک اور۹۲سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
شبقدرگاؤں کے سفیدریش بزرگ” سراج کاکا”کا گھرجہاں اس کے نوجوان بیٹے کی شادی کی شہنائیاں گونج رہی تھیں وہاں اس وقت کربلاکا منظر دکھائی دے رہاتھاجہاں اکیس افراد کے گھرانے میں سے سترہ افرادکے تابوت پڑے تھے اوراس کوسمجھ نہیں آرہاتھاکہ یہ کیسی بارات ہے جوگاؤں کے افراد کے کندھوں پرسوارمنوں مٹی کے نیچے اپنی آخری منزل کی طرف پہنچادیئے گئے۔ دکھ درد اپنی جگہ لیکن لوگوں کے ذہنوں میں بڑا اہم سوال یہ ابھر رہا ہے کہ آخر تشدد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کیوں؟ وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب ملک کی سیاسی و فوجی قیادت نے چند ہفتے قبل ہی پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا متفقہ فیصلہ کیا ہے تو شدت پسند اس خیر سگالی کا جواب باردو سے کیوں دے رہے ہیں؟ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے تو پشاور میں گزشتہ آٹھ دن کے تینوں حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تو پھر یہ کون ہے جو مذاکرات کے اتنا خلاف ہے؟ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ مذاکرات کی حامی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اندر کے ایسے دھڑے ہوسکتے ہیں جو بات چیت نہیں چاہتے اورجنہیں آئین پاکستان کے تحت مذاکرات سے مکمل انکار ہے لیکن ادھر طالبان کے ایک بڑے دھڑے کا کہنا ہے کہ وہ مجموعی طور پر حکیم اللہ محسود کی قیادت پرمتفق ہیں جومذاکرات کے خلاف نہیں۔
یہ بھی پتہ چلاہے کہ پشاورچرچ حملے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پرآگئی ہے جس میں کہاگیاہے کہ دومیں سے ایک خودکش حملہ آورغیرملکی دکھائی دیتاتھامگراس ابتدائی رپورٹ میں بھی اس حملے ذمہ داران کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی گئی جبکہ دوسری جانب جنداللہ نامی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اورتحریک طالبان ترجمان نے اس حملے سے لاتعلقی کااعلان کیاہے۔وزارتِ داخلہ نے چرچ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپ کے دعوے کومستردکرتے ہوئے کہاہے کہ اس نام کاکوئی گروپ نہیں ہے اور مزیدتحقیقات کافیصلہ کیاہے۔اس سلسلے میں نئے آئی جی پولیس ناصر درانی کوٹاسک دیاگیاہے کہ وہ اس حملے کے پس پردہ عوامل اورملزموں کے بارے میں تحقیقات کریں۔وزارتِ داخلہ میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میںذمہ داری قبول کرنے والے گروہ کے بارے میں جائزہ لینے کے بعداب تک دستیاب شواہدکی روشنی میں فیصلہ کیا گیاہے کہ جنداللہ نہیں بلکہ کوئی دوسراگروہ اس سارے کھیل کے پس پردہ ہے لہنداوزارتِ داخلہ نے اصل کھیل اورگروپ کی تلاش کاٹاسک پولیس اوردیگرانٹیلی جنس اداروں کودے دیاہے۔
ادھرچرچ حملے کے فوراً بعدحکومتی حلقوں کی جانب سے میڈیامیں یہ خبریں بڑے زوروشورسے نشرہوناشروع ہوگئیں کہ ”ملک میں اندرونی و
بیرونی سطح پرحکومت پردباؤ بڑھ رہاہے کہ ان مذاکرات کی پیشکش کوختم کرے یااس پرنظرثانی کرتے ہوئے دہشتگردی کرنے والے گروہوں کے خلاف بھرپورآپریشن کاآغازکیاجائے”۔ قریباً میڈیاکے تمام کارنرزکویہی پیغام دیاگیاتھاکہ مذاکرات کے اختتام یاآپریشن کافیصلہ وزیراعظم کی امریکاواپسی پر کیاجائے گااوراب وزیراعظم بھی واپس پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح اعلان سامنے نہیں آرہا کہ عوام کوان ظالم درندوں سے بچانے کیلئے بھاری مینڈیٹ سے منتخب حکومت کے کیاعزائم ہیں مگرطالبان سے مذاکرات کے حامی حکومتی ذرائع کادعویٰ ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیرداخلہ چوہدری نثاراوروزیراعظم نوازشریف سے منسوب جو بیانات سامنے آئے ،انہیں پڑھ کریہ کہناغلط نہ ہوگاکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے مقابلے میں مذاکرات مخالف شدت پسندگروپس یاوہ قوتیں جواس یااس جیسے گروپس کی پشت پناہی کررہی ہیں،وہ جیت چکی ہیں کیونکہ حکومتی ذمہ دار خودہی مذاکرات کے خلاف میڈیاکویہ تاثردے رہے ہیں۔
دوسری جانب تحریک طالبان کے ذرائع نے میڈیاکواطلاع دی ہے کہ حکیم اللہ محسود اوران کے ساتھی مذاکرات کے حامی ہیں مگرجوگروہ مذاکرات کے حامی نہیں ان کی کاروائی کوطالبان کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا،یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے حکومت کادعویٰ ہے کہ ڈرون حملوں کوان کے کھاتے میں نہیں ڈالاجاسکتا۔یہ حقیقت ہے کہ طالبان کے علاوہ کسی کے پاس خودکش حملہ آوردستیاب نہیں،اس لئے یہ حملہ طالبان کے سواکوئی اورنہیں کرسکتا،یہ درست نہیں کیونکہ اس بات کاثبوت موجود ہے کہ ماضی میں ایران کے اندرکام کرنے والی جنداللہ کے پاس بھی خودکش حملہ آورموجودرہے ہیں اورجنداللہ کوواضح طورپرامریکی حمائت حاصل رہی ہے جبکہ یہاں بھی ذمہ داری جنداللہ نے ہی قبول کی ہے جسے غلط طورپرجند الحفظہ کہاجارہاہے۔کچھ ذرائع کادعویٰ ہے کہ جندالحفظہ ماضی میں پنجابی طالبان کے ذمہ دار عصمت اللہ معاویہ نے بنائی تھی جومذاکرات کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ حکیم اللہ سے پہلے مذاکرات کی حمائت کرنے کے جرم میں اسے عہدہ سے برطرف کرنے کاحکم بھی جاری کیاجاچکاہے۔دوسری جانب یہ کہاجارہاہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ حملہ آورگروپ کاواضح مقصدمذاکرات کوسبوتاژکرناہے ورنہ ٹی ٹی پی نے آج تک کسی بھی اقلیتی عبادت گاہ پرحملہ نہیں کیااورانہوں نے آج تک جتنے بھی حملے کئے ہیں،ان کی ذمہ داری قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کی۔
ٹی ٹی پی ذرائع کادعویٰ ہے کہ عبدالرسول عرف عمرخالداورمولوی فضل اللہ دونوں مذاکرات کے شدیددشمن ہیں اوردونوں کے پاس خودکش حملہ آوروں کی کوئی کمی نہیں اوریہ دونوں گروہ چغہ پوش مسخرے اورامریکاکی حمائت یافتہ نام نہادافغان آرمی کے پے رول پرہیں اورامریکی دہشتگرد تنظیم ”بلیک واٹر”،بھارتی ”را”اوراسرائیلی ”موساد”کے ساتھ مل کرایسے حملے ترتیب دیتے ہیں۔دونوں سے توقع نہیں بلکہ یقین رکھاجاسکتاہے کہ اپردیرکے بعدپشاورحملے بھی انہی کی وارداتیں ہیں اوریہ لوگ طالبان کے نمائندے ہرگزنہیں۔اسلام آبادمیں ایک اہم سرکاری ذریعے کادعویٰ ہے کہ مذاکرات کی سب سے زیادہ مخالفت بیرون ملک خصوصاًامریکاکی جانب سے ہورہی ہے اورقراردادامن آنے کے فوری بعد سے غیرملکی دباؤ اورسازش کاسلسلہ شروع ہوگیاتھاجس کی بدترین مثال مغربی میڈیاکاکردارہے جس میں انہیں جب اور کچھ نہیں ملاتویہ کہناشروع کردیاکہ امن مذاکرات ممکن نہیں کیونکہ فوج اورحکومت کے درمیان اس معاملے پرابھی فاصلے کم نہیں ہوئے۔گزشتہ ہفتے برطانوی اخبارڈیلی ٹیلیگراف نے توہین آمیزاندازمیں لکھاکہ طالبان کوپاکستان میںہی اسٹیک ہولڈرماناجاسکتاہے۔اپنے اس مضمون میں برطانوی تجزیہ نگارنے پاکستان کے خلاف اچھا خاصازہر اگلتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعتوں کی قراردادمیں مغربی ممالک کی دہشتگردی کے خلاف جنگ اورڈرون حملوںکوغیرقانونی قراردیکر پاکستان نے دراصل مغرب کومجرم قراردیاہے اوراس جنگ میں شہیدہونے والے ۴۰ہزارپاکستانیوں کی قاتل بھی نیٹواورایساف قرارپاتی ہیں۔
مزیدتحریرکرتے ہوئے کہاکہ تمام مسائل کاذمہ دار مغربی ممالک کے اقدامات کوقراردیاگیاہے اور پاکستان ہی ہے جواغواکارقاتل،خودکش دہشت
گردوں کواسٹیک ہولڈرکہتاہے اور نیٹوکودشمن خیال کرتا ہے ۔ اسی طرح امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ” جس کے بارے میں پوری ذمہ داری سے کہاجاتاہے کہ سی آئی اے کاترجمان اخبارہے وہ پیچھے کیوں رہتا، اس نے بھی اپنے مضمون میں مذاکرات کے خلاف لکھاہے کہ اس مذاکراتی عمل میں فوج اور حکومت کااتفاق رائے نہیں ہے ۔جب ان مغربی قوتوں کی طرف سے ایسا ردعمل آئے تو پاکستان میں ان کا کارندہ اپنی مذموم چڑیاکا حوالہ دیکرقوم کوخوفزدہ کرکے اپنے آقاؤں کوخوش کرنے کاموقع کیسے ضائع کرسکتاتھالیکن قوم اب یہ جان چکی ہے کہ ان مذاکرات کوکون اور کیوںسبوتاژکرنے کی کوشش میں ہے۔
مگریہ بھی سچ ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں مذاکرات کاروں تک کی جانوں کوخطرہ ہے،اسی سبب انہیں بھی خفیہ رکھاجارہاہے ،دوسرے یہ کہ طالبان جوبھی ہیں خودکوپاکستانی شہری کہلواتے ہیں اور انہوں نے ابھی تک پاکستان سے علیحدگی کی کبھی بھی بات نہیں کی،دوسرے یہ کہ کس سے مذاکرات کرنے ہیں،کس سے جنگ کرنی ہے یایہ کہ دونوں کوبیک وقت جاری رکھنے کافیصلہ بھی پاکستانی سیاستدان اور قیادت ہی کرسکتی ہے اورکسی دوسرے کویہ حق نہیں دیاجاسکتاکہ وہ پاکستان کواس حساس معاملے پرڈکٹیٹ کروائے، اگرکوئی سمجھتا ہے کہ غیرملکی آکراس مسئلے کوحل کریں گے تومسئلے کاحل مقامی قیادت ہی کرسکتی ہے،یہی بات امریکیوںکوہضم نہیں ہورہی اوروہ اپنے داؤ پیچ چلانے کی کوشش میں ہیں مگربتایایہ جارہاہے کہ پاکستان میں اربابِ دانش کازعم رکھنے والے تجزیہ نگاربھی دشمن کی مذاکرات مخالف مہم میں ان کے ساتھ ہیں جن کوامریکی فنڈڈالیکٹرانک میڈیاکی بھرپورمعاونت حاصل ہے۔
دوسری جانب تحریک طالبان کے ترجمان ہی نہیں القاعدہ کے ایمن الظواہری نے بھی مذاکرات میں شمولیت کی کوئی بات نہیں کی مگرچرچوں سمیت تمام اقلیتوں کومکمل تحفظ دینے کی اپیل کی ہے اوراقلیتوں پرحملے نہ کرنے کااعلان کیا ہے۔اس کامطلب صاف ہے اس حملے میں ٹی ٹی پی اورالقاعدہ ملوث نہیں ہیں بلکہ کوئی تیسرا بڑااسٹیک ہولڈرہے جوسواتی گروپوں کے سواکوئی دکھائی نہیں دیتااوراگرحکومت نے غیرملکی خواہش پراپنے مذاکرات کے اس عزم سے پسپائی اختیارکرلی جس کا مینڈیٹ انہیں اے پی سی میں حاصل ہواہے تو یہ ایک خطرناک سیاسی غلطی ہوگی ۔یہ خبربھی گرم ہے کہ وزارتِ داخلہ کے ایک اہم اوراعلیٰ سطح کے اجلاس میں کہاگیاہے کہ اندرونی وبیرونی دباؤبرداشت کرنامشکل ہوتاجارہاہے لہندا مذاکراتی عمل کی بجائے آپریشن کی تیاری کاآپشن بھی موجودہے جس پرغورکیاجارہاہے اوراس حوالے سے یہ بھی کہاگیاتھا کہ وزیراعظم کے دورۂ امریکاسے واپسی پرکوئی حتمی فیصلہ کرلیاجائے گا۔وزیراعظم امریکاکے دورے واپس آچکے ہیں لیکن اگلے مہینے امریکا کے سرکاری دورے پراوباما سے ملاقات بھی طے پاچکی ہے۔
وزارتِ داخلہ کی اطلاعات کے مطابق چرچ حملے کے ساتھ دیگردوسرے خوفناک حملوں نے طالبان سے بات چیت کاروڈ میپ بری طرح متاثرکیا ہے اورحکومت کی کوششوں کو شدیددھچکالگاہے جس کی وجہ سے نہ صرف وزیراعظم کوڈرون حملوں کے خلاف لابنگ کی بجائے وضاحتیں دینا پڑیں بلکہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں امن کوموقع دینے کی بات کرنے کی بجائے ان کی تقریرمیں عین وقت پرتبدیلیاں بھی کرنی پڑیں اور دوسری جانب عالمی برادری کودباؤڈالنے کیلئے موقع بھی ملاجس کومن موہن سنگھ نے اوباماکے ساتھ اپنی ملاقات کے علاوہ جنرل اسمبلی میں تقریر میں بھی خوب استعمال کیا۔یہ خبربھی گرم ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے آپشن کوختم کرنے اورآپریشن کی تیاریاں شروع کردی ہیں اوراب صرف سرنڈرکرنے والے عناصرکوہی معاف کیاجائے گا،اس کے بعدبھرپورکاروائی کی جائے گی جس کیلئے چوہدری نثاراورپرویزرشید نے جوسیاسی
قائدین کواعتمادمیں لینے کا کام شروع کیاتھااس کی جہاںمکمل تفصیلات سے وزیراعظم کومطلع کردیاگیاہے وہاں اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کے
ساتھ ساتھ ملک کے اہم سیکورٹی اداروںکوبھی الرٹ کردیا گیاہے کہ وہ اپناہوم ورک مکمل کرلیں۔
دوسری جانب حکومتی ذمہ داران کی جانب سے رحمان ملک اسٹائل میں دھمکیوںکاسلسلہ شروع ہوگیاہے اورآخری حدتک جانے اورشمالی وزیرستان میں بھی دہمکی دی جانے لگی ہے۔ اس صورتحال میں مذاکرات کی مخالف جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے ،کی جانب سے زیادہ شدومدسے آپریشن کی ضروررت پرزوردیناشروع کردیاگیاہے تاہم ذمہ داروں کادعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ ایجنڈے کاحصہ ہے اورمذاکرات کی بات چیت شروع ہونے سے پہلے اندازہ تھاکہ اس طرح کی صورتحال پیش آسکتی ہے اوراس کا سامناحوصلے سے فیس کرناہوگامگر جس شدت کے حملے ہوئے ہیں اس پرپہلے حملے کی ذمہ داری قبول کرلینااوردوسرے پرڈھیلی ڈھالی وضاحت کے سواکوئی ردعمل نہ دینے کی طالبان کی حکمت عملی نے بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر دیاہے جس سے بات چیت خطرے کاشکارہوتی دکھائی دے رہی ہے مگردوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بارپھرطاقت کااستعمال کرنے سے مسئلے کاحل نہیں ہوگابلکہ خونریزی کاایک نیادورشروع ہوسکتاہے اوریہی ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ایک لامتناہی خانہ جنگی کاسلسلہ شروع کرکے پاکستان کی تقدیر سنوارنے کیلئے کاشغرسے گوادراورایران سے گیس پائپ لائن کے منصوبوں کے علاوہ دیگر منصوبوں کوپایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیاجائے اورپھربھارت کویہ بخوبی علم ہے کہ امن ہونے کی صورت میں ان طالبان کا رخ یقینا بھارت کی طرف ہو گا جہاں اس سے ہرظلم کاحساب لیاجائے گا۔
Load/Hide Comments