پچھلے ایک ہفتے سے امت مسلمہ کے دودیرینہ زخموں مسئلہ کشمیراور فلسطین کوجس بیدردی کے ساتھ کھرچاگیاہے لیکن پوری مسلم امہ کی بے حسی کایہ عالم ہے کہ تمام مسلم ممالک میں مکمل خاموشی،سکوت،صبر اطمینان،ڈھٹائی،بے شرمی، کوئی احتجاج ،کوئی چیخ وپکاریاکسی یکجہتی کا کوئی اظہاردیکھنے میں نہیں آیا۔امت مسلمہ کی طرف مکمل خاموشی کے بعد ترک صدراردگان نے اوآئی سی کااجلاس بلاکراسرائیل اورامریکا کے بارے میں نہ صرف احتجاج ریکارڈکروایاہے بلکہ ترکی کے پانچ لاکھ غیورشہریوں نے سڑکوں پرآکراپنے دلی جذبات کابھی اظہارکیاجس سے ترکی کے صدر اردگان اورفلسطینی صدرنے خطاب کیا۔پچھلے ایک ہفتے میں دس سے زیادہ نوجوان کشمیریوں کوشہیدکردیاگیااورغزہ میں توقیامت صغری برپاکردی گئی۔ دونوں جگہ پرنہتےمظاہرین میں مماثلت ان کافقط یہ جرم ہے کہ وہ اپنے حق کیلئے مسلسل فریاد کرتے چلے آرہے ہیں۔چھ لاکھ قابض بھارتی فورسز کیلئے بھی اب نوجوانوں کی تیسری نسل دردِ سربنی ہوئی ہے جس نے مودی کی ظالم سپاہ کی نیندیں حرام کررکھی ہیں اوراب نہ صرف کشمیر کے تعلیمی اداروں کے بچے اوربچیاں تحریک آزادی کاہراول دستہ بن گئے ہیں بلکہ یونیورسٹی اورکالج کے طلباء اورطالبات کے ساتھ ساتھ نوجوان استادمحمدرفیع بھٹ کی شہادت نے جدوجہد آزادی کونیاولولہ عطاکردیاہے ۔ابھی دوماہ پہلے بھارتی فوج کاچیف جنرل بپن راوت پوری رعونت اورطمطراق کے ساتھ دہمکیاں دے رہاتھاکہ اب کشمیریوں سے کسی بھی قسم کےمذاکرات ،کوئی رعائت یاکشمیرپرکسی بھی قسم کاکوئی معاہدہ خارج ازامکان ہیں اورجتنی بھی لاشیں گرانی پڑیں توہم گرائیں گے لیکن اب وہی مغروربپن راوت ہاتھ جوڑکرکشمیری مجاہدین سے مذاکرات کیلئے درخواست کررہاہے لیکن اب کشمیری مجاہدین مزیدکسی دھوکے میں آنے کیلئے تیارنہیں۔
دوسری طرف غمزدہ فلسطین میں بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں پتھراٹھائے ہوئے اپنے شہداء کی یادمیں مسلح ظالم اسرائیلی درندوں کے سامنے اپنے حقوق کیلئے صدابلندکررہے ہیں گویا اب اپنے شہداء کیلئے رونااوراحتجاج کرنابھی جرم ٹھہرگیاہے۔اگربیت المقدس کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس شہرکودومرتبہ توصفحہ ہستی سے مٹادیاگیاتھا،۵۲مرتبہ بیت المقدس کو میدان جنگ بنایاگیااور۴۴مرتبہ اس پرقبضہ کیاگیاہے لیکن ہرمرتبہ فلسطینی مسلمان ہی فاتح ٹھہرے ہیں جواس سرزمین کے اصل مالک ہیں۔حیرانی کی بات تویہ ہے کہ اسرائیلیوں کویہ حقیقت کب سمجھ میں آئے گی اوروہ کب نوشتہ دیوارپڑھیں گے؟کشمیراورفلسطین میں توباقاعدہ نظرآرہاہے کہ ٹرمپ نے ہنودویہودکومسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے دی ہے اوران دونوں ممالک کے درندون کی آنکھ میں انسانیت کیلئے کوئی شرم وحیاباقی نہیں رہی۔امریکانے مسلمانوں کے زخموں پرنمک چھڑکنے کیلئےتل ابیب سے یروشلم میں اپناسفارتخانہ تبدیل کرنے کیلئے ۱۴مئی کادن تجویزکیا یعنی اسی دن۱۴مئی۱۹۴۸ءکوارضِ فلسطین پراسرائیل کاناسورخنجرگھونپاگیاتھا۔اب عالمی سطح پر مسلمانوں کومشتعل کرنے کیلئےایک اوربڑاظلم اسرائیل نے ارضِ فلسطین کے ساتھ یہ بھی کیاکہ اس نے بیت المقدس سے متصل مسلمانوں کی ایک متبرک قبرستان “الرحمہ”جہاں بہت سے جلیل القدرصحابہ کرام مدفون ہیں،اس کوبلڈوزروں سے ملیامیٹ کرکے وہاں تفریحی پارک بنارہے ہیں۔ ۱۹۶۷ءکی مشرق وسطی کی جنگ میں قبضہ اسرائیل نے فلسطینی مشرقی یروشلم پربزورطاقت اور دھونس سے قبضہ کرلیاتھااوراب یروشلم کواپنا ازلی اورغیرمنقسم دارالحکومت کہتاہے۔غزہ میں اسرائیلی سرحدکے قریب چھ ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں لیکن امریکہ کاسفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم میں منتقل کیے جانے کے موقع پر ان میں شدت آگئی ہے۔فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے افتتاح کے موقع پر غزہ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران کم از کم ۶۸فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک اورتین ہزارسے زائدکوزخمی کردیاہے جن میں درجنوں موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔غزہ کے ہسپتالوں میں ادویات اور میڈیکل سٹاف کی شدیدکمی کے مسائل الگ سے ہیں۔ اس مرتبہ پھرغزہ کے ہرگھرمیں شہید کا خراج پیش کیاگیاہے۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے انتہائی ڈھٹائی وبے شرمی کے ساتھ میڈیاکویہ بتایاہے کہ۳۵ ہزار فلسطینی حفاظتی باڑ کےساتھ ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں شریک ہیں اور اس کے فوجی ضابط کار کے تحت کارروائی کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ سرحد پراسرائیل فوج کی جانب سے مظاہرین طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اسے بین الاقوامی قوانین کی گھناؤنی خلاف ورزی قراردیاہے۔حکام کے مطابق ان مظاہروں میں۳ہزارسے زائدفلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔مظاہروں کے دوران فلسطینیوں نے ٹائرجلائے اوراسرائیلی فوجیوں پرپتھراؤکیااور پیٹرول بم پھینکے جبکہ فوجی نشانے بازوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔
یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ فیڈریکاموغرینی نے ایک بیان میں کہاہے کہ ’غزہ کی باڑکے نزدیک جاری مظاہروں میں درجنوں فلسطینی ،جن میں بچے بھی شامل ہیں،اسرائیلی فائرنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہم مزید جانوں کے ضیاع کو روکنےکیلئے سبھی سے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی توقع کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرزنے غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی تعداد پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے اسرائیل کے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو مکمل طور پر نامتناسب قرار دیا ہے۔زیدراد الحسین نے جنیوا میں منعقدہ ایک اجلاس میں بتایا کہ غزہ کے رہنے والےموثر انداز سے زہر آلود پنجرےمیں بند ہیں اور اسرائیل کو غزہ کا قبضہ ختم کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زیدراد الحسین غزہ کی صورتحال پر منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں بتایاکہ دونوں جانب سے ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد میں واضح فرق اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ردّعمل مکمل طور پر غیر مناسب تھا۔انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق پیر کو پتھر لگنے سے ایک اسرائیلی فوجی معمولی زخمی ہو گیا جبکہ مظاہرے کے مقام پر ۵۱ فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد مزید ۱۷ فلسطینی مظاہروں کی جگہ پر مارے گئے۔
زید رادالحسین نے کہاکہ اس بات کے بہت کم شواہد ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے جانی نقصان کوکم سے کم رکھنے کے حوالے سے کوئی بھی کوشش کی گئی ہو۔انہوں نے مقبوضہ علاقے میں شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بنائےگئے بین الاقوامی قانون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی کارروائیاں دانستہ قتل کے زمرے میں آ سکتا ہے اور یہ فورتھ جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ زیدراد الحسین نے غزہ میں ہونے والے تشدد کی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ اورغیر جانبدارانہ تحقیقات کی حمایت کرنے پر زوردیتے ہوئے کہا کہ تشدد کے ذمہ داروں کو لازمی انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔
اسرائیلی سفیر ایووا ریز نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنے شہریوں کو ممکنہ نقصان سے بچانے کیلئےہر ممکن اقدامات کیے۔ا نہوں نے کہا کہ غزہ کے عسکریت پسند حکمرانوں نے جان بوجھ کرلوگوں کوہلاکت میں ڈالا۔ پیر کواسرائیلی سکیورٹی فورسز نے احتجاج
کرنے والے ساٹھ کے قریب فلسطینیوں کوہلاک کردیاتھا۔گزشتہ سات ہفتے سے اسرائیل غزہ سرحدپرنئی باڑکے خلاف جاری مظاہروں میں پیرکوسب سے زیادہ پرتشدد دن تھا۔پر تشدد واقعات پر فلسطینی اتھارٹی کے صدرمحمودعباس نے اسرائیلی فوج کی جانب سے کیے گئےقتل عام کی شدید مذمت کی جبکہ اقوام متحدہ نے اپنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے “انسانی حقوق کی انتہائی شرمناک پامالی”قرار دیا تھا۔جس دن یروشلم میں موجود امریکی قونصل خانے میں ایک چھوٹے اورعبوری سفارتخانے کاافتتاح ہواتھا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے خبردار کیا تھا کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے سے مشرقِ وسطیٰ مزید عدم استحکام کا شکار ہو گا۔واضح رہے کہ اسرائيل یروشلم کو اپنا ازلی اورغیر منقسم دارالحکومت کہتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم پر اپنا دعویٰ رکھتے ہیں جس پراسرائیل نے۱۹۶۷ء کی مشرق وسطی کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی اسے اپنی مستقبل ریاست کا دارالحکومت کہتے ہیں۔خیال رہے کہ فلسطینی سفارتخانے کی منتقلی کو پورے بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی امریکی حمایت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ فلسطینی اس شہر کے مشرقی حصے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے سے اس مسئلے پر دہائیوں سے جاری امریکی غیرجانب داری میں فرق آیا ہے اور وہ بین الاقوامی برادری کی اکثریت سے علیحدہ ہو گیا ہے۔
فلسطینی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں امریکی انتظامیہ پر طاقت کے زعم میں فلسطینیوں کے حقوق رد کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور زور دیا ہے کہ بیت المقدس کی قسمت کا فیصلہ صرف عالمی قانون کے مطابق ہی کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جب کہ فلسطینی عوام اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافی کے ۷۰ سال کی یادگار منا رہے ہیں، امریکی انتظامیہ نے بیت المقدس میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر کے اور فلسطینیوں کے حقوق سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسترد کر کے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیادت تمام قانونی اورسفارتی ذرائع استعمال کرکے اسرائیل کی نوآبادیاتی اور جارحانہ حکومت سے اپنے عوام کے حقوق کا تحفظ کرتی رہے گی لیکن یہ عالمی ذمہ داری بھی ہے۔
فلسطین کے ایک آزاد رکن پارلیمان مصطفی برغوتی نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکی سفارتخانے کی منتقلی سے کشیدگی اور خون خرابے میں اضافہ ہوگا۔ اسرائیلی سمجھ رہے کہ انہیں امریکیوں کی جانب سے جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں اس کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ آج جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ اصل قتل عام ہے۔تاحال،اسرائیلیوں نے ہمارے پر امن احتجاجوں کاجواب آتشیں اسلحے سے دیاہے۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے اور فلسطینیوں کے کھلے قتل عام سے عالمی امن کوناقابل یقین نقصان پہنچنے کااحتمال ہے۔
یروشلم متعدد بار تاخت و تاراج ہوا ہے، یہاں کی آبادیوں کو کئی بار زبردستی جلاوطن کیا گیا ہے، اور اس کی گلیوں میں ان گنت جنگیں لڑی جا چکی ہیں جن میں خون کے دریا بہہ چکے ہیں۔ یہ دنیا کا وہ واحد شہر ہے جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں پیغمبرحضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کی تیاری کی تھی۔ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا سب سے مقدس کلیسا واقع ہے۔ مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلام نے معراج پرجانے سے قبل اسی شہر میں واقع مسجدِ اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان اورمسیحی ایک ہزار برس تک اس شہرپرقبضے کیلئےآپس میں برسرِپیکاررہے ہیں۔
مسلمانوں نے سب سے پہلے ۶۳۸ء میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور میں بازنطینیوں کو شکست دے کر اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔ مسیحی دنیا میں یہ واقعہ عظیم سانحے کی حیثیت رکھتا تھا۔آخر ۱۰۹۵ء میں پوپ اربن دوم نے یورپ بھر میں مہم چلا کر مسیحیوں سے اپیل کی کہ وہ یروشلم کو مسلمانوں سے آزاد کروانے کے لیے فوجیں اکٹھی کریں۔ نتیجتاً ۱۰۹۹ء میں عوام، امرااور بادشاہوں کی مشترکہ فوج یروشلم کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ پہلی صلیبی جنگ تھی۔ تاہم اکثر فوجی جلد ہی واپس اپنے اپنے وطن سدھار گئے اور بالآخر سلطان صلاح الدین ایوبی ۹۰ برس بعد شہر کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک بار پھر یورپ میں بےچینی پھیل گئی اور یکے بعددیگر چار مزید صلیبی جنگیں لڑی گئیں، لیکن وہ یروشلم سے مسلمانوں کو بےدخل کرنے میں ناکام رہیں۔البتہ۱۲۲۹ میں مملکوک حکمران الکامل نے بغیر لڑے یروشلم کو فریڈرک دوم کے حوالے کر دیا۔ لیکن صرف ۱۵برس بعد خوارزمیہ نے ایک بار پھر شہر پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد اگلے ۶۷۳ برس تک یہ شہر مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔
۱۵۱۷ءسے ۱۹۱۷ءتک یہ شہر عثمانی سلطنت کا حصہ رہا اور عثمانی سلاطین نے شہر کے انتظام و انصرام کی طرف خاصی توجہ کی۔ انھوں نے شہر کے گرد دیوار تعمیر کی، سڑکیں بنائیں اورڈاک کانظام قائم کیاجبکہ۱۸۹۲ءمیں یہاں ریلوے لائن بچھا دی گئی۔اسرائیلی شاعر یہوداعمیحائی نے لکھا تھا کہ یروشلم ابدیت کے ساحل پر واقع ساحلی شہر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سمندراکثر وبیشتر متلاطم ہی رہاہے۔اس کااندازہ یروشلم کی اس مختصر ٹائم لائن سے لگایا جا سکتا ہے:
۵۰۰۰قبل مسیح: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق سات ہزار سال قبل بھی یروشلم میں انسانی آبادی موجود تھی۔ اس طرح یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
۔ ۱۰۰۰قبل مسیح: پیغمبر حضرت داؤد نے شہر فتح کر کے اسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا
۹۶۰سال قبل مسیح: حضرت داؤد کے بیٹے پیغمبرحضرت سلیمان نے یروشلم میں معبد تعمیرکروایا جسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔
۵۸۹قبل مسیح: بخت نصر نے شہر کو تاراج کر کے یہودیوں کو ملک بدر کر دیا۔
۵۳۹قبل مسیح: ہخامنشی حکمران سائرس اعظم نے یروشلم پر قبضہ کر کے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دی۔
۳۰عیسوی: رومی سپاہیوں نے یسوع مسیح کو مصلوب کیا۔
۶۳۸عیسوی:مسلمانوں نے شہر پر قبضہ کر لیا۔
۶۹۱عیسوی:اموی حکمران عبدالملک نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک) تعمیر کروایا۔
۱۰۹۹عیسوی:مسیحی صلیبیوں نے شہر پر قبضہ کر لیا۔
۱۱۸۷عیسوی:صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شہر سے نکال دیا۔
۱۲۲۹عیسوی:فریڈرک دوم نے بغیر لڑے یروشلم حاصل کر لیا۔
۱۲۴۴عیسوی:دوبارہ مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
۱۵۱۷عیسوی:سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیاجواگلے چارسوسال عثمانی سلطنت کاحصہ رہا۔
۱۹۱۷عیسوی:انگریزی جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دے کر شہر میں داخل ہو گیا۔
۱۹۴۷عیسوی:اقوامِ متحدہ نے شہر کو فلسطینی اور یہودی حصوں میں تقسیم کر دیا۔
۱۹۴۸عیسوی:اسرائیل کا اعلانِ آزادی، شہر اسرائیل اور اردن میں تقسیم ہو گیا۔
۱۹۶۷عیسوی:عرب جنگ کے نتیجے میں دونوں حصوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔
برطانوی مؤخ کے مطابق برطانوی جنرل سر ایڈمند ایلن بی کویروشلم کے تقدس کااس قدرخیال تھا کہ جب وہ عثمانی فوجوں کو شکست دے کر یروشلم پر قبضے کی غرض سے باب الخلیل کے راستے شہر میں داخل ہواتو اس نے گھوڑے یا گاڑی پر سوار ہونے کی بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دی لیکن اس مقدس شہرکی حرمت اس وقت کہاں گئی جب اس کیلئے ہزاروں افراد کے سرتن سے جداکردئے گئے۔برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ لوئڈ جارج نے اس موقع پرلکھا کہ دنیا کے مشہورترین شہر پر قبضے کے بعد مسیحی دنیا نے مقدس مقامات کودوبارہ حاصل کرلیا ہے۔تمام مغربی دنیا کے اخباروں نے اس فتح کا جشن منایا۔ امریکی اخبار نیویارک ہیرالڈ نے سرخی جمائی: برطانیہ نے ۶۷۳ برس کے اقتدار کے بعد یروشلم کو آزاد کروا لیا ہےاورآج مسیحی دنیا میں زبردست خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
جنرل ایلن بی کے قبضے کے بعد شہر تین دہائیوں تک برطانوی سلطنت میں شامل رہا اور اس دوران یہاں دنیا بھر سے یہودی آ آ کر آباد ہونے لگے۔ آخر ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ نے اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی، جس کے تحت نہ صرف فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، بلکہ یروشلم کے بھی دو حصے کر دیے گئے جن میں سے مشرقی حصہ فلسطینیوں جب کہ مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔اس کے اگلے برس اسرائیل نے آزادی کا اعلان کردیا۔عرب ملکوں کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول تھی۔انھوں نے مل کرحملہ کردیا لیکن غلط جنگی حکمت عملی کی وجہ سےانہیں اس میں شکست ہوئی۔اس کے بعد اگلے دو عشروں تک یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے اقتدار میں رہا لیکن ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ بین الاقوامی برادری آج تک اس قبضے کو غیرقانونی سمجھتی ہے۔
اسرائیلی پارلیمان نے ۱۹۵۰ءہی سے یروشلم کواپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے لیکن دوسرے ملکوں نے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے احترام میں یروشلم کی بجائے تل ابیب میں اپنے سفارت خانے قائم کررکھے ہیں۔اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس روایت کو توڑ دیا ہے۔اس طرح امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل ایلن بی کے عثمانیوں کو شکست دینےکے ٹھیک سو سال بعد اعلان کردیا ہے کہ یروشلم اسرائیل کادارالحکومت ہےحالانکہ دنیابھر کے ملکوں نے انہیں خبردار کیاتھاکہ اس اعلان سے خطے میں تشدد کی نئی لہر پھوٹ سکتی ہے۔ فرانسیسی صدر امانوئل میکخواں نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ انہیں یروشلم کو یکطرفہ طور پراسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے منصوبے پر”تشویش”ہے۔ میکخواں نے کہا کہ شہر کی متنازع حیثیت پر کوئی بھی فیصلہ “اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بات چیت کے دائرۂ کار”کے اندر ہونا چاہیے۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر انتہائی غمزدہ ہیں۔ بورس جانسن نے کہاکہ برطانیہ یروشلم میں امریکی سفارتخانے کو منتقل کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا”غلط وقت پرغلط چال”چل رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ “ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ تشدد کو اشتعال دے رہے ہیں لیکن دوسری جانب کو ہتھیاروں کے استعمال میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے”۔اس سے قبل کئی عرب اور مسلم ممالک نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی، صدرٹرمپ کے فیصلوں کی شدید مخالفت کررہے ہیں، مگر اندرونی تقسیم و سیاست کی وجہ سے فلسطینیوں کی مخالفت کے اثرات نہ ہونے کی برابر ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں یاسرعرفات کی موت کے بعد سے فلسطینی قوم تقسیم کاشکارہے، اس تقسیم نے باہر کے لوگوں کو اپنے ایجنڈے کے تحت فلسطینیوں میں معاملات کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں کا کردار کمزور تھا مگر انہوں نے اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، اس کو یاسر عرفات ’’فیصلہ سازی کی فلسطینی خودمختاری‘‘ کہا کرتے تھے۔ یاسر عرفات نے فلسطینیوں کے بنیادی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر ریاست حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ آزادانہ طرزِ عمل نے ہی ان کو رہنما کا درجہ دیا۔ آج عرفات کے وارث پی ایل او کے سربراہ محمود عباس، حماس کے نئے رہنما یحییٰ شنوار اور اسماعیل ہانیہ، اور سب سے اہم فتح کے سابق سکیورٹی چیف محمد دحلان شامل ہیں، یہ سب لوگ یاسر عرفات کی جگہ لینے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
یہ کہنا کہ حماس قیادت اور دحلان کے درمیان کو ئی دشمنی نہیں غلط ہوگا، دونوں کے درمیان کشیدگی ۲۰۰۷ء میں انتہا پرتھی جس کانتیجہ مختصر جنگ کی صورت میں نکلا تھا۔اس جنگ کے نتیجے میں عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی فوج کو غزہ چھوڑنا پڑا، اس فوج کی قیادت دحلان کر رہے تھے ۔فلسطینی مقتدرہ کی فوج تاحال غزہ واپس نہیں آسکی ہے، واشنگٹن کی نئی خارجہ پالیسی اور فلسطین کو لاحق خطرات میں تاریخی اضافے کے بعد ملکی مفاد کے مطابق ایجنڈا تشکیل دینے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے،اس کے باوجود فلسطینیوں کے درمیان سیاسی دشمنی میں اضافے کا امکان زیادہ ہے۔ تین فریقوں کے درمیان ’’سب کی جیت‘‘جیسا حل تلاش کرنابھی مشکل ہے،سب غزہ کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ ۱۴۱/ اسکوائرمیل کے علاقے پرمشتمل ہے،جوکہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے۱۸لاکھ پناہ گزینوں کا گھرہے،یہ۲۰۲۰ء تک رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ غزہ پر حکمرانی کرنے والے کو اس خطرے سے بھی نمٹنا ہوگا۔
حماس اور پی ایل او تین دہائیوں سے سمجھوتہ کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں، اس حوالے سے آخری کوشش مصر کی نگرانی میں اکتوبر ۲۰۱۷ء میں کی گئی، ان مذاکرات میں عملی اقدام نہ ہونے کے برابر رہے اورنیم دلی سے کوشش کی گئی، فریقین مشترکہ پروگرام پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے، بہرحال کچھ لوگوں کے نزدیک حماس کی جانب سے اقوام متحدہ، یورپ، روس اور امریکا کے بنائے اصولوں کو تسلیم کرلینا بڑی کامیابی ہے۔ یہ اصول۲۰۰۶ء میں حماس کی انتخابی فتح کے بعد بنائے گئے تھے۔ ۲۰۰۷ء میں غزہ سے نکالے جانے کے بعد محمد دحلان کو عباس اور الفتح کی اکثریت نے نظر انداز کردیا، محمد دحلان غزہ کی سکیورٹی کے انچارج تھے، ان کو حماس نے غزہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حماس نے غزہ میں ہر ایک کو اسلحہ رکھنےکاحق دیا، اس دوران محمد دحلان غزہ میں اپنے حمایتیوں کومنظم کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے۔
رام اللہ میں دحلان کی موجودگی محمودعباس کوغزہ کے کھوجانے کی یاددلاتی رہتی ہے، اس سے الفتح کے نوجوان جنگجوؤں میں تبدیلی کی شدید خواہش کا اظہار بھی ہوتا ہے، فلسطین میں اپنی سیاست کے خاتمے کے بعد محمد دحلان نے اپنے پرانے تعلقات استعمال کرتے ہوئے کاروبار کا آغاز کر دیا،محمددحلان نے ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید کے سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے اورتاجر کے طور پرزبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا،خان یونس کے پناہ گزین کیمپ سے زندگی کا آغاز کرنے والے محمد دحلان نے جارج ڈبلیو بش کے وائٹ ہاؤس سے مذاکرات بھی کیے، گزشتہ دہائی میں دحلان نے عربوں کی اعلیٰ ترین سیاسی اورتجارتی تنظیموں میں فعال کردار ادا کیااور اپنی حیثیت کو دوبارہ بحال کرلیا، دوبارہ اہم حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے الفتح اور محمود عباس نے دحلان سے دوری اختیار کرلی۔
جب سے حماس نے غزہ کا انتظام سنبھالا ہے علاقے کی قسمت میں غربت لکھ دی گئی ہے،الفتح غزہ میں غربت ختم کرنے اور مغربی کنارے و یروشلم میں اسرائیلی قبضہ اور یہودی آبادکاری روکنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے الفتح بہت تیزی کے ساتھ محدود اور بے اثر ہوتی جا رہی ہے۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد حماس نے معاملات خراب کرنے میں پہل کی، دحلان اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود غزہ اور مستقبل کے فلسطین میں سیاسی جگہ بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، شیخ عزالدین القسام اور ۱۹۳۰ء کی بغاوت کے دنوں سے جنگجوؤں فلسطین کے سیاسی منظر نامے پرچھائے ہیں، فلسطینی اتھارٹی کا دارالحکومت رام اللہ اصلاح پسندوں کے لیے بہتر جگہ رہا ہے، جیسے اصلاح پسند سلیم فیاض اور سفارت کار صائب عریقات اس کی مثال ہیں، صائب عریقات الفتح میں اہم عہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
دحلان کی طرح یحییٰ شنوار نے بھی ایک مختلف تنظیم میں تربیت حاصل کی اور اعلیٰ عہدے پر پہنچے، دونوں نے خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں غربت میں پرورش پائی، پھر غزہ اسلامک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، یونیورسٹی میں دونوں کے درمیان طلبہ یونین کی قیادت حاصل کرنے کے لیے مقابلہ بھی ہوا، جس کے بعد ایک الفتح کا جنگجو بنا اور دوسرا حماس کا جنگجو، دونوں کو ہی غزہ نے بنایا اور دونوں ہی امریکی پالیسیوں کی پیدا وار ہیں۔ فلسطینی قوم پرستی میں جان انتفادہ کی پہلی تحریک کے بعد پڑی اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد کو جائز بھی تسلیم کیا گیا۔ یحییٰ نے ۱۷؍برس اسرائیلی جیل میں گزارے ہیں،وہاں انہوں نے عبرانی بولنا بھی سیکھی، جیل میں ان کو دحلان پسند تھے، دونوں نے اسرائیل سے جنگ لڑی اور مذاکرات بھی کیے، پھر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرا ت کیوں نہیں کرتے، خاص کر ایسے حالات میں جب حماس اور محمود عباس کے درمیان قابل عمل معاہدے کا امکان نظر نہیں آتا۔
مارچ کی ۵ تاریخ کو فتح کی انقلابی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے مبینہ طور پر شکایت کی کہ’’ہمیں نہیں پتا کہ حماس مصالحت چاہتی ہے یا ایران مصالحت چاہتا ہے، نہیں معلوم حماس فلسطینی اتھارٹی کا حصہ بننا چاہتی ہے یا اس کی سربراہی چاہتی ہے، کہہ نہیں سکتا کہ حماس مصالحت چاہتی ہے یا ہمیں صرف اپنے اے ٹی ایم کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہے‘‘۔ محمود عباس کے بے لچک جواب نے حماس اور دحلان کے درمیان مصالحت کے مشکل کام کا امکان پیدا کردیا ہے، محمود عباس سے معاہدہ ہو یا نہ ہو، حماس کا مقصد ہے اپنی سلامتی اجارہ داری پرسمجھوتہ کیے بغیر کسی طرح محاصرہ ختم کراناہے،دحلان کی خواہش ہے کہ قاہرہ اورخلیجی ممالک سے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جائے، جس کے ذریعے فلسطین کے مستقبل میں اہم کردار حاصل کیا جاسکے۔
اسماعیل ہانیہ کے سابق مشیر احمد یوسف کاحال ہی میں کہناتھا کہ ’’دحلان اس قوم کاحصہ ہیں، اور وہ فلسطین کی سیاست میں موجودرہنے کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں، شاید وہ ایک نئی جماعت تشکیل دینے کا فیصلہ کریں، مغربی کنارے میں موجود قیادت اور الفتح کے ساتھ معاملات خراب کیے بغیر دحلان کے ساتھ تعاون کرنا حماس کے مفاد میں ہوگا،اگرچہ دحلان حماس کے مخالف ہیں اور موجودہ حالات میں الفتح سے دور ہیں، غزہ کاانتظام چلانے کے لیے تمام اختلافات ایک طرف رکھ کرحماس دحلان کے ساتھ قومی شراکت داری قائم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے‘‘۔ان تنازعات کی وجہ سے فلسطینی مستقبل کو پہنچنے والا نقصان سب سے اہم عنصر ہے، یہ تصور کرنا کہ حماس اور الفتح فلسطین کے مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یا دونوں جماعتیں اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں غلط ہوگا۔ اسرائیل کا سابق وزیراعظم ایریل شیرون محمود عباس کو مذاق میں’’بغیر سر کے مرغا‘‘ کہہ کر پکارتاتھا، عرفات کی جگہ لینے کے بعد سے عباس نے انتہائی سخت حالات میں بھی پانی میں ساکت کھڑے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، جس کے نتیجے میں غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے حالات انتہائی ناسازگار ہوگئے۔ حماس نے غزہ پر حکومت قائم کرلی اور اسرائیل کے ساتھ جعلی اورتلخ حقائق پر مبنی عسکری توازن قائم کیا، اس دوران طاقتور قوتوں نے غزہ کا اقتصادی محاصرہ ختم کرانے کا کوئی اشارہ بھی نہ دیا،اس محاصرے سے فلسطینی نوجوانوں میں اشتعال نے جنم لیا،دحلان میز پر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ مگرانہیں الفتح کے ساتھ رہتے ہوئے یا الگ ہو کر کسی جگہ کو اپنا سیاسی مرکز بنانا ہوگا، اگر دحلان سفارت کار سے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سیاسی طاقت حاصل کرناہوگی جبکہ حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ فلسطینی رہنماؤں کے باہمی اختلافات اور سرپھٹول یقیناًان کوایک میزپربیٹھنے پرمجبورکردیں گے جبکہ دشمن قوتیں اپنے ایجنٹوں کے توسط سے فلسطینی قوم کے امتحانات میں اضافہ کرکے انہیں امریکی ایجنڈے پر سرجھکانے پرمجبورکرنے کیلئے پوری قوت سے مصروف عمل ہے لیکن ایساہوگانہیں کیونکہ غزہ کے باسیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی،خون پھرخون ہےبہتاہے توجم جاتا ہے۔
Load/Hide Comments