Thought in the West — Necessity and Importance

مغرب میں فکرِ اقبالؒ — ضرورت و اہمیت

:Share

(ایک تاریخی، تحقیقی اور ادبی لیکچر)

خواتین و حضرات
آج کی یہ نشست محض ایک علمی گفتگو نہیں، ایک روحانی سفر بھی ہے۔ ہم یہاں جس شخصیت کی فکر کا چراغ ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں وہ صدیوں کے اندھیروں میں روشنی بانٹنے والی ایسی آواز ہے جس کے اشعار نے غلام قوموں کے سینوں میں حرارت بھری، اور جس کے افکار نے مغربی مفکرین کے علمی ایوانوں میں سوالات کی نئی کونپلیں اُگا دیں۔ یہ وہی مردِ دانا ہے جسے دنیا ایک شاعر، ایک مفکر، ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے نام سے جانتی ہے۔

آج کی اس نشست میں ہم ایک ایسے مردِ دانا، ایک ایسی روحِ تاباں، اور ایک ایسے شاعرِ حکیم کی فکری معنویت پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کا ذکر محض تاریخ کا حوالہ نہیں بلکہ آنے والے زمانوں کا فکری دستور ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبالؒ—وہ شاعر جس نے قوموں کے زوال میں امید کے چراغ جلائے، تہذیبوں کی کھوکھلی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، اور انسان کے ضمیر میں وہ صدائے بازگشت پیدا کی جس کے نقوش ابھی تک مٹ نہیں سکے۔

اقبالؒ کی عظمت صرف اس بات میں نہیں کہ وہ اردو یا فارسی ادب کے بڑے شاعر ہیں، بلکہ اس میں ہے کہ وہ فلسفے، تاریخ، مذہب، سیاست، تہذیب اور روحانیت کو ایک وحدت میں پرو کر ایک ایسی ہمہ گیر آواز بن جاتے ہیں جو مشرق اور مغرب دونوں کے لیے فکر کا نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔اقبالؒ کی تحریریں ایک ایسی صدا ہیں جو انسان کے باطن میں چھپے ہوئے امکانات کو بیدار کرتی ہیں۔انہوں نے کہا تھا:
؎ ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
یہ صرف ایک شاعر کی للکار نہیں، یہ ایک تہذیب کی از سرِ نو تعمیر کا پیغام تھا۔

مغرب کے علمی ایوانوں میں فکرِ اقبالؒ کی ضرورت کیوں ہے؟یہ سوال بظاہر سادہ اور اندر سے ایک تہذیبی بھونچال ہے۔ اس کا جواب محض ادبی یا فلسفیانہ نہیں، بلکہ انسانی تاریخ کے پورے تناظر میں پوشیدہ ہے۔ مغرب اپنی سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی غلبے کے باوجود ایک فکری خلا، ایک روحانی بےچینی، اور ایک تہذیبی بےوزنی کا شکار ہے۔ ایسے میں اقبالؒ کی آواز کسی دور دراز صحرا میں گونجنے والی بازگشت نہیں بلکہ ایک مینارۂ نور ہے جو انسان کو اس کی اصل کی طرف بلاتا ہے۔یہ سوال کہ مغرب میں فکرِ اقبالؒ کی ضرورت کیوں ہے؟بظاہر سادہ ہے، مگر اس کے اندر پوری انسانی تاریخ کا شور پوشیدہ ہے۔اگر یورپ کی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو وہ دور بھی آتا ہے جب فکرِ یونان اس کے کاندھوں پر سوار تھی، پھر مسیحی کلیسا نے اس پر حکمرانی کی، اور پھر سائنس نے مذہب کو گہری نیند سلا دیا۔ برطانوی استعمار اپنے عروج پر، جرمنی فلسفے کے میدان میں سبقت لیے ہوئے، اور فرانس سیاسی افکار کی تجربہ گاہ بنا ہوا تھا۔

اقبالؒ نے مغرب کے اس پورے فکری سفر کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس کی روح میں جھانکا۔ وہ جانتے تھے کہ مغرب کی ترقی اور اس کے زوال دونوں کے بیج اسی کی مادی فکر میں چھپے ہیں۔
اقبالؒ — مشرق و مغرب کے فکری سنگم پر کھڑا ایک مردِ داناہے!
جب اقبالؒ یورپ پہنچے تو اس وقت یورپ صنعتی انقلاب کے نشے میں تھا۔یہاں انسان ایک مشین ہے، اور روح ایک بے معنی اصطلاح۔یہاں زندگی کا پیمانہ منافع اور طاقت ہے، انسانیت نہیں۔یہاں آزادی کا نعرہ ہے، مگر روح قید ہے۔ اس فضا میں اقبالؒ نے محض مغرب کی ظاہری ترقی نہیں دیکھی، اس کے باطن میں اتر گئے۔ وہ لکھتے ہیں:
میں نے یورپ کی اصل روح کو اس کے کتب خانوں میں نہیں، اس کے بازاروں میں دیکھا—جہاں انسان کی قیمت اشیاء سے بھی کم تھی۔ یہ ایک فلسفی کاتجزیہ ہے،محض سیاح کامشاہدہ نہیں۔اقبالؒ بار بار کہتے ہیں کہ مغرب کی پوری تہذیب ’’انسان‘‘ کو کھو چکی ہے۔ وہ انسان جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے اسے زمین پر اپنا نائب بنایا۔
اقبالؒ اس بحران کو یوں بیان کرتے ہیں:
؎ ٹھیک ہے تجھ کو پرستارِ مکاں کچھ بھی نہیں
فکرِ انساں ہے مگر تیری نگہبانی سے محروم
یہی وہ جگہ ہے جہاں اقبالؒ مغرب کو ایک نئی راہ دکھاتے ہیں، خودی، عشق، روحانی ارتقاء اور انسانی مرکزیت کے ذریعےسوال یہ ہے کہ مغرب میں اقبالؒ کی ضرورت — کیوں ہے؟اوریہی آج کاموضوع بھی ہے۔

مغرب کی موجودہ فکری حالت کو سمجھنے کے لیے تین نکات انتہائی اہم ہیں:
روحانی خلا (Spiritual Vacuum)
تہذیبی بےسمتی (Civilizational Confusion)
فرد کی تنہائی اور وجودی بحران (Existential Crisis)
ٹیکنالوجی نے انسان کے ہاتھ مضبوط کیے مگر دل کمزور کر دیا۔سائنس نے کائنات کو کھول دیا مگر روح کو بند کر دیا۔جمہوریت نے آزادی دے دی مگر مقصد نہیں دیا۔سرمایہ داری نے دولت بڑھا دی مگر تعلق چھین لیا۔اقبالؒ نے اس صورتِ حال کو یوں بیان کیا:
؎ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
یہ وہ جملہ نہیں جو محض مشرقی شاعر کی تنقید ہو—یہ مغربی تہذیب کے اس اندرونی بحران کا تجزیہ ہے جسے آج خود امریکی اور یورپی مفکرین بھی مانتے ہیں کہ ان کےہاں آج ترقی ہے، سکون نہیں،دولت ہے، محبت نہیں،طاقت ہے، مقصد نہیں،آزادی ہے، روح نہیں،اقبالؒ انہی کھوئے ہوئے خزانوں کا نام ہیں۔اقبالؒ انسان کو دوبارہ مرکزیت دیتے ہیں،روح کو جلا دیتے ہیں،تہذیب کو اخلاق دیتے ہیں،اور عقل و عشق کو اتحاد عطا کرتے ہیں ۔اقبالؒ کے نزدیک یہ تمام بحران انسان کی گمشدگی کا بحران ہے—اور یہیں سے آغاز ہوتا ہے فکرِ اقبالؒ کی مغرب میں ضرورت کا سفر۔اقبالؒ نے کہا تھا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا
جب اقبالؒ نے یہ شعر کہا تھا تو یورپ پہلی جنگِ عظیم کے زخم بھر رہا تھا۔ آج جب مغرب سیاسی انتشار، تہذیبی تصادم، معاشرتی بے سمتی، اور نوجوانوں کی ذہنی تنہائی کے طوفان میں کھڑا ہے، تو اقبالؒ کے یہ اشعار ایک پیش گوئی سے کم نہیں لگتے۔

1-روحانی تشنگی اور اقبالؒ کی خودی
مغرب مذہب سے دور ہو کر ایک ایسے صحرا میں کھڑا ہے جہاں عقل تو موجود ہے مگر دل گم ہے۔ مذہب سے بیزاری نے انسان کو تنہا کر دیا ہے۔ مغرب میں انسان کی روح پیاسی ہے۔ چرچ کے زوال نے مذہب کو کمزور کیا اور فلسفہ اس کا متبادل نہ بن سکا۔ نفسیات نے انسان کو لیبارٹری کا نمونہ بنا دیا اور آرٹ نے حقیقت سے گریز کی راہیں نکال لیں۔اس کے مقابلے میں اقبالؒ کا تصورِ خودی مغربی ذہن کے لیے ایک تازہ ہوا کی لہر ہے۔اقبالؒ کہتے ہیں:
؎ یہی ہے رُخِ خزاں، اور یہی ہے رُخِ بہار
نہ خدا کی جستجو، نہ مجھے اپنی خبر
اور پھر وہ اس بحران کا جواب دیتے ہیں:
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
یہ وہ تصور ہے جووجودیت کے سارے سوالوں کو ایک دھڑکتے ہوئے جواب میں سمیٹ دیتاہے۔اقبالؒ اس پیاس کا واحد جواب رکھتے ہیں:
اقبالؒ کا فلسفہ خودی، وہ روحانی مرکز ہےجو انسان کو اس کے رب سے جوڑ کر ایک زندہ وجود بناتا ہے۔یہی وہ پیغام ہے جو مغرب کے نوجوانوں، پروفیسروں، اور مفکروں کے کانوں میں نئی معنویت کے ساتھ پڑ رہا ہے۔ کیونکہ جب انسان اپنی اصل کھو دیتا ہے تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے:میں کون ہوں؟اقبالؒ کہتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
یہ شعر مغرب کے ان ذہنوں کے لیے نئی کائنات کا دروازہ ہے جو آج عصبیت اوروجودیت کے بوجھ تل پس رہے ہیں۔

2-مغرب کا سماجی بحران اور اقبالؒ کا اخلاقی نظام
خاندانی نظام ٹوٹ چکا، نسلیں ایک دوسرے سے اجنبی ہو گئیں، اور انسان مشینوں کا ساتھی بن گیا۔سرمایہ داری نے خاندان کو بازار کے اصولوں پر لا کھڑا کیا۔اقبالؒ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں:
؎ جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یعنی اخلاقیات کے بغیر جمہوریت بھی ظلم بن جاتی ہے۔اقبالؒ کے نزدیک سماج تبھی بنتا ہے جب فرد خود شناس ہو،اخلاقی بنیادوں پر قائم ہو،مقصد سے جڑا ہو،اور روحانی طور پر زندہ ہو۔یہ وہ چار ستون ہیں جن کی آج مغرب کو سخت ضرورت ہے۔

مغرب میں خاندانی نظام کی شکست انسانی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے۔یساریت اور دہریت نے اخلاقیات کا دامن کھینچ لیا۔سرمایہ داری نے انسان کو چیزوں کا غلام بنا دیا۔ایسے میں اقبالؒ سماجی نظام کو دوبارہ انسانی بنیادوں پر استوار کرنے کا منصوبہ دیتے ہیں۔ان کے ہاں انسان محض اقتصادی اکائی نہیں، بلکہ ایک اخلاقی، روحانی اور سماجی وجود ہے۔وہ اپنی قوم کو تو مخاطب کرتے ہیں لیکن پیغام پوری انسانیت کے لیے دیتے ہیں:
نگاہِ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
یہ وہ معیار ہے جس پر کسی بھی تہذیب کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے، مغربی تہذیب بھی۔

3-استعمار کے خلاف فکری مزاحمت اوربغاوت
اقبالؒ کا یہ کارنامہ بھی حیران کن ہے کہ انہوں نے مغرب کی علمی دنیا کے سامنے کھڑے ہو کر مغرب ہی کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ، مغرب میں اقبالؒ کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسی آواز ہیں جو مغرب کے فکری استعمار کو چیلنج کرتی ہے مگر دشمنی کے بغیر، نفرت کے بغیر،تلخی کے بغیر،سچائی اور وقار کے ساتھ، بلکہ تہذیبی وقار کے ساتھ۔وہ کہتے ہیں:
؎ نہ ستاروں میں ہے پنہاں، نہ تقدیر میں ہے
جو ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ ہماری ہمت ہے
یہ پیغام صرف ایشیا یا افریقہ کے غلاموں کے لیے نہیں تھابلکہ یہ پیغام غلام قوموں کے لیے تحرک تھا مگر آج مغرب میں بھی وہ قومیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں، اس پیغام سے قوت حاصل کر رہی ہیں۔، اقبالؒ کی شاعری سے نئی قوت حاصل کر رہے ہیں۔

4-اقبالؒ کا مغرب کے علمی حلقوں میں مقام— مغربی علمی دنیا کی گواہی
کہیں بھی آپ جائیں، وہاں اقبالؒ کی فکر پر گفتگو ہوتی ملے گی۔ یقیناً یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ آج آکسفورڈ، ہارورڈ، سوربون، برلن، ویانا، اور کیمبرج جیسے اداروں میں اقبالؒ پر تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ ، کورس پڑھائے جا رہے ہیں، اور ان کی شاعری کے تراجم مغرب کے کتاب گھروں میں جگہ پا رہے ہیں۔برطانوی اسکالر ریمونڈ ڈوسن نے کہا تھا
“Iqbal is the voice of Eastern revival.”
جرمن فلسفی این میری شیمل نے کہا:
“He is one of the few poets whose words seem to speak beyond centuries.”
یہ آواز کوئی معمولی آواز نہیں، یہ وہ نغمہ ہے جو زمانوں کو عبور کرتا ہے۔
اس میں کوئی حیرت نہیں۔اقبالؒ نے یورپ کو محض دیکھا نہیں، اس کے ذہن کو پڑھا تھا۔اس کے طاقتور پہلوؤں کو سراہا اور اس کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔انہوں نے کہا تھا:
میں یورپ کے چہرے سے حیرت زدہ تھا مگر اس کے دل سے غافل نہ ہوا۔یہی وجہ ہے کہ مغرب کے مفکرین اقبالؒ کو ایک ایسے نقادِ تہذیب کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے انصاف سے کام لیا۔ نہ غیر ضروری تعریف کی نہ بے جا تنقید۔

اقبالؒ — مستقبل کی سمت متعین کرنے والی آواز
انسان کے پاس طاقت ہے مگرمنزل نہیں۔ دنیا نئے دور کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دنیامصنوعی ذہانت، جینومکس، روبوٹکس اور نیوکلیئر قوت کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ انسان کیا کر سکتا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مغرب ابھی تک تلاش نہ کر سکا۔ مگر اقبالؒ نے برسوں پہلے کہہ دیا تھا:
؎ عقل عیار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم
اقبالؒ عقل کو رد نہیں کرتے، بلکہ عقل اور عشق کی ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ یعنی صرف عقل راستہ نہیں دکھا سکتی، روحانی شعور لازمی ہے۔اگر مغرب اقبالؒ کے اس توازن کو سمجھ لے تو وہ نہ صرف اپنے روحانی بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ انسانیت کو بھی نئی جہت دے سکتا ہے۔اقبالؒ کے نزدیک اصل تہذیب وہ ہے جس میں علم اور روح دونوں ہم آہنگ ہوں۔اگر یہ پیغام مغرب سمجھ لے تو وہ نہ صرف اپنے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ انسانیت کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے۔

اقبالؒ مغرب کو کیا سکھاتے ہیں؟
اقبالؒ مغرب کو پانچ بڑی تعلیمات دیتے ہیں
انسان کائنات کا مقصود ہے، انسان خدا کی زمین پر اس کا نائب ہے—کوئی بے مقصدبھٹکا ہوا ایٹم نہیں۔
مقصدیت کے بغیر آزادی تباہی اور اخلاقیات کے بغیر آزادی فریب بن جاتی ہے
سائنس ضرورت ہے مگر روح اس کی رہنما ہو۔ روحانی استحکام کے بغیر سائنس خطرناک ہے۔
اخلاقیات کے بغیر جمہوریت فریب ہے۔سرمایہ داری اور سوشلزم دونوں انسان کے بغیر ادھورے ہیں۔ سرمایہ داری کے بغیر سماجیت ظلم ہے، اور سماجیت کے بغیر آزادی غلامی ہے۔
زندگی ارتقاء کا نام ہے—حرکت، جستجو اور مسلسل تخلیق، زندگی مسلسل کوشش، حرکت، جستجو اور مسلسل تخلیق، مسلسل ارتقاء، اور مسلسل بلند پروازی کا نام ہے۔اقبالؒ فرماتے ہیں:
؎ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

یہ مغرب کے لیے پیغام ہے کہ ترقی کا سفر ختم نہیں ہوا،اسے صحیح سمت دیناباقی ہے۔یہ اسباق ہر تہذیب کو درکار ہیں، مگر مغرب کو ان کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔اس لئے مغرب میں فکرِ اقبالؒ کی اشد ضرورت جتنی آج ہے، اس سے قبل نہیں تھی اور یہ اعتراف مغرب کے علمی حلقوں میں کیا جارہاہے کہ:مغرب ایک دوراہے پر ہے۔اسے سائنس تو ملی، مگر سکون نہیں۔آزادی ملی، مگر تعلق نہ ملا۔دولت ملی، مگر محبت نہ ملی۔طاقت ملی، مگر مقصد نہ ملا۔اقبالؒ اسی مقصد کا نام ہیں۔وہ انسان کو دوبارہ مرکزیت دیتے ہیں۔وہ روح کو دوبارہ زندگی دیتے ہیں۔وہ تہذیب کو دوبارہ اخلاق دیتے ہیں۔وہ عقل و عشق کو ہاتھوں میں ہاتھ دے کر آگے بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ پیغام مغرب کو بتاتا ہے کہ ترقی کا سفر ختم نہیں ہوا، مگر اس کی سمت درست کرنی ضروری ہے۔

خواتین و حضرات!
اقبالؒ مشرق کے شاعر نہیں—اقبالؒ کی فکر محض مسلمانوں کی میراث نہیں، وہ انسانیت کے شاعر ہیں۔ان کی نگاہ زمین کے کناروں تک محدود نہیں، آسمانوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ان کا درد عالمی ہے، ان کی نگاہ کائناتی، ان کا پیغام ازلی۔وقت آگیا ہے کہ مغرب اقبالؒ کو محض “پیوٹ آف ایسٹ”نہ کہے بلکہ” آرکیٹیکٹ آف ہیومن”کے طورپر پہچانے۔اقبالؒ نے کہا تھا:
آیئے آخر میں اقبالؒ کے چند اشعار کے ساتھ اس گفتگو کو سمیٹتے ہیں:
کھول آنکھ،زمیں دیکھ،فلک دیکھ،فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھُپا دیکھ
ایّامِ جُدائی کے سِتم دیکھ، جفا دیکھ
ایک اورجگہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
؎ نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
؎ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
مغرب آج انہی سچائیوں کا محتاج ہے،اور اقبالؒ اسی عظیم سچائی کا نام ہیں۔یہ سوچ زمین کی نہیں، آسمان کی بھی ہے—اور شاید اسی لیے مغرب کو آج اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
(اقبالؒ اکیڈمی لاہور کے زیراہتمام سپائرزکالج چونیاں میں صدارتی خطاب)

اپنا تبصرہ بھیجیں