The Muslim Ummah: Alliances and Discord

امتِ مسلمہ:اتحادیاتباہی

:Share

جب تاریخ کی مسلسل گردشِ لیل ونہارپرنگاہ ڈالیں توایک ہی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے وَاعْتَصِمُوابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَلَاتَفَرَّقُوا۔افسوس کہ حبلِ الٰہی کوتھامنے کی بجائے ہم نے رشتۂ اخوّت ہی کوبُننے سے انکارکردیا۔آج کے معرکۂ ارض وسما میں مسلم امّت کی یہی تفرّقہ آرائی اُس تلوارکا بَرّاق ساپھل بن چکی ہے جواُنہی کے سینوں کوچھیدرہی ہے۔

اگرمسلم ممالک متحدنہ ہوئے توسب کی باری آئے گی–ایک سفارتی بیان نہیں،بلکہ تاریخی صداقت بن کرہمارے حفاظتی دروازوں پر آن کھڑاہواہے۔یہ جملہ—ایک چیختاہواجملہ یاتاریخ کاکڑا فیصلہ اورپیٹھ پربرسنے والاکوڑہ ہے —یقیناًیہ نہ کوئی جذباتی نعرہ ہے،نہ محض خطیبانہ فقرہ،بلکہ تاریخ کے قبرستان سے اٹھتی ہوئی وہ آہ ہے جوسقوطِ غرناطہ سے سقوطِ بغدادتک ہرمسلم سلطنت کی بربادی کامرثیہ بن کرگونجتی ہے۔یہ ہماری اس تاریخ کاآئینہ ہے جوہمیں ہمارے آئندہ انجام کی جھلک دکھارہاہے۔یہ محض مستقبل کااندیشہ نہیں،حال کاننگاسچ ہے۔ایک ایسا سچ جسے ہرمسلم ملک اپنی کمزورسفارتی چادرمیں چھپانے کی کوشش کرتارہاہے،لیکن اب وقت آن پہنچاہے کہ اس سچ کا—کھلے ماتھے اوربیدارشعورکے ساتھ سامناکیاجائے ۔

آج ایران نشانے پرہے،کل پاکستان یاسعودی عرب بھی ہوسکتاہے۔تاریخ شاہدہے کہ جب اُمتِ مسلمہ بکھری،تواندلس سے بغدادتک سب کچھ راکھ ہوگیا۔سوال یہ ہے کہ کیاہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا؟یاپھرہم وہ مسافرہیں جوہرباراسی راہ میں بھٹکتے ہیں جس سے پہلے بربادہوچکے؟

مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے عظیم زوال صرف عسکری کمزوری سے نہیں آیا، بلکہ وحدت کے شیرازے کے بکھرنے سے آیا۔ اندلس میں مسلمان علم، تہذیب اور فن کے امام تھے، مگر جب عرب، بربر اور اسپینی مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوئے، تو عیسائی افواج نے اُن کے علمی مراکز کو شعلوں میں لپیٹ دیا۔ بغداد، جہاں الفارابی، ابن سینا، اور ابن رشد کے اذہان چمکتے تھے، جب خلیفہ نے عالمِ اسلام سے اتحاد کی اپیل کی، تو کوئی نہ آیا، اور ہلاکو خان نے دریاے دجلہ کو صرف سیاہیِ علم سے نہیں، بلکہ خونِ عالِم سے سیاہ کر دیا۔ تاریخ چیخ چیخ کر ہمیں بتاتی ہے جب مسلم امت وحدت سے دور ہوتی ہے، تو وہ قوتِ جذب سے نہیں، قوتِ ضرب سے پہچانی جاتی ہے۔

تاریخ کے ائینے میں جب جھانک کر دیکھتے ہیں تو یہ تسلیم کرنا پرتا ہے کہ جب وحدت ٹوٹی،پھر عزت بھی تار تار ہوگئی۔ دشن نے یہ نسخہ ایک بار پھر ہماری آنکھوں کے سامنے استعمال کیا ۔ 2006ء میں حزب اللہ جیسے ایک چھوٹے گروپ نے اپنی شجاعت کے ساتھ صرف اسرائیل کے ہی نہیں بلکہ اس کے تمام مربیوں کو بھی شرمندہ کرکے رکھ دیا اور وہ اسرائیل جس کو اپنی ائیر فورس پر ایسا ناز تھا کہ خود امریکی فوجی سربراہ اپنے خطاب میں اسرائیلی فوج کی شجاعت کو امریکی فوج کیلئے ایک ماڈل قرار دیا کرتے تھے، وہ تمام دشمن مبہوت ہو کر رہ گئے لیکن دشمن نے ایک باقاعدہ ایک پلاننگ کرکے خطے کے مسلمان ملکوں کے درمیان ایک مضبوط دشمنی کی لکیر کھینچ کر اپنے مقاصد کی منزل کا سفر شروع کیا اور بالآخر ایران کی طرف سے کھڑی کی گئی آہنی فصیل کو باری باری نہ صرف کمزور کیا بلکہ تباہ کرکے خطے کے تمام ممالک کو یہ پیغام بھیجا کہ خطے میں اسرائیل کے سامنے سرجھکا کر احکام کی اطاعت کرنا ہو گی۔

مشرقِ وسطیٰ کے تازہ الاؤ کی تپش اب تک فضا میں موجود اپنے وجود کا اھساس دلا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ کی تاریک شب کو اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اصفہان کی اُس جوہری تنصیب پر کاری وار کیا جو ایرانی قومی غیرت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنیں، سینکڑوں جانیں لقمۂ اجل ہوئیں، اور تہران کے دانشور حلقوں میں قیامتِ صغریٰ کا نقشہ کھنچ گیا۔ ایران نے بھی خاموشی کو شکست دی اور سو سے زائد ڈرون و میزائل، عراق، شام اور اردن کی فضاؤں میں تیرتے ہوئے اسرائیلی حدود تک لے گیا۔

وہی مسلم سرزمینیں جو قبلۂ اول کی آزادی کے لیے صفِ اوّل میں ہونی چاہییں، آج اُن پر سے اسرائیلی میزائل گزر رہے تھے، اور جواب میں ایران کے ہتھیار مسلم ممالک کی فضاؤں سے گزر کر اسرائیل تک پہنچ رہے تھے اور ان کی خاموشی یا رضا مندی دشمن کی تقویت کا سبب بن رہی تھی۔ یہ ہتھیار جب مسلم ممالک کی سرحدیں چیرتے ہوئے گزرتے ہیں تو دل سوال کرتا ہے کہ اپنی سرزمین اغیار کی عسکری گزرگاہ کیوں بنے؟ اس خاموش رضامندی میں کہیں سفارتی “مصلحت” ہے، کہیں مالی “معاونت”، اور کہیں عسکری اڈوں کا وہ جال جو امریکہ نے ریاض سے دوحہ، انقرہ سے دیگر مسلم ممالک تک بچھا رکھا ہے۔ نتیجہ یہ کہ مسلم دنیا کے دارالحکومت اپنی ہی فضاؤں میں پرائی جنگ کا شور سننے پر مجبور ہیں۔ یہ فقرے صرف جغرافیائی حقیقت نہیں، بلکہ عبرت کا ایک لمحہ ہیں۔ یاد کیجیے جب میدانِ جنگ صرف خاک کا نہیں ، وفاداری کا میدان بن جائے اور پَرائی سرزمین اور اپنوں کی مصلحت پر خاموشی بھی گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔

امریکی بندوق کبھی اسرائیل کے کاندھے پر سجی نظر آتی ہے، کبھی امریکی سایۂ عاطفت—ایک تلوار، ایک ڈھال، اس کے گرد حفاظتی ڈھال بن جاتی ہے۔ اصفہان کے بعد تہران کے جوابی میزائل داغے گئے تو مشرقی بحرِ روم میں امریکی جنگی جہازوں کے انٹرسپٹر میزائلوں نے اسرائیلی آسمان کو فولادی قبّہ عطا کر دیا۔ اسی دوہرے معیار کی بدولت اسرائیلی جارحیت “دفاع” اور ایرانی ردِّعمل “دہشت گردی” قرار ٹھہرا دیا گیا۔ یہ مقتدر بیانیہ مغربی میڈیا کی چاپلوسی، اور مسلم میڈیا کی کم مائیگی کے بغیر ممکن نہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کی قوت کا راز اس کے پشت پناہ میں ہے کہ اسرائیل کو ہر طرح کی امریکی مدد حاصل ہے اور امریکا کی پشت پر اس کے مغربی اتحادی احکام کے منتظر رہتے ہیں —امریکی دفاعی میزائل ہو، سائبر وار ہو، جاسوسی ڈرون ہو یا اقوامِ متحدہ میں ویٹو پاور—یہ سب اسرائیل کو اس لیے میسر ہیں کہ اس کی رگوں میں امریکہ کا سرمایہ اور عسکری خون دوڑ رہا ہے۔ غزہ کی بربادی ہو یا ایران پر حملہ—امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کو نہ صرف دفاع دیا بلکہ جارحیت کی اجازت بھی دی۔

عالمی قوانین—جو ایک وقت میں اقوام کا اخلاقی معیار سمجھے جاتے تھے—اب فقط طاقتور کے مفاد کی حفاظت کا دستاویز بن چکے ہیں۔ عالمی ادارے اور قوانین صرف کاغذی دعوے بن چکے ہیں اسرائیل بار بار بین الاقوامی حدود پامال کرتا ہے، مگر نہ کوئی پابندی، نہ کوئی مذمت، نہ کوئی کارروائی۔ یہ وہ دور ہے جہاں اقوامِ متحدہ کا انصاف صرف فٹ نوٹ کی حد تک باقی رہ گیا ہے۔ عدل اگر زر کے ترازو میں تولا جائے، تو مظلوم ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ہال نما عدالتِ خموشاں میں قراردادیں جوں ہی اسرائیلی اقدام کے خلاف میز پر آتی ہیں، ویٹو کی قینچی انہیں کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ، آئی اے ای اے، انسانی حقوق کی تنظیمیں—سب وہ منجمد مجسمے ہیں جن کے چہروں پر انصاف کی مسکراہٹ تو ہے، مگر لب سلے ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں کی گونگی عدالت آئی اے ای اے کی فائلیں، انسانی حقوق کونسل کی رپورٹیں—سب بے بس۔ یہ وہی منہ زور اسرائیل ہے جسے عالمی قانون کی زرّیں لکیر نہیں، بلکہ واشنگٹن کی سرخ بتی روکتی یا آگے بڑھنے کو کہتی ہے۔

ان اداروں کا انصاف طاقتوروں کے قدموں میں بچھا ہے۔ فلسطین ہو یا لبنان، شام ہو یا ایران، جب بھی مظلوم نے فریاد کی، ان اداروں نے سنا ضرور، مگر لبیک نہ کہا۔ گویا یہ عدالتیں ہیں جہاں انصاف کی کرسی تو ہے، مگر جج غیر حاضر ہے۔ یہ عالمی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

امریکہ، جو خود کو “جمہوریت کا علمبردار” کہلاتا ہے، جب فلسطین یا ایران کی حمایت کی بات آتی ہے تو جمہوریت کی دہلیز پر آمریت کا طوق ڈال لیتا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو یا تو قرض کی مار ہے، یا پابندیوں کا خوف۔ گویا امریکی دباؤ کی وجہ سے مؤثر پالیسی کا فقدان ہے۔ ایسی حکمرانی جو حق کا علم بلند کرنے سے پہلے خزانے کا توازن دیکھے، وہ حکمرانی نہیں، منافع بخش ملازمت ہے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ اسرائیل، بھارت، امریکا، اور ان کے اتحادی مسلم دنیا کو اجتماعی وجود کے بجائے ٹکڑوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں۔ دشمن کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ایک ایک کرکے نشانہ بنایا جائے۔ افغانستان پر امریکا نے اکیلے حملہ کیا۔ عراق پر اتحادی افواج نے چڑھائی کی۔ لیبیا کو اکیلا کر کے معمر قذافی کا خاتمہ کیا۔ شام کو خانہ جنگی میں دھکیل کر ایران، ترکی اور عرب دنیا کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا۔ یہ سب کچھ اسی منصوبے کا حصہ ہے کہ مسلمانوں کو کبھی اجتماعی طور پر للکارا نہ جائے، بلکہ ایک ایک کر کے توڑا جائے۔

ریاض، کویت، قطر، یو اے ای، اردن اور دیگر مسلم ممالک میں امریکی اڈے اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی فصیلیں اورفوجی اڈے موجود ہیں۔ یہ صرف عسکری موجودگی نہیں، بلکہ سیاست، معیشت، اور میڈیا کی غلامی کا کڑوا نشان ہے۔ جب کسی قوم کی فضاء میں دوسرا ملک اپنی فوجیں رکھ دے، تو وہ ملک خود مختار نہیں، رہن شدہ زمین بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم حکمران اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔

اسرائیلی جارحیت دفاع، ایرانی ردعمل دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے، یہ وہ بیانیہ ہے جسے مغربی ذرائع ابلاغ نے بڑی چالاکی سے قائم کیا۔ جس اسرائیل نے درجنوں ممالک کی خودمختاری پامال کی، اسے “دفاعی ریاست” قرار دیا جاتا ہے۔ اور جو ممالک جواب دیتے ہیں، انہیں “ریاستی دہشت گرد” کہا جاتا ہے۔ یہ زبان کی جادوگری نہیں تو اور کیا ہے، جہاں لفظوں سے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو قاتل بنا دیا جاتا ہے؟ اس فریبِ بیانی کا توڑ صرف اس وقت ممکن ہے جب مسلم دنیا اپنی قلمی صف بندی کرے۔

آج اگر الجزیرہ، ٹی آر ٹی ورلڈ،اور پی ٹی ورلڈ جیسے ادارے عالمی بیانیہ میں مؤثر کردار ادا نہیں کر پا رہے، تو اس کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، حکمتِ عملی کی کمزوری ہے۔ ہمیں صرف خبری ادارے نہیں، فکری محاذ درکار ہیں۔ ایسا میڈیاجو فقط تصاویر اور ویڈیو نہ دکھائے، بلکہ وہ بیانیہ تخلیق کرے جو مظلوم کا وکیل اور ظالم کا قاضی بنے۔

ذرا نگاہِ بصیرت سے دیکھیے، رقبے میں چھوٹا سا اسرائیل، آبادی میں آپ کی مجموعی تعداد کا عُشرِ عشیر، اور پھر بھی طاقت کا محور۔۔۔وجہ صرف ایک کہ ہمارے ہاں وحدتِ مقصد نفاق اور دشمنی میں کہیں گم ہوگیا ہے۔خود احتسابی کے لمحوں کو آواز دیں تو جواب ملتا ہے کہ ریاض اور تہران مسلکی کشمکش، انقرہ و قاہرہ کے بیچ قیادت کی کشمکش،اسلام آباد کو عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ، یہ بکھراؤ ہی اسرائیل کی قوتِ ضارب بن چکا ہے۔ لیکن اگر آپ غور کریں کہ اللہ نے اس مؑعجزاتی ریاست پاکستان سے کیا کام لیا ہے۔

دورِ حاضر کے ’’برق رفتار‘‘ معرکوں میں مئی 2025ء کی وہ چار خونیں راتیں بھلائے نہیں جا سکتیں جب جنوبی ایشیا کے افق پر ڈرونوں کی شاہراہیں روشن ہوئیں اور راجپوتانے سے لے کر پنجابِ پاکستان تک فضاؤں میں آتشیں بارود کی خونخوار بو پھیل گئی۔ بظاہر یہ دو پڑوسی ایٹمی طاقتوں کا ٹکراؤ تھا، مگر پسِ پردہ اسرائیلی حربی ساز و سامان، امریکی سفارتی انگلیاں اور یورپی حاشیہ برداری نے اس کشمکش کو ایک ہمہ جہت اسکرپٹ کا رنگ دے دیا تھا۔

بھارت نے آپریشن سندور میں اسرائیلی ساختہ ہاروپ لوِٹرنگ ڈرونوں کی یلغار کو پاکستان کے فضائی دفاع پر آزمائشِ آہن بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے یہ کامی کاز چار ڈرون ہی پاکستان کیلئے کافی ہیں لیکن پاکستانی دفاع کی کاری ضرب نے صرف تین دنوں میں اس کے نہ صرف 69 کے قریب ڈرون مار گرائے اور 9 کی تمام صلاحیتیں جام کرکے انہیں زمین پر اتار لیا اور گرے ہوئے ڈرونز کے بکھرے پڑے ملبے کراچی سے لیکر لاہور اور آزاد کشمیر تک دنیا بھر کے میڈیا کو دکھا کر اسرائیل کے اس تکبر اور گھمنڈ کو ریزہ ریزہ کر دیا الحمداللہ۔

اس کامیاب روک تھام نے نہ صرف بھارتی عسکری حکمتِ عملی کو جھنجھوڑا بلکہ اسرائیلی عسکری انجینئروں کے لیے بھی لمحۂ حیرت پیدا کیا۔ کچھ غیر مصدقہ مقامی رپورٹس میں دعویٰ ہوا کہ اسرائیلی کنٹرول ٹیموں کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا، اور جب تل ابیب میں راتوں رات خاموش جنازے اٹھے، اسرائیل تک یہ اطلاع پہنچ گئی کہ انڈیا میں ہماری موجودگی کے بعد پاکستان جوابی طور پر تل ابیب اور حیفہ کا رخ کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی جب فضائی جھڑپوں میں انڈیا کے پانچ لڑاکا طیارے بشمول “رافیل” مار گرائے جانے کی خبروں کی تصدیق ہوگئی، ایک ہی لمحے میں شائننگ انڈیا کے 70 فیصد بھارتی گرڈ منہ کے بل گر گئے اور انڈیا تاریکی میں ڈوب گیا تو وہی امریکا جس نے اس جنگ کی ابتداء میں بڑی لاپرواہی اور کھلنڈرا انداز اپنایا تھا، اسے سیز فائر یاد آ گیا۔

امریکی سفارت کاری نے فوری طور پر اپنی آخری اننگز کا آغاز کرتے ہوئے دونوں دارالحکومتوں پر تجارتی و مالی دباؤکے تازیانے برسائے اور ۱۰ مئی کو جنگ بندی کا خاکہ تیار کرایا۔ امریکی صدر نے بڑے فخر سے اسے اپنی ’’ثالثیٔ نجات‘‘ کہا۔ وہی متکبر مودی اور اس کا میڈیا جو آدھے پاکستان پر اپنے قبضے کی خبریں چلا رہا تھا اور اپنے کسی نقصان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا، دھیرے دھیرے عالمی میڈیا کے سامنے ننگا ہونا شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے بلومبرگ میڈیا کے سامنے اس کے فوجی جنرل نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار اپنی سیاسی حکومت کو ٹھہرایا اور اس کے بعد بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ واشنگٹن نے انہیں خفیہ انٹیلی جنس شیئر کی کہ پاکستان تباہ کن حملے کے قریب ہے۔ انڈین وزیر خارجہ کا یہ بیان بھی عالمی میڈیا میں مودی کے منہ پر کالک ملنے کیلئے چلنے لگا تو پھر جا کر بھارتی عوام کو گودی میڈیا کے جھوٹ کا پتہ چلا۔

اس 88 گھنٹے کی اس جنگ میں یوں محسوس ہوا کہ برّی و بحری قوتوں سے کہیں بڑھ کر اب ڈرون اور الیکٹرانک وار فیئر فیصلہ کن ہتھیار ہیں—لیکن اُن کی پشت پر کھڑا سفارتی اور مالی اکٹھ اصل طاقت ہے۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ جب عسکری صلاحیت میں اعتمادِ کامل ہو تو عالمی طاقتیں بھی سیز فائر پر آمادہ ہو جاتی ہیں؛ اس میں پیغام عبرت یہ ہے کہ طاقت ہی وہ زبان ہے جسے اقوامِ عالم بہ خوبی سمجھتی ہیں۔

یہ معرکہ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اگر ایک سنگل وِنگ ریاست اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی سے ہندوستانی میدانِ جنگ کو نئی جہت بخش سکتی ہے، تو پانچ درجن مسلم ممالک کیوں کر مشترکہ دفاعی و اقتصادی منظرنامہ نہیں رقم کر سکتے؟ اگر آج پاکستان نے ڈرونوں کا سیلاب روکا ہے، تو کل ایران یا ترکی کو بھی یہی کمال دکھانا پڑے گا۔ لہٰذا امتِ واحدہ کے تصور کو محض تقریری آرائش نہیں، عملی معاہدوں، مشترکہ ریسرچ سنٹروں اور متحدہ میڈیا وائس کی صورت اختیار کرنی ہو گی —ورنہ تاریخ کے لکھنے والے ہمارے لیے پھر کوئی اور نوحہ محفوظ رکھ چکے ہیں۔

یاد رکھیں کہ آج ایران ہے، کل ہم ہو سکتے ہیں—یہ لمحۂ فکریہ اور بیداری کی آخری صدا ہے۔ جس طرح ایک ایک کرکے فلسطین، شام، لیبیا، عراق، افغانستان، اب ایران نشانہ بنے، تو کون باقی رہ گیا؟ ایک ایک پتا ٹوٹتا جا رہا ہے، اور ہم درخت کی جڑ سے لپٹے خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔اگر آج بھی مسلم امہ نہ جاگی، تو تاریخ پھر دہرائے گی وہی سانحے جن پر ہم نے صرف قراردادیں اور تعزیتیں جاری کیں وہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ایک لعنت بن کر رہ جائیں گی۔

آج اُمتِ مسلمہ 57 ممالک پر مشتمل ہے، جن کے پاس بے شمار قدرتی وسائل، لاکھوں کی افواج، اور کروڑوں نوجوان ذہن موجود ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ دنیا میں مظلوم کہلاتی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ امت کی یہ قوت بکھری ہوئی ہے، منتشر ہے، اور ہر ملک اپنی کرسی، اپنی تجارت، اور اپنی بقا کے محدود خول میں بند ہے۔ فلسطین صہیونی جارحیت کا شکار ہے، اور بعض عرب ممالک اس جارحیت کے ساتھ تجارتی معاہدے کر رہے ہیں۔ ایران پر حملہ ہوتا ہے، اور مسلمان ممالک خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ پاکستان پر بھارت کی زبان درازی ہو یا اسرائیلی پشت پناہی سے حملے، اکثر مسلم ریاستیں غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ ترکی میں خانہ جنگی کے سائے ہوں، یا لیبیا، شام اور یمن کی بربادی، مسلم دنیا کے باہمی اختلافات دشمن کی حکمتِ عملی کو تقویت دیتے ہیں۔انہی وجوہات کی بناء پر بپھرا ہوا دشمن مسلم امہ کو ختم کرنے کیلئے ہر قسم کے حملے کر رہا ہے۔

ایران پر اسرائیلی حملے، جوہری تنصیبات کی تباہی، سائنس دانوں کی ٹارگٹ کلنگ — یہ سب اُس عالمی پیغام کا حصہ ہیں جو ہر مسلم ریاست کو دیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے خود کو مغرب کے سامنے تسلیم نہ کیا، تو تمہاری باری بھی آئے گی اور یہ کوئی دور کی کوڑی نہیں۔ کل کو یہی حربے پاکستان، ترکی، یا سعودی عرب کے خلاف بھی آزمائے جا سکتے ہیں۔ دشمن کے پاس کوئی اخلاقی، قانونی یا تہذیبی حد باقی نہیں رہی۔ ان کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ مکمل طاقت کے ساتھ مسلمانوں کو فنا کر دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ اب ہم ان مصائب سے کیسے نجات حاصل کریں کہ مسلم ممالک کے اتحاد میں جاری رکاوٹیں دور کرکے ہمیں ایسی کامیابی نصیب ہو جو ہمیں جاری ذلت ورسوائی کے قعرِ مذلت سے نکال سکے۔ اس کیلئے سب سے اہم سوچ یہ ہونی چاہئے کہ ہمیں اپنے وجود اور وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی اس گم گشتہ منزل کے حصول کی تلاش کرنا ہوگی۔ جو سمتیں ہمیں اس گھیرے سے نکال سکتی ہیں، وہ کوئی طلسمی دروازے نہیں بلکہ واضح خطوط ہیں۔

حل کی طرف فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اتحاد، خود انحصاری، اور مشترکہ دفاع۔یہ صورتِ حال تقاضا کرتی ہے کہ:
٭او آئی سی کو محض اعلامیوں سے نکال کر عملی اتحاد کی طرف بڑھایا جائے۔
٭ہمیں سب سے پہلے دفاعی خود کفالت کی طرف بڑھنا ہو گا جس کیلئے ترکی، پاکستان، ایران، ملائیشیا مشترکہ تحقیق اور سٹریٹیجک ٹیکنالوجی میں دستِ تعاون بڑھائیں۔ اور انٹیلی جنس اشتراک کو ایک نظام میں ڈھالیں۔
٭اقتصادی اتحاد جس سے مغربی مالیاتی دباؤ کا توڑ ممکن ہو۔ اسلامی بینکاری اور مقامی کرنسیوں پر تجارت اس کی بنیاد ہو سکتی ہے۔
٭میڈیا کا عالمی متبادل، تاکہ مسلمانوں کی آواز عالمی سطح پر سنائی دے اور مغربی بیانیے کو چیلنج کیا جا سکے۔
٭عالمی میڈیا کے متبادل میں الجزیرہ، ٹی آر ٹی ورلڈ، پی ٹی وی ورلڈ کو تحقیقی صحافت اور عالمی لسانی تنوّع سے لیس کیا جائے، تاکہ آوازِ مظلوم صدا بہ صحرا نہ ہو۔
٭حکمرانوں کو ایوانوں میں یہی پیغام پہنچے کہ غزہ، کشمیر و اصفہان کی طفلانِ مسلم کی چیخیں ہماری بھی ہیں، اور ہمارے زخم مشترک ہیں۔یہ عوامی دباؤ اس قدر شدید ہو کہ حکمرانوں کے ایوانوں میں اس زلزلے کا خوف موجود رہے کہ اب ان کی کوئی سستی ان کو بچا نہیں سکے گی۔

یاد رکھئے! آج اصفہان لہو رنگ ہے تو کل کراچی، ریاض یا کوالالمپور کا مقدَّر بھی ویسا ہو سکتا ہے۔ دشمن اپنی یلغار میں اخلاق کی آخری لکیر روند چکا؛ اور ہم اب بھی دل کے کواڑ پر دستکِ اتحاد سننے کو تیار نہیں۔ اگر ہم نے اپنے دفاع کو فریاد پر چھوڑا تو نوحے ہی نوحے رہ جائیں گے، اور تہذیبِ مسلم کے کھنڈر پر تاریخ ایک اور مُوحش باب رقم کر دے گی۔

یہ وقت ہے جب مسلمان صرف امتِ خطبہ نہ بنیں، بلکہ امتِ عمل بنیں۔ جب ان کے فیصلے واشنگٹن اور لندن میں نہ ہوں، بلکہ مکہ و مدینہ، استنبول و تہران، لاہور و کوالالمپور میں ہوں۔ اتحاد ہی وہ نکتہ ہے جس پر سیرتِ نبویؐ سے لے کر خلافتِ راشدہ تک، تاریخ نے اپنی عظمت کی بنیاد رکھی۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے ، تونہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری؛ اور جب ہوش آئے گا، تو تاریخ ہمارے ہاتھوں میں نہیں، ہمارے خلاف لکھی جا چکی ہو گی۔

مسلم دنیا اب اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں مزید تاخیر صرف تباہی کی گارنٹی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم نے اتحاد، خودداری، اور مشترکہ حکمتِ عملی کی طرف قدم نہ بڑھایا، تو ہمارے بعد اذانیں تو رہ جائیں گی، لیکن صفِ نمازی خالی ہو گی۔ آج ایران نشانے پر ہے، کل شاید ہم ہوں — اور اگر ہم نے صرف قراردادوں، مذمتی بیانات، اور سفارتی ’’افسوس‘‘ تک خود کو محدود رکھا، تو ہم تاریخ کے اُن کرداروں میں شامل ہو جائیں گے جنہوں نے دشمن کی یلغار کو صرف آنکھوں سے دیکھا، ہاتھ سے روکا نہیں۔

حضرات! وقت کم ہے، چاندنی ڈھل رہی ہے، اور افقِ مشرق سے ایک نئی سُرخ پَرتَو جھلک رہی ہے—یہ یا تو صبحِ حیات کی نوید ہے، یا شفقِ خونچکاں کا اذنِ آغاز۔ تاریخ کا نوشتہ ہمیں جھنجھوڑ کر مطالبہ کر رہا ہے کہ مسلمانوں کی بقا اب صرف ایمان سے نہیں، اتحاد، فہم، اور عمل سے مشروط ہو چکی ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں حکمتِ لقمان، عزمِ حیدر اوربصیرتِ عطا فرمائے، تاکہ ہم تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنی راہ خود متعین کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں