Ashes of Peace: Siege, Migration, and the Destiny of Nations

امن کی راکھ: محاصرہ، ہجرت، اور قوموں کی تقدیر

:Share

امریکی صدرکادعویٰ ہے کہ اس نے عہدہ سنبھالنے کے بعدغزہ اوریوکرین میں امن قائم کرنے کی سفارتی کوششیں شروع کر دی تھیں لیکن ایران اورروس کی علاقائی مداخلت اورحماس/حزب اللہ جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ ناکام ہو چکی ہیں جبکہ روس، ایران اورحماس امریکی صدر کوعالمی صہیونی سازش کاایک مہرہ قرار دیتے ہوئے ان الزامات کی تردیدکر رہے ہیں اورساری صورتحال کااسرائیل اوراس کے مربی امریکااورمغربی ممالک کوقراردے رہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ ٹرمپ نے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعدچندماہ کے دوران ہی پہلے غزہ پراپنے قبضے کے پلان کااعلان کیا،یورپ کوملامت کرتے ہوئے ڈنمارک سے گرین لینڈجزیرہ واپس لینے کی دہمکی دے ڈالی،نیٹوپرشدیدتنقیدکرتے ہوئے یورپی یونین کوبرابھلاکہا، اپنے پروسی کینیڈاپرکھلم کھلادہمکیوں کی برسات کرتے ہوئے اس پربھی قبضہ کرنے کاشوشہ چھوڑا،اسرائیل کوخوش کرنے کیلئے یمن پربمباری شروع کر دی اوراس کے بعدایک عالمی تجارتی جنگ چھیڑبیٹھے ہیں اوراب ان کی توجہ کامرکزایران ہے جس پروہ تاریخی بمباری کی دہمکی دیکراقوام عالم کوخوفزدہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔یوں معلوم ہوتاہے کہ ان کے پہلے دورِ اقتدار میں نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایران کی تباہی انہیں مقصودہے تاکہ خطے میں اپنے کرائے کے سپاہی اسرائیل جیسا خنجر خلیجی ممالک کے سینے میں گھونپ کراپنے مقاصدکی تکمیل کی جاسکے۔

اب مسئلہ وہی ہے جوٹرمپ کے پہلے دورِاقتدارکے وقت تھا:کیاچیزہے جوایران کوجوہری ہتھیارحاصل کرنے سے روک سکتی ہے؟ایران اس بات کی تردیدکرتاہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش رکھتاہے لیکن دیگرممالک کاخیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کم ازکم جوہری وارہیڈبنانے کی صلاحیت حاصل کرناچاہتاہے جوایک ایسی خواہش ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑیا یہاں تک کہ مکمل جنگ شروع ہوسکتی ہے۔

2015میں ایران نے امریکا،برطانیہ، فرانس،جرمنی،روس اورچین کے ساتھ ایک معاہدے پراتفاق کیا۔اسے”جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن ” کہاگیا۔اس کی شقوں کے تحت،ایران کواپنے جوہری عزائم محدودکرنے ہیں اوربین الاقوامی معائنہ کاروں کوملک میں داخلے اورمعائنے کی اجازت دینی تھی اوراگریہ ادارہ مطمئن ہوتواس کے عوض اس پرعائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جانی تھیں۔لیکن ٹرمپ نے 2018میں امریکاکواس معاہدے سے الگ کرلیااوریہ دعویٰ کیاکہ اس سے ایران کی ملیشیازجیسے حماس اور حزب اللہ کومالی مددملی اوردہشتگردی بڑھی۔معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکا نے ایران پردوبارہ پابندیاں عائدکردیں۔

اس کے ردعمل میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ پابندیوں کونظراندازکیااورزیادہ سے زیادہ یورینیئم جوہری ایندھن افزودہ کیا۔ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جلدہی جوہری وار ہیڈبنانے کیلئےدرکاریورینیم موجودہوسکتاہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کااندازہ ہے کہ اگرایران کے60فیصدافزودہ یورینیئم کے ذخیرے کواگلی سطح تک افزودہ کیاگیاتووہ تقریباًچھ بم بنا سکتا ہے۔

اب ایک مرتبہ پھرصدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران پر”زیادہ سے زیادہ دباؤ”کی اپنی سابقہ پالیسی کوبحال کردیاہے۔4فروری کو انہوں نے ایک یادداشت پردستخط کیے جس میں امریکی وزارت خزانہ کوایران پرمزیدپابندیاں عائدکرنے اورموجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک، خاص طورپرایرانی تیل خریدنے والے ممالک کوسزادینے کاحکم دیاگیا۔اب وائٹ ہاؤس اس معاشی دباؤکے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤڈالنے کی امیدبھی کررہاہے۔گزشتہ ماہ صدرٹرمپ نے ایران کے رہبرِاعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کوایک خط بھیجاجس میں مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی اور چندماہ کے اندرمعاہدے کامطالبہ بھی سامنے آگیا۔اب عمان میں امریکی اورایرانی حکام کے درمیان براہ راست بات چیت کاآغازبھی ہوگیاہے جوکسی بھی اتفاق کے بغیرختم بھی ہوگیا ہے۔ ایران کیلئےامریکی دھمکی واضح ہے:معاہدے پرمتفق ہوں یافوجی کارروائی کاسامناکریں۔ٹرمپ نے کہاہے کہ اگرایران کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے ہیں تومجھے لگتاہے کہ ایران کوبڑاخطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ایران میں کچھ پالیسی سازایسے معاہدے پر اتفاق کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں جس سے پابندیاں ہٹائی جاسکیں۔

بڑھتا ہوا افراط زراورقدرکھوتی ہوئی کرنسی کے ساتھ ایران کی معیشت شدیدمشکلات کا شکار ہےلیکن اس طرح کے کسی بھی معاہدے میں ایساسمجھوتہ شامل ہوسکتاہے جسے کچھ قبول کرنا سخت گیرعناصرکیلئےمشکل ہو۔ایران کوحالیہ مہینوں میں بہت مشکلات کاسامناکرناپڑاہے۔ اس کی”پراکسی ملیشیاز”اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران کمزورہوچکی ہیں اوراس کے علاقائی اتحادی شام کے صدربشار الاسداقتدارکھوچکے ہیں۔اس صورتحال میں تہران میں کچھ عناصریہ کہتے نظرآ رہے ہیں کہ شاید جوہری’ڈیٹرنٹ‘تیارکرنے کاوقت آگیاہے۔ امریکا اورایران فی الوقت دوکناروں پردکھائی دیتے ہیں اوران کے مذاکراتی مؤقف واضح نہیں۔

لیکن امریکانے واضح کردیاہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کومکمل طورپرختم کرناچاہتاہے،جس میں مزیدیورینیئم کی افزودگی کامکمل خاتمہ شامل ہواورساتھ ہی ساتھ وہ چاہتاہے کہ ایران لبنان میں حزب اللہ اوریمن میں حوثیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ایران کیلئےیہ شرائط قبول کرناناممکن بھی ثابت ہوسکتاہے۔کسی بھی جوہری افزودگی پرمکمل پابندی،یہاں تک کہ پرامن مقاصد کیلئےبھی،طویل عرصے سے ایران کیلئےایک حتمی سرخ لکیرکے طورپردیکھی جاتی رہی ہے۔ایرانیوں کی تکنیکی مہارت بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس کے سائنسدان دس سال پہلے کے مقابلے میں جوہری ہتھیار بنانے کے بارے میں اب کہیں زیادہ جانتے ہیں۔

صدرٹرمپ کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعدچندہی ماہ میں غزہ اوریوکرین میں امن قائم کرنے کی سفارتی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال اورکشیدگی نے اقوامِ عالم کوایک ممکنہ عالمی جنگ کے خدشے سے دوچار کردیاہے۔مشرق وسطیٰ،یورپ اوربحرالکاہل خطے میں طاقت کے توازن میں شدیدتبدیلی دیکھی جارہی ہے۔اسرائیل کی ایماء پر امریکا ایران پرالزام لگارہاہے کہ وہ ایران کا60٪افزودہ یورینیم کاذخیرہ جوہری بم بنانے کی صلاحیت دیتاہے۔یہ مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑکوجنم دے سکتاہے،جس میں سعودی عرب، ترکی،مصراور6دیگرممالک بھی جوہری پروگرام شروع کرسکتے ہیں۔

صدرٹرمپ نے ایران کودوماہ کی مہلت دی ہے تاکہ وہ ایک نئے معاہدے پررضامندی ظاہرکرے۔بصورتِ دیگرفوجی کارروائی کا عندیہ دے رکھا ہے۔تاہم، تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ اتنے قلیل وقت میں کوئی مؤثرمعاہدہ ممکن نہیں،خاص طورپرجب2015 کا”جے سی پی اواے” معاہدہ تیار کرنے میں دوسال لگے تھے۔بظاہرسفارتی کوششوں کاآغازبھی ہوگیاہے اورباہمی مذاکرات کیلئے وقت اور مقام کابھی تعین ہوچکاہے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سفارتی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

یادرہے کہ2015ءمیں ایران کے جوہری پروگرام کومحدودکرنے کے نتیجے میں میں”جے سی پی اواے”معاہدہ کی بنیادرکھی گئی اورایران پرعالمی پابندیاں اٹھالی گئیں لیکن ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِاقتدار2018ءمیں یکطرفہ طورپرمعاہدہ کوختم کرتے ہوئے دوبارہ عالمی پابندیوں کااعلان کردیا جس پراس کے مغربی اتحادیوں نے بھی اپنے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہارکیاکہ امریکانے اس معاملے میں ان سے مشاورت تک نہیں کی۔

ادھردوسری طرف اسرائیل نے امریکااورمغربی اتحادیوں کے توسط سے عالمی طورپرایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں ایک خوفناک پروپیگنڈہ جنگ کاآغازکررکھاہے جس کے جواب میں ایران کی جوہری سرگرمیوں نے ایک بارپھرعالمی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی ہے۔2015میں ہونے والے”جے سی پی اواے”معاہدے سے2018میں امریکا نے یکطرفہ طورپراعلان کرتے ہوئے علیحدگی کااعلان کردیاتھاجس کے بعدایران کی جانب سے یورینیئم کی افزودگی میں اضافے نے خطے کوغیرمستحکم کردیا ہے۔ایک اطلاع کے مطابق ایران کے پاس60 فیصد افزودہ یورینیئم کی مقدار اتنی ہے کہ اگراسے90فیصد ہتھیاروں کی سطح تک افزودہ کیاجائے تووہ تقریباً6جوہری بم بناسکتاہے۔

امریکاکامؤقف ہے کہ ایران کاجوہری پروگرام دنیاکیلئےخطرہ بن چکاہے اورایران نہ صرف جوہری افزودگی بندکرے بلکہ اپنی علاقائی پراکسی ملیشیاز جیسے حزب اللہ اورحوثی گروہوں کی حمایت بھی ترک کرے۔جہاں تک اسرائیل کاتعلق ہے،اس نے واضح کیاہے کہ وہ وہ ایران کی جوہری صلاحیت کے مکمل خاتمے کے سواکچھ قبول نہیں کرے گا۔نیتن یاہوکاکہناہے کہ وہ”اس سے اتفاق کریں گے جیسالیبیامیں کیاگیاتھا۔یہ لیبیاکے شہیدرہنما معمر قذافی کے2003میں پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں اپنے پورے جوہری پروگرام کوختم کرنے کے فیصلے کاحوالہ ہے لیکن ایران کااس نظیرپرعمل کرنے کاامکان نہیں۔ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کواس قدرمنتشراورمحفوظ مقامات پرمنتقل کردیاہے کہ ایک محدودحملے سے ان کومکمل طور پرختم کرنا ناممکن ہوگیاہے۔اس کی ٹیکنیکل مہارت میں گذشتہ دہائی میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے۔

اسرائیل نے جوہری پروگرام کاکبھی باضابطہ اعتراف نہیں کیالیکن ماہرین کامانناہے کہ اسرائیل کے پاس80سے90تک جوہری ہتھیارموجودہیں اور اس نے ڈائیمونانیوکلیئرری ایکٹر (نیگیوصحرامیں) میں یہ صلاحیت پیداکی ہے۔اسرائیل کے پاس ٹرائی ایڈکی بھی صلاحیت بھی موجودہے۔زمینی فرق یہ ہے کہ ایران ابھی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ اسرائیل مبہم جوہری طاقت اورمؤثرڈیٹرنس کاحامل ملک بن چکاہے۔اس طرح اسرائیل کی جوہری طاقت ایک خفیہ مگرمضبوط حقیقت ہے۔

ٹرمپ نے اقتدارسنبھالتے ہی ایران پر”زیادہ سے زیادہ دباؤ”کی پالیسی کااعلان کرتے ہوئے ایرانی تیل کے خریدارممالک(جیسے چین،بھارت)کو ایرانی تیل خریدنے پرپابندیوں کااعلان کردیاہے جبکہ دوسری طرف ایران کوخلیجی ملک کے سفیرکے توسط سے خط بھیج کرمذاکرات کی پیشکش بھی کی ہے جسے ایرانی صدرمسعودنے توقبول کرلیاہے لیکن ایرانی روحانی سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کامؤقف ہے کہ جوہری ڈیٹرنٹ ہماری سلامتی کی ضمانت ہے۔

امریکااورایران کے درمیان عمان میں براہ راست خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ان مذاکرات میں امریکانے دواہم شرائط رکھی ہیں کہ ایران اپناجوہری پروگرام مکمل ختم کرے اوردوسراحزب اللہ اورحوثیوں کی حمایت بندکی جائے جبکہ ایران نے جوابی شرائط کے طورپر امریکاسے تمام پابندیاں اٹھانے کااوردوسراجوہری پروگرام پرتحقیقات بندکرنے کامطالبہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ اب تک مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

خطے میں ممکنہ عالمی جنگ کامنظرنامہ اس قدرخوفناک نظرآتاہے کہ جس سے عالمی جنگ کے یقینی آثارکوروکنا ممکن نہیں رہے گا۔اگرایران پرحملہ ہوتاہے توایران یقیناًجوابی کاروائی کے طورپر خطے میں موجودامریکی اڈوں،اسرائیل،سعودی عرب اور اتحادیوں پرمیزائل حملے کرسکتاہے اورپراکسی وارکاآغازہوتے ہی حزب اللہ،حماس،حوثی باغی اوردیگرگروہ بیک وقت مختلف محاذکھول سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے اتحادیوں کی مددسے ان پراکسیز کے خاتمے کیلئے باقاعدہ جنگ شروع کر چکاہے اوراپنی دانست میں ان پراکسیزکو اگرختم نہیں توانتہائی کمزورکرنے کا دعویٰ ضرورکررہاہے جوبظاہرنظربھی آرہاہے۔

لیکن اس پراکسی جنگ کے نتیجے تیل کی رکاوٹ میں خلیجِ فارس(خصوصاً آبنائے ہرمز)کی بندش سے دنیاکی تیل کی20٪ترسیل رک سکتی ہے۔اگرایران پرحملہ ہوتاہے یااس نے جوہری ہتھیارتیارکرنے کی کوشش کی،تومشرق وسطیٰ میں ایک دہائی طویل جنگ چھڑسکتی ہے۔تیل کی ترسیل رک سکتی ہے، جس سے عالمی معیشت متاثرہوگی۔چین اورروس ایران کی حمایت میں کھڑے ہوسکتے ہیں،جس سے امریکا کے ساتھ براہِ راست تصادم کاخطرہ پیداہو جائے گا۔نیٹوممالک دباؤکاشکارہوں گے کہ آیاوہ امریکاکا ساتھ دیں یاغیرجانبداررہیں جبکہ ٹرمپ یورپی یونین اور نیٹوکے خلاف اپنی پالیسیوں کااعلان بھی کرچکے ہیں۔اس سلسلے میں ڈنمارک کوگرین لینڈ جزیرے پراپنے قبضے کی دہمکی بھی دے چکے ہیں۔ایران کوسفارتی یاحتیٰ کہ فوجی سطح پرچین اور روس کی مداخلت سے مددمل سکتی ہے،جس سے صورت حال عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

خطے میں بالخصوص اوراقوام عالم میں بالعموم شدیدتشویش اورخدشات میں اضافہ ہورہاہے کہ اگرمذاکرات ناکام ہوگئے تواس کے نتائج صدیوں تک مرتب ہوں گے بلکہ دنیا کے تاریک ہونے کے آثارنظرآرہے ہیں۔ٹرمپ نے ایران کوواضح دہمکی دی ہے کہ اگر اس نے اپنی ایٹمی صلاحیت کومکمل طورپرختم نہیں کیاتواس پرایسی بمباری کی جائے گی کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی جس کے جواب میں ایرانی رہبراعلیٰ اوردیگرایرانی حکام نے بھی واضح دہمکیوں کاجواب اسی زبان میں دیاہے۔

اسرائیل ایران کی زیرزمین جوہری تنصیبات پرحملہ کرسکتاہے مگراس کیلئےممکنہ طورپرامریکی فضائیہ اورفوجی اڈوں کی ضرورت ہوگی مگرایران اپنے ردعمل میں فوری جوابی کاروائی کے طورپراپنی پراکسیزکے ذریعے خطے بھرمیں حملے کر سکتاہے،بالخصوص اسرائیل،سعودی عرب اورامریکی تنصیبات پرجس میں قطرمیں دنیاکے سب سے بڑے امریکی بحری اڈے کو نشانہ بنایاجاسکتا ہے ۔جس کے بعدلبنان،شام،عراق،یمن اورخلیجی ممالک ایک علاقائی جنگ کامیدان بن سکتے ہیں اورخطے میں ہمہ گیرجنگ شروع ہوجائے گی۔امریکا،چین اورروس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتاہے۔

خطے میں جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں شدیداضافہ ہوجائے گااوران ملکوں کے شہری اپنی جان بچانے کیلئے دوسرے ملکوں کارخ کریں گے اورعالمی طورپرمہاجرین کے بے کراں سیلاب اوربحران کوروکناناممکن ہوگا۔

دنیااس وقت سفارتی ناکامی،فوجی جارحیت اورجوہری خطرے کے نازک موڑپرکھڑی ہے۔اگرجلداورمؤثرسفارت کاری نہ کی گئی توایک علاقائی تنازعہ تیسری عالمی جنگ کی شکل اختیارکرسکتا ہے۔اس صورت حل سے بچنے کیلئے فوری اقدامت کرتے ہوئے ایسے سفارتی راستے اورتجاویزپرعمل کرناہوگا جس سے انسانی تباہی کے اس ہولناک مناظرکے خطرات کودورکیاجاسکے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ :
٭ایران کومشروط طورپرافزودگی کی اجازت دے کر” آئی اے ای اے”کی مکمل نگرانی میں رکھاجائے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل کوبھی ان پابندیوں پرآمادہ کیاجائے کہ” آئی اے ای اے”کی مکمل نگرانی میں اپنی تمام ایٹمی تنصیبات کو نہ صرف معائنہ کیلئے کھول دے بلکہ عالمی ضمانت دی جائے کہ وہ ایران پرفوجی کارروائی سے گریزکرے گااورایسی ہی شرائط کاایران کوبھی پابندبنایاجائے۔

٭خطے میں امریکا،اسرائیل اوراس کے مغربی اتحادیوں کی یکطرفہ پابندیاں غیرقانونی قراردی جائیں اوراقوام متحدہ کوایران پرپابندیوں کاجائزہ لیتےہوئے اس کافیصلہ کرناچاہئے کہ کیوں نہ اسرائیل جواب تک لاکھوں فلسطینیوں،اوردیگرپڑوسیوں ممالک کے نہتے افرادکواپنی خونخوارپالیسیوں کے تحت ہلاک کرچکاہے،اس کامکمل مواخذہ کیاجائے جبکہ عالمی عدالت انصاف تواسرائیل کوپہلے ہی غیرقانونی ریاست قراردے چکی ہے۔
٭امریکااوراسرائیل کی طرف سے فوجی حل مسلط کرنے کی تمام کوششوں کوناکام بنانے کیلئے یورپی یونین(جرمنی،فرانس)اور چین کی ثالثی سے”جے سی پی اواے”معاہدہ کوبحال کرکے اقوام عالم کوان خطرات سے محفوظ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
٭روس اورچین سے رابطہ کرکے مضبوط ضمانتیں فراہم کرکے ایران کومعاشی مراعات دینے پررضامندکرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔
٭اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکی طرف سے”لیبیاجیسے حل”کی بھرپورمخالفت کرتے ہوئے اسے متنبہ کیاجائے اورایسی صورتحال میں روس اورچین سمیت دیگرممالک کی طرف سے اسرائیل کوفوری ردعمل کیلئے متنبہ کیاجائے۔

اب وقت آگیاہے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق اقوام متحدہ اقدامات کرتے ہوئے ان تمام ممالک پرپابندیاں لگائے جوکھلم کھلاعالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔یادرہے کہ دنیاآج ایک انتہائی نازک موڑپرکھڑی ہے۔اگرسفارت کاری ناکام ہوئی،تو مشرق وسطیٰ کابحران صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہے گا— بلکہ یہ تازعہ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتاہے۔اگرچہ دونوں فریق جنگ سے گریزکرناچاہتے ہیں لیکن عدم اعتماداورسخت گیرمؤقف کی وجہ سے تصادم کاخطرہ موجودہے۔عالمی برادری کوچاہیے کہ فوری سفارتی اقدامات کے ذریعے اس بحران کوسلجھائے،کیونکہ جوہری جنگ کاکوئی فاتح نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں