روس کی جوہری پالیسی اس کی عسکری حکمت عملی کاایک بنیادی عنصرہے۔روسی سربراہ پیوٹن نے نے حالیہ برسوں میں اس میں جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق اپنی جوہری ڈاکٹرائن میں خطے میں نئی تبدیلیوں کے مدنظر2020میں اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں اہم ترامیم کرتے ہوئے تین نئی شرائط شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ اگر
روس پرکیمیکل/بائیو ہتھیاروں سے حملہ ہویااس کے جوہری کنٹرول سسٹم کونشانہ بنایاجائے تو۔
روایتی جنگ کاجوہری جواب،اس کی کمانڈاینڈکنٹرول سسٹم کونشانہ بنایاجائے،
اگرروس کی بقاءکوروایتی ہتھیاروں سے خطرہ لاحق ہو(جیسے یوکرین میں فوجی شکست)۔
تووہ جوہری ہتھیاروں کااستعمال کرسکتاہے۔ان تبدیلیوں نے امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئےخدشات پیدا کر دیے ہیں، کیونکہ یہ مغربی دفاعی حکمت عملی کو چیلنج کرتی ہیں اورنیٹوکوسخت ردعمل پرمجبورکرسکتی ہیں۔امریکاکاخیال ہے کہ یہ ترمیم روس کو یوکرین جیسے تنازعات میں جوہری دھمکی دینے کاموقع دے سکتی ہے۔
روس کے اس اعلان کے فوری بعد نیویارک ٹائمزنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم روس کی”جارحیت پسندی”غیر مستحکم”حکمت عملی کوظاہرکرتی ہے،جس سے جوہری جنگ کاخطرہ بڑھتاہے اوربعد ازاں امریکانے اسے”دھمکی” قراردیتے ہوئے نیٹوکی جوہری طاقت کومضبوط کرنے پرزوردیالیکن ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اپنے ووٹرزسے یہ وعدہ کیاتھاکہ امریکانہ توکوئی نئی جنگ شروع کرے گااورنہ ہی جاری جنگوں میں مزید شریک رہے گا۔لیکن اقتدارسنبھالتے ہی ٹرمپ اوران کے معاونین ان تمام انتخابی معاہدوں کوفراموش کرتے نظرآرہے ہیں۔
یوکرین پرروسی حملے کوتین برس ہوچکے ہیں۔اس دوران ڈونلڈٹرمپ نے کئی بارایسی باتیں کہیں جوبعدمیں غلط ثابت ہوئیں۔ دوسری طرف،ولادیمیر پوتن نے اس جنگ کواپنے سیاسی اورعسکری مقاصدکیلئےاستعمال کیا،جبکہ یوکرین کے صدرولادیمیر زیلنسکی نے عالمی حمایت حاصل کرنے اوراپنی فوج کومضبوط رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔یہ جنگ سیاسی چالوں،سفارتی جوڑتوڑاورعسکری محاذ آرائی کا ایک منفرد امتزاج ہے۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیاکہ”یوکرین نیٹوکارکن نہیں بن سکتا”حالانکہ نیٹوکاآرٹیکل10کسی بھی یورپی ملک کورکنیت دینے کی اجازت دیتاہے۔ٹرمپ نے یو کرین کے زیلنسکی پرالزام لگایاکہ وہ یورپ اورامریکاکولوٹ رہاہے۔علاوہ ازیں ٹرمپ کے حامی یوکرین کو “نازی حکومت”قراردے رہے ہیں،جبکہ مغربی میڈیاپیوٹن کوجنگی مجرم قراردے رہے ہیں اورٹرمپ کے بیان کوپیوٹن کے حق میں پروپیگنڈاقراردیتے ہوئے ٹرمپ بیانئے پرابھی تک محتاط ردعمل کااظہارکرتے ہوئے اس سے اتفاق نہیں کررہے۔
ادھریورپی یونین میں بھی اختلافات اورعدم اعتمادکی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔جرمن چانسلر اولاف شولزنے ٹرمپ کو”غیرمعتبر” قرار دیتے ہوئے ایک نئی بحث کاآغازکردیاہے۔جرمنی صنعتی مفادات،فرانس یورپی فوج کواپنی قیادت میں چاہتاہے۔فائنانشل ٹائمز کے مطابق،امریکایورپ کی خود مختاری کو”نیٹوکیلئےخطرہ”سمجھتاہے،جبکہ مشہوریہودی میڈیا”فاکس نیوز”نے امریکی صدر ٹرمپ کے دفاع میں بیان دیاہے کہ ٹرمپ کی پالیسی نے چین کے خلاف یورپ کومتحدکیاہے۔
ادھرروسی میڈیاآرٹی کے مطابق یہ ترمیم صرف”دفاعی”ہے اورمغرب کوروس کی طاقت کااحترام کرناچاہیے۔پیوٹن کامقصد یوکرین کو”غیرجانبدار ” بنانااورنیٹوکی توسیع روکناہے اوروہ اسے روس کے دفاع کیلئے نیٹوکی توسیع کوخطرہ سمجھتے ہیں۔ ڈونباس پرکنٹرول،یوکرین کوغیرمسلح کرنا،اورنیٹوکی مشرقی یورپ میں موجودگی کم کرناپیوٹن کے اہم اہداف ہیں۔
لیکن یوکرینی میڈیازیلنسکی کو”قومی ہیرو”کے طورپرپیش کرتاہے،یوکرین میں80%عوام زیلنسکی کی پالیسیوں کے حمایتی ہیں جبکہ روسی میڈیااسے “مغرب کاکٹھ پتلی”کہتاہے۔زیلنسکی یورپی یونین سے مشترکہ فوجی ڈھانچہ بنانے کی اپیل کررہے ہیں،جس میں وہ مطالبہ کررہےہیں کہ یورپ کواپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے تاکہ روس کے خلاف خودکفیل ہو سکیں۔
زیلنسکی نے حالیہ بیانات میں یورپی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ روس کے خلاف ایک متحدہ یورپی فوج تشکیل دیں۔اس کی بنیادی وجہ نیٹوکی مبہم پالیسی اورامریکی عسکری امدادمیں تاخیرہے۔زیلنسکی کی خواہش ہے کہ یورپ اپنے دفاع کیلئےخودمختار حکمت عملی اختیارکرے،تاکہ روس کی جارحیت کا مؤثرجواب دیاجاسکے۔زیلنسکی کاکہناہے کہ روس کے خلاف یورپ کوامریکا پرانحصارکم کرناہوگا۔یوکرین کویورپی یونین کے ساتھ10سالہ طویل المدتی فوجی معاہدوں کی ضرورت ہے۔
لیکن مغربی میڈیاکے مطابق یہ خیال ابھی”خیالی”ہے،کیونکہ یورپی ممالک فوجی بجٹ اورخودمختاری پرمتفق نہیں۔یورپی ممالک (جرمنی،فرانس) یوکرین کومالی اورہلکی اسلحہ امداددے رہے ہیں،لیکن بھاری اسلحہ(جیسے ٹینک،طیارے)کیلئےامریکاپرانحصار کرتے ہیں۔یورپ کی فوجی صنعت امریکا جتنی ترقی یافتہ نہیں،نیزنیٹوکاڈھانچہ امریکاکے بغیرنامکمل ہے۔جرمنی کے پاس صرف 200لڑاکاٹینک ہیں،جبکہ امریکاکے پاس2,500ہیں۔فرانس کادعویٰ ہے کہ ہماری فوجی صنعت صرف اپنی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔پولینڈکے وزیراعظم نے کہاکہ اب وقت آگیاہے کہ”یورپ کواپنی فوجی پیداواربڑھانی ہوگی جبکہ یوکرین کوہتھیار فروخت کرکے امریکااپنی فوجی صنعت کوبھی تقویت دے رہاہے۔امریکااب تک یوکرین کو75ارب ڈالرکی امداد دے چکاہے لیکن یورپ میں بھی اب”تھکاوٹ”کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں روس کیلئےنرمی دکھانے کے متعددواقعات سامنے آئے۔بعض تجزیہ کاراسے امریکی خارجہ پالیسی کی غلطی قراردیتے ہیں،جبکہ کچھ کے نزدیک یہ ایک سیاسی چال تھی تاکہ امریکاکوغیر ضروری جنگوں سے بچایاجا سکے۔تاہم،اس حکمت عملی نے نیٹواتحادیوں میں بے چینی پیداکی اورروس کوزیادہ جارحانہ اقدامات پرآمادہ کیا۔
جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کے حامیوں کاکہنا ہے کہ یہ”امریکافرسٹ”پالیسی کاحصہ تھاتاکہ روس سے تعلقات بہترہوں لیکن مخالفین(جیسے ڈیمو کریٹس ) کاکہناہے کہ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِحکومت(2017-2020)میں روس پرسخت پابندیاں نہیں لگائیں، ڈیموکریٹس کایہ بھی کہناہے کہ ٹرمپ نے پیوٹن کویوکرین پرحملے کی چھوٹ دی جس کی بناءپرپیوٹن ایک طاقتور رہنمابن کر سامنے آگیاہے۔ٹرمپ کے موجودہ پالیسی بیانات سے ایک مرتبہ پھریورپی اتحادیوں میں عدم اعتمادمیں اضافہ کاموجب قراردیتے ہوئے اسے “پیوٹن کورعایت اورفائدہ “قراردیاہے۔سیاسی ناقدین ٹرمپ کے بیانات کوپیوٹن کی خوشنودی”کیلئے پروپیگنڈا قراردیتے ہوئے اسے ٹرمپ انتظامیہ کی غلطی اوربعض اسے چال قراردے رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب اورایران کے درمیان چین کی ثالثی سے2023ءمیں سفارتی تعلقات کی بحالی کومغربی میڈیانے”سعودی عرب کامشرق کی طرف جھکاؤ”کوایک سفارتی دہماکہ قراردیتے ہوئے اسے امریکاکیلئے باعثِ تشویش قراردیا ہے۔ایک اوررائے یہ بھی ہے کہ بالآخرسعوی عرب نے امریکی اثرکوکم کرنے کیلئے چین اورایران سے تعلقات بہترکئے ہیں اور عرب میڈیا(الجزیرہ)اس خطے کے استحکام کی بروقت کامیاب کوشش قراردے رہاہے اورچینی میڈیانے اسے”امن کی فتح” قراردیا ہے۔اس کے علاوہ سعودی عرب نے مستقبل کے اقتصادی تنوع کیلئے آئل پرانحصارکم کرنےکیلئےچین کے ساتھ کئی بڑے تجارتی معاہدے بھی کئے ہیں اورچین اب اپنی ملک کی ضرورت کا28 فیصدتیل سعودی عرب سے خریدرہاہے۔
سعودی عرب میں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کے دوران بعض ایسی باتیں سامنے آئیں جنہوں نے مغربی دنیا کوحیران کردیا۔ان میں سے ایک ریاض کے بندکمرے میں ہونے والی میٹنگ تھی،جس میں روس اورچین کے نمائندوں کے ساتھ یورپی ممالک کے سفارت کاربھی شریک تھے۔اس میٹنگ کے بین الاقوامی تعلقات پرگہرے اثرات ہوسکتے ہیں،خاص طورپرمشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کے حوالے سے ایک نئی مضبوط سوچ اس وقت ابھرکرسامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے فلسطینیوں کوسعودی عرب اور اردن میں بسانے اورغزہ پرامریکی قبضے کابیان دیاہے ۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ اوریوکرینی صدرولودیمیرزیلنسکی کے درمیان حالیہ اوول آفس ملاقات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی، جوسفارتی آداب کے حوالے سے غیرمعمولی سمجھی جارہی ہے۔ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس اور معدنیات کے معاہدے پر دستخط کی تقریب منسوخ کردی گئی۔
اوول آفس کی ملاقاتوں میں رسمی احترام اور یکجہتی کا اظہارکیاجاتاہے لیکن طاقت کے عدم توازن کونظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ سفارتی ملاقاتوں میں آداب اورپروٹوکول کاخاص خیال رکھاجاتاہے ،خاص طورپرجب دو ممالک کے سربراہان اکٹھے ہوں۔یوکرین اورامریکاکے درمیان یہ ملاقاتیں عام طورپرسفارتی آداب کاحددرجہ خیال رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں جس میں سمبولزم اورمقام کا خیال بھی رکھاجاتاہے یعنی اوول آفس امریکی صدرکی طاقت اورخودمختاری کی علامت ہے۔یہاں ملاقات کامطلب ہے کہ امریکا خاص طورپرروس کے ساتھ جاری تنازعے کے تناظرمیں یوکرین کواہم اتحادی سمجھتا ہے۔
سفارتی زبان میں بظاہردونوں رہنماؤں کے بیانات میں یکجہتی، تعاون،اورجمہوریت کے تحفظ پرزوردیاجاتاہے۔مثال کے طورپر، امریکایوکرین کوفوجی اورمعاشی امداددینے کے عہدکااعادہ کرتا۔پروٹوکول کی پابندی کے پیشِ نظرتصاویر،پریس بریفنگز،اور مشترکہ بیانات میں دونوں رہنماؤں کی برابری اورباہمی احترام کواجاگرکیاجاتا۔
کچھ مبصرین کاخیال ہے کہ امریکایوکرین کواپنے مفادات کیلئےاستعمال کررہاہے،جس میں سفارتی آداب کااحترام کرتے ہوئے بھی طاقت کاعدم توازن واضح ہوتاہے۔مثال کے طورپر، یوکرین کی فوجی امدادکے بدلے میں امریکاکسی طرح کاسیاسی یامعاشی دباؤ ڈال سکتاہے لیکن اسے کھلے عام بیان نہیں کیاجاتا۔یوکرین اپنے وسائل کوترقی دے کرعالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرناچاہتا ہے،جس میں مغربی کمپنیوں کی شراکت داریاں شامل ہیں۔یہ معاہدے عام طورپرشفاف طریقے سے ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کے مطابق انہوں نے یوکرین سے اپنی دی ہوئی گرانٹ کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے یوکرین کی قیمتی دھات کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ یوکرین معدنی ذخائر (جیسے لیتھیم، ٹائٹینیم، اور قدرتی گیس) کے لحاظ سے امیر ملک ہے۔ یاد رہے کہ روس کے کریمیا پر قبضے کے بعد امریکا نے جہاں ان اقدامات کی مذمت کی تھی بلکہ خود اعتراف کیا تھا کہ کسی ملک کے وسائل پر جبری قبضہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اگر امریکا کسی غیر قانونی طریقے سے وسائل پر کنٹرول حاصل کرے، تو یہ جارحیت سمجھا جائے گا، لیکن فی الحال ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔تاہم امریکا کے “سپرپاور ” ہونے کے باوجود، یوکرین کے وسائل پر قبضے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ تاہم یوکرین کی تعمیرنومیں مغربی ممالک کے معاشی مفادات ضرورشامل ہیں جو
بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہیں۔امریکااور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر مذاکرات جاری تھے، جس کے تحت امریکاکو یوکرین کی نایاب معدنیات، تیل، گیس اور کلیدی بنیادی ڈھانچے تک رسائی حاصل ہوتی۔ امریکا اس معاہدے کو اپنی یوکرین کیلئےحمایت جاری رکھنے کیلئےاہم قرار دے رہا تھا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے اس معاہدے پردستخط کرنے کی آمادگی ظاہرکی ہے اورانہیں یقین ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں ۔امریکاکی جانب سے یوکرین کی معدنیات پرممکنہ قبضے کی کوششیں بین الاقوامی قوانین اورسفارتی آداب کے تناظرمیں متنازع سمجھی جاسکتی ہیں۔اگریہ اقدامات یوکرین کی خودمختاری اوراس کے وسائل پرکنٹرول کومتاثرکرتے ہیں توانہیں جارحیت کے زمرے میں شمارکیاجاسکتاہے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق،کسی بھی ملک کی قدرتی وسائل پراس کا حقِ خودمختاری تسلیم شدہ ہے،اوربیرونی دباؤیااستحصال کوغیر قانونی تصورکیاجاتاہے۔
جے ڈی وینس،جوٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں شمارہوتے ہیں،امریکی خارجہ پالیسی میں ایک نئی سمت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کوازسرِنو ترتیب دینے کے حامی ہیں اورامریکاکوعالمی معاملات میں کم مداخلت کی پالیسی اپنانے پرزوردے رہے ہیں۔وینس کاکہناہے کہ امریکاکویورپ کی بجائے ایشیاپرتوجہ دینی چاہئے جبکہ مغربی میڈیا انہیں پیوٹن کاغیرمسقیم حامی قراردے رہاہے۔وینس کایہ بھی کہناہے کہ”امریکاکوتائیوان اورچین پرتوجہ دینی چاہیے۔
ابھی حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کی حاضری کے دوران ان کے لباس پرتنقیدکی گئی،کیونکہ وہ اس سے پہلے ایک ملاقات میں رسمی سوٹ کے بجائے فوجی لباس میں تھے اوراب امریکی میڈیانے وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کے غیررسمی لباس شرٹ پہن کرمیٹنگ پرتنقیدکو”ٹرمپ کی ذاتی نفرت سے جوڑاہے۔بعض مبصرین کے مطابق یہ واقعہ درحقیقت ٹرمپ اورزیلنسکی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی علامت تھا۔ٹرمپ کی قیادت میں امریکی پالیسی میں جوتبدیلیاں آئیں،ان کابراہِ راست اثریوکرین کے ساتھ تعلقات پربھی پڑا۔
جے ڈی وینس کی جانب سے جمعہ کے روز اوول آفس میں یوکرین کے صدرزیلنسکی کودوٹوک جواب دینااس بات کامظہرتھاکہ امریکی نائب صدرکسی جھجک کے بغیرمرکزی کردارادا کرنے کوتیار ہیں۔وہ اپنے پیشروؤں کی طرح محض ایک خاموش سیاسی معاون بننے کی بجائے بھرپوراندازمیں جارحانہ مؤقف اختیارکرنے سے نہیں ہچکچاتے۔یہ وینس ہی تھے جنھوں نے زیلنسکی پرسب سے پہلے سخت تنقیدکاآغازکیااورپھرصدرٹرمپ اس میں شامل ہوئے۔یہ ملاقات اس وقت تک خوشگوارچل رہی تھی جب تک کہ وینس نے روس یوکرین جنگ کوروکنے کیلئے سفارتی حل تلاش کرنے پرٹرمپ کی تعریف کرنانہیں شروع کی۔
زیلنسکی،جوواشنگٹن اورماسکوکے درمیان براہ راست مذاکرات کے سخت ناقدرہے ہیں،وینس کی بات کاٹتے ہوئے بولے:آپ کس قسم کی سفارت کاری کی بات کررہے ہیں،جے ڈی؟آپ کامطلب کیاہے؟‘وینس نے فوری جواب دیا”میں اس سفارت کاری کی بات کر رہاہوں جوآپ کے ملک کی تباہی کوختم کرسکے”۔ان کے سخت لہجے نے یوکرینی صدرکوحیران کردیا ۔ “جنابِ صدرپورے احترام کے ساتھ،میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ آپ اوول آفس میں آکراس معاملے کوامریکی میڈیاکے سامنے اچھالیں۔
وینس نے زیلنسکی پریہ الزام بھی عائدکیاکہ انہوں نے2024کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی بالواسطہ حمایت کی۔اس الزام کی بنیادزیلنسکی کاگذشتہ ستمبرمیں سوئنگ سٹیٹس میں سے ایک(فیصلہ کن ریاستیں)پینسلوینیامیں ایک اسلحہ بنانے والی فیکٹری کا دورہ اوروائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی حریف کملاہیرس سے ملاقات تھی۔وینس کی جانب سے زیلنسکی کواس طرح جھاڑپلانے پرریپبلکن رہنماؤں کی طرف سے زبردست حمایت دیکھنے میں آئی ہے۔جنوبی کیرولائناکے سینیٹرلنڈسے گراہم،جویوکرین کے حمایتی اورسخت گیرخارجہ پالیسی کے حامی سمجھے جاتے ہیں،نے کہا”مجھے جے ڈی وینس پرفخرہے کہ وہ ہمارے ملک کے مفادکیلئےکھڑے ہوئے”۔
انہوں نے مزیدکہاکہ زیلنسکی کواپنے عہدے سے مستعفی ہوجاناچاہیے۔الاباماکے سینیٹرٹومی ٹیوبرول نے تویہاں تک کہہ دیاکہ زیلنسکی”یوکرینی لومڑی”ہیں۔ادھرنیویارک کے کانگریس مین مائیک لاولرنے نسبتاًمحتاط ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ یہ ملاقات “امریکااوریوکرین دونوں کیلئےایک ایساموقع تھی جسے انھوں نے کھودیاہے۔امریکی نائب صدرکیلئےان کے ملک کے دورے پرآئے ہوئے سربراہ مملکت پر یہ حملہ معمول کی بات نہیں ہے۔عام طورپران کا کام صدرکے انتخاب میں مدددینااورپھرخاموشی سے اپنے باس کے ساتھ کھڑے رہناہوتاہے۔وہ وفادارمعاون کے طورپربیرونی دوروں کے دوران صدرکی نمائندگی کرتے ہیں اورجیساکہ کہاجاتاہے کہ نائب صدر صدارت سے بس ایک قدم دورہوتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے نائب صدر،نرم مزاج مائیک پینس کے برعکس وینس کااندازبالکل مختلف ہے لیکن وینس،جنہیں وسیع پیمانے پرٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نظریات کوواضح کرنے والاشخص سمجھاجاتاہے،طویل عرصے سے یوکرین کیلئےامریکی امدادکے بارے میں شدیدشکوک وشبہات کااظہار کرتے رہے ہیں۔جب وہ2022میں اوہائیوسینیٹ کی نشست کیلئے انتخاب لڑرہے تھے توایک پوڈکاسٹ میں انہوں نے صاف کہا:مجھے آپ سے سچ بولناہے،یوکرین میں کیاہوتاہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے”۔مشہورامریکی میڈیاسی این این کے مطابق ٹرمپ نے زیلنسکی کوذلیل کرکے اپنی سیاسی بالادستی ظاہرکی،جس کی مثال کسی بھی سفارتی آدداب میں نہیں ملتی۔
یہ تمام نکات دراصل بین الاقوامی طاقتوں کی کشمکش،میڈیاکے بیانیوں کی جنگ،اورقومی مفادات کے تصادم کوظاہرکرتے ہیں۔ مثال کے طورپر” روس مغرب تنازعہ صرف یوکرین تک محدودنہیں،بلکہ نیٹوکی توسیع،توانائی کے بحران،اورعالمی طاقت کے توازن سے جڑاہے۔ڈیموکریٹس کے مطابق وینس کی پالیسیاں”ٹرمپ کی خودغرضی”کوظاہرکرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے دفاع میں ان کاکہناہے کہ”دنیاکوبچانے کیلئے نہیں،امریکاکو بچانے کیلئے ہیں۔ان کی پالیسیاں امریکاکی روایتی سفارت کاری سے ہٹ کر”انتشارپسندی”کو فروغ دیتی ہیں۔
مجموعی طورپرامریکااوریوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پرمذاکرات اوراوول آفس میں پیش آنے والے واقعات سفارتی آداب اوربین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے حوالے سے اہم سوالات کوجنم دیتے ہیں،جن پرمزیدغوروخوض کی ضرورت ہے۔کچھ حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکایوکرین کی معدنیات تک رسائی حاصل کرنے کیلئےجنگ کوطول دے رہاہے۔یہ بات روسی پروپیگنڈے میں بھی نمایاں ہے،لیکن اس کاکوئی ٹھوس ثبوت موجودنہیں۔دوسری طرف امریکایوکرین کی تعمیرنواورجدیدکاری میں سرمایہ کاری کی بات کرتاہے۔مثال کےطورپر”ڈی ایف سی” یوایس انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن نے یوکرین کے انفراسٹرکچراورتوانائی کے شعبوں میں شراکت داریوں کااعلان کیاہے۔اس حوالے سے سازشی نظریات اورحقیقت کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔
ہرملک کامیڈیااپنے قومی مفادات کوتحفظ دیتے ہوئے خبریں پیش کرتاہے،لہذاکسی ایک ذریعے پرانحصارخطرناک ہے۔اگریہ پالیسی جاری رہی تواس سے عالمی سفارتی تعلقات میں بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔