مزاحمتی قوت گرتے ہوؤں کوپیروں پرکھڑاکرتی ہے،ڈوبتے ہوؤں کوتیرنے کاحوصلہ دیتی ہے اورساحل پرلاپٹختی ہے۔ بیمارکوبیماری سے جنگ میں فتح یاب کر تی ہے(اللہ کے حکم سے) بجھتے د یئے کی لوبجھنے سے پہلے تیزہوجاتی ہے، کیوں؟شایددیادیرتک جلناچاہتاہے۔یہ اس کی مزاحمت ہے۔اندھیروں کے خلاف کبھی کوئی مسا فرکسی جنگل میں درندوں کے درمیان گھر جائے توتنہاہی مقابلہ کرتاہے کہ اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں ہوتا۔ایک ناتواں مریض جوبسترسے اٹھ کر پانی نہیں پی سکتاناگہانی آفت کی صورت میں چھلانگ لگاکربسترسے نیچے کودسکتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض میں وہ مزاحمتی قوت موجودتھی جس کا اس کوخودبھی اندازہ نہیں تھا۔خطرے کے احساس نے اس قوت کوبیدارکر دیا۔یہی وہ قوت ہے جوکمزوروں کوطا قتورسے ٹکرادیتی ہے، کبوترکے تن نازک میں شاہین کاجگرہ پیداہوجاتاہے،چیونٹی ہاتھی کے مقابلے میں اترآتی ہے،مظلوم کی آنکھیں قہربرساتی اورسلگتے انگارے شعلہ جوالہ بن جا تے ہیں۔
لیکن تا ریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیاوی کامیابی کے حصول کیلئے مزاحمت کمزورپڑکرسردہوجاتی ہے لیکن اگرمزاحمت کے ساتھ”ایمان باللہ” شامل ہوجائے تومزاحمت کبھی سردنہیں پڑتی، راکھ میں کوئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے جہاں مزاحمتی قوت بیدارہوتویہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے لیکن کیایہ ضروری ہے کہ یہ مزاحمتی قوت اس وقت بیدارہوجب خطرہ حقیقت بن کر سامنے آجا ئے،جب سرپرلٹکتی تلوارکی نوک شہہ رگ کوچھونے لگے،جب سرحدوں پرکھڑے مہیب اوردیو ہیکل ٹینکوں اورطیاروں کی گڑگڑاہٹ سڑکوں اورچھتوں پرسنائی دینے لگے ۔ جب ڈیزی کٹر،کروزاورٹام ہاک بم بارش کے قطروں کی طرح برسنے لگیں۔جب بہت کچھ”گنواکر”کچھ بچانے کیلئے ہم مزاحمت پراترآئیں گے؟
پا کستانی ذمہ داروں نے پہلی مرتبہ خطرہ کودرحقیقت”دوچارلب بام”سمجھنے کی بجائے انتہائی مناسب جواب دیکرساری قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم لڑے بغیرہی شکست تسلیم کرلیتی ہے تویہ جسمانی نہیں ذہنی پسپا ئی ہوتی ہے۔ایسی قوم کوجسمانی طورپر زیر کرنے کیلئے دشمن کوزیا دہ مشکل نہیں اٹھانی پڑتی۔ہلاکوخان کی فوجیں کھوپڑیوں کے مینار یوں ہی نہیں تعمیرکرلیاکرتی تھیں۔صلاح الدین ایوبی نے جب”ملت اسلا میہ”کانام لیاتوایک غدارفوجی افسرطنزیہ مسکرااٹھا،کون سی ملت اسلامیہ؟یہ ذہنی پسپائی کی سب سے گری ہوئی شکل تھی کہ ایک دیوہیکل انسان اپنے ہی وجودسے انکاری تھا۔لیکن صلا ح الدین ایوبی نے مز احمت کی قوت کے ساتھ ایمان کوجمع کرکے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کے بعدبیت المقدس نا پاک ہا تھوں سے چھین لیا۔
آج ہمیں ثابت قدمی سے میدان میں کھڑادیکھ کرہمارادشمن پہلے سے بڑھ کرمصیبت مول لے چکاہے۔ایک یقینی شکست کے امکان کے باوجود محض دنیاپرظاہری غلبے کی خواہش نے اسے ایک ایسی دلدل میں اتاردیاہے جہاں اگلا قدم اس کی ظاہری شان وشوکت اورمصنوعی ہیبت کاجنازہ نکال کررکھ دے گاکیونکہ وہ ایساہوتاہواکئی مرتبہ دیکھ چکاہے۔اس نے بڑے تکبر سے لاہورکے جم خانہ میں چائے پینے کادعویٰ کیالیکن کھیم کرن کوبھی اپنے ہاتھوں سے کھوبیٹھا۔اس نے چھمب جوڑیاں پرقبضہ کرکے آزادکشمیرکوکاٹنے کاخواب دیکالیکن اس کی بھیانک تعبیرسے سامناکرناپڑا۔سیالکوٹ پرقبضہ کرکے ہمارے پنجاب کوتقسیم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن بزدلوں کی طرح اپنے جوانوں کی لاشیں اٹھانابھی بھول گیا۔بالآخرانتہائی طاقت کے تکبرکااظہارکرتے ہوئےپانچ سوزائدٹینکوں کاطوفان چونڈہ کے میدان میں لے آیااوراپنے دوستوں کوفتح کاجشن منانے کیلئے جوکہہ کرآیاتھا،اسے معلوم نہیں تھاکہ مقابلے میں وطن کی محبت اورجذبہ شہادت سے سرشارایسے ناقابل شکست نوجوانوں سے ملاقات ہوگی کہ چشم فلک نے کبھی ایسامنظرکبھی نہیں دیکھاکہ نوجوان دیو ہیکل ٹینکوں کی طرف اس تیزی کے ساتھ لپکے کہ ٹینکے مارے خوف کے حملہ کرنے کی بجائے اپنے وجودکوبچانے کیلئے واپس بھاگ رہے ہیں اورآن کی آن میں دوسری جنگ عظیم کے بعدپہلی مرتبہ چونڈہ کامیدان دنیاکاسب سے بڑا بھارتی ٹینکوں کاقبرستان بن گیا۔دنیابھرکے جنگی اوردفاعی تجزیہ نگاردانتوں تلے انگلیاں دبائے آج تک حیراں وپریشاں ہیں کہ سرفروشی کی اس انتہاکوکیانام دیں۔
کیاہم نے کبھی سوچاہے کہ ہمیں گھروں میں بیٹھے ہیبت زدہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعدوہ سارے لاؤلشکرکے باوجود زیادہ خوفزدہ ہے۔اس کی چڑھائی میں شیرجیسی بے جگری نہیں بلکہ لومڑی جیسی عیاری ہے۔اب وہ ہمیں دیوارسے لگانے کیلئے پس پردہ دوسرے اقدامات کرنے سے بازنہیں آئے گایعنی ہمیں سیاسی اورمعاشی فتنوں میں مبتلاکرے گاپس آج ہمیں اپنی مزاحمتی قوت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد “ایمان” ہے اوراس قوت کومضبوط کرنے والی قوت”اللہ کی نصرت”ہے اوراللہ کی نصرت کیلئے اس کی مکمل حاکمیت کاعملی اعلان کرناہو گا۔ جب مومن اپنا سب کچھ لگادیتاہے تومزاحمت میں اللہ کی نصرت نازل ہوکراس کوکامیابی سے ہمکنارکرتی ہے۔ تاریخ اسلام کے صفحات پرایسی روشن مثالیں ان گنت تعدادمیں جگمگا رہی ہیں جب نہتے مسلما نوں کی مزاحمت نے وقت کے فرعونوں کو زخم چاٹنے پر مجبورکردیا۔آج بھی دنیا بھرمیں مزاحمتی تحریکیں پوری شان سے جا ری ہیں۔پتھرنے ٹینک سے شکست نہیں کھائی،دنیا دیکھ رہی ہے کہ معمولی ہتھیاروں سے جدید ٹیکنالوجی کامقابلہ جاری ہے۔جتناظلم بڑھتاجارہاہے اتنی ہی شدت سے مزاحمت بڑھتی جارہی ہے۔کیاکوئی سوچ سکتاہے کہ گزشتہ گیارہ ماہ سے چاروں طرف سے محاصرہ میں غزہ کے باسی ایسی تاریخ رقم کریں گے کہ دنیابھرکے فراعین کی پوری قوت کے سامنے،اپنوں کی منافقت کے باوجودایسی استقامت کامظاہرہ کریں گے کہ آخرت کی کامیابیاں بھی بوسے لے رہی ہیں۔
لیکن کیامزاحمت کی صرف ایک ہی صورت ہے؟جب کوئی جابروقت اپنے لشکروں کے زعم میں کسی قوم پرچڑھ دوڑتا ہے توہرمظلوم ہاتھ ہتھیاراٹھالیتا ہے۔یہ یقینی امرہے کہ ایسے وقت میں بغیرمزاحمت کےکشمیریوں کونسل کشی سے نہیں بچایاجاسکتاجوہماری مزاحمتی قوت کے شدت سے منتظرہیں۔ یہ ڈوب رہے ہیں ان کوساحل پرکھینچ لانےکیلئےبھرپور توانائیوں کی ضرورت ہے۔آج وہ خطرناک مرحلہ آچکاہے جب نحیف ونزارمریض زندگی کی ڈورسلامت رکھنے کیلئے اس پوشیدہ قوت پرانحصارکرتاہے جواس کے جسم میں بجلی کی سی طاقت بھردیتی ہے ۔ گونگے،بہرے اوراندھے بھی اس نا زک دورکی شدت سےکچھ کرگزرنے کوتیارہوجائیں توجن کو اللہ نے تمام ترتوانائیوں سے نوازرکھاہے ان کواپنی صلاحیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھانے سے کس نے روک رکھا ہے؟
گزشتہ ایک ماہ سے سوشل میڈیاپرکچھ بیدارذہن دوستوں نے ایک ایسی ہی محفل کوسجارکھاہے جہاں تاریخی تناظرمیں قیام پاکستان کے مقاصد ، انگریزاورہندواستعمارسے ایک ہی وقت میں سیاسی جنگ میں استعمال کرنے والی حکمت وذہانت،اپنوں کی منافقت،مشاہیران پاکستان کے کرداراورعزم اورپاکستان کی سرزمین کوبوسہ دینے،سجدہ کرنے والی پیشانیوں کاہجرت کےخون آلودسمندرکوعبورکرنے کےلازوال سفرکا تذکرہ،اللہ سے اوفوبالعہداورعہدشکنی جیسے جُرمِ عظیم پراستغفار، تجدیدِعہدکے قول واقرارکے منظرناموں کوتشکیل دیاگیا،گویاسوشل میڈیا کے صحیح اوربروقت استعمال سے ایک نیاجہاں معرضِ وجودمیں لانے کی پاکیزہ کوششوں کےآغازسے اک نئی صبح کی نویددکھائی دے رہی ہے
سوشل میڈیاپرپھیلائے گئے منافرت کے سمندرکوقابوکرنے کیلئے ایک اورمثبت کوشش یہ ہوئی کہ ملک کے ایک نامور محب وطن ریٹائرڈ جنرل برادرم خالدلودھی صاحب کواس پلیٹ فارم پرمدعوکیاگیاکہ ملکی افواج کے بارے میں دشمن کی طرف سے پھیلائے گئے اس غلیظ اور جھوٹے پروپیگنڈے کی کیاتوجیہ پیش کریں گے کہ “ہماری افواج نے آج تک کوئی جنگ نہیں جیتی جبکہ ملک کاکثیربجٹ بھی ان کے کھاتے میں چلاجاتاہے”۔میں برادرم نعیم خالدلودھی صاحب کاانتہائی ممنون ہوں کہ کہ انہوں نے میری اس خواہش کونہ صرف پذیرائی بخشی بلکہ مسلسل چارگھنٹے کی اس مجلس میں جہاں کئی ملکوں میں بسنے والے محب وطن بھی شریک تھے،ان تمام الزامات،خدشات اورسامعین کے تلخ وشیریں سوالات کا بھرپوردلائل سے نہ صرف جواب دیابلکہ یہ ایک ایساتاریخی پروگرام بن گیاہے کہ اس کی ریکارڈنگ کی بھرپورتشہیرکی اشدضرورت ہے۔ان کے لیکچرکااہم نقطہ جویقیناًآبِ زرسے لکھنے کے لائق ہے کہ”جس دن ہم نے خوداپنی عزت کرنا سیکھ لیا،اس دن ساری دنیاہماری عزت کرے گی!
مسلمانان پاکستان نے آج اپنی اس طاقت کے اس رازکوپالیااوراس کوپختہ کرلیاتویہ وہ مورچہ ہے جس میں پناہ لینے والوں کیلئے دائمی فتح کی خوشخبریاں ہیں۔مزاحمت ایما نی قوت سے مشروط ہے،اس کوکھودیاتوسب کچھ چھن جائے گا!! “یادرکھیں اللہ کوپاکرکبھی کسی نے کچھ نہیں کھویااور اللہ کوکھوکرکبھی کسی نے کچھ نہیں پایا”یہی ہمارے یوم دفاع کا بہترین پیغام ہے۔