مزاحمتی قوت گرتے ہوؤں کوپیروں پرکھڑاکرتی ہے،ڈوبتے ہوؤں کوتیرنے کاحوصلہ دیتی ہے اورسا حل پرلاپٹختی ہے۔بیمارکو بیماری سے جنگ میں فتح یاب کرتی ہے(اللہ کے حکم سے ) بجھتے دیئے کی لوبجھنے سے پہلے تیزہوجاتی ہے،کیوں؟شائدیادیر تک جلناچاہتاہے ۔یہ اس کی مزاحمت ہے۔اندھیروں کے خلاف کبھی کوئی مسافرکسی جنگل میں درندوں کے درمیان گھر جائے تو تنہاہی مقابلہ کرتاہے کہ اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں ہوتا۔ایک ناتواں مریض جوبسترسے اٹھ کرپانی نہیں پی سکتا،ناگہانی آفت کی صورت میں چھلانگ لگاکربسترسے نیچے کود سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض میں وہ مزاحمتی قوت موجودتھی جس کا اس کوخودبھی اندازہ نہیں تھا۔ خطرے کے احساس نے اس قوت کوبیدار کردیا۔
یہی وہ قوت ہے جوکمزوروں کوطاقتورسے ٹکرادیتی ہے،کبوترکے تنِ نازک میں شاہین کاجگرہ پیداہوجاتاہے،چیونٹی ہاتھی کے مقابلے میں اترآتی ہے، مظلوم کی آنکھیں قہربرساتی اورسلگتے انگارے شعلہ جوالہ بن جاتے ہیں لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیاوی کامیابی کے حصول کیلئے مزاحمت کمزور پڑکرسردہوجا تی ہے لیکن اگرمزاحمت کے ساتھ ”ایمان باللہ”شامل ہوجائے تو مزاحمت کبھی سردنہیں پڑتی،راکھ میں کوئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے جہاں مزاحمتی قوت بیدارہوتویہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے لیکن کیایہ ضروری ہے کہ یہ مزاحمتی قوت اس وقت بیدارہوجب خطرہ حقیقت بن کر سامنےآجائے،جب سرپرلٹکتی تلوارکی نوک شہہ رگ کوچھونے لگے،جب سرحدوں پرکھڑے مہیب اوردیوہیکل ٹینکوں اورطیاروں کی گڑگڑ اہٹ سڑکوں اور چھتوں پرسنائی دینے لگے۔جب ڈیزی کٹر،کروزاورٹام ہاک بم بارش کے قطروں کی طرح برسنے لگیں۔جب بہت کچھ”گنواکر” کچھ بچانے کیلئے ہم مزاحمت پراترآئیں گے؟
پا کستانی قوم سے خطرہ درحقیقت”دوچارلب بام”ہی رہ گیاہے اورہم ہیں کہ ذہنی پسپائی کی راہ پرسرپٹ بھاگے جارہے ہیں۔جب کوئی قوم لڑے بغیرہی شکست تسلیم کرلیتی ہے تویہ جسمانی نہیں ذہنی پسپائی ہوتی ہے۔ایسی قوم کوجسمانی طورپرزیرکرنے کیلئے دشمن کوزیادہ مشکل نہیں اٹھانی پڑتی۔ہلاکوخان کی فوجیں کھوپڑیوں کے میناریوں ہی نہیں تعمیرکرلیاکرتی تھیں۔صلا ح الدین ایوبی نے جب”ملت اسلا میہ”کانام لیاتو ایک غدارفوجی افسرطنزیہ مسکرا اٹھا ،کون سی ملت اسلامیہ؟یہ ذہنی پسپائی کی سب سے گری ہوئی شکل تھی کہ ایک دیوہیکل انسان اپنے ہی وجودسے انکاری تھالیکن صلاح الدین ایوبی نے مزاحمت کی قوت کے ساتھ ایمان کوجمع کرکے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق کے بعدبیت المقدس ناپاک ہاتھوں سے چھین لیا۔
اگرآج ہم مصیبت میں گرفتارہیں توہمارادشمن ہم سے بڑھ کرمصیبت مول لے چکاہے۔کئی مرتبہ اس نے ایک سازش کے تحت آبی جارحیت کامظاہرہ کرتے ہوئے سیلابی ریلے کوارضِ پاکستان کی طرف دھکیل دیامگراپنے جرائم کی سنگینی سے توجہ ہٹانے کیلئے مکاری کااظہارکرتے ہوئے اپنے بغل میں چھپائے خنجرکودنیاکی نظروں سے اوجھل رکھنے کیلئے پاکستان کومددفراہم کرنے کی منافقانہ خواہش کااظہاربھی کردیالیکن وہ شائدیہ بھول رہاہے کہ ایک یقینی شکست کے امکان کے باوجودمحض دنیاپر ظاہری غلبے کی خو اہش نے اسے ایک ایسی دلدل میں اتاردیاہے جہاں اگلاقدم اس کی ظاہری شان و شوکت اورمصنوعی ہیبت کا جنازہ نکال کررکھ دے گا۔
کیاہم نے کبھی سوچاہے کہ ہم جوگھروں میں بیٹھے ہیبت زدہ ہیں،وہ اپنے آقاؤں سمیت سارے لاؤلشکرکے باوجودہم سے زیادہ خوفزدہ ہے۔اس کی چڑھائی میں شیرجیسی بےجگری نہیں بلکہ لومڑی جیسی عیاری ہے۔ہمیں دیوارسے لگ کرکانپنے کی ضرورت نہیں،پس آج ہمیں اپنی مزاحمتی قوت کو سمجھنےکی ضرورت ہے جس کی بنیاد”ایمان”ہے اوراس قوت کومضبوط کرنے والی قوت”اللہ کی نصرت”ہے۔جب مومن اپناسب کچھ لگادیتاہے تومز احمت میں اللہ کی نصرت نازل ہوکراس کوکامیابی سے ہمکنارکرتی ہے۔ تا ریخ اسلام کے صفحات پرایسی روشن مثالیں ان گنت تعدادمیں جگمگارہی ہیں جب نہتے مسلمانوں کی مزاحمت نے وقت کے فرعونوں کوزخم چاٹنے پرمجبورکردیا۔آج بھی دنیابھرمیں مزاحمتی تحریکیں پوری شان سے جاری جاری ہیں۔پتھرنے ٹینک سے شکست نہیں کھائی،معمولی ہتھیاروں سے جدید ٹیکنا لوجی کامقابلہ جاری ہے۔جتناظلم بڑھتاجارہاہے،اتنی ہی شدت سے مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے ۔
لیکن کیامزاحمت کی صرف ایک ہی صورت ہے؟جب کوئی جابروقت اپنے لشکروں کے زعم میں کسی قوم پرچڑھ دوڑتاہے توہر ہاتھ ہتھیاراٹھالیتاہے۔یہ یقینی امرہے کہ ایسے وقت میں اس کے بغیرمزاحمت کی کوئی اورصورت نہیں ہوتی لیکن اس سے بھی پہلامرحلہ کبھی نہیں بھولناچاہئےاورہمیں یادرکھنا ہو گاکہ مزاحمت”ایمان”اور”کڑے احتساب”کے بغیرکچھ نہیں۔لہنداایساکڑاوقت آ نے سے پہلے”ایمان”کوبچانااورقائم رکھنااشدضروری ہے۔ ایمان کی کمزوری ہی ذہنی غلامی اورپسپائی کی طرف لے جاتی ہے لہنداہراس وارکی مزاحمت ضروری ہے جس کانشانہ آج ایمان بن رہاہے۔ہمارے نظریات وافکار،ہماراطرزِزندگی،ہماری تعلیم،ہما ری معیشت،ہمارامیڈیایہ سب وہ میدان ہائے کارزارہیں جوہماری مزاحمتی قوت کے شدت سے منتظر ہیں۔یہ ڈوب رہے ہیں،ان کو ساحل پرکھینچ لانے کیلئے بھرپورتوانائیوں کی ضرورت ہے۔
ہمارادشمن اس بات سے پوری طرح باخبرہے کہ دنیامیں صرف دوریاستیں نظریات کی بناء پرقائم ہیں،ایک پاکستان اوردوسری ریاست اسرائیل ہے جس کوعین مسلمان ملکوں کے درمیان ایک سازش کے تحت بطورایک خنجرکے گاڑھ دیاگیاہے اورپچھلی سات دہائیوں سے زائدفلسطینیوں،کشمیریوں کاخون مسلسل بہہ رہاہے۔ٹرائیکا(اسرائیل،امریکا،انڈیا)کے ناپاک گٹھ جوڑاورہمارے مسلم حکمرانوں کی اقتدارکی بدبودارہوس نے مسلم امہ کونزع کی حالت میں پہنچادیاہے اوراس کیلئے جب سے ایک متعصب یہودی نژادامریکی ہنری کسینجرنے”ورلڈ آرڈر” تشکیل دیاہے،جس میں بڑی وضاحت کے ساتھ اعلان کیاگیاہے کہ سوویت یونین کے کیمونزم کوشکست دینے کے بعداب اسلام کی باری ہے اورجب تک اسلامی نظریات کی مکمل طورپربیخ کنی نہیں ہوجاتی، “ورلڈآرڈر”کی تکمیل نہیں ہوسکتی اوراس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کاوہ ایٹمی پروگرام ہے جس کو ختم کرناازحد ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ٹرائیکاکی مددکے ساتھ امریکانے اپنے تمام مغربی اتحادیوں کو”صدام کے دنیاکوتباہ کرنے والے ہتھیاروں”جیسا خوف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پھیلارکھاہے جس کیلئے پہلی مرتبہ مغرب سے ویسی حمائت نہ ملنے کی صورت میں ٹرائیکانے اپنے پلان”بی”پرعملدرآمدشروع کررکھاہے۔”عرب بہار”کے نام پرلیبیا،تیونس،عراق،شام اوریمن کوتاراج کرنے کے بعدباقی ماندہ مسلم ممالک کیلئے نظریاتی پروپیگنڈہ کیلئے سب وروز”سوشل میڈیا”کومیدان میں اتاراگیا۔سابقہ امریکی صدرٹرمپ کے یہودی داماد”جیرالڈکشنز”نے سعودی ولی عہد کی دوستی کافائدہ اٹھاتے ہوئے اک نئے”لارنس آف عریبیا”کاکردار اداکرتے ہوئے خطے کے اہم عرب ممالک سے اسرائیل کے جہاں سفارتی تعلقات بحال کرنے میں اپناکرداراداکیابلکہ حالیہ غزہ فلسطین پراسرائیل کی جانب سے جوقیامت خیزمناظرساری دنیاکودیکھنے کوملے،اس انسانیت سوزمظالم پرسارے مغرب اورخود امریکامیں جہاں بے پناہ ردعمل نظرآیا،اس کے مقابلے میں خطے کے عرب ممالک نےریت میں سردیکرجومجرمانہ خاموشی اختیارکی،وہ بھی اقوام عالم کے سا،منے ایک سوالیہ نشان بن کرتاریخ میں رقم ہوچکی ہے لیکن پاکستان جوواحد ایٹمی قوت ہے، اس کوبھی خاموش رکھنے کیلئے دس سال قبل ہی پاکستان کی ایٹمی قوت کوسلب کرنے کیلئے سازشیں شرووع ہوگئی تھیں لیکن ساری دنیاکے دفاعی ماہرین کے سامنے پاکستان کے ایٹمی میزائل کی تیز رفتارترقی اوراس کے آزمائشی ٹیسٹ کے ٹھیک ٹھیک نشانوں نے ان کی شب وروزکی نیندوں کوحرام کررکھاہے جس کی بنیادپرانہوں نے پاکستان کے سیاسی نظام کویرغمال بناتے ہوئے تین منصوبوں پرعملدرآمدشروع کردیا۔
سب سے پہلامنصوبہ یہ بنایاگیاکہ پاکستان کی معاشی حالت کواس قدرلاغرکردیاجائے کہ یہ اپنے حالات سے مجبورہوکردیوالیہ کی حدتک پہنچ جائے اور فوری طورپرعالمی میڈیاکے ذریعے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خطرے کااعلان کرکے پاکستان کو اس طاقت سے محروم کردیاجائے جس کیلئے یہاں ایسے حکمران لائے جائیں،جن سے یہ سودہ آسانی سے طے پا جائے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ایسے حکمران لائے جائیں توبظاہرتوامریکاکے خلاف نظرآتے ہوں لیکن ان کی ڈور مکمل طورپران کے پاس ہو۔اس سلسلے میں اپنے ایک کالم”میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پرکھڑاہوں” میں لکھ چکاہوں کہ “عالم عرب میں مردآہن کہلانے والے جمال عبدالناصرکے بارے میں منظرعام آنے والی برطانوی مصنف جیمزبارکی کتاب’’دی لارڈز آف ڈیزرٹ ‘‘میں انکشاف کیاگیاہے کہ مصرمیں1952ءکافوجی انقلاب امریکاکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اُکسانے اوراس کے عملی تعاون سے برپاہواتھا۔فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن وائس آف عرب کاقیام بھی سی آئی اے کی مددسے ممکن ہوااورلیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نے اپنے ساتھیوں کی ملی بھگت سےشاہ فاروق کاتختہ الٹ دیا۔ کتاب کے مصنف جیمزبارنے اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مصرمیں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکااور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنااپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کشمکش تھا۔برطانیہ مصری بادشاہ شاہ فاروق کی حمایت کر رہاتھاجبکہ سی آئی اے اپنے مجوزہ پروگرام کی تکمیل میں اسے رکاوٹ سمجھتے تھے۔”اوراپنے اسی مضمون میں دلائل کے ساتھ جنرل باجوہ اورعمران کے ہاتھوں”کشمیر فروشی”کاانکشاف بھی کرچکاہوں۔
اس سے اگلاقدم یہ ہوگاکہ جیل یاتراکے بعدعمران کوایک بھرپورحمائت کے ساتھ قوم کالیڈربناکرایک مرتبہ پھرقوم کے سامنے لایاجائے۔اس کے بعد اپنے باقی ماندہ پروگرام کواس طرح عملی جامہ پہنایاجائے کہ پاکستانی قوم کومعلوم ہی نہ ہوسکے کہ ان کے ساتھ”اتنابڑاہاتھ”ہوگیاکہ نہ صرف پاکستان کوایٹمی قوت سے محروم کردیاگیابلکہ خطے میں تنہاکرتے ہوئے چین جیسے دوست سے بھی محروم کردیاگیا۔اس کی ماضی سے ایک مثال سامنے رکھ دیتاہوں جس سے ہم نے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
2014ءمیں”را”کے ایک سابق افسر”آرکے یادیو”نے اپنی کتاب”مشن آراینڈاے ڈبلیو”میں انکشاف کیاہے کہ اندراگاندھی نے1967ء میں آئی بی کے سینیئرافسرآراین کاؤکے ساتھ مل کرایک خفیہ منصوبہ تیارکیاجس کامقصدمشرقی پاکستان،بلوچستان اورصوبہ سرحد(اب خیبرپختونخوا)میں بغاوت کے جذبات کوتقویت دے کران کوعلیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرناتھا۔اس منصوبے کو”کاؤپلان”کانام دیاگیا۔باوثوق شہادتوں کے مطابق شیخ مجیب الرحمن بھارتی خفیہ ایجنسی سے25ہزارروپے ماہانہ وصول کرتا تھا۔حسینہ واجدنے مجیب کی یادداشتوں پرمبنی کتاب میں تسلیم کیاہے کہ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے ایک خفیہ تنظیم قائم کررکھی تھی۔اگرتلہ سازش کیس بے بنیادنہ تھاجوسیاسی مصلحتوں کی نذرہوگیا۔خفیہ ایجنسی رانے گہری سوچ بچار کے بعدچھ نکات تیارکئے جن کا بنیادی مقصدپاکستان کوپانچ ٹکڑوں میں تقسیم کرناتھا۔ادھرہمارے ہاں مغربی پاکستان میں تخمینے لگانے والوں نے ہوش سے کام نہیں لیا۔اندرا گاندھی نے امریکااورچین کو پاکستان کی مددسے بازرکھنے کیلئے روس سے دفاعی معاہدہ کرلیا۔رانے مکتی باہنی تیارکی تاکہ مشرقی پاکستان کے اندرفوج کے خلاف گوریلا جنگ کاآغازکیاجاسکے۔یوں گھرکوگھر کے چراغ سے ہی آگ لگادی گئی۔
کون نہیں جانتاکہ عمران خان کی سیاسی پرورش کیسے ہوئی اورکن ہاتھوں نے اسے تیارکرکے اپنے مقاصدکیلئے میدان میں اتارا ۔2014 کے طویل دھرنے کے وقت ہی تمام حقائق سامنے آناشروع ہوگئے تھے اوراس سلسلے میں باقاعدہ طورپرکئی ہزار افراد کوباقاعدہ تنخواہ پرسوشل میڈیاکیلئے استعمال کی تربیت دی گئی گئی اوریہ کام صرف اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں بھی بڑی رازداری کے ساتھ سرانجام دیاگیا۔پاکستان کے سیاسی تاریخ میں عمران خان بلامبالغہ اسٹبلشمنٹ کاسب سے چہیتا قریبی باخبراوربااعتمادوزیراعظم بن گیا۔جتنی بریفنگ میٹنگزاورمعلومات عمران کوملٹری اسٹبلشمنٹ اورملکی خطرات کے بارے میں ہیں،ممکن نہیں کہ موجودہ سیاستدانوں میں کسی اورکے پاس ہوں کیونکہ عمران کوایک سویلین اورسیاسی لیڈرکی بجائے ایک ملٹری لیڈرکی طرح سسٹم کاحصہ بناکررکھاگیاتھا۔جس کیلئے پہلی بارایک سیاسی لیڈرکیلئے ہرادارے کومجبورکیاگیا تھاکہ وہ ہروہ کام کرے جس سے عمران کی شخصیت پارٹی اورمقاصدکاحصول سہل ترہوجائے۔
کل کی بات ہے کہ پہلی دفعہ اس کی خاطرخودجنرل باجوہ اوراس کے فوجی رفقاکھلم کھلامہینے میں چھ چھ پارمیڈیا کومثبت رپورٹنگ کی ہدایات دیاکرتے تھے اس لئے مجھ جیسے کئی افراد کیلئے عمران خان کے اس انٹرویوکونظراندازکرناممکن نہیں تھا جس میں عمران خان نے سمیع ابراہیم کے ساتھ (فکسڈانٹرویو میں)ملک کے دیوالیہ ہونے،اس سے ہمارے سب سے مضبوط فوج کے ادارے کامتاثر ہونے،اس کے بدلے میں یوکرین کی طرح ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردارہونے اوراس کے نتیجے میں خدانخواستہ ملک کے تین ٹکڑے ہونے کا خدشہ ظاہرکیاتھا۔یقینا عمران اس انٹرویوسے جہاں اپنے بیرونی آقاؤں کی نظرمیں وفاداری کاپیغام دے رہاتھاوہاں مضبوط فوجی ادارے پربھی اپناخوف قائم کرنے کی کوشش کررہا تھالیکن بظاہرجنرل باجوہ اوردیگراہم عسکری عہدیداروں کویہ یقین دلاتارہاکہ وہ دراصل قوم کواپنی فوج کی اہمیت واحترام بڑھانے کیلئے بیان دے رہاہے ۔
آئیے! اب اس تناظرمیں9مئی کے واقعات کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جب آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے میں عمران نے اپنی من مانی اورمداخلت کرتے ہوئے ادارے کی سلامتی کوکئی خطرات سے دوچارکردیااوروہاں سے جنرل باجوہ اوردیگران عسکری رفقاء کوایک شدیدجھٹکالگا اور اس وقت اس خطرے سے جان چھڑانے کیلئے طے پاگیاکہ اپنے ہاتھ کی لگائی ہوئی گرہ کودانت سے کھولنے کاوقت گیاہے۔ ادھرعمران نے بھی جنرل باجوہ اوراس کے ساتھیوں کوبرسرعام جلسوں میں میرجعفراورمیرصادق کےا لقاب سے پکارنا شروع کردیا۔
عمران کوسوشل میڈیاکی جانب سے شہرت کی جن بلندیوں پردکھایاگیا،اس سے خودعمران کویہ غلط فہمی ہوگئی کہ جس طرح ترکی میں عوام نے فوجی بغاوت کوکچل دیا،اب ایسا ہی عمل وہ پاکستان میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے بعداگلے پندرہ سال تک جنرل فیض حمیدکے ساتھ طے کردہ پلان پرعمل کرنابہت ہی آسان ہوجائے گااوراس کیلئے یقیناًبیرونی آقا بھی درپردہ ان کااسی طرح ساتھ دیں گے جس طرح الجزائراور مصرمیں دیاگیا لیکن عمران خان یہ بھول گئے کہ ترکی میں توفوج نے منتخب حکومت کوگرانے کیلئے راست اقدام کیاجس کوعوام نے ناکام بنایالیکن یہاں تو عمران نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ منصوبہ بندی کرتے ہوئے ٩مئی کاپلان تیارکیاکہ اس پرکوئی حرف نہ آئے جس کیلئے وہ جیل چلاگیالیکن اگلے ہی دن جب عدالت میں پیشی ہوئی تومیڈیاکے سامنے سینہ پھلاکربیان داغ دیاکہ مجھے اگرپھرگرفتارکیاجائے گاتواس سے کہیں زیادہ شدیدردَّ عمل آئے گا۔
اگرآپ کویادہوتوپاکستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کانظریہ ریٹائرڈلیفٹیننٹ کرنل پیٹررالف نے امریکی فوج کے میگزین میں 2006 میں اپنے ایک مضمون”بلڈبارڈرز، ہاؤ اے بیٹرمڈل ایسٹ ووڈ لک”مجوزہ نقشے کی صورت میں چھاپاتھا۔اس کاخیال تھا کہ مشرق وسطیٰ کے سرحدات مغربی طاقتوں نے اپنے مفادات کیلئے مقامی لوگوں کے ساتھ ناانصافی کرکے بنائے ہیں،اب انصاف کا تقاضایہ ہے کہ کئی ایک ممالک کے سرحدات نئے سرے سے خونی رشتوں کے بنیادمتعین کیے جانے چاہیے۔تاکہ ممالک کے درمیان موجود ٹینشن اورمخاصمت ختم ہوجائے،جس کے نتیجے میں امریکی فوج مشرق وسطی سے باآسانی نکل سکے گی۔
پیٹررالف کے آرٹیکل اورمجوزہ نقشے(جس کوٹرائیکاکی مکمل پشت پناہی حاصل تھی)کے مطابق مسلم دنیاکے تین اہم امریکی اتحادی ممالک یعنی ترکی سعودی عرب اورپاکستان نئے نقشے کے مطابق بڑی تبدیلیوں سے گزارکرکئی ٹکڑوں میں تقسیم دکھائے گئے ہیں۔ترکی سے بڑاعلاقہ کاٹ کرکردستان کانیاملک تخلیق کیاگیا،سعودی عرب کے تین ٹکڑے کرکے شیعہ ملک، مقدس سرزمین اورسعودی عرب بنائے گئے ہیں،جبکہ پاکستان کودریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے ملک کے طورپردکھایاگیاجس کے جنوبی علاقہ آزاد بلوچستان اورشمالی علاقے افغانستان کودیے گئے ہیں۔
یادرکھیں !جب جسم کا ایک حصہ کمزورپڑجائے تواس پربیماریاں حملہ آورہوجاتی ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور اغیارکی سازشوں اورریاکاریوں کوسمجھنے کیلئے جہاں اپنی سیاست کے معیارقائم کریں،وہاں اپنوں میں موجودایسے عناصرکوسختی سے دبائیں جووطن پرستی کوختم کرنے کاباعث بنتے ہیں۔آج وہ خطرناک مرحلہ آچکا ہے جب نحیف ونزار مریض زندگی کی ڈورسلامت رکھنے کیلئے اس پو شیدہ قوت پرانحصار کرتا ہے جواس کے جسم میں بجلی کی سی طاقت بھردیتی ہے۔گونگے،بہرے اوراندھے بھی اس نازک دورکی شدت سے کچھ کرگزرنے کوتیارہوجائیں توجن کواللہ نے تمام ترتوانائیوں سے نوازرکھاہے ان کواپنی صلاحیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھا نے سے کس نے روک رکھاہے؟
مسلمانان پاکستان نے اگرآج اپنی اس طاقت کے رازکوپالیاجس کانام ایمان ہے اوراس کوپختہ کرلیاتویہ وہ مورچہ ہے جس میں پناہ لینے والوں کیلئے دائمی فتح کی خوشخبریاں ہیں۔ ایمان کی آبیاری وقت کی اولین ضرورت ہے اوروقت سر پرکھڑاہے۔مزاحمت، ایما نی قوت سے مشروط ہے،اس کوکھودیاتوسب کچھ چھن جائے گا۔ارضِ وطن کی سلامتی کیلئے ہراس مجرم کوکیفرکردارتک پہنچاناضروری ہے جنہوں نے اس ملک کے ساتھ ایسابھیانک کھلواڑکیاکہ شہدا تک کونہیں بخشاگیا۔
پیڑاسی احساس سے مرتے جاتے ہیں
سارے پرندے ہجرت کرتے جاتے ہیں