ایک زمانہ تھاجب پاکستان ٹیلی ویژن روزانہ بیروت بلفاسٹ اورویتنا م میں خانہ جنگی کی خبریں نشرکرتاتھااورہم سوچاکرتے تھے کہ ان ملکوں کاکیا حال ہورہاہو گا؟وہاں معاشی سرگرمیاں کس طرح چل رہی ہوں گی۔یہی حال فلسطین کابھی نظرآتاتھالیکن وہاں قبضہ کرنے والے انتہاپسند یہودیوں سے مقابلہ کی وجہ سے بات سمجھ میں آجاتی تھی بلکہ اب غزہ میں جاری ہونے والے ہولناک واقعات سے بھی آنکھیں چرائی جارہی ہیں۔40سال بعدافغانستان میں بھی امن کی ہواؤں نے بسیراجمالیاہے۔ایک عرصہ گزرگیا،بیروت میں ملیشیاں کی لڑائی ختم ہوگئی ہے ۔بلفاسٹ میں امن ہوچکاہے۔ویتنام امن کے بعدنہ صرف اپنی معیشت سدھار چکاہے بلکہ دنیامیں ویتنام کی مصنوعات پھیل رہی ہیں لیکن اب وہی خبریں پاکستان کے حوالے سے پاکستان اورعالمی میڈیاپر سنی جارہی ہیں۔ہر روزاس قسم کی خبریں سامنے آتی ہیں کہ بلوچستان میں اتنے دہشتگردمارے گئے ہیں،قبائلی علاقوں کوخیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کے باوجود سیکورٹی فورسزکے دہشتگردوں کے خلاف آپریشنزجاری ہیں۔ہرروزمحافظوں کے جنازے اس بات کے گواہ ہیں کہ دشمن طاقتیں اپنی سازشوں اورکاروائیوں میں بے مہارہوچکی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا میں اب تک ہونے والی اس قسم کی کارروائیاں بیک وقت پاکستان میں شروع ہوگئی ہیں اوراب رہی سہی کسرانتخابات کے نتائج پر شکوک وشبہات نے نکال دی ہے۔
حقیقت تویہ ہے کہ امریکاافغانستان سے رخصت ہوچکالیکن ہمارے ہاں قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بارودکی آگ اب بھی ہمیں نگل رہی ہے بلکہ اس کے جواب میں اگرکوئی کاروائی ہوتی ہے توپاکستانی حکومت اسے دہشتگردی بلکہ عالمی دہشتگردی قرار دیتی ہے۔اس سارے عمل پرگزشتہ کئی برسوں کے دوران پاکستانی قوم کومتحد کرنے کی کو ششوں کوسبوتاژکیا گیا بلکہ اس سبوتاژکی ذمہ داری بھی پاکستانی حکمرانوں اورحکومت کرنے والے اداروں پرعائد کی گئی چنا نچہ پاکستانی حکومت اورادارے ہردوسرے تیسرے ہفتے ایک نیاشوشاچھوڑدیتے ہیں تاکہ قوم کی توجہ اس جانب مبذول ہی نہ کرائی جاسکے۔کبھی ججوں کامعاملہ تازہ کردیاجاتا ہے کبھی آڈیو،ویڈیوکومیڈیامیں اچھالاجاتاہے اوراپنے مخالفین کی کردارکشی کی تحریک شروع کردی جاتی ہے ۔کبھی آٹاغائب کرکے لوگوں کومسائل میں الجھادیاجاتاہے توکبھی پٹرول اورڈیزل کے نام پرٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ کرکے عوام کومزیدبوجھ تلے دبا دیاجاتاہے۔کبھی گیس کی عدم دستیابی سے عوام کوایک نئے عذاب میں مبتلاکردیاجاتاہے۔انتشار کیلئے اس قسم کے شوشے چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ قوم ایک عجیب قسم کی بے یقینی میں سوشل میڈیاپرچلنے والےپروپیگنڈہ پریقین کرتے ہوئے دشمن کی کامیاب پروپیگنڈے کاشکارہوچکی ہے۔
بیروت بلفاسٹ سری لنکایاویتنام کی خبروں کوتوپاکستانی قوم ان ممالک کی خبریں سمجھتی تھی لیکن پاکستان میں ہونے والی یہ کاروائیاں کس ملک کی خبریں ہیں۔ اب ہرگزرتالمحہ تشویش میں اضافہ کرتاجارہاہے۔ساری قوم کویہ دلاسہ دیاگیاکہ منصفانہ انتخابات کے بعدحق دارکوحکومت سونپ کرملکی ترقی کاایک نیاباب شروع کردیاجائے گالیکن یہاں تومعاملہ ایساالجھتاجارہاہے کہ ڈورکاسراہاتھ میں آہی نہیں رہا۔ہفتہ کی دوپہرکمشنرراولپنڈی لیاقت چٹھہ نے کرکٹ سٹیڈیم میں ہونے والی ایک عام سی پریس کانفرنس کے دوران یہ کہہ کرملک بھرمیں کھلبلی مچادی کہ” میں نے راولپنڈی ڈویژن کے لوگوں کے ساتھ جوغلط کام کیاہے، اس پرمجھے پنڈی کے کچہری چوک میں پھانسی کی سزادینی چاہیے”۔
انتخابات کوگزرے ہفتہ عشرے سے زیادہ ہوگیاہے لیکن ملک میں سیاسی بحران کاسورج ڈھلتانظرنہیں آرہا۔ایک طرف سب ہی جماعتیں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کررہی ہیں تودوسری جانب کسی بھی سیاسی جماعت کوحکومت بنانے کیلئے سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے حتمی اورغیرسرکاری نتائج کے مطابق آزادامیدوار93سیٹیں جیت کرسرفہرست ہیں،مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی75نشستوں پر جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے54،ایم کیوایم پاکستان17،جے یوآئی قومی اسمبلی میں مجموعی طورپرچار،بلوچستان اسمبلی میں11اورخیبرپختونخوااسمبلی میں7 نشستیں اور دیگرجماعتوں کے25 امیدوارکامیاب ہوئے ہیں یعنی کسی کوبھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔اس وقت تمام جماعتیں وفاق میں حکومت بنانے کیلئے سیاسی جوڑتوڑ کیلئے سرگرم توہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پہلی مرتبہ حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ دیکھنے کومل رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنی جماعت کی مجلس عاملہ وصوبائی امرا ونظما کے اجلاس کے بعدگذشتہ روزنہ صرف انتخابی نتائج کو مستردکرتے ہوئے اپوزیشن بنچوں پربیٹھنے کااعلان کیاہیبلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کوبھی اپوزیشن بینچزپربیٹھنے کی دعوت دی ہے۔مولانا فضل الرحمان نے8فروری2024کے انتخابی نتائج کو مجموعی طورپرمسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیارکیاہے کہ الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن رہاہے اوریہ کہ”جے یوآئی سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھوبیٹھی ہے اورجمہوریت اپنامقدمہ ہار رہی ہے۔اگراسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف شفاف ہوئے ہیں توپھراس کامعنی ہے کہ فوج کا9مئی کابیانیہ دفن ہوچکااور عوام نے ان کے غداروں کومینڈیٹ دیاہے”۔انہوں نے یہ اعلان بھی کیاکہ اب لگتاہے کہ فیصلے ایوان کی بجائے میدان میں ہوں گے تاہم مولانافضل الرحمان نے واضح کیاکہ ان کے جیتنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔
یادرہے کہ 8روری کونوازشریف نیخواہش ظاہرکی تھی کہ”جوبھی حکومت بنے سادہ اکثریت سے ہی بنے توبہترہے”مگران کی”خواہش”پوری نہ ہوسکی اور انتخابات کے اگلے ہی روزپاکستان پیپلزپارٹی،جمعیت علمائے اسلام،ایم کیوایم اورآزاداراکین کومخلوط حکومت بنانے کی دعوت دیکراپنے اگلے عزائم کااظہار کر دیالیکن مولانافضل الرحمان نے اپنے برسوں کے شدیدترین بیانئے کے بخئے ادھیڑتے ہوئے پی ٹی آئی کوگلے لگالیاہے۔اگرچہ صوبائی حکومتوں کی بات کی جائے تومسلم لیگ ن پنجاب، پیپلزپارٹی سندھ اورپی ٹی آئی کے آزادارکان خیبرپختونخوامیں حکومت بنانے کیلئے پرعزم ہیں مگرمرکز میں حکومت سازی کے حوالے سے اب تک سیاسی پارٹیوں کے مابین پاور شئیرنگ فارمولہ طے نہیں ہوپایاہے۔الیکشن کے اگلے روز9فروری کونوازشریف کی جانب سے یہ اعلان کیاگیاتھا کہ ان کی جماعت وفاق میں حکومت بنانے کیلئے دیگرجماعتوں سے رابطے کرے گی،جبکہ 16فروری کوچوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پرشہباز شریف اورآصف زرداری سمیت دیگرجماعتوں کی سربراہان کی موجودگی میں وفاق میں مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیاگیاتھاجس پربلاول نے کہاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں ن لیگ کے وزیرِاعظم کے امیدوارکوووٹ دے گی لیکن کابینہ کاحصہ نہیں بنے گی مگرصدارت کیلئے اپنے والدکومضبوط امیدوارکے طورپراعلان کردیاہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے اس دعوت کومسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے کافیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے یہ اعلان کیاگیاتھاکہ وہ مرکزاورپنجاب میں حکومت بنالیں گے جس کیلئے پنجاب اورمرکزمیں وزیرِاعلی اوروزیرِاعظم کے ناموں کیلئے بھی امیدوارنامزدکر دیے تھے مگراب پی ٹی آئی کے رہنمابیرسٹرسیف نے قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعدوفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے فیصلہ کااعلان کردیاہے۔اس تمام ترصورتحال میں سیاسی و صحافتی حلقوں میں ہونے والی چہ میگوئیوں سے یہ تاثرمل رہاہے جیسے سیاسی جماعتیں مرکزمیں حکومت بنانے سے گریزاں ہیں۔
ادھردوسری طرف مسلم لیگ ن کے چندسینیئراراکین اورسعدرفیق کی جانب کایہ اہم بیان کہ”مسلم لیگ ن کوکانٹوں کایہ تاج اپنے سرپرسجانے کا کوئی شوق نہیں،وفاقی حکومت کی تشکیل مسلم لیگ ن کی نہیں بلکہ پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔موجودہ قومی اسمبلی میں کسی کواکثریت حاصل نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاداراکین پہل کریں،پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کرمرکزی حکومت بنالیں،ہم مبارکباد پیش کریں گے”۔اسی طرح ن لیگ کے ایک اوررہنماجاوید لطیف نے بھی یہ کہاہے کہ”خداکرے مسلم لیگ ن یہ فیصلہ کرلے کہ جس کومرکزمیں اکثریت دلائی گئی اسی جماعت کوحکومت بنانے کاموقع دیاجائے،اس سے ملک میں انتشارپیداکرنے کی منصوبہ بندی ناکام ہوسکتی ہے”۔
تاہم ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اس تاثرکی تردیدکی ہے کہ ان کی جماعت وفاق میں حکومت بنانے سے گریزاں ہے۔ہفتہ کولاہورمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کاکہناتھاکہ”مسلم لیگ ن سیاسی جماعتوں اوراپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرایک مشاورتی عمل سے گزررہی ہے جس کیلئے اسلام آباد میں اسحاق ڈارکی رہائش گاہ پردونوں جماعتوں کی کمیٹیوں کے درمیان ملاقاتیں جاری ہیں۔ ہراجلاسکے بعدایک اعلامیہ جاری ہوتاہے اوراس اعلامیے کے علاوہ جتنی بھی خبریں ٹی وی سکرین پرچل رہی ہیں وہ ان کی مکمل طورپرتردید کرتی ہیں ”۔
اس میں دورائے نہیں کہ یہاں انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت تورہتی ہے مگربظاہراس دفعہ سب تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں۔ان کے مطابق اس سارے کھیل میں جے یوآئی اور جماعت اسلامی کوزیادہ نقصان پہنچااوراس وجہ سے غصہ بھی زیادہ ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں پرانی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اس لئے وہ غیرسیاسی رویہ اختیارنہیں کریں گی۔جنوبی ایشامیں مذہبی جماعتوں کاکردارہمیشہ سے ہی زیربحث رہتاہے اورخاص طورپرہمارے خطے میں اس بحث کے بعد عمومی تاثران کی ناکامی کی وجہ ہمارے اداروں پرمغربی ممالک کاوہ دباؤہے جو کسی بھی صورت میں ان کواقتدارمیں دیکھنانہیں چاہتے۔ان کے مطابق ان گروہوں میں ابھی بھی جمہوریت کو کفر،ووٹ ڈالنے کوگناہ اوربین الاقوامی معاہدات تک کودھوکہ سمجھاجاتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ”ان میں کچھ شدت پسنداور کچھ غیرشدت پسند گروہ بھی موجودہیں،جوخلافت وغیرہ کی بات کرتے ہیں”۔
ان کے مطابق ان جماعتوں سے کئی گروپ اور رہنماعلیحدہ ہوئے،جواس پارلیمانی نظام سے متفق نہیں بلکہ داعش اورتحریک طالبان طرزکے گروہوں کالٹریچر ابھی بھی جمہوریت کے خلاف تحریروں پرمبنی ان میں انتہائی مقبول ہے۔مزیدبرآں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعدجے یوآئی کی صفوں میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے کہ ہم تبدیلی پارلیمانی نظام کے ذریعے نہیں لاسکتے اوراب وقت آگیاہے کہ پارلیمانی نظام کوچھوڑکرجدوجہدکرنی چاہیے۔وہ تنظیمیں جو پارلیمانی نظام کاحصہ نہیں،انہوں نے ان انتخابات کے بعداس نظام پریقین رکھنے والوں کابہت مذاق اڑایاہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ جن افرادنے جماعت اسلامی یاجے یوآئی سے علیحدہ ہوکرمسلح جدوجہد کی،وہ بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
اس تمام صورت حال کوسمجھنے کیلئے موجودمنظرنامے اورسیاسی جماعتوں کی ہچکچاہٹ کوسمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ آخر اقتدارکے بھوکے کھلاڑی آج سامنے پڑے ہوئے راتب سے کیوں گریزاں ہیں؟دراصل تمام سیاسی جماعتوں کواس بات کاعلم ہے کہ موجودہ معاشی وسیاسی صورتحال میں وفاقی حکومت میں آکرمشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اورکوئی اس کابوجھ اکیلے اٹھانے کوتیار نہیں ہے۔ملک کی موجودہ سیاسی ومعاشی صورتحال میں یہ بات تمام جماعتوں پرواضح ہے کہ وفاقی حکومت میں آکرسخت اورمشکل فیصلے کرناہوں گے جن میں آئی ایم ایف سے معاہدے کی تکمیل کیلئے پٹرول،گیس، بجلی کی قیمتیں،اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اور خارجہ تعلقات جیسے معاملات شامل ہیں۔اس بھاری پتھرکواٹھانے سے گریزاں سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی انتخابات میں اپنی شکست کی ان وجوہات سے واقف ہیں کہ ان کی شکست میں ان کی حکومتی کارکردگی کابھی بڑاعمل دخل ہے۔
تاہم اب بھی یہ امکان ہے کہ بالآخرمرکزمیں حکومتی ڈھول مسلم لیگ ن کے گلے میں ہی ڈالاجائے گامگراس کی خواہش ہے کہ دیگرتمام جماعتوں کوبھی حصہ بقدرجثہ ضروردیاجائے کیونکہ انہیں پہلے ہی پی ڈی ایم اتحاد میں حکومت کرنے کاخمیازہ بھگتناپڑاہے۔دوسری طرف تمام سیاسی جماعتیں صوبوں میں اس لیے حکومت بناناچاہتی ہیں کیوںکہ صوبوں میں وسائل اور پیسے زیادہ ہیں۔صوبائی وزرا اعلیٰ،وزیراعظم سے زیادہ بااختیاراورطاقتورہیں۔زیادہ ترترقیاتی منصوبے اور فنڈزصوبوں کے پاس ہیں جیساکہ رواں برس این ایف سی کے تحت پنجاب کوتقریبا11سوارب ملیں گے۔
سیاسی جماعتوں کواپنے اندراتنی صلاحتیں پیداکرنی چاہییں کہ وہ وفاق میں حکومت کرسکیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ نواز شریف آج توسب کوحکومت میں شامل کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں لیکن ٩فروری کی تقریر میں انہیں پی ٹی آئی کووفاق میں ساتھ حکومت بنانے کی دعوت دینی چاہیے تھی،وہ سینیئرسیاستدان ہیں انہیں آگے بڑھ کرلیڈکرنااورملک کومشکل حالات سے نکالنا چاہیے لیکن اس وقت معاملہ اس کے بالکل برعکس نظرآرہاہے اورسب سیاسی جماعتیں فی الحال وفاق میں حکومت بنانے سے گریزاں ہیں۔یقیناکچھ وجوہات اور عوامل توبہت واضح ہیں جن میں مہنگائی، خراب معاشی صورتحال،آئی ایم ایف سے معاہدہ، بجلی،گیس وپٹرول کی قیمتیں وغیرہ شامل ہیں۔یہ صورتحال ملک کے پارلیمانی نظام اور جمہوریت کیلئے سودمندنہیں ہے ۔اسی لئے مسلم لیگ ن ہویاپیپلز پارٹی یاپی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاداراکین،سب ہی وفاق میں آکرسخت فیصلوں کی ذمہ داری لینے سے گریزاں ہیں۔تواس کمزورپارلیمانی نظام میں حکومت سازی کامعاملہ کتنی طوالت اختیار کرے گا؟کسی نئے بحران کی نشاندہی کررہاہے۔نگراں حکومت کے وزیراطلاعات نے ایک نئی آئینی تھیوری کاحوالہ دیکرموجودہ اقتدارکی طوالت کااشارہ دے دیاہے گویااس جاری بحران سے نکلنے کیلئے ایک نئے بحران کاسامناکرناہوگا۔
اس کا فوری حل تو یہ ہے کہ حکومت سازی کے عمل سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کوقومی معاملات پراکٹھاہوناہوگا،معاشی معاملات سے متعلق ایک قومی اتفاق رائے کرناہوگا،کسی معاہدے پرپہنچناہوگاجس کے تحت معاشی فیصلوں کی ذمہ داری سب پرعائدہوگی۔جس قسم کی خرابیوں کابیج ڈال دیاگیاہے اب اس کی اصلاح ایک دودن کاکا م نہیں،نقصان پوراکرنے میں برسوں لگیں گے۔مشرف دور کے بعدبھی پاکستان کوایسی صورتحال کاسامناتھامگراس وقت معاشی بحران اتناسنگین نہیں تھا۔جوجماعتیں اس عمل میں شامل نہیں ہوتیں ان کوتمام مسائل کاذمہ دارقراردیاجائے کیونکہ اگران معاملات پربات نہیں ہوتی توپہلے سے ہی کمزورپارلیمانی نظام میں اس حکومت کا وجودبننے سے پہلے ہی خطرے میں ہوگا۔بابااقبال یادآگئے::
اندازبیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شایدکہ اترجائے ترے دل میں مری بات
تقدیرکے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات