میں پچھلے کئی ماہ سے یہ بری طرح محسوس کررہاہوں کہ و اقعی کوئی زورداربد دعاہما رے تعاقب میں ہے کہ نہ پو ری قوم کی دعائیں رنگ لارہی ہیں اور نہ ہی تہجدگزاروں کاگریہ نیم شب کام آرہا ہے۔مایوسی ساون کی ہریالی کی طرح وطن عزیزمیں اپنازوربڑھاتی جارہی ہے۔بے دلی اوربیزاری جسم و خوں میں اس طرح گھل مل گئی ہے کہ زندہ رہنے کی امنگ اورآس ختم ہو تی جارہی ہے۔موجو دہ سیاستدانوں اورمقتدراشرافیہ کی پا لیسیوں کے ردعمل میں بے یقینی کی آکا ش بیل ذہن وفکرکواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اورناامیدی کازہریلاشیش ناگ دن میں کئی مرتبہ آپ کے خوابوں کوڈستاہے۔ دن اوررات جیسے آگ کے الاؤمیں بھسم ہوکررہ گئے ہیں لیکن اس کے باوجودکچھ دوست اب بھی امیدکی قندیل جلائے کسی صلاح الدین ایوبی کاانتظارکررہےہیں۔
امیداندھی ہوتی ہے اوریقین بھی دلیل نہیں مانگتا۔ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گااورانشاءاللہ حالات بھی ٹھیک ہو جا ئیں گے لیکن حالات کی حقیقت سے آنکھیں چرا کرہم اپنے آپ کودھوکاتودے سکتے ہیں لیکن ان خطرات کوٹال نہیں سکتے۔ صرف بارش کی امیدسے دہکتی تمازت بھری دھوپ کی ا ذیت ناکی سے توبچ نہیں سکتے۔اس دوردیس میں بھی و طن کی مٹی نے اس قدراپنے حصارمیں جکڑرکھاہے کہ شب وروزاس کے محتاج ہوکررہ گئے ہیں حالانکہ ہرروزخوابوں کی جواں مرگی کی اطلاع موصول ہوتی ہے۔ہمارےوجودکاایک قیمتی حصہ پاکستان جہاں ہماری آبروکو تحفظ اورسروں کی سلامتی کی ضمانت ملی تھی اب خاک میں ملانے کی تدبیریں ہورہی ہیں(خاکم بد ہن)۔
پاکستان کے ساتھ آزادہونے والاچین دنیاکی معاشی سپرپاوربن چکا،ہم سے الگ ہونے والابنگلہ دیش کہاں کھڑاہے،افغان کرنسی کواپنے روپے کے مقابلے میں دیکھ کرشرم محسوس ہورہی ہے ۔ہماری ناکام خارجہ پالیسی کایہ عالم ہے کہ جس چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اورسمندرسے گہری کادن رات نعرہ الاپتے ہیں،وہاں حالیہ منعقدہ سربراہ کانفرنس کی عالمی میڈیاکو جاری تصویر میں ہمارانگران وزیراعظم سب سے پچھلی قطارکے کونے میں کھڑانظرآتاہے جیسے اسکول کی کلاس میں نالائق بچے کوسزاکے طورہرپچھلی قطارمیں کھڑاہونے کاحکم ملتاتھا۔
نجانے کیوں وہ ندامت بھرادن میرااب بھی تعاقب کررہاہے جب فاسق کمانڈومشرف ہزاروں میل دوربیٹھےقصرسفیدکےفرعون کے ایک ہرکارے کی فون کال پرسرنڈرہوکرسب کچھ ہارکر افغانستان کوتاراج کرنے میں اپنی تمام خدمات پیش کرکے ارضِ وطن کوایک مستقل دہشتگردی میں مبتلاکردیتاہے لیکن گیارہ سال کی سفاکی کے باوجودافغانستان کے مصائب سے جان چھڑانے کیلئے بے چینی کے عالم میں قصرِسفید مذاکرات کیلئے ہمیں استعمال کرکے بالآخررسواکن شکست کے ساتھ رخصت ہوجاتاہے اورہمیں اس ساری جنگ اوربعدازاں افغانستان سے انخلاء کیلئے محفوظ راستہ دینے اورہماری ساری وفاؤں کے صلہ میں ہماری ملکی سلامتی کودرپیش سازشوں کے انبارکاطوق ہمارے گلے ڈال کررخصت ہوجاتاہے۔افغانستان کو تاراج اوربربادکرنے کیلئے تو ہماری سرزمین استعمال کرتاہے لیکن افغانستان میں ہمارے ازلی دشمن انڈیاکو باقاعدہ پاکستان میں دہشتگردی کرنے کیلئے چھتری مہیاکردیتاہے اوراب اس خطے سے رخصت ہونے کے باوجود اپنے مکروہ اعمال کی باگ ڈورانڈیاکے سپردکرکے سازشوں میں مصروف ہے اور ہم اب بھی اس کے گن گارہے ہیں۔
یہ صورت حال آخرکب تک چلے گی،افغان سرحدپرباڑلگانے کے باوجودمزاحمت کارآپ سے سنبھالے جاتے ہیں نہ قصرسفیدکا فرعون آپ کی بات سنتاہے۔امریکاکی پوری کوشش ہے کہ کسی طریقے سے ہمارے حالات اس قدربدترکردیئے جائیں کہ افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ کاآغازہوجائے۔ ٹرائیکا(امریکا،بھارت اوراسرائیل)کے نمک خوارسرخ استقبالی قالین لئے بے چینی سے انتظار کی گھڑیاں گزاررہے ہیں اوراس سلسلے میں نمرودکی آگ میں بیٹھے ایجنٹ بلوچستان کی آگ پرتیل چھڑکنے کاکام جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ہماری مقتدراشرافیہ اپنی سیاسی لیبارٹری میں مختلف تجربات میں مصروف ہے۔پتہ نہیں کیوں ہم اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کیلئے تیارنہیں۔
کیاہم یہ بھول گئے کہ مشرف نے ملک کی دوجماعتوں کے سربراہان کوملک بدرکرکے یہ بیان دیاتھاکہ اب ان کی پاکستان واپسی”اوورمائی ڈیڈباڈی” ہی ممکن ہوگی لیکن کونڈالیزرائس کی فون کال پراپنے اقتدارکوطول دینے کیلئےاپنے نائب جنرل کیانی کے ساتھ بے نظیرسے ڈیل کرنے کیلئے دبئی پہنچ گیا اورملکی عدالتی نظام سے ماورا”این آراو”عطاکرکے خودکوفاتح سمجھ کرداد وصول کرتارہالیکن ملک سے کیاگیاسب سے بڑاظالمانہ مذاق ایسے گلے پڑاکہ مکے دکھانے والارات کے اندھیرے میں ایسافرارہواکہ اس کی”ڈیڈباڈی”ہی ملک میں واپس آئی۔لیکن ملک کے ساتھ ظالمانہ مذاق کرنے والے دھڑلے سے”جمہوریت سب سے بڑا انتقام” کانعرہ لگاکرملکی خزانے پرہاتھ صاف کرتے رہے اوراس کے ساتھ ساتھ”این آراو”کے عوض مضروب ملکی خود داری کوقصر سفیدکے فرعون کے قدموں میں نچھاورکرتے رہے۔
“جمہوریت سب سے بڑاانتقام”کانعرہ لگانے اورعوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہوتے سلطا نی جمہورکے آفتاب وماہتاب کی نما ئندگی کرنے وا لے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے پہلے امریکی دورہ سے قبل اپنے آقا”بش”کوتحفے میں دینے کیلئے صرف ایک دن قبل ملک کے حساس ادارے کی سربراہی رحمان ملک کے سپردکرنے کانوٹفکیشن جاری کردیاتواس کے جوابی ری ایکشن کے طورپرچندگھنٹوں میں یہ آرڈیننس واپس لینا پڑگیالیکن اس پسپائی کابدلہ لینے کیلئےغدارحسین حقانی کوامریکاکا سفیر مقررکرکے وطن عزیزمیں دشمن ایجنٹوں کاراستہ ہموارکرتے ہوئے باقاعدہ ویزوں کے ساتھ ان کوداخلے کی سہولت عطاکر دی جنہوں نے ملک میں دہشتگردی کاطوفان کھڑاکرتے ہوئے خاکم بدہن ملک کے ٹکڑے کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔پہلی مرتبہ سوات جیسی پرامن وادی کولہولہان کردیاگیاجس کے جواب میں پورے سوات کی آبادی کے انخلاءکے بعداس آگ اورخونی طوفان کے دریاکوعبورکرتے ہوئے ایک بھاری قیمت چکانی پڑی اوراس خطرناک سازش سے سے ملک کوبچایاگیاجبکہ امریکا کے دفاعی تجزیہ نگارکھلے عام پاکستان کے کئی ٹکڑوں کی تقسیم کے نقشے شائع کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخوں کابھی اعلان کرچکے تھے۔
اس بدنصیب پاکستانی قوم کی کم نصیبی کاسفرابھی ختم نہیں ہواتھابلکہ”جمہوریت سب سے بڑاانتقام”کےمو سم گل کاانتظارہورہا تھاکہ دکھوں کی ماری اس قوم کاوزیرخارجہ شاہ محمودقریشی پہلی مرتبہ واشنگٹن میں شہزادی کونڈا لیزارائس کے دربار میں شرف باریابی حا صل کرکے باہرنکلاتوپہلاخوشامدی بیان اپنی حاکمیت اعلیٰ کے دفاع کی بجا ئے مذاکرات کوبہت بے تکلفانہ، دیانتدارانہ اورحقیقت پسندا نہ قراردیکراپنی غلامی کی سندحاصل کررہا تھاجبکہ وزیرخارجہ کوشہزادی کونڈا لیزارائس سے ملا قات سے قبل امریکی سرپرستی میں نیٹوافواج کے اس مکروہ حملے کی ا طلاع دی جاچکی تھی جس کااعلان پاکستانی سپاہ کےترجمان میجرجنرل اطہرعباس دنیاکے ذرائع ابلاغ کے سا منے کرچکے تھے کہ امریکی حملہ میں پاکستانی علا قے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پر پاکستان فرنٹیرکور کے کم ازکم7سیکو رٹی اہلکارشہیداور6 شدید زخمی کردیئے ہیں جبکہ نیٹوکی افواج کے پاس غلطی اورلاعلمی کی گنجائش اس لئے نہیں تھی کہ نیٹوکی افواج کواس علا قے میں قائم تمام پاکستانی چوکیوں کے قیام کی نقشوں کے ذریعے پیشگی ا طلاع دی جاچکی تھی۔
اس وقت بھی عام توقع تویہ تھی کہ وزیرخارجہ جو”جمہوریت سب سے بڑاانتقام”کے نعرے سے لیس اورعوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہونے وا لے نئے جمہوری پا کستان کی ترجمانی کرتے ہوئے اس توہین آمیزامریکی روٓیے پربھرپوراحتجاج کریں گے پا کستانی اورغیرملکی ذرائع ا بلاغ کے نما ئندے بڑی شدت سے منتظرتھے کہ وزیرخارجہ کاتعلق ایک عوامی جذبات اور
احسا سات کی علمبردارجماعت سے ہے اس لئے وہ دبنگ لہجے میں صدائے ا حتجاج بلندکریں گے اورامریکی ایوا نوں کومطلع کریں گے کہ اب یہ مشرف کانہیں بلکہ کروڑوں باغیرت پاکستانیوں کی سرزمین ہے جواپنی خودمختاری کی حفاظت کاسلیقہ جانتی ہے ۔قوم اس بیان کی توقع کررہی تھی کہ وزیرخارجہ قریشی اپنی گرجدارآوازمیں یہ بیان دیں گے کہ ہم اس حملے کے بعداس نام نہاد “وارآن ٹیرر”سے نکل کراپناراستہ اپنی آزادانہ مرضی سے چنیں گے لیکن اس45منٹ کی ملا قا ت کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ جب اس نمک کی کان سے باہرتشریف لائے تونمک بن چکے تھے۔
و زیرخارجہ نے شہزادی کونڈالیزارائس کے سا تھ اپنی ملا قات کوجب بہت بے تکلفانہ،دیانتدارانہ اورحقیقت پسندا نہ قراردینے کاجھوٹ بولاتو پاکستانی اورغیرملکی ذرائع ا بلاغ کے نما ئندوں نے پا کستانی علا قے انگوراڈہ کی فو جی چوکی پرحملےکو “غیردوستانہ”اقدام”سے تعبیرکیاتووزیرخارجہ نے فو ری طورپراپنے فدویانہ بیان میں شیرینی کی حلاوت گھو لتے ہو ئے اس کی تصحیح فرمائی کہ اس طرح کے(سخت)ا لفاظ استعمال نہ کریں۔شا ئدوہ پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شہدااورشدیدزخمی ہو نے کے عمل کودوستانہ چھیڑچھاڑ،بے تکلفانہ ہنسی مذاق یامحبوبانہ نازواندازسے تشبیہ دیناچاہتے تھے۔ وزیر خارجہ کے اس منافقانہ عمل کایہ نتیجہ نکلاکہ امریکی درندوں کایہ سلسلہ درازسے درازترہوتاگیااورسلالہ کی چوکی پربے رحمانہ حملے میں انہوں نے ایک بارپھرہمارے 24سپوت کوادھیڑ کررکھ دیا۔
اس خفیہ گٹھ جوڑکے نتیجے میں ممکن تھاکہ امریکیوں کوکوئی بڑاتحفہ بھی مل جاتالیکن میموسکینڈل پرسپریم کورٹ کے بر وقت اقدامات اورایبٹ آباد کمیشن کے2مئی کے اقدامات کی تحقیقات کے دائرکارکووسعت دینے سے یہ محسوس ہوناشروع ہوگیاکہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی غیرمعمولی قدم اٹھانے کی سازش پرعملدرآمدہونے جارہاہے جووطن عزیزکوکسی نئے سانحے کی طرف دھکیل سکتاہے۔عالمی اورمقامی میڈیامیں یہ خبریں منظرعام پرآنے لگیں کہ امریکی طیارہ بردارجہاز”ابراہام لنکن”کو خلیج سے بحیرہ عرب کی طرف بڑھنے کاحکم دے دیاگیاہے۔قصرسفیدکے فرعون بش نے اپنے پالیسی سازادارے میں تقریرکر تے ہوئے صاف صاف اعلان کیاکہ”آ ئندہ اصل چیلنج عراق اورافغانستان کی بجا ئے پاکستان ہوگا”۔تب جاکر قوم کو میموگیٹ سکینڈل کے پیچھے چھپی ہوئی اس سازش کاپتہ چلاکہ کس طرح ان تمام غداران وطن نے اپنی ہی فوج کے خلاف امریکاسے مددمانگی تھی جس کے افشاءہونے پرمیموگیٹ سکینڈل وجودمیں آیالیکن آج تک ان کے ذمہ داران کوکیفرکردار پہنچانے کی بجائے انہی کرداروں نے ملک میں اقتدار کے ایوانوں میں جمہوریت کے نام پرخودکومظلوم ثابت کرنے کی کوششیں کیں بلکہ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی وزیرخارجہ نے ایک مرتبہ پھراپنے اقتدارکودوام بخشنے کیلئے “سائفر”جیساڈرامہ رچایا بلکہ اب اپنے سیاسی سربراہ کے ساتھ اس مقدمے کے انجام کامنتظرہے۔میرے لئے ان کایہ کردار قطعاً حیران کن نہیں بلکہ ان کے آباؤاجدادبھی ماضی میں اپنے انگریزآقاؤں کومسلمان مجاہدین آزادی کی مخبری کرکے انعام میں جاگیریں وصول کرچکے ہیں جن کے موصوف گدی نشیں ہیں۔
ملک میں عام انتخابات کاطبل بج گیاہے اورتمام جماعتیں اقتدارکے حصول کیلئے ایک مرتبہ پھردودھ اورشہدکی نہریں بہانے کا دعویٰ کریں گی لیکن ہم تمام ان آزمودہ سیاستدانوں کے چہروں کوبے نقاب کرنے کاعمل جاری رکھیں گے۔مقتدراشرافیہ کیلئے ضروری ہوگیاہے کہ ملک کواس بیدردی کے ساتھ لوٹنے والوں کاقانونی بے رحمی کے ساتھ منصفانہ احتساب کیاجائے اورجوبے گناہی ثابت کردے تواسے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ اس تاثرکوبھی زائل کیاجائے کہ میاں نوازشریف کوانگریز ڈاکٹروں کی بجائے”حافظ دواخانہ” کی ہومیو پیتھک ادویات سے افاقہ ہواہے۔قومی سلامتی کیلئے قصرسفیدکے فرعون کوٹرائیکاکی درپردہ سازشوں کے متعلق وا ضح پیغام دیا جائے وگرنہ قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ ہماری مقتدر اشرافیہ بھی انہی بتوں کے سامنے سجدہ ریزہوگئے ہیں جہاں اس سے پہلے مشرف اوردیگرسیاستدان اپناسب کچھ قربان کرچکے ہیں۔ نجانے بابا اقبال کیوں یادآگئے:
بدل کے بھیس پھرآتے ہیں ہرزمانے میں
اگرچہ پیرہیں آدم،جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتاہے
ہزارسجدے سے دیتاہے آدمی کونجات